مکمل ناول

میرے آقا: دوسرا حصہ

شجر ممنوع…
بڑا میٹھا، بڑا لذت بھرا تصور ہوتا ہے ۔اس شجر کے پھل کا جو ممنوع ہو جائے ۔زمین پر زندگی سے پہلے ہی انسان کی فطرت میں یہ گوندھ دیا گیا تھا کہ ہر ممنوع چیز کی طرف اس کے لیے بڑی کشش رکھی گئی ہیں ۔ اولاد آدم کی سرشت میں ہے کہ وہ شجر ممنوع کی طرف بڑھے گا ۔ اس کو دیکھے گا، یا پھر اس کو سوچے گا ۔کچھ نہیں تو اس کو اپنے تصور میں بھر لے گا۔
اولاد آدم میں سے کچھ ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے ان ممنوعات کو اپنے لیے ممنوع نہ رہنے دیا ۔ بات صرف اختیار کی ہوتی ہے، کچھ لوگوں نے نفس پر اختیار پایا اور کچھ لوگوں نے جگ پر۔ کچھ نے نفس کو اپنا دوست بنایا اور اصولوں کو اپنے تابع کیا ۔ ان لوگوں کو خدا نے جگ کا شاہ بنا دیا ۔ اختیار دے کر ان کو آزمایا گیا ۔ اسفند یار کی زندگی انہی بااختیار لوگوں کے درمیان گزری تھی ۔ اس نے ان لوگوں کو طاقت کے نشے میں بھٹکتے ہوئے بھی دیکھا تھا ۔ کچھ کو نفس پر بااختیار ہوتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔
یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنے نفس کو کبھی بے اختیار ہونے کی اجازت نہیں دی تھی ۔ وہ وہی کرتا، جس میں وہ اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتا ۔ مگر اب اس کا نفس ایک شجر ممنوع کے لیے بے اختیار ہو رہا تھا ۔ ایسا پھل، جس کی جستجو اس کو دیوانہ کر رہی تھی ۔ یہ دیوانے پن کا عروج تھا یا آغاز وہ نہیں جانتا تھا۔ اور کبھی کبھار نہ جاننا انسان کو مزید پاگل بنا دیتا ہے جبکہ ایک شاہ کو دیوانہ ہونا جچتا نہیں تھا۔
وہ لڑکی جو سادہ سے چولے میں اپنے بالوں کو حجاب میں رکھتی تھی ۔ بنا کسی سنگھار کے جس کی سرخ و سفید رنگت میں گلستان کے گلاب کھلتے تھے ۔ وہ گلاب جو اکثر شاہ داستان کو بھلا دیتے تھے کہ وہ وہ فاتح تھا، جس کی تلوار اور ہاتھ پر لہو تھا۔
اگر بہار کی پہلی شام کی رسم سچ کہتی تھی تو اس کی روح کا ٹکڑا اس رات اس کو ملا نہیں تھا بلکہ کہیں بچھڑ گیا تھا ۔وہ جنت کو دیکھتا اور اس کے حجاب میں چھپے بالوں میں سرخی ڈھونڈتا رہتا ۔ وہ چپ چاپ آتی، کھانے میں زہر کی تشخیص کرتی ۔ اس کا طعام ختم ہونے تک وہیں رہتی، پھر چلی جاتی ۔ اس نے کبھی اسفندیار کے دسترخوان کو حسرت سے نہیں دیکھا، ضرورت سے زیادہ نہ چکھا تھا۔
جنت کی ذات سے اس کے لیے سے ناپسندیدگی چھلکتی تھی، ایسی ناپسندیدگی جو صرف مسلط کیے ہوئے حکمران کے لیے نہ تھی ۔ بلکہ اس کے پیچھے کوئی اور وجہ بھی تھی ۔ مگر کیا…؟
کچھ سوالات کے جواب اس کی چھٹی حس اس کو دیتی تھی ۔ مگر بنا کسی شواہد کے وہ کسی بات پر یقین نہیں کرتا تھا۔
’’شہزادی کا کچھ علم ہوا؟‘‘ اس نے اپنے دست راس محمود سے پوچھا ۔
عبدالمطلب کے بعد وہی تھا جو اس کے ہر راز سے واقف تھا ۔ بلکہ اب یہ ایک ایسا راز تھا جس کی اس نے عبدالمطلب کو بھی بھنک نہیں لگنے دی تھی ۔ محمود نے نفی میں سر ہلایا۔
’’کسی کو بھی نہیں معلوم کہ شہزادی کہاں ہے ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ تربیت کے لیے محل سے نوعمری میں ہی چلی گئی تھی ۔ کس چیز کی تربیت ؟ یا تو یہ لوگ نہیں جانتے یا پھر منہ نہیں کھول رہے ہیں۔‘‘ محمود کا جواب حسب توقع شاہ داستان کو پریشان کر گیا تھا۔
دوسری طرف اس کی چھٹی حس اس کو کسی اور طرف اشارہ کر رہی تھی۔
’’مگر آشیان سے ایسی خبر ملی ہے جو شاید حضور کے کسی کام کی ہو۔‘‘ محمود کا اگلا جملہ اس کو اندر تک شانت کر گیا تھا۔
سارے خدشات سارے شکوک دور ہو گئے تھے۔
٭…٭
وہ بڑا سرمئی سا دن تھا۔
آسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے، جو کسی بھی وقت چھلک سکتے تھے ۔ ظہرانے کے وقت بھی مغرب کا سا سماں لگتا تھا ۔ ایسا موسم اکثر داستان کے باشندوں کو ان لہو سے بھرے جنگ کے دنوں کی یاد دلا دیتا تھا ۔ اپنوں سے بچھڑنے والے کھڑکیاں بند کر کے چراغ جلا لیتے اور خاموشی کا چولا پہن لیتے تھے ۔
ایسا ہی خاموشی کا چولہ شاہی طبیبہ جنت نور نے بھی پہنا ہوا تھا ۔ شہزادہ عالم نے کھلی کھڑکی سے آتی ترش ہوا کو اور اس کے کانپتے ہاتھوں کو دیکھا ۔
’’جب داستان میں طوفان آیا تھا تو آپ نے کس کو کھویا تھا جنت صاحبہ؟‘‘
جنت نے چونک کر اپنے بیمار کو دیکھا۔
اس کی بیماری کی تشخیص ہو گئی تھی ۔ صحرا نگر کی خوراک اور اس کی راتوں کی سرد ہوائیں اس کے مزاج کے مواقف نہ تھی ۔ صحرا میں خوراک کی قلت کی وجہ سے وہاں کے بادشاہ نے خوراک زیادہ عرصے تک ذخیرہ کرنے کے کئی طریقے دریافت کر لیے تھے ۔ جن میں سے کئی صحت کے لیے مضر تھے ۔ عالم کا معدہ حساس تھا اور اس کی قوت مدافیت نہ ہونے کے برابر … یہی وجہ تھی کہ ذرا سا موسم یا خوراک میں تبدیلی اس کو بیمار کر دیتی تھی ۔
گلستان میں آکر اس کی طبیعت اسی لیے زیادہ بگڑ گئی تھی ۔ اس لیے اب آہستہ آہستہ وہ اس کی خوراک میں تبدیلی کر رہی تھی تاکہ اس کا معدہ اس نئی خوراک کو قبول کرسکے ۔ اور اس کی قوت مدافیت بھی بڑھ سکے ۔ یہ ایک وقت طلب علاج تھا۔
کبھی کبھار اس کو حیرت ہوتی کیا صحرا نگر میں اتنی خوراک کی قلت تھی کہ شاہی خاندان کو بھی اعلیٰ اور تازہ خوراک میسر نہیں تھی ؟ عالم کی بات پر جنت کے چہرے پر کسی یاد کا پنچھی سایہ فگن ہوا۔
’’ضروری نہیں کہ انسان کسی طوفان میں کسی اپنے کو کھوئے تو دل اداس ہو ۔ جب ملک کی تاریخ خون اور آگ سے لکھی گئی ہو تو ہر دل اداس ہو جاتا ہے ۔ مجھے وہ رات یاد ہے ۔ ہر طرف آگ ہی آگ تھی ۔ اس رات مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ ہم لڑکیوں کو آشیان میں صرف مرہم لگانا نہیں بلکہ خنجر چلانا بھی سکھانا چاہیے ۔ ‘‘ اس نے زور کی مٹھی اپنے دامن میں چھپائے خنجر کے گرد بھینچی۔
’’یہی وجہ ہے کہ آپ اب ہتھیار ہمیشہ ساتھ رکھتی ہے۔‘‘ عالم نے اپنے سامنے رکھے پھلوں کے رس میں کسی نادیدہ شے کو تلاش کرتے ہوئے کہا۔
جنت نے بغیر چونکے خنجر پر اپنی گرفت ڈھیلی کی اور اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا کہ میں اپنے ملک میں رہ کر بھی دشمنوں میں گھری ہوئی ہوں ، سو احتیاط لازمی ہے ۔ ‘‘ عام سا لہجہ تھا جیسے وہ کوئی موسم کی بات کر رہی ہو۔
’’کل کی خوراک کے بعد سانس پھولا ، دل گھبرایا یا پھر کچھ اور…‘‘ وہ آہستہ آہستہ اس کی صحت کے متعلق مختلف سوال پوچھتے ہوئے اپنا قلم کاغذ پر گھسیٹتی رہی۔
عالم نہ جانے کیوں مسکرا دیا۔
’’کبھی کبھی آپ مجھے میری ماں کی یاد دلادیتی ہے ۔ اگر ہماری کوئی بہن ہوتی تو شاید ایسی ہی ہوتی ۔ آپ میری بہن بنے گی جنت صاحبہ؟‘‘ وہ تنہائی سے گھبرایا ہوا شہزادہ کوئی رشتہ ڈھونڈ رہا تھا۔
جنت نے ایک نظر اس کو دیکھا ۔ اس کی نظروں کے سامنے سنہری آنکھوں اور سرخ بالوں والا خوش شکل نوجوان آگیا، جو ہنستا تھا تو صرف اس کے دونوں گالوں پر ہی نہیں، تھوڑی پر بھی گڑھا پڑتا تھا ۔ جنت نے زور کی آنکھیں بھینچی۔
’’بھائی صرف وہی ہوتا ہے جس کو خدا ہمارا بھائی بنائے اور میرا کوئی بھائی نہیں ہے۔‘‘ اس کا لہجہ سخت ہوا۔
’’میرا بھی نہیں ہے ۔ دو کو خدا نے چھین لیا اور ایک کو تخت نے۔‘‘ شہزادے کا لہجہ یاسیت بھرا تھا۔
’’آپ کے تینوں بھائیوں کو آپ سے تخت نے ہی چھینا ہے۔ ایک کا لالچ باقی دو کو کھا گیا۔‘‘
’’اسفند یار نے تخت پر بیٹھنے کے بعد فتح اور جنگ کے نام پر جتنے بھی قتل کئے ہو ۔ یقین مانیے کہ اس نے ہمارے بھائیوں اور والدین کو زہر دے کر نہیں مارا۔‘‘
جس دوران اسفند یار کے سارے گھرانے کو زہر دیا گیا تھا وہ عبدالمطلب کے ساتھ مغرب کی طرف شکار کھیلنے گیا ہوا تھا ۔عالم اس دوران بیمار تھا اس لیے اس کی غذا کا الگ انتظام کیا گیا تھا ۔ اسی لیے وہ بچ گیا تھا یا پھر مارنے والے کے لیے وہ بے ضرر تھا ۔ اسفند یار واپس آیا تو تخت پر محض سترہ سال کی عمر میں بیٹھا تھا ۔ سب کا کہنا تھا کہ اس حادثے کے پیچھے اس کا خود کا ہاتھ تھا ۔ جنت کو بھی اسی واقعے پر یقین تھا۔
’’ہمارے خاندان کو جس نے بھی زہر دیا تھا وہ چاہتا تھا کہ اسفند یار اپنے ہاتھ داستانیوں کے خون سے رنگے ۔ کسی نے مکڑی کی طرح جال بنا اور وہ انتقام کی آگ میں جل کر اس جال میں پھنستا چلا گیا۔‘‘
جنت نے چونک کر عالم کو دیکھا ۔ اتنا تو وہ اتنے وقت میں جان گئی تھی کہ عالم بہت کچھ جانتا تھا ۔ بظاہر وہ بے ضرر سا لگتا تھا مگر اندر سے چیزوں کو بہت گہرائی سے دیکھتا تھا۔
’’نجانے کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ۔‘‘ جنت نے نظریں چرا لیں، اور تیزی سے اپنا سامان سمیٹنے لگی۔
’’یہ دنیا تارعنکبوت ہے جنت ! اور ہم سب ہی اس کے جال میں کسی نہ کسی سرے سے اپنے اپنے مقاصد کو لیے پھنسے ہوئے ہیں ۔‘‘ آج عالم شاید شطرنج کھیلنا بھول گیا تھا اس لیے فلسفہ بول رہا تھا۔ اس کے سفید اور سیاہ پیادوں نے کانچ کی الماری سے اس کوحسرت سے دیکھا ۔
’’مجھے چلنا چاہیے۔ بادشاہ حضور کے طعام کا وقت ہوا جاتا ہے۔‘‘
شہزادہ عالم نے گہری نظروں سے اس نظریں چراتی اداس لڑکی کو دیکھا اور اثبات میں سر ہلا کر اجازت دے دی۔
جنت نجانے کیوں یہاں سے جلد از جلد چلی جانا چاہتی تھی ۔ کچھ تو تھا، جو اس شہزادے سے اس کوڈرا رہا تھا ۔ کبھی کبھار وہ ثابت کر دیتا تھا کہ وہ اسفند یار کا بڑا بھائی تھا ۔ جو انسان اس کے لباس میں چھپے ہوئے خنجر کے بارے میں جان جائے ۔ وہ اس کے دل کے چور کو پکڑنے میں کتنا وقت لگائے گا ۔
عالم اس کے شطرنج کی بساط کا حصہ تھا ۔ ضروری تھا، مگر خطرناک تھا ۔ وہ ایسا مہرا تھا جو ساری بازی پلٹ سکتا تھا۔
٭…٭
کون کہتا ہے کہ خوشنما خواہشوں کا موسم ہے بہار؟
کبھی کبھار رسوائیوں کا موسم ہے بہار
سسکتی ہوئی تنہائیوں کا موسم ہے بہار
بیشک پھولوں کے کھلنے کا موسم ہے بہار
مگر ان پھولوں کی لالی کبھی کبھار چرائی ہوئی ہوتی ہے
کسی کے گالوں سے
کسی کی ہنسی سے
خزاں سے
بے وفائیوں کا موسم ہے بہار
اسفند یار نے گلستانیوں کے لیے بہار ایسی ہی کر دی تھی ۔ یا کم از کم جنت کے لیے بہار ایسی ہو گئی تھی ۔ ایسے جیسے کوئی خزاں کے جانے کا سوگ مناتا ہو ۔ اپنے آپ کو آئینے میں دیکھتے ہوئے اسے ایسا ہی محسوس ہوا ۔ اسفندیار بہار کے تہوار میں شریک نہیں ہوگا ۔ یہ بات اس کو محمود کی محبوبہ شریں نے بتائی تھی ۔ جو بادشاہ عوام کے سامنے ہی نہیں آئے گا ۔ وہ گلستانیوں کے دل کیسے جیتے گا؟
پھر ایسا کونسا گلستانی تھا جس کا اسفند یار دل جیتنا چاہتا تھا؟
دوسری طرف اس کی چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ اسفند یار اس جشن میں شریک ضرور ہوگا ۔ بادشاہ کی حیثیت سے نہ سہی تو کسی اور حیثیت سے ہی سہی ۔ یہ خبر صرف ایک پردہ تھی ۔ ذہن سے سارے خیالات جھٹک کر وہ اس آتشی رات میں شریک ہونے کے لیے تیار ہونے لگی ۔
کاش خزاں کچھ دیر اور ٹھہر جاتی تو اس کوتلخ یادوں کو دوبارہ اتنی جلدی جینا نہیں پڑتا ؟ اس پر قنوطیت کے دورے پڑنے لگے تو اس نے سر جھٹک کر اپنا آخری بار آئینے میں جائزہ لیا ۔ اس بار اس کا لباس سیاہ تھا، گھٹنوں تک آتی لمبی قمیض کے ساتھ سیاہ گرارہ ۔ بالوں کو اس نے سرمئی چنر سے ڈھانپا تھا اور اس کا نقاب چنر کے ہم رنگ تھا ۔ وہ یہ سب تیاری آشیان میں آ کر کر رہی تھی ۔ نہ جانے کیوں وہ اسفند یار کو آزمانا چاہتی تھی۔ یا شاید خود کو…
وہ سولہ کی نہ رہی تھی، مگر نادانی کی بھی کوئی عمر ہوتی تھی ؟ پچھلی بار یہ نادانی اس کی شوخ و شنگ عمر نے کروائی تھی ، وہ شوخی جو کسی کچے رنگ کی مانند اگلی بہار تک اتر گئی تھی۔
پھوپھی نے اس کو نقاب پہنتے ہوئے دیکھا تھا مگر کہا کچھ نہیں، بلکہ اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر ان پر کچھ رکھ دیا ۔ وہ چاندی کی پازیبیں تھیں۔
’’آپ تو سنگھار کے خلاف تھیں۔‘‘ اس کوتعجب ہوا۔
’’آج اس سنگھار کو بجنے دو جنت۔‘‘
’’آپ کیوں چاہتی ہے کہ اسفند…؟‘‘ پھوپھی نے اس کا جملہ اس کے لبوں پر انگلی رکھ کر کاٹ دیا۔
’’لفظوں سے ڈرنا چاہیے جنت۔ تم شاہ داستان کے سامنے ضرورت سے زیادہ بول چکی ہو اور اب وقت ہے کہ ان لفظوں کی قیمت ادا کی جائے۔‘‘
وہ لفظوں کی قیمت چکائے اور کوئی جنگ کر کے بھی بچا رہے؟ یہ کہاں کا انصاف تھا؟
’’آپ مجھے آگ سے کھیلنے کو کہہ رہی ہیں۔‘‘اس نے پھوپھی کی انگلی اپنے لبوں سے جدا کی۔
’’یہ آگ تم نے خود ہی لگائی ہے۔‘‘ ان الفاظ کے ساتھ پھوپھی نے اس کو آشیان کے پچھلے دروازے سے رخصت کیا تھا۔
اس نے شکر ادا کیا کہ اس کی پازیبیوں کی جھنکار جشن کی کھلکھلاہٹوں میں کہیں گم ہو گئی تھی ۔ وہ آگ کے آلاؤ کے پاس ہی لگے نیم کے بڑے سے درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑی ہو گئی ۔ نوجوان رقص کر رہے تھے، خوشیاں منا رہے تھے ۔ سب بھول گئے تھے کہ پانچ سال پہلے کیسے اس تہوار کے موقع پر نقب لگائی گئی تھی ۔مگر وہ نہیں بھولی تھی ۔ اس دل کی آگ کو حالات نے لگایا تھا، مگر تیل اس میں وہ خود چھڑکتی تھی ۔ اس کوڈر تھا کہ وہ بھول گئی تو جو نفرت اس کواس رات اس نقب زن سے ہوئی تھی وہ کسی اور جذبے میں نہ بدل جائے ۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page