میرے آقا: دوسرا حصہ
’’تو چلو ایک قصہ میں بھی آپ کو سناتی ہوں ۔ آپ کو شایدعلم ہوگا کہ میرے اور شہزادے عالیان کے درمیان پانچ سالوں کا فرق تھا ۔ اس کی دسویں سالگرہ پر امی حضور نے کسی کو بھی بتائے بغیر ایک نجومی کو محل میں طلب کیا تھا ۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ اس نجومی نے کیا کہا تھا؟‘‘
’’کیا؟‘‘ بادشاہ کی اس داستان میں دلچسپی بڑھی۔
’’اس نے کہا تھا کہ میں آپ کے اس بیٹے کو بادشاہ کا تاج پہنتے ہوئے نہیں دیکھتا۔‘‘
اس بات پر اسفند یار زور سے ہنس دیا۔
’’ بالکل صحیح کہا تھا ۔ اگر میں علم نجم کے اتنا خلاف نہ ہوتا تو اس نجومی کو اپنے دربار میں ضرور رکھتا ۔ اگر وہ ایسی بات کرنے کے بعد زندہ ہے تو۔‘‘
’’ وہ زندہ ہی ہے ۔ میرے والد ایک رحم دل انسان تھے ۔ وہ انسانی جان کی قیمت جانتے تھے اور اس کوایسے ضائع کرنا گناہ خیال کرتے تھے ۔ ‘‘اس نے ٹھہر ٹھہر کر اسفند یار کو کچھ جتایا تھا ۔ یہ دیکھے بغیر کہ اس کی بات اسفند یار کے ہونٹوں پر زخمی خم لے آئی تھی ۔ اسفند یار نے اس کی غلط فہمی یا پھر خوش فہمی دور کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
وہ اس کوحقیقت ضرور بتائے گا ۔ مگر اس وقت جب جنت اس کی ساتھی ہوگی، دشمن نہیں۔
’’مگر وہ البتہ امی سے ضرور تین دن تک ناراض رہے تھے کہ انہوں نے خدا کو ناراض کرنے والا کام کیا تھا ۔ میری امی حضور نے پھر بھی اس نجومی کو دوبارہ طلب کیا اور ان سے معلوم کیا کہ شاید ان کا اگلا کوئی بیٹا تخت کا وارث ہوگا تو نجومی نے نفی میں سر ہلا دیا اور کہا کہ ان کی کوئی بھی اولاد نرینہ تخت نشین نہیں ہوگی ، کیونکہ وہ مجھے داستان کی ملکہ بنتے ہوئے دیکھتے ہیں۔‘‘
بات کے آخر میں اس نے مسکرا کر اپنے ہونے والے شوہر کی طرف دیکھا۔
’’یہ سارا واقعہ تقریباً میری آنکھوں کے سامنے ہی واقع ہوا تھا ۔ تب میں یہ بات نہ سمجھی تھی، اب سمجھ گئی ہوں۔‘‘
’’بہت خوب! تو پھر کیا کہتی ہے آپ؟‘‘ اسفند یار کی فتح اس کی آنکھوں تک گئی تھی۔
’’تو پھر میں آپ کی ملکہ بنوں گی میرے آقا!‘‘
٭…٭
نکاح جو خوشیوں کا پیغام لاتا تھا، کبھی کبھار دلوں پر قفل بھی ڈال دیتا تھا۔
مایوسی کا قفل…
بے حسی کا قفل…
یا پھر بے بسی کا قفل…
بہار کی طرح شاید شادیاں بھی اس کے لئے منحوس ہو گئی تھی ۔ وہ اتنی بے حس اور بے بس نہ محسوس کر رہی ہوتی تو شاید خدا سے اپنے دل کا سکون مانگتی ۔ اس شادی میں شاد ہونے کی دعا مانگتی ۔ وہ خدا جو ایک تڑپ پر اپنے بندوں کی طرف دیکھتا ہے، اس کوکیسے نظر انداز کر دیتا ؟ مگر یہ کیسی بے حسی تھی کہ اس کوآسمان پر رہنے والا بادشاہوں کا بادشاہ بھول گیا تھا؟
یا پھر یہ ہٹ دھرمی تھی؟
نکاح ہو چکا تھا ۔ جنت نے اپنے ہاتھوں سے اپنے سارے حقوق اس انسان کے نام کر دیے تھے جس کے دل میں خنجر گھونپنے کا وعدہ اس نے اپنے آپ سے کبھی کیا تھا ۔
غصہ آپ سے بہت کچھ کرواتا ہے، ایسے عہد بھی، جو وقت غلط ثابت کر دیتا ہے ۔ یہ عہد کیا ہوتے ہیں ؟ کبھی کبھی جنت کو یہ تقدیر کے چھوٹے چھوٹے طمانچے لگتے تھے ، جو تقدیر نے ان جیسے سر پھرے انسانوں کو راہ راست پر لانے کے لئے رکھے ہوتے تھے تاکہ اپنی ہی باتوں کا مزہ چکھ کر انسان اپنی اوقات میں رہے ۔
وہ بھی اوقات میں آ رہی تھی۔
نکاح چند اہم لوگوں کی موجودگی میں ہوا تھا ۔ اس نے پھوپھی کو نکاح کے وقت دیکھا تھا، مگر اس کے محسوسات اتنے منجمد ہوگئے تھے کہ اس کو نہیں معلوم تھا کہ ان کی آمد پر کیا ردعمل دیں ۔ نکاح کے بعد ایک طویل جشن کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ اس کی آنکھوں نے بطور شہزادی ایسے بہت سے مناظر دیکھے تھے ۔ اس لیے اس کی آنکھوں نے سامنے کے منظر کو ایسے نظارے کے طور پر دیکھا جس سے اس کا دل اوب گیا ہو ۔
اس نے کئی بار اپنے ہاتھوں پیروں کو برف بنتے ہوئے محسوس کیا۔ مگر وہ اتنے کمزور اعصاب کی مالک نہ تھی کہ بطور ملکہ اپنا اور اپنے سلطان کا تماشہ بنوا لیتی ۔ انہی منجمد اعصاب کے ساتھ اس کو جشن کے بعد اسفند یار کے حجرے میں پہنچا دیا گیا تھا۔
اگلی شام انہوں نے صحرا نگر کی طرف ولیمے کے لیے نکل جانا تھا ۔ اس لئے جشن کو مزید طول نہ دیا گیا تھا ۔ ویسے بھی ان کی شادی کا مقصد گلستانیوں کو یہ جتانا تھا کہ اب وہ لوگ کسی گلستانی حکمران کی تمنا دل سے نکال دے ۔ ان کا آخری مہرہ بھی اب اسفندیار کی بساط پر رانی بن کر بیٹھا تھا۔
حجرے میں آ کر کنیزیں اس کے پہلے سے سجے سنورے روپ کو ایک بار پھر سے سنوارنے لگی تو اس نے آئینے میں اپنے اجنبی سے دکھتے عکس کو دیکھا ۔ اسفند یار کی فرمائش پر اس کے بالوں سے سیاہ رنگ اُتار دیا گیا تھا ۔ اس کے سرخ بال گھنی چوٹی میں بندھے، ہم رنگ کامدار آنچل سے ڈھکے ہوئے تھے ۔ بھوری آنکھوں میں سرمہ بھرا تھا اور ہونٹوں کو لہو کے رنگ میں رنگا ہوا تھا ۔ وہ قیمتی زیورات میں جکڑی ہوئی تھی ۔ وہ قیمتی زیورات جو شان بڑھاتے تھے ۔ ان روایتی زیورات میں اس کا حسن تو دکھ رہا تھا مگر وہ خود کہیں نہیں تھی ۔ جب کنیزیں دوبارہ اس کے بال سنوار کر اس کو آنچل پہنا رہی تھی، تب دروازے کی آہٹ پر اس کا دل دھڑکا ۔
اپنے پیچھے آئینے میں شہزادی گل رخ کا عکس دیکھ کر اس کے دل نے سکون کا سانس لیا۔
جنت کو نہیں معلوم تھا کہ وہ اسفند یار کو اتنی جلدی دیکھنا چاہتی بھی تھی یا نہیں؟
پھوپھی نے کنیزوں کو ہاتھ کے اشارے سے باہر جانے کا اشارہ کیا اور خود سنگھار میز پر رکھا تاج اس کے پیچھے آ کر اس کے سر پر ٹکا دیا ۔ سر پر رکھا تاج جو مقام کو اونچا رکھتا تھا ۔ انہوں نے بھر پور نظر اپنی بھتیجی پر ڈالی ۔ پھولوں کا سا حسن مگر ایسی سوگواری کہ جیسے کوئی خزاں میں بہار کا نوخیز پھول رکھ کر بھول گیا ہو۔
’’میں نے ہی اسفند یار کو تمہارے بارے میں اطلاع دی تھی۔‘‘ جنت یہ بات پہلے سے ہی جانتی تھی۔
’’مجھے اطلاع ملی تھی کہ وہ تمہیں ڈھونڈ رہا ہے ۔ وہ دو لوگوں کے لئے بیک وقت پاگل ہو رہا تھا ، یہ جانے بغیر کے وہ دو لوگ ایک ہی انسان ہیں ۔ یا پھر وہ جانتا تھا بس اس کو ثبوت چاہیے تھا اور یہ ثبوت میں نے اس کو مہیا کر دیے۔‘‘
وہ جانتی تھی کہ محل میں پھوپھی کے بہت سے جاسوس تھے ۔ شہزادی جنت کو کوئی نہیں جانتا تھا ۔ مگر شہزادی گل رخ کا اثرو رسوخ بہت گہرا تھا ۔ وہ خاموشی سے اپنے پیچھے کھڑی پھوپھی کا عکس دیکھتی رہی۔
’’ان ثبوتوں کے بدلے میں ، میں نے تمہاری آزادی مانگی تھی ۔ اس نے آزادی کے بدلے میں اس سے بہتر انتخاب میرے سامنے رکھ دیا۔ مجھے کیا اعتراض ہونا تھا ؟ تمہارا تخت و تاج تمہیں واپس مل جانا تھا۔‘‘
’’یہ تخت و تاج شہزادے عالیان کا تھا ۔ میرا منصب تو آپ کی جگہ لینا تھا ۔ میں یہ سب کچھ نہ چاہتی تھی۔‘‘ اس نے آئینے میں دکھتے پھوپھی کے عکس سے احتجاج کیا۔
’’ کبھی کبھار آپ کا منصب خدا نے پہلے سے ہی طے کرکے رکھا ہوتا ہے ۔ تمہارا منصب بھی داستان کی ملکہ بننا لکھا تھا ۔ تمہیں چاہیے کہ اس منصب پر بیٹھ کر اپنا فرض نبھاؤ۔‘‘
’’اور اسفند یار…؟‘‘ نہ جانے کیوں اب اس کا نام لیتے ہوئے زبان لڑکھڑا رہی تھی۔
’’پیٹھ پر وار ہمیشہ دوست کرتے ہیں ۔ دشمن کی موجودگی میں تو انسان اپنی پیٹھ کی حفاظت کرتا ہے ۔ تم بھی دشمن ظاہر ہو چکی ہو جنت ! اسفند یار تمہیں اپنی پیٹھ پر وار کرنے کا موقع نہیں دے گا اور سامنے سے وار تم کر نہیں سکتی ۔ اس لیے بہتر ہے کہ تابع ہو جاؤ جنت ! تابع ہوجانے میں ہی بھلائی ہے۔‘‘ پھوپھی اس کے سر کا تاج ٹھیک کرکے وہاں سے چلی گئی۔
’’تابع ہو جاؤں؟‘‘ اس نے پھوپھی کے جانے کے بعد اپنے عکس سے سوال کیا۔
٭…٭
اس رات اسفند یار اپنی خواب گاہ میں آیا تو اس نے اپنی نئی ملکہ کو اپنے عکس کو گھورتے ہوئے پایا ۔ ایسے جیسے وہ اس آئینے میں دکھتے خود کے دلہناپے سے بھی ناراض تھی۔ اسفندیار کے عکس کو آئینے میں پا کر وہ اس کی طرف پلٹ آئی تھی ۔ اسفندیار نے اس کو مقابل پاکر اس کے وجود کو بغور دیکھا ۔ آج پہلی بار اس کا حسن بے نقاب تھا ۔ اصل حالت میں تھا، اس کے سامنے تھا اور سب سے بڑھ کر اس کا تھا۔
’’آج گلستانیوں کی روح کے تار جوڑنے والی رسم پر یقین کرنے کو دل کرتا ہے۔‘‘اسفندیار نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔
جنت کو محسوس ہوا کہ اس کے ہاتھ بے حد گرم تھے ، اس کے ٹھنڈے پڑتے ہاتھوں کو حرارت دیتے ہوئے ۔وہ ہمیشہ اس کوسرد سا سمجھتی تھی، زندگی کی حرارت سے محروم … اور یہاں وہ کھڑا تھا، اس کے سامنے، اس کے ہاتھوں کو حرارت دیتا ہوا ۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی خواب گاہ کی کھڑکی کی طرف لے گیا تھا ۔ محل کی کھڑکی سے آسمان بہت قریب دکھتا تھا۔ اور چاند تو ایسے تھا جیسے ہاتھ بڑھا کر چھو لو ۔ شاید اسی لیے محل میں رہنے والے لوگ اتنے اونچے ہوتے تھے ۔ چاند کی روشنی مدھم پڑی اور آسمان پر آتش فشاں پھٹ پڑا ۔ ہر طرف رنگ برنگے آگ کے پھول بکھر گئے ۔ دل میں جمی ذرا سی ذرا برف پگھلنے لگی تھی۔
یہ آسمان پر ہوتی آتش بازی تھی یا پھر کسی کے گرم ہاتھ؟
نجانے کیوں اس آتش سے جتنے بھی برے تعلقات ہو، مگر وہ اس سے نفرت نہ کر سکی تھی‘ یا اس کی محبت اس کی سوچ سے زیادہ گہری تھی ۔ اس کا سر اونچا کرنے کی وجہ سے جنت کا تاج ذرا سا کھسکا تو اس نے اسے اتار کر چوکھٹ پر رکھ دیا ۔ آنچل جو اس کے تاج کے وزن سے سر پر ٹکا تھا، پھسل کر اس کے قدموں میں گر گیا ۔ وہ جو اپنا آنچل اٹھانے کے لیے پلٹنے لگی تھی ، اسفند یار کے ہاتھ اپنے بالوں میں محسوس کرکے وہی پر رک گئی ۔ سرخ بالوں کے لچھے چوٹی سے نکل کر اس کی پیٹھ پر بھنور بنا رہے تھے ۔ یہ انہی بالوں کی شرارت تھی کہ اسفند یار نے اس کو نقاب کے باوجود پہچان لیا تھا۔
’’آپ کو کسی نے بتایا ہے کہ آپ بہت خوبصورت ہو جنت!‘‘ اس کی سانسیں اس کی گردن سے ٹکرائی تو جنت کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔
پھوپھی کی آواز اس کے کانوں میں گونجی تو وہ اسفند یار کی طرف پلٹی ۔ اس کی سرمہ بھری آنکھیں نم ہو رہی تھی مگر چہرے پر ہار مان دینے والی مسکراہٹ تھی ۔ اپنے آپ کو سونپنا آسان نہ تھا۔ تابع ہونا اس سے کہیں گنا مشکل…
صرف محبت کی نہیں، نفرت کی بھی اپنی مجبوریاں ہوتی ہے۔
اس کے ہاتھ اسفند یار کے چہرے کی طرف بڑھے ، جہاں پر تھوڑی کے پاس خنجر کا نشان تھا ۔ اس نشان کے ساتھ اس کی انگلیاں بھی اس کی گردن تک پہنچی ۔ یہاں پر جا کر اس کا ہاتھ ڈھیلا پڑ کر اس کے کندھے پر ٹھہر گیا ۔ دشمن کی شہ رگ اس کے ہاتھ میں تھی، مگر اسی دشمن کو اس کے جسم اور روح کا مالک بنا دیا گیا تھا ۔ جنت نے آنکھیں اٹھا کر دیکھا تو اس کی آنکھوں میں اپنا عکس آتش بازی کی طرح چمکا۔
’’نہیں، یہ کہنے کا حق صرف آپ کو ہے میرے آقا…‘‘
تابع ہو جانے کا اس کو حکم تھا، سو تابع وہ ہو گئی تھی۔
تیسرا اور آخری حصہ پڑھنے کے لیے کلک کریں 👇🏻