میرے آقا: دوسرا حصہ
’’حضور آپ کو کوئی غلط فہم…‘‘ جنت کا جملہ سامنے کے منظر نے کاٹ دیا۔
کنزیں طعام ہٹا کر وہاں پر کچھ چیزیں رکھ رہی تھیں ۔ اس کے لکھے گئے مطبوعات جن پر شاہی مہر لگی ہوئی تھی، بالوں کو رنگنے والے کیمیا جات ، اس کی تربیت ختم ہونے پر اس کوتحفے میں دیے جانے والی زمرد جڑی کنگھی، چند تصاویر…
اس کا سامان تلاش کیا گیا تھا ۔ یہ وہ سامان نہیں تھا جو وہ اپنے ساتھ محل لے کر آئی تھی ۔ وہ اتنی بیوقوف نہیں تھی کہ اپنے خلاف ثبوت لے کر محل میں آتی ۔ اس کا یہ سامان آشیان میں تھا ۔ پھوپھی کی اجازت کے بغیر اسفند یار یہ سامان یہاں کیسے لے آیا؟
پھوپھی…اس کے دماغ میں جھماکہ ہوا۔
اسفند یار کی آواز دماغ میں گونجی تو جیسے ادراک کے پردے چھٹنے لگے ۔
دھوکہ…دھوکہ… دل و دماغ ایک ساتھ کرلائے تھے۔
پھوپھی نے اس کو بساط پر لگایا تھا ۔ اس کے ہاتھ خود بہ خود خنجر کی طرف گئے اور اپنی طرف بڑھتے ہوئے اسفند یار کی طرف بڑھے ۔ خنجر ہلکا سا اس کے گال کو چھوتے ہوئے گزر گیا ۔ اسفند یار نے تیزی سے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اس کی پشت پر باندھے اور خنجر اس کے ہاتھوں سے آزاد کیا۔
’’آپ کو کیا لگتا ہے کہ جس انسان نے چار ریاستوں کو فتح کیا ہو آپ اس کو ایک خنجر سے شکست دے سکتی ہے؟‘‘
وہ اس کے ہونٹوں کا خم بغیر اس کی طرف دیکھے بھی محسوس کر سکتی تھی ۔ پھوپھی نے اس کے ساتھ ٹھیک نہیں کیا تھا۔ ان دونوں کی تدبیر کے مطابق انہوں نے اسفندیار پر نظر رکھنی تھی، محل میں رہ کر لوگوں کو اپنی طرف شامل کرنا تھا، اسفند یار کی کمزوری ڈھونڈنی تھی اور اس کو تخت سے ہٹانا تھا ۔ سب کچھ صحیح جا رہا تھا۔ محل میں کتنے ہی لوگ ان کے لیے کام کر رہے تھے ۔ انہوں نے اب اس پر نقب لگانی تھی، جس نے ان پر لگائی تھی۔
’’شہزادی کو ان کے حجرے میں پورے احترام کے ساتھ پہنچا دیا جائے اور خیال رہے کہ ان کے پاس اب کوئی ہتھیار نہ ہو ۔ شہزادیوں کو ہتھیاروں سے نہیں کھیلنا چاہیے۔‘‘ اسفند یار کا لہجہ فاتحانہ تھا۔
اگر کسی کی آنکھوں کے شعلے کسی کو جلا کر راکھ کر سکتے تو وہ کب کا بھسم ہو چکا ہوتا ۔ شہزادی نے بے بسی بھرے غصے کی ایک آخری نگاہ اپنے ملک کے حکمران پر ڈالی اور کنیزوں کی معیت میں وہاں سے چلی گئی ۔ وہ شکست کھا چکی تھی ۔ وہ تسلیم کریں یا نہیں، حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا تھا ۔ جب اپنے دھوکہ کرنے لگے تو شکست تسلیم کرنی ہی پڑتی تھی ۔ یہ بات اس دن جنت کو معلوم ہوئی تھی۔
اسفندیار نے ایک نظر اپنے ادھورے طعام پر ڈالی اور اپنی جگہ پر جا کر اپنے لیے خود ہی شربت کا پیالہ بھرا ۔ دوسرے بادشاہوں کی بہ نسبت اس نے کبھی بھی شربت ممنوع اپنے لیے جائز نہیں کیا تھا ۔ شاید اسی چیز کے انعام کے طور پر اب اس کے لیے ایک انسان ممنوع نہ رہا تھا۔
٭…٭
اپنے حجرے میں آ کر سب سے پہلے اس نے اپنے حجرے کی تلاشی لی تھی ۔ کنیزیں اس کے سر پر کھڑی تھی اور پہرے دار اس کے دروازے پر، لیکن اس کو کسی چیز کی پرواہ نہ تھی ۔ وہ غصے سے پاگل ہوئی جا رہی تھی ۔ سب کچھ چھان پھٹک کر اس کو اندازہ ہوا کہ اس کے کمرے کی تلاش بے سود تھی ۔ وہ بے وقوف نہ تھی کہ اپنے کمرے میں کچھ بھی اپنے خلاف چھپاتی ۔ اس کے کمرے میں سوائے اپنی حفاظت کے چند ہتھیاروں کے علاوہ کچھ بھی قابل اعتراض نہ تھا ۔ قلم، کاغذ، مختلف جڑی بوٹیاں، ادویات، آلات، اس کے اپنے استعمال کی چیزیں…
مختلف جگہوں سے ہتھیار غائب تھے اور باقی سب کچھ ویسا کا ویسا اپنی جگہ پر دوبارہ رکھ دیا گیا تھا، جیسے کبھی ہلایا گیا ہی نہ ہو ۔ اس نے اپنی سر پر کھڑی کنیزوں کی پرواہ کیے بغیر سب کچھ باہر نکال کر پھینک دیا اور پھر تھک کر زمین پر بیٹھ گئی ۔ آخر اسی کے ساتھ ایسا کیوں ہوا تھا؟
بت بنی کنیزوں میں جنبش ہوئی اور وہ آہستہ آہستہ اس کا بکھرا ہوا سامان سمیٹنے لگی۔ بالا کی بالا وہ اس نئی دریافت ہونے والی شہزادی پر بھی نظر ڈال لیتی ۔ دونوں کنیزوں میں سے وہ ایک کو بھی پہچانتی نہ تھی۔ وہ دونوں چہرے مہرے سے گلستانی لگتی بھی نہ تھیں ۔ اسفند یار نے پورا انتظام کر رکھا تھا ۔ نجانے کتنے لمحے، گھنٹے، یا پھر دن ایسے ہی گزر گئے ۔ وہ بے حس و حرکت وقت کی گھڑی کو دیکھتی رہی۔
وہ انتظار کی اذیت سے نہیں گزرنا چاہتی تھی مگر گزر رہی تھی ۔ پہلے دن دل میں طوفان بھرا تھا تو یہ دل سب کچھ تباہ کر دینا چاہتا تھا۔ وہ دل … جو اپنے غم میں منطق کو بھول جاتا تھا ۔ پھر غصہ شانت ہوا، آنسو خشک ہوئے تو دل بھی جیسے تھک کر خاموش ہو گیا۔
اس کے لیے تینوں وقت کا کھانا لایا گیا جس کو اس نے چھوا تک نہیں تھا۔
پھر نجانے دن تھا یا رات تھی، جب اس کی آنکھ لگ گئی تھی ۔ وہ کتنی دیر سوئی ۔ وہ نہیں جانتی تھی ۔ دروازے پر کھٹکھٹاہٹ سے اس کی آنکھیں کھلی تھیں ۔ اس کی حسیات فوراً بیدار ہوئی ۔ اس کے کمرے سے کنیزیں غائب تھیں اور ان کی جگہ جو شخص کھڑا تھا اس کا وہ غیر ارادی طور پر اس زندان میں انتظار کر رہی تھی ۔ وہ نہ بادشاہ کے احترام میں اٹھی اور نہ ہی اس نے چہرہ اٹھایا، اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے اس نے پوچھا۔
’’تو پھر بتائیے کہ کیا فیصلہ کیا گیا ہے میرے حق میں؟‘‘ اس کی آواز جیسے کنویں سے آئی تھی۔
’’یہی کہ شاہ داستان نے شہزادی کو معاف کر دیا ہے۔‘‘ الفاظ اس منصف کے ہونٹوں پر مسکرائے تھے۔
’’کس چیز کی معافی؟‘‘ وہ غرائی۔
اب کی بار وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور تیزی سے اس کی طرف بڑھی ۔بادشاہ وقت نے اس کے اپنی طرف بڑھتے ہوئے اس کے خونخوار پنجے روک لیے تھے۔
’’دھوکہ دہی کی معافی … اتنے عرصے سے اپنی پہچان چھپانے پر معافی۔‘‘ بادشاہ کا لہجہ اطمینان بخش تھا۔
’’کونسا دھوکہ ؟ وہ جو رات کے وقت جشن کے عین موقع پر نقب لگا کر دیا جاتا ہے؟‘‘بادشاہ کے ہاتھوں میں اس کے ہاتھ کسمسائے تھے۔
’’ بس…‘‘ سیاہ آنکھوں میں شعلے اٹھے تھے۔
’’میں نے آپ کی بہت گستاخیاں برداشت کی ۔ اب اور نہیں شہزادی۔‘‘
’’تو پھر کیا کریں گے میرے ساتھ ؟ بلکہ آپ نے بتایا نہیں میرے حق میں کیا فیصلہ کیا ؟ ابدی نیند سلانا ہے یا مال غنیمت کے طور پر اپنی ملکیت بنانا ہے ؟ ‘‘ آخری جملے پر نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے لب کانپے تھے۔
موت سے بدتر تھی غلامی…
اسفند یار کے لبوں پر دھیمی سی فاتحانہ مسکراہٹ آئی اور آنکھوں کے شعلے مدھم پڑ گئے ۔ جیسے کوئی لطیف سی بات یاد آ گئی ہو۔
’’ملکیت تو بنانا ہے مگر مال غنیمت کے طور پر نہیں۔‘‘ اس نے قریب آکر اس کے کانوں میں سرگوشی کی ۔ جنت کا دل دھڑکا۔ ان نرم الفاظ میں کچھ تھا جو بری خبر تھی۔
’’کک…کیا مطلب۔‘‘ الفاظ اس کے حلق میں اٹکے۔
’’مطلب آپ کا حق اور آپ کا تخت حق مہر کے طور پر آپ کو دیا جائے گا۔‘‘
وہ پیچھے ہو کر ہاتھ باندھ کر اس کے رد عمل کو دلچسپ نظارے کے طور پر دیکھنے لگا۔
اب کی بار نہ ہی وہ اس کی طرف بڑھی اور نہ ہی اس کا گریبان پکڑا ۔ صرف نگاہیں اٹھائیں ۔ وہ نگاہیں جس میں آگ برف بن کر چمک رہی تھی۔
’’تم ایک کٹھور دل انسان ہو اسفندیار۔‘‘
’’آپ کو معلوم ہے جنت! صحرا کی سخت ہوائیں اور اس کے ریتیلیں ہاتھ مشقت مانگتے ہیں اور ہر مشقت کرنے والا انسان کٹھور ہوتا ہے۔ اندر سے بھی اور باہر سے بھی…‘‘
یہ کہہ کر وہ صحراؤں کا کٹھور باسی ہکا بکا سی شہزادی کو اس کے زندان میں چھوڑ کر چلا گیا تھا۔
٭…٭
اس کو ایک کنیز کی معیت میں محل میں پھرنے کی اجازت دے دی گئی تھی ۔ جس کا اس نے فائدہ اٹھانے کی زحمت نہیں کی تھی ۔ یہ محل اس کا تھا ۔ اس کا سارا بچپن ان راہ داریوں میں کھیلتے ہوئے گزرا تھا ۔ اس کو کسی اور کے سہارے کی ضرورت نہ تھی ۔ یہ بات اس کا دل جلا دیتی تھی کہ یہاں رہنے والے غلام اور کنیزیں اس سے زیادہ آزاد تھے ؟ کس نے ان کو اس کے گھر میں اس طرح آزاد گھومنے کی اجازت دی تھی؟
تقریباً ہفتہ گزر چکا تھا، اور مصلحت تھی کہ بار بار کان میں سرگوشیاں کر رہی تھی ۔ سمجھا رہی تھی، بجھا رہی تھی ۔ ٹھنڈا کر کے کھانے کا مشورہ دے رہی تھی ۔ گرم دماغ ہو یا جوش سے بھرا دل، سب کچھ بگاڑ دیتا تھا ۔ کچھ کچھ اس کی سمجھ میں آ گیا تھا، کچھ اس کووقت نے سکھا دینا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ آج وہ بادشاہ وقت کے ساتھ کھانا کھانے نکلی تھی۔
پہلی خبر اس نے یہ سنی تھی کہ اسفند یار نے پورے ملک میں سمادی کروادی تھی کہ گلستان کی شہزادی جنت نور سے بادشاہ اسفند یار اورنگزیب نکاح کرنے والے ہیں، جو کہ داستان کے ہر خطے کے لیے امن کا پیغام ہوگا۔
یہ خبر اس کے لئے ابال کا بہانہ ضرور لائی تھی، مگر مصلحت اس کوصبر سکھا رہی تھی ۔ شہزادی جنت نور نے پچھلے پانچ سال اور کچھ سیکھا ہو یا نہ ہو، صبر ضرور سیکھ لیا تھا ۔ جو بچ گیا تھا، اس کووہ وقت سکھا رہا تھا۔
وہ اسفند یار کے حجرے میں گئی تو وہاں معمول سے ہٹ کر شمعیں کچھ زیادہ ہی روشن تھیں اور پورے حجرے میں فسوں کا عالم سا تھا۔ اس نے ان دل جلاتی شمعوں سے نگاہیں چرائی ۔ وہ اجازت لے کر اسی جگہ بیٹھ گئی، جو بطور شاہی طبیب اس کے لئے مختص تھی۔
اسفند یار اس وقت سادہ کرتے شلوار میں تھا ۔ اس نے پہلی بار اسفند یار کا اتنا سادہ روپ دیکھا تھا ۔ یا تو وہ کسی بادشاہ کے روپ میں ہوتا تھا، یا کسی جنگجو کے ۔سوائے دو ملاقاتوں کے، جس میں ایک میں اس نے اس کا غرور چھینا تھا اور ایک میں اس کے پاؤں پازیبوں سے آزاد کرنے کے باوجود زنجیر کر لئے تھے ۔ اور اب تو جیسے وہ پوری کی پوری زنجیروں میں تھیں۔
اسفند یار نے اپنے حجرے میں داخل ہوتی شہزادی کو دیکھا، جس کو وہ اپنی ملکہ بنانا چاہتا تھا ۔وہ ایک ایسی خواہش بن گئی تھی، جس کے تقریباً سب ہی مخالف تھے۔
’’یہ لڑکی آپ کے لیے خطرہ بن سکتی ہے حضور!‘‘ اس کے بچپن کے دوست محمود نے اس کوکہا تھا۔
’’سیانے کہتے ہیں محمود کہ اپنے دوستوں کو اپنے قریب رکھو اور دشمنوں کو قریب تر … میں بھی وہی کرنے لگا ہوں۔‘‘ اس نے اس وقت محمود کو تو جواب دے دیا تھا ، مگر اب جنت کو اپنے سامنے دیکھ کر سوچ میں پڑ گیا تھا۔
اُس نے آج تک جو بھی کیا، اپنے آپ کو اس میں حق بجانب سمجھ کر کیا ۔اب بھی وہ اپنی ملکہ چننے کا اختیار رکھتا تھا ۔ جو لڑکی جو اس عہدے کے لئے چنی گئی تھی، وہ اس سے خفا تھی ۔ اس نے جنت کواس سے فاصلے پر اپنی نشست پر بیٹھے دیکھا ۔ وہ جنت کی طرف پلٹا نہیں تھا ، اپنے کاغذ پر وہ لفظ گھسیٹتا رہا، جو اس کی دل کی آواز تھی۔ وہ دل جو ہڈیوں کے پنجرے میں سب سے چھپا ، سب سے خفا تھا۔
’’جنت ، آپ کا پسندیدہ عنصر کونسا ہے؟‘‘ اس نے اپنی میز سے ہی بیٹھے بیٹھے پوچھا۔
وہ معالج تھی، عناصر اس کی مٹھی میں تھے۔ کچھ تو ہوگا اس کا جو پسندیدہ ہوگا۔
’’کبھی غور نہیں کیا۔‘‘
’’آپ کو علم ہے کہ میرا عنصر کون سا ہے؟‘‘ اس نے قلم ایک طرف رکھ کر دوات بند کی۔
’’معلوم تو نہیں، مگر اندازہ لگا سکتی ہوں۔‘‘
’’اچھا، وہ کیا؟‘‘
’’آگ!‘‘ اس کے جواب پر وہ مسکرا کر اس کی طرف پلٹا۔
’’بہت خوب ! ‘‘ اس نے دونوں ہاتھ تالی کے سے انداز میں بجائے۔
’’بہت کم لوگ ہے جو اس طرح میرے بارے میں اندازے لگاتے ہیں جنت صاحبہ! اور ان میں سے چند ہی لوگ ہیں جو صحیح اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ تو بہت خوب شہزادی جنت نور! آپ ان چند خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں۔‘‘
شہزادی کو خوش نصیبی نہیں چاہیے تھی، اپنی آزادی چاہیے تھی ۔ بادشاہ جانتا تھا، مگر پھر بھی نجانے کیوں سنگ دل بنا بیٹھا تھا ۔ دل کی خواہشیں ایسے ہی دل کو سنگ کر دیتی تھیں ۔ دل جو دیکھنا نہیں چاہتا کہ سامنے والا انسان کیا چاہتا تھا۔ اگر دیکھ لیں تو اپنی من مانی کے پردے آنکھوں پر ڈال دیتا تھا ۔ پھر انسان وہی دیکھتا تھا جو دل دکھانا چاہتا تھا۔
اپنے نفس سے جیتنے والا شاہ اب اپنے دل سے ہارنے لگا تھا ۔ وہ جنت کے پاس والے مخملی گدے پر بیٹھا اور اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔
مگر جنت نے اپنا ہاتھ آگے نہ کیا ۔ اس حرکت پر جنت نے دیکھا کہ ُاس کی آنکھوں میں شمع کی سی لو جلی تھی۔
’’کیسا لگے گا کہ میرے سپاہی گلستان کے کونے کونے میں تیل ڈال آئے ۔میرے ایک اشارے کی دیر ہے جنت، وہ ساری آگ میرے تابع ہے۔ اور گلستان میں تو بہت ہریالی ہے، اس آگ کی خوراک بننے کے لئے۔‘‘ اس نے چٹکی بجا کر انگلی سے اشارہ کیا اور بات جاری رکھی ۔
’’کیا خیال ہے؟ پرانی فصل جلا کر ہی نئی فصل لگائی جاتی ہے ۔ اور گلستانیوں کو تو ویسے بھی اپنی آگ سے بے حد محبت ہے۔‘‘
اسفند یار نے پہلی بار اس کی آنکھوں میں خوف دیکھا تھا ۔ ایسا خوف، جس کی وجہ سے اسفند یار کا اپنا دل کسی نے مٹھی میں لے لیا تھا ۔ اس کواس وقت جنت کی آنکھوں کا خوف اچھا نہیں لگا۔ مگر وہ کیا کرتا، اس کو دل جیتنا تو سکھایا ہی نہیں گیا تھا ۔ اس کو تو حکمرانی سکھائی گئی تھی۔
’’تو پھر کیا خیال ہے؟‘‘ اس کا ہاتھ ابھی بھی وہی پر تھا۔
جنت نے اپنا کانپتا ہوا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا ۔ جنت کونفرت تھی اپنے اندر کے ڈر سے، وہ ایک اور بار اپنے ملک کو جلتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی تھی ۔ اسفند یار نے اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیا اور کھڑا ہو کر اس کواپنے ساتھ کھانے کے دسترخوان پر لے گیا۔
ملازم کھانا لگا چکے تھے۔
وہ حسب معمول سامنے رکھے کھانے میں زہر کی تشخیص کرنے لگی ۔ یہ کیسی نفرت تھی جو زہر کو اس تک نہیں پہنچنے دے رہی تھی ۔ یا پھر یہ عادت تھی ۔ اسفند یار نے اس کا عمل دیکھا، مگر اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
’’دیکھو جنت! آپ بھی داستانی ہو ، میں بھی داستانی ہوں۔ ہم دونوں فاتح حاتم کی اولادیں ہیں ۔ ہم دونوں کے اندر شاہی خون ہیں ۔ یہ اپنے اور میرے لئے مزید مشکل نہ بناؤ۔‘‘
وہ کہنا چاہتا تھا کہ اس دل کو آزاد چھوڑ دو ۔ کبھی کبھار انسان کو اپنے دل کو آزاد چھوڑ دینا چاہیے ۔ آپ کی ساری ضدیں ، ساری پریشانیاں اسی لئے تھیں کہ آپ نے اپنے دل سے ضد لگائی تھی ۔ اس پر لگامیں لگانے کی کوشش کی تھی ۔ اب وقت تھا کہ ساری لگامیں کھول دی جائے ۔
مگر دنیا اسفند یار کو قابض حکمران کے طور پر جانتی تھی اور نجانے کیوں وہ بھی اب لوگوں کی آنکھوں میں اس پہچان کو دیکھنے کا عادی ہو گیا تھا ۔
کچھ عادتیں انسان کی مجبوری بن جاتی تھیں ، یہ عادت اسفند یار کی مجبوری تھی کہ لوگ اس سے ڈریں…
اس نے اس کا ہاتھ کھانے کی میز سے ہٹا کر اپنے ہاتھ میں لے لیا اور میز سے خنجر اٹھا کر اس کے دل اور زندگی کی لکیر کے درمیان ہلکا سا کٹ لگایا کہ خون رواں ہو جائے۔ یہی حرکت اس نے اپنے سیدھے ہاتھ کے ساتھ کی اور دونوں کی ہتھیلی ایک دوسرے کے ساتھ ملا دی، جو کہ اس بات کی علامت تھی کہ ان دونوں انسانوں کی زندگی اور قسمت ایک ہو گئی تھیں۔
بھلے جنت نور نے اپنی آدھی سے زیادہ زندگی آشیان میں گزاری تھی، مگر اس کی تربیت ایک شہزادی کی حیثیت سے ہوئی تھی ۔ اس نے تاریخ پڑھی تھی، وہ جانتی تھی کہ داستان کے شاہی خاندان میں شاہی افراد کے خاندان کی منگنی کی رسم ایسے ہی ادا کی جاتی تھیں ۔ گلستان کے الگ ہونے پر اس کے دادا نے یہ رسم جہالت کی نشانی قرار دے کر ختم کر دی تھی ۔ وہ جانتے تھے کہ خون کی قیمت کیا ہوتی تھی ۔ اور دوسرا یہ بھی تھا کہ ان کو پسند نہیں تھا کہ دو انسان جو ابھی محرم نہیں تھے، ان کی منگنی اس انداز میں کی جائے ۔ اس کی بات پر جنت کی نگاہیں جیسے کسی نقطے پر مرکوز ہو گئی تھی۔
بہت پہلے اس نے ایک قصہ سنا تھا، جو اس کی یادداشت میں کہیں گم ہو گیا تھا، مگر اس کواب وہ قصہ پوری جزئیات کے ساتھ یاد آیا تھا۔
’’فاتح حاتم آپ کو معلوم ہے کہ کون تھے؟‘‘
’’یہ کیسا سوال ہے؟ وہ ہمارے پر دادا تھے۔ اس ملک کے پہلے حاکم۔‘‘ وہ جنت کے ساتھ ایسے بولا جیسے کسی بچے سے بات کر رہا ہو، مگر اس بچے کی اگلی بات سننے میں اس کودلچسپی بھی پوری ہو۔
’’وہ ایک ساتویں شہزادے تھے ۔ وہ تخت کے وارث نہ تھے ۔ اس لئے اپنے والد بادشاہ التمش دوم کے قریب آنے کے لئے داستان گو بن گئے تھے ۔ مگر آہستہ آہستہ ان کی داستانیں ان کا عشق بن گئی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ جب انہوں نے یہ ملک فتح کیا تو اس کا نام داستان رکھ دیا۔‘‘
اسفند نے اثبات میں سر ہلا کر اس کوبات جاری رکھنے کا اشارہ کیا۔
کنیزیں اب ان کے آگے کھانا چن رہی تھیں۔