میرے آقا: دوسرا حصہ
اس نے نوجوانوں کے ہنستے چہرے دیکھ کر منہ دوسری طرف پھیرا ۔یا پھر یہ نوجوانوں کے دل تھے جو جشن منانے کا بہانہ چاہتے تھے ۔ کیونکہ آگ کے آلاؤ کے علاوہ ہر جگہ رونق ماند تھی ۔ یہ صرف چھ سال پہلے ہونے والے جشن بہار کی پرچھائی تھی۔
’’کیا آپ کو یہاں پر آپ کا ہم ذات مل سکتا ہے؟‘‘ یہ آواز اس کے عقب سے آئی تھی۔
’’یہ جشن تو نوجوانوں کے دل لگانے کا شغل میلہ ہے ۔ ہم ذات نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔‘‘ اس نے بغیر پلٹے جواب دیا۔
وہ جانتی تھی اس کے پاس کون آیا تھا ۔ وہ کب سے اس کی آہٹیں پہچاننے لگ گئی تھی؟ اس کواپنی یہ نئی صلاحیت اچھی نہیں لگی۔
’’تو پھر دو لوگوں کے دلوں اور ارواح کے جوڑنے کو کیا کہتے ہیں؟‘‘
’’اپنے آپ کو دیے جانے والا فریب۔‘‘
’’یہ مکھوٹے جو ہم سب نے پہنے ہوئے ہیں یہ بھی تو فریب کی علامت ہے۔‘‘صداکار ‘ اب ہاتھ باندھے سامنے آگیا تھا ۔
اس بار اس کا لباس اور نقاب رات کے آسمان کے نیلے رنگ کا سا تھا ۔ اگر آگ کی روشنی ان دونوں تک نہیں پہنچ رہی ہوتی تو وہ سیاہ لگتا ۔
’’اگر میں آپ کو اپنے ساتھ آتش بازی دیکھنے کی دعوت دوں تو۔‘‘ چھ سال پہلے کا اجنبی نوجوان اب بھرپور مرد بن کر اس کے سامنے آ چکا تھا۔
’’تو میں کہوں گی کہ اس پہاڑی کی چوٹی اس کام کے لیے مناسب رہے گی۔‘‘
وہ اس کوآزمانا چاہتی تھی؟ یا وہ اس کوآزمانے آیا تھا؟
’’چلتے ہیں پھر مہربان۔‘‘ اجنبی نے سر کو ذرا کا ذرا خم کیا۔
مہربان کی تیکھی نگاہوں نے اس کو دیکھااور اس کو آگے چلنے دیا ۔ اس بار اس کو راستہ معلوم تھا، جنت جانتی تھی ۔ پانچ سال پہلے ہونے والے حملے کی وجہ سے اس پہاڑی کی سیڑھیاں بھی متاثر ہوئی تھیں ۔ جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی راہ داری اوپر چڑھنے میں مشکلات کا سامنا پیش کر رہی تھی ۔ اجنبی بار بار اس کی طرف پلٹتا اور اپنا ہاتھ اس کے لیے پیش کرتا ۔ مگر وہ اجنبی کوئی بادشاہ تھا جو جنت پر اس کا حکم لازم ہوتا ؟ وہ اپنی مرضی پر خود مختار تھی ۔ خود مختار اس پہاڑی کی چوٹی پر پہنچتے پہنچتے ذرا سا ہانپی تھی اور ذرا سا کانپی تھی ۔ یہ پہاڑی گواہ تھی کہ کیسے چھ سال پہلے اس کی چوٹی پر ایک اجنبی صحرا کے باشندے نے گلستان کو فتح کرنے کا صادق دعویٰ کیا تھا۔
’’میں نے سنا ہے کہ گلستان کی آتش بازی ہر نگاہ کو مسحور کر لیتی ہے۔‘‘
’’میں نے دیکھا ہے کہ صحرا کی طرف سے آنے والی آگ ہر نگاہ کو بھسم کر دیتی ہے۔‘‘جنت کی بات پر اجنبی کی تاریک آنکھوں میں شعلے بھڑکے تھے ۔
پھوپھی نے کہا تھا کہ لفظوں کی قیمت ادا کرنی پڑتی تھی ۔ پھوپھی یہ نہیں جانتی تھی کہ جب کوئی کنگال ہوجائے تو جرم کرنے سے نہیں ڈرتا ۔ کیونکہ خریدنے کے لیے اس کے پاس قیمت جو نہیں ہوتی ۔ یہاں وہ اجنبی کسی داستان کا شاہ نہ تھا ۔ وہ اس کے لیے کام کرنے والی طبیبہ نہ تھی ۔ آج رات جنت کی زبان آزاد تھی۔ کیونکہ وہ اجنبی بھی نہیں چاہتا تھا کہ اس کا نقاب میں چھپا بھرم اس سرمئی مکھوٹے والی لڑکی کے سامنے کھلے۔
’’جو نگاہیں شعور سے اندھی ہو جائے ان کو وقت بھی بھسم کر دیتا ہے ۔ ‘‘ اجنبی کی آنکھوں کے شعلے جنت کی نگاہوں تک بھی پہنچے تھے ۔
اور پھوپھی کا الزام تھا کہ یہ آگ اس کی خود کی لگائی ہوئی تھی؟
’’پھر اچھا ہے کہ میری نگاہیں وقت پر کھل گئی ہیں ۔ ‘‘ اس نے چوٹی پر قدم رکھ کر اس اجنبی کو اطلاع دی۔
اجنبی نے مڑ کر اس سیاہ لباس میں ملبوس جلتے انگارے کو دیکھا ۔ وہ شاید وہاں کسی اچھی بات کی امید لے کر آیا تھا ۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ جن دلوں پر نقب لگی ہو، وہاں پھول بوٹے نہیں کھلتے ۔ وہ خزاں کے مسافر پھر بہار سے ناراض ہی رہتے تھے ۔اجنبی بھی خاردار راستوں کا مسافر تھا، اس کو تندی سہنے کی عادت تھی ۔
آتش بازی شروع ہو گئی تھی ۔ اجنبی جگہ جگہ زرد سی، کمزور سی، بے رونق سی اگی گھاس پر جگہ بنا کر بیٹھ گیا ۔ ان کے درمیان چھ قدموں کا فاصلہ تھا ۔ جنت نے پانچ قدم طے کیے…
چھن چھن چھن…
فضا میں جھنکار گونجی ۔اور ایک قدم کا فاصلہ رہنے دیا ۔ اجنبی نے چونک کر جنت کے قدموں کو دیکھا ۔ جشن میں پازیب کی جھنکار سنائی نہیں دی تھی ۔ اب یہ پہاڑی گنجان ہو گئی تھی ۔ اس کی خاموشی میں پازیبوں کی چھنکار اجنبی کے کانوں میں واضح گونجی تھی ۔ اجنبی کے ہونٹوں پر ناپسندیدہ خم نمایاں ہوا مگر اس نے اپنے الفاظ ضائع نہیں کیے۔
جنت نے پاؤں پھیلا کر اپنی کہنیاں اپنے گھٹنوں پر رکھی اور ہاتھوں کا پیالہ بنا کر اس میں اپنی تھوڑی رکھ کر آسمان پر جلتے پھولوں کو دیکھنے لگی۔
آتش بازی ہمیشہ اس کا دل دھڑکاتی تھی ۔ اتنے سالوں بعد بھی آگ کے رنگ برنگے پھول اس کے دل کو لمحوں میں اتھل پتھل کر رہے تھے، نگاہوں کو مسحور کر رہے تھے ۔ کتنے خاموش لمحوں نے ان دونوں کو آتش بازی کے سحر میں ڈوبے ہوئے دیکھا۔
آتش بازی ختم ہوئی تو تھوڑی دیر آسمان پر اندھیرا چھایا رہا ۔ آتش بازی کی عادی آنکھیں آسمان کے ستاروں کو فوراً دیکھ نہیں پائی تھیں ۔ پھر کچھ دیر میں ستاروں کی تمتماہٹ ان کی بینائی سے ٹکرائی تو جنت نے اس اجنبی سے اجازت چاہی ۔ ان کا مطلوبہ وقت ختم ہو چکا تھا ۔ اجنبی نے اجازت دینے کے ساتھ ہی ایک شرط بھی رکھی۔
’’یہ صحرا کا باسی گلستان کی بیٹی سے کچھ مانگنا چاہتا ہے۔‘‘اجنبی کا نہ سر خم تھا اور نہ نگاہوں میں عاجزی تھی۔
فقیر کا انداز انوکھا تھا ۔ جیسے کوئی حق ملکیت مانگ رہا ہو ۔ بات اس کے گلستانی ہونے پر تھی اس لیے شرط منظور کرلی گئی ۔ اس کے پاس ایسا کیا تھا جس کی اس اجنبی کو ضرورت تھی؟
’’آپ کی پازیبیں۔‘‘ اجنبی نے اس کے قدموں کی طرف اشارہ کیا۔
جنت نے اپنے قدموں کی جانب دیکھا، جہاں چاندی کی پازیبیں اس کے سیاہ لباس پر چمک رہی تھیں۔
’’بھلا آپ نے پازیبوں کا کیا کرنا ہے؟‘‘ جنت نے حیرت سے پوچھا۔
اس کے سوال کا جواب اجنبی کی زبان کے بجائے نگاہوں نے دیا ۔ جنت نے اجنبی کی نگاہوں سے نگاہیں نگاہیں چرائی اور چپ چاپ پازیبیں اتارنے لگی تو کسی کے ہاتھوں کا لمس پاکر وہی رک گئی۔ جنت نے بے اختیار اپنے ہاتھ پیچھے کیے ۔ اجنبی نے بائیں پازیب کی کڑی کھول کر گھاس پر رکھی، پھر دائیں پازیب کو اس کے قدموں سے جدا کیا۔
ہلکے سے احتجاج کے بعد پازیبیں خاموش تھیں۔
’’پازیبوں کا سنگھار اپنے ہم سفر کے لیے کیا جائے تو آپ جیسی اچھی لڑکی کو زیب دیتا ہے ۔ شاہ داستان نہیں چاہتا کہ ان پازیبوں کی جھنکار آپ کی طرف کسی بھی نگاہ کو متوجہ کرے۔‘‘
جنت کے اندر کوئی کرلایا تھا کہ وہ کون ہوتا تھا اس پر اس طرح کا اختیار جتانے والا ؟ کچھ رات کی خاموشی اور کچھ اس کی قربت نے جنت کو برف کی طرح جما دیا تھا۔
اجنبی نے نگاہیں اٹھائیں ۔ان نگاہوں میں تپش تھی،اس کی قربت آتش تھی ۔جنت برف کے بت سے پگھل کر فوراً پیچھے ہوئی۔ اس نے تیزی سے اپنے جوتے پہنے اور سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی ۔ اجنبی کی گہری نگاہوں نے اس کا نظروں سے اوجھل ہونے تک پیچھا کیا ۔ اس بار شہزادی کے قدم زنجیروں سے آزاد تھے ۔ وہ زنجیریں جو وہ اس اجنبی کے قدموں میں چھوڑ آئی تھی۔
اس رات کی تاریکی میں گھاس پر پڑی ہوئی چاندی چمکی تھی۔
٭…٭
کتنے ہی دن ایک جیسے دنوں کو گزارتے ہوئے گزرے تھے ۔ اس رات کو وہ دونوں فراموش نہیں کر سکے تھے، مگر ایک دوسرے کے سامنے ذکر بھی نہیں کر سکتے تھے ۔ اس لیے خاموشی سے دونوں اپنے روز مرہ کے فرائض نبھا رہے تھے ۔ اسفند یار کو دربار نے مصروف رکھا تھا تو جنت کو عالم کے علاج نے۔ مگر انہی دنوں شاہ داستان سے کسی نے ملاقات کی تھی ۔ وہ ملاقات جو آنے والے دنوں میں ان دونوں کی تقدیر بدلنے والی تھی ۔
وہ ساون کے عام سے دن تھے۔ گلستان میں ساون برستا تھا اور خوب برستا تھا ۔ کئی بار ان برساتوں کی وجہ سے روزمرہ کے کام بھی رک جاتے تھے ۔اس دن بھی بادل آسمان پر گھیرا کیے ہوئے تھے، جو کسی بھی وقت برس پڑتے ۔ اس دن اسفندیار کا ظہرانہ اس کے حجرے میں تھا ۔ دربار شاید کسی طوفان کے پیش نظر موقوف کردیا گیا تھا ۔ وہ طوفان جو جنت کی دنیا کی ساخت کو بدلنے والا تھا ۔ اس کے مستقبل کی امید میں جلائے چراغ کسی اور سمت اجالا کرنے والے تھے ۔ کنیزیں دسترخوان پر کھانا چن رہی تھیں جب وہ اجازت لے کر اندر داخل ہوئی ۔ بادشاہ کی گدی کے بجائے آج وہ قالین پر پاؤں پسارے بیٹھا ہوا تھا ۔ کمر میں کوئی خم نہ تھا اور گردن اٹھی ہوئی تھی ۔ نچلی میز پر اس کا قد اور اونچا لگ رہا تھا ۔ وہ ایسا نوجوان نکلا تھا، جس پر مائیں نظر بد دور کرنے کی دعائیں پڑھ پڑھ کر پھونکتی ہو، اور بیویاں اپنی ہی نظر لگ جانے کے ڈر سے جی بھر کر دیکھتی بھی نہ ہو ۔
کیا اسفند یار کی ماں ایسی ہی عورت ہوگی؟ اور اس کی زوجہ؟ وہ کیسی ہوگی؟
اس نے اپنی نشست پر بیٹھ کر اپنے دماغ کو ڈپٹ کر سارے خیالات سے آزاد کیا اور کچھ دیر کے لیے مراقبے میں چلی گئی ۔ اس سے باتیں کرتی ہوئی غذا اور اس میں شامل سارے اجزا، ہر چیز زہر سے پاک تھی۔
اس نے مراقبے سے آنکھیں کھولیں تو اس کی نگاہیں گہری سیاہ آنکھوں سے ٹکرائی۔
’’کھانا زہر سے پاک ہے بادشاہ حضور۔‘‘ وہ اس کی آنکھوں سے ڈر کر بولی۔
اسفند یار نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔ ایک کنیز وہی کھڑی رہی تھی، باقیوں کو اس نے فارغ کر دیا تھا ۔ اس نے حسب روایت ایک ایک کھانے کو اچھے طریقے سے پرکھا اور سونگھا تھا ۔ جب چکھنے کے لیے اپنی تھال میں نکالنا چاہا تو اسفند یار کی آواز نے اس کے ہاتھ زنجیر کیے۔
’’ٹھہرے جنت صاحبہ ، آج آپ ہماری مہمان بنیے۔‘‘
اس نے کنیز کو اشارہ کیا تو وہ اس کو بھی کھانا پروسنے لگی ۔ بادشاہ کی مہمان نوازی سے انکار ممکن نہیں تھا، اس لیے بولی۔
’’جی ضرور! مگر کیا میں اس اچانک مہمان نوازی کی وجہ جان سکتی ہوں؟‘‘ اس نے سامنے رکھے ہوئے طعام کو دیکھ کر پوچھا۔
’’بس تنہا کھانا کھانے سے دل اوب گیا ہے۔‘‘ وہ ہلکا سا مسکرایا تھا۔
’’آپ تنہا کہاں ہوتے ہیں؟ لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے آپ کے ارد گرد۔‘‘ وہ طنز نہیں کررہی تھی، بس حقیقت بتا رہی تھی۔
’’آپ تاریخ نہیں پڑھتی جنت صاحبہ ! تخت پر بیٹھنے والے ہمیشہ تنہا ہوتے ہیں ۔‘‘اس نے کنیز کے ہاتھ سے سادہ پانی پکڑا اور پیالہ لبوں سے لگایا۔
کسی چیز کے ادراک نے جنت کا چہرہ روشن کیا۔
’’اس لیے آپ نے شہزادہ عالم کو زندہ رکھا۔‘‘
اس کی بات پر شاہ کا چہرہ پھیکا پڑ گیا۔
’’میں اور میری اوقات کیا جنت صاحبہ کہ میں کسی کو زندہ رکھوں ؟ کسی کو زندہ رکھنے اور مارنے کا اختیار تو صرف ایک اللہ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ اس کے الفاظ میں عاجزی تھی، لہجے میں نہیں۔
’’یہ بات تو آپ جنگ کرتے ہوئے بھول گئے تھے۔‘‘ جنت کی بات پر اسفند یار نے ایک قہقہہ لگایا۔
اس کی مردانہ ہنسی کی گونج پورے حجرے میں گھومنے سے پہلے جنت تک پہنچی تھی۔
’’ایک بات تو بتائیے جنت صاحبہ! کیا آپ کو ڈر نہیں لگتا؟‘‘ اس نے پانی کا دوسرا گھونٹ بھرا اور اس کی طرف دیکھے بغیر پوچھا۔
’’کس چیز کا ڈر؟‘‘ جنت سچ میں نہیں سمجھی۔
’’بادشاہ سے گستاخی کا ڈر۔‘‘ وہ تیسرا گھونٹ پی کر پیالہ رکھ چکا تھا۔
جنت نے نظریں جھکائی اور پھر اٹھائی۔
’’کیا سچ بولنا گستاخی ہے؟‘‘
اس کی سیاہ آنکھوں سے جنت نے بے اختیار نظریں چرائی۔ یہ نظروں کا کھیل ان کے درمیان کب سے اتنا عام ہو گیا تھا ۔ وہ چراتی تھی اور وہ ہٹاتا ہی نہ تھا ۔ اسفند یار کی آنکھوں میں جنت کے لیے کچھ تو تھا، جو اس پہلی ملاقات کے بعد بدل گیا تھا ۔ پہلی ملاقات میں ان کے درمیان ناپسندیدگی تھی ۔ اور اب…؟
کوئی جواب نہ پا کر وہ چپ چاپ کھانا کھانے لگی تو اس کو محسوس ہوا کہ بادشاہ کی نظریں ابھی بھی اسی پر تھی۔
’’مجھے نہیں معلوم تھا کہ آشیان میں کھانے کے آداب بھی سکھائے جاتے ہیں۔‘‘ شاہ داستان نے خاموشی توڑی۔
’’آشیان میں صرف جڑی بوٹیوں کو پہچاننے کے علاوہ بھی بہت کچھ سکھایا جاتا ہے شاہ داستان!‘‘ جنت نے سوال پلٹایا۔
’’جیسے کہ شاہی آداب ۔‘‘ اسفندیار کے جواب سے جنت کے حلق میں نوالہ اٹکا۔
’’شاہی آداب صرف حرم میں سکھائے جاتے ہیں۔‘‘اس نے بمشکل نوالہ نگل کر جواب دیا۔
’’آپ کو معلوم ہے میری کوئی بہن نہیں ہے ۔ اس لیے میں حرم سے شروع سے دور ہی رہا ۔ وہاں کے آداب کا مجھے علم نہیں مگر داستان کی فتح کے بعد ایک بڑی دلچسپ بات میرے علم میں آئی کہ داستان کے سارے خطوں کے شاہی آداب ایک جیسے ہیں۔‘‘
جنت نے نوالہ آہستہ سے چباتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔ اس کے دماغ میں جھکڑ چل رہے تھے۔
’’ایک اور دلچسپ بات حال ہی میں میرے علم میں آئی ہے۔‘‘
جنت نے اپنی نگاہ اپنی تھال پر مرکوز رکھی، حالانکہ وہ جانتی تھی کہ اس دوران چند لقموں کے بعد اسفند یار نے اپنا کھانا چھوڑ دیا تھا ۔
’’جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا تھا کہ ہمارے خاندان میں کوئی شہزادی نہیں تھی ۔ اس لیے اس چیز پر کبھی غور نہیں کیا کہ شاہی آداب میں یہ بھی شامل ہے کہ شہزادیاں کبھی بھی بادشاہوں کو جھک کر سلام نہیں کرتی ، چاہے شہزادی سے بادشاہ کا جو بھی رشتہ ہو، اس کو وہ دوسری عوام کی طرح جھک کر سلام نہیں کرتی ۔ سر کے اشارے سے سلام کرتی ہے۔ اور آپ بھی کبھی میرے سامنے نہیں جھکی شہزادی جنت نور۔‘‘ شہزادی جنت نور کے ہاتھ رک چکے تھے۔