میرے آقا: دوسرا حصہ
وہ اس وقت سرسوں کے تیل میں مختلف جڑی بوٹیاں ملا رہی تھی، جب اس کو کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔
’’یہ تم کیا کر رہی ہو جنت؟‘‘
’’ایک نک چڑھی شہزادی کے بالوں کے لیے تیل تیار کر رہی ہوں۔‘‘
نک چڑھی شہزادی نے اس کو ابرو اٹھا کر دیکھا۔
’’تمہیں کس نے کہا تھا بال سیاہ کرنے کو؟‘‘
’’تو کیا کرتی پھوپھی ؟ سرخ رہنے دیتی ؟ ہلکے رنگ میرے بالوں پر نہیں چڑھ رہے تھے ۔ میں نے بال بھورے کرنے چاہے تو وہ سیاہ ہوگئے ۔ میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ میں بالوں کے ساتھ تجربے کرتی۔‘‘ اس نے اپنے کام سے نظریں ہٹائے بغیر جواب دیا۔
’’میں تو پہلے بھی تمہیں یہاں بھیجنے کے حق میں نہیں تھی، حرم کی کسی کنیز سے یہ کام ہو سکتا تھا۔‘‘ شہزادی گل رخ آج ضرورت سے زیادہ جھنجھلائی ہوئی تھی۔
’’ اسفند یار اتنا بیوقوف نہیں ہے کہ وہ اپنے راز حرم کی کنیزوں کو دیتا رہے۔‘‘
’’تم عورت کی طاقت کو نہیں جانتی جنت ! تاریخ بھری پڑی ہے ایسے بادشاہوں سے جس نے ایک عورت کے آگے جھک کر اپنے تخت و تاج گنوائے ہیں۔‘‘
’’اگر اسفند یار ایسے مردوں میں سے ہیں تو میں یہ نظارہ ضرور دیکھنا چاہوں گی۔‘‘ اس نے تیل کو ایک بوتل میں محفوظ کرتے ہوئے جواب دیا۔
کچھ سوچ کر پھوپھی اس کی طرف بڑھی۔
’’وہ عورت تم بھی ہو سکتی ہو جنت۔‘‘
اس نے کچھ دیر کے لیے کچھ نہیں کہا ۔ چپ چاپ اس نے تیل کو اپنی جڑی بوٹیوں کے لیے مختص الماری میں رکھا اور پھوپھی کی طرف پلٹی ۔
’’آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ ایک شہزادی ہونے کے ناطے یا تو میں ماری جاؤں گی یا پھر مال غنیمت کے طور پر حرم میں شامل ہو جاؤں گی ۔ دونوں صورتیں مجھے نامنظور ہیں ۔ آپ مجھے وہی رہنے دیں جہاں میں ہوں۔‘‘
پھوپھی نے اس کی کام کی میز پر رکھی ریت کی گھڑی کو دیکھا ۔ اس کی ریت ایک طرف کو گر کر وقت کا پورا ہونے کا پتہ دے رہی تھی ۔ پھوپھی کے ہاتھ اس کے کانچ پر پھسلے۔
’’تم اس کو حلف کے مطابق زہر نہیں دے سکتی۔‘‘
’’میں اس کو زہر دینا بھی نہیں چاہتی۔ میں اس کو اس کے ہی کھیل میں شکست دینا چاہتی ہوں۔‘‘
جنت نے آگے بڑھ کر ریت کی گھڑی پھوپھی کے ہاتھ سے لے کر پلٹ کر رکھ دی۔ اب وقت ریت کے سفر پر گامزن تھا۔
’’تم یہ بھول رہی ہو کہ تم ایک عورت ہو جنت!‘‘
’’آپ نے ہی تو کہا تھا کہ عورت کے آگے بڑے بڑے سورماؤں نے بھی گھٹنے ٹیک دیے ہیں، یہ تو پھر بھائیوں کا قاتل ہے۔‘‘
’’انسانوں کو مارنا جانوروں کے مارنے سے زیادہ مشکل ہوتا ہے اور تم جو یہ کھیل کھیل رہی ہو وہ مردوں کا کھیل ہے۔‘‘
جنت نے وقت کی گھڑ ی سے نظریں ہٹا کر اپنے آخری بچے ہوئے رشتے کو دیکھا ۔ ان کے چہرے پر تھکاوٹ تھی ۔ اس جنگ میں صرف جنت نے اپنا خاندان نہیں کھویا تھا ۔ پھوپھی کا صرف میکہ ہی نہیں، بلکہ ان کا اپنا شوہر اور دو بیٹے اس جنگ کی بھینٹ چڑھے تھے ۔ ان کے ہی غصے کی آگ نے جنت کی انتقام کی آگ کو بڑھاوا دیا تھا۔
مگر اب ان کی طرف دیکھنے سے ایسا لگتا تھا، جیسے وہ آگ کہیں کم ہو گئی تھی ۔ جنت نے گھڑی کو شکوے سے دیکھا ۔ یہ وقت ہی تھا جو پھوپھی کے عزائم کو بدل رہا تھا ۔ اس کے وقت کے ساتھ بہت سارے شکوے تھے، ایک میں مزید اضافہ ہوا۔
’’عورت کا کام مکر و فریب ہے اور میں اسی سے کام لے رہی ہوں ۔ اور جب وقت آئے گا تو کسی مرد کی طرح خنجر اس کے سینے میں چیر دوں گی۔‘‘ اس نے پورے عزم سے ریت کی گھڑی کو دیکھ کر جواب دیا۔
یہ جواب صرف پھوپھی کے لیے نہیں تھا ۔ ان دونوں کے درمیان پڑے وقت کو بھی گواہ بنایا گیا تھا ۔ اس کوباور کروایا گیا کہ کچھ بھی ہو جائے، یہ وقت اس کواس کے مقصد سے نہیں ہٹا سکتا تھا۔ یہ جانے بغیر کہ وقت نے استہزائیہ انداز سے اس معزول شہزادی کو دیکھا، جو وقت کے کھیلوں سے انجان تھی۔
٭…٭
اتنے عرصے میں اس کا اسفند یار سے سامنا صرف ضرورت کے تحت ہوا تھا ۔ پھوپھی صحیح کہہ رہی تھی کہ ان کے پاس وقت بہت کم تھا ۔ اس کو اپنے مقصد کے لیے بادشاہ کے قریب ہونا ضروری تھا ۔ اس کے لیے اس کو اپنا حلقہ احباب بڑھانا ہوگا۔ مگر وہ اس کے لیے اسفند یار کی محبوبہ نہیں بن سکتی تھی ۔ اپنا سب کچھ کھونے کے بعد اس کے پاس اپنی جان کے علاوہ اپنی حرمت اور وقار ہی تو بچے تھے ، جس کو وہ اپنی انتقام کی بھیٹ نہیں چڑھانا چاہتی تھی۔
ابھی بھی وہ اسفندیار کے حجرے کے دروازے کے سامنے کھڑی اپنی سانسیں درست کر رہی تھی ۔ نجانے کیوں وہ اس کو دیکھ کر اپنا آپا کھو دیتی تھی ۔ نہ مصلحت یاد رہتی تھی اور نہ ہی مصالحت ، بس یاد رہتا تھا تو آسمان پر بنتے پھولوں میں جلتا اس نقاب پوش کا چہرہ جس کے ہاتھ اس کے اپنوں کے خون سے رنگے تھے ۔
وہی خون سے رنگے ہاتھ اس کے سامنے تھے جس پر گہرا زخم لگا ہوا تھا ۔ زخم کچھ دن پرانا تھا اور خراب ہو رہا تھا۔ گو کہ اس کی صفائی کی گئی تھی، مگر سرخ چیرے کے آس پاس نیلاہٹ واضح ہو رہی تھی۔
’’امن کے دنوں میں آپ کو یہ زخم کہاں سے آیا؟‘‘ وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔
’’مسلط کیے ہوئے حکمران کے لیے کوئی دن امن کا نہیں ہوتا۔‘‘ اسفندیار کا جواب سیدھا تھا۔
’’آپ کو یہ زخم جلدی دکھانا چاہیے تھا۔‘‘ اس کے لہجے میں سختی تھی۔
اسفندیار نے اس لڑکی کو دیکھا جو بھنویں بھینچے اس کا زخم صاف کر رہی تھی۔
’’خنجر پر ایسا زہر لگا ہوا تھا ، جو زخم کو بھرنے نہیں دے رہا ۔ اگر آپ کو اپنا ہاتھ عزیز ہے تو آئندہ مجھے فوراً طلب کیجئے گا۔‘‘ اس کا دوسرا جملہ بھی ڈپٹتا ہوا تھا۔
وہ یہ کہہ نہ سکا کہ وہ اس کو طلب ہی تو نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ کچھ تو تھا اس لڑکی میں جو اس کو مانوسیت کا احساس دلاتا تھا ۔ مگر کیا؟ وہ چاہ کر بھی جان نہیں پا رہا تھا ۔وہ جب اس کو دیکھتا تب تب کسی کے سرخ چنر سے ڈھانپے گئے سرخ بال یاد آ جاتے ، مگر پھر اس دن کے اس کے دیکھے گئے سیاہ بال یاد آتے تو یہ وہ خیال جھٹک دیتا۔
’’آپ کیمیاگری کو کتنی اچھی طرح جانتی ہے؟‘‘ اس نے کچھ سوچ کر سوال پوچھا۔
وہ ایک قدرتی معالج تھی، کیمیا گری اس کی رگوں میں تھی ۔ اس کے لیے رنگوں سے کھیلنا کون سا مشکل تھا ؟ کیا وہ اپنے بالوں کا رنگ بدل سکتی تھی ؟ اس نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا۔
’’جتنی اچھی طرح میں اپنے آپ کو جانتی ہوں۔‘‘ جواب برجستہ تھا۔
بادشاہ نے سر ہلا کر بات کو جانے دیا ۔ جنت اس بے موقع سوال کی وجہ پوچھنا چاہتی تھی، مگر بادشاہ کا لحاظ کر کے زبان دانتوں تلے دبا گئی ۔
کچھ تو تھا جو اس سوال پر اس کے دماغ کو شک میں ڈال گیا تھا ۔
اگلے دن جب وہ دوبارہ زخم کی مرہم پٹی کرنے اس کے حجرے میں آئی تو اس کو کاغذ پر جھکے ہوئے پایا ۔ اس کے ہاتھ جو تلوار مہارت سے چلانا جانتے تھے، کاغذ پر خوشخطی اتار رہے تھے ۔ وہ وہاں سے نہیں دیکھ سکتی تھی کہ وہ کاغذ پر کیا لکھ رہا تھا ، مگر وہ یہ کام اتنی محویت سے کررہا تھا کہ وہ ایک پل کے لیے اس کودیکھ کر رہ گئی ۔ کیا وہ اس کواندر آنے کی اجازت دے کر اس کوبھول گیا تھا؟
چند ثانئے کے بعد اس نے اس کودیکھا تو اس کی آنکھوں میں کچھ تھا، جس کووہ نام نہیں دے پائی تھی ۔ وہ اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھی تو وہ اس کے سامنے آکر بیٹھ گیا۔
’’فتح سے پہلے یہاں پر بہار کے استقبال کے لیے بہت بڑا میلہ لگتا تھا ۔ کیا کبھی آپ اس میلے میں گئی تھی؟‘‘ اس کا سوال اتنا غیر متوقع تھا کہ اس کے چہرے کا رنگ تیزی سے بدلا ۔ ایک پل میں ہی اس نے اپنے آپ کو سنبھال لیا، اگر اس اسفند یار غور نہیں کر رہا ہوتا تو وہ کبھی اس کے چہرے کی چوری پکڑ نہ پاتا۔
’’کئی بار گئی تھی ۔ گلستانی ہر موقع کو جشن کے طور پر مناتے ہیں ۔ ہم سب آشیان کی لڑکیاں مل کر جاتی تھیں۔‘‘
’’ہر جشن پر اسراف کرنا بھی گلستانوں کا شیوہ ہے۔‘‘ اس کونجانے کیوں ہر چیز پر تنقید کرنا اچھا لگتا تھا ۔ صحرائی شہزادے سے شاہ داستان تک کا سفر اس سے یہ عادت ختم نہیں کر سکا تھا۔
’’جشن کا شیوہ ہے کہ اس پر اسراف کیا جائے۔‘‘ اس کا لہجہ تیکھا تھا۔
’’چاہے آپ کا پڑوسی بھوکا مر رہا ہو، اور آپ جشن منا رہے ہو۔‘‘ اب کی بار اس کا لہجہ تیز ہوا تھا۔
نا جانے کیوں اس کے ساتھ وہ بھول جاتا تھا کہ جنت کا مقام اور اس کا مقام جدا جدا تھا ۔ ہوتے ہیں ناں کچھ لوگ جو آپ کے اندر الاؤ جلا دیتے دیتے ہیں ۔ پھر ان کا سامنا ہونا اس آگ میں ہلکا ہلکا تیل چھڑکتا رہتا ہے ۔ کبھی یہ آگ بڑی میٹھی سی ہو جاتی ہے، جیسے سردیوں کی راتوں میں حرارت دیتی ہوئی ۔ اور کبھی کبھار یہ آگ اندر تک جلا کر سب کچھ راکھ کر دیتی ہیں۔
بچتا ہے تو تڑپتا ہوا دل اور اس کی کسک…
بڑی عجیب سی ہوتی ہے یہ آگ…
بچاتی بھی ہے اور جلاتی بھی…
جنت کو دیکھ کر اسفندیار کے سرد خانے جیسے دل میں ایسی ہی آگ لگ جاتی تھی ۔ اسفندیار نے اس آگ سے ذرا تھوڑی دیر کے لیے نظریں چڑائی ۔ اس وقت وہ اس آگ کو دبا کر دماغ کو حاضر رکھنا چاہتا تھا۔
’’آپ سے ایک مشورہ لینا تھا۔‘‘
’’جی کہئے۔‘‘ اس نے ذرا کی ذرا نظریں اس کے زخم پر سے ہٹائی۔
زخم میں نیلاہٹ ابھی بھی باقی تھی، مگر سرخی کم ہو رہی تھی ۔ زخم ابھی بھرا نہیں تھا، مگر بھرنے کی طرف گامزن تھا۔
’’بہار کی آمد آمد ہے، میں سوچ رہا ہوں کہ فتح سے پہلے یہاں پر بہار کے استقبال کے لیے جو جشن ہوتا تھا اسے دوبارہ منایا جائے۔‘‘
’’آپ کے لیے تو گلستانیوں کے تہوار اسراف ہے۔‘‘ جنت کے منہ سے پھسلا ۔
’’بے شک ہے ۔ یہ دنیا سیاست کی ہے ۔ گلستانیوں پر حکومت ناکافی ہے ۔ میں سوچ رہا ہوں کہ اب ان کے دلوں پر حکومت کی جائے، جب حکمران دلوں پر حکومت کرتا ہے تو اس کا زوال کبھی نہیں آتا۔‘‘
’’تو آپ گلستانیوں کو رشوت کے طور پر ایک تہوار دے کر لازوال ہونا چاہتے ہیں۔‘‘ زخم صاف ہو چکا تھا، وہ مرہم پٹی کرنے لگی۔
’’تو پھر مشورہ دیجے جنت صاحبہ گلستانیوں کے دل کیسے جیتے جا سکتے ہیں؟‘‘ اس کی بات پر جنت خاموش ہوگئی۔
’’ نفرت بھرے دلوں کو اپنا آپ مٹا کر ہی جیتا جا سکتا ہے ۔ اور ایک شاہ کو اپنا آپ مٹانا جچتا نہیں۔‘‘ اس نے سوچا مگر کہا نہیں۔
اسفند یار نے اس لڑکی کو سوچ کی وادی میں گم دیکھا ۔ اس کے ہاتھ اس کے جسم کے زخموں پر مرہم رکھتے تھے، مگر دل میں نجانے کون کون سے چوٹوں کے نشان اس کی ہر ہر ملاقات چھوڑ جاتی تھی ۔ شاہ داستان نے پہلی بار اپنی شاہی طبیب کو لاجواب کر دیا تھا۔
کچھ تو تھا جو جنت کی آواز کو روک رہا تھا ۔ کاش وہ کچھ بول کر ان چوٹوں میں ایک اور نشان کا اضافہ کر دے۔
’’اس تہوار پر ایک رسم ہوتی ہے شاید کچھ ہم ذات کو ڈھونڈنے والی۔‘‘ اس نے اس کی خاموشی کو اپنے سوال سے ختم کیا۔
کچھ یاد کے بادل جنت کو سوچ کی وادی سے نکال لائے ۔ وہ جانتی تھی کہ اس رات نقاب کے پیچھے اسفند یار تھا ۔ مگر کیا مقابل جانتا تھا اس رات سرخ لباس میں وہ تھی ؟ جنت نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بغیر بغور اپنے حکمران کا جائزہ لیا ۔ وہ بظاہر اپنا زخمی بازو ہلا کر اس کا جائزہ لے رہا تھا، مگر کان اس کے جواب کے منتظر تھے۔
’’جی ہاں، گلستانی نوجوانوں نے اپنا دل بہلانے کو ایک رسم سی بنا لی ہے۔‘‘ وہ اپنا سامان سمیٹتے ہوئے بولی۔
’’آپ روشنی ڈالنا چاہے گی ؟ ‘‘ اب کی بار مرہم پٹی سے نظریں ہٹا کر مرہم لگانے والی کی طرف دیکھا۔
’’گلستانی نوجوان نقاب پہن کر آگ کے الاؤ کے گرد رقص پیش کرتے ہیں ۔ اس رقص کے دوران ان کی ملاقات دوسرے نوجوانوں سے ہوتی ہیں ۔ دو لوگ جب ملتے ہیں تو ایک دوسرے کو اپنی شناخت نہیں بتا سکتے ۔ اگر اگلے سال ان کی دوبارہ ملاقات ہوتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ان دونوں کے جسموں میں ایک دوسرے کی روح کا بچھڑا ہوا ٹکڑا ہوتا ہے ۔ فاتح حاتم کی حکومت سے پہلے گلستان میں اسی طرح شادی کرنے کا رواج تھا ۔ سلطان اورنگزیب کی فتح سے پہلے بھی کہیں لوگ اس تہوار میں ملنے والے کو ہم سفر چن لیتے تھے۔‘‘
جنت کے اس کو سلطان اورنگزیب کے نام سے پکارنے پر اسفند یار کے چہرے پر کچھ گزرا تھا جس کو وہ کوئی نام نہیں دے سکی تھی۔
’’تو آپ اس رسم میں شریک ہو گی؟‘‘ جنت اس کے سوال پر چونکی۔
’’میرے خیال سے اس رسم میں شریک ہونے کے لیے میری عمر زیادہ ہے۔‘‘اس نے ٹالنا چاہا۔
’’پھر تو اس لحاظ سے آپ کو آپ کا ہم ذات مل چکا ہونا چاہیے۔‘‘
بادشاہ نے شاہی طبیبہ کے ہاتھوں کو کانپتے ہوئے دیکھا ۔ جنت کی نگاہوں کے سامنے خون بھری تلوار آئی تو اس نے نگاہیں چرا لی۔
’’یہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔‘‘ اس نے انکار نہیں کیا تھا۔
’’جب کوئی محل میں ہوتا ہے تو وہ پھر میرا ماتحت ہوتا ہے ۔ تو پھر وہ میرا معاملہ ہوتا ہے ۔ مجھے حق ہے کہ آپ کی نسبت کہیں بھی طے کر دوں۔ آپ آشیان کی پناہ میں نہیں رہی جنت!‘‘اس کا انداز بے تکلف تھا اور ڈراتا ہوا بھی۔
جنت کا ہاتھ ہی نہیں، دل بھی کانپ گیا تھا ۔ دل کو مضبوط کرنا اس کو آتا تھا ۔ گستاخی لبوں پر مچل رہی تھی مگر وہ جانتی تھی کہ اس کے الفاظ اس آگ میں مزید تیل چھڑک دیں گے۔
’’جیسا آپ صحیح سمجھیں حضور!‘‘ وہ ذرا پیچھے ہوئی اور سر کو ذرا کا خم کیا۔
اس کا کام یہاں ختم ہو چکا تھا ۔ اسفندیار نے اس کو تیز نظروں سے دیکھا ۔ اس کو جنت کے اتنی جلدی سرنگوں ہونے کی امید نہیں تھی۔
’’بہت خوب! پھر اگر اس رسم کے دوران آپ کو آپ کا ہم ذات مل جائے تو مجھے ضرور اطلاع دیجئے گا ۔ آخر کو آپ کی طرف ہمارے بھی کچھ فرائض ہیں۔‘‘ اسفندیار کے عزائم جو بھی تھے، وہ جنت کی ساری تدبیروں کو بدل دیں گے۔
اس شام وہ یہ جان گئی تھی۔
٭…٭