مکمل ناول

میرے آقا: پہلا حصہ

وہ یہ جانتی تھی کہ وہ جو کوئی بھی ہو گا کم از کم اس اجنبی کے ساتھ اس کی تقدیر کے دھاگے نہیں جڑ پائے گے ۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کون تھی اور نہ ہی اس نے کریدنے کی کوشش کی تھی۔ یہ سوچ جنت کو محظوظ کر گئی ۔ اس نے سیاہ بالوں والے اس اجنبی کو دیکھا تھا جس کے بال کانوں کی لو کو چھوتے تھے۔
’’ویسے میں تمہیں بغیر نقاب کے بھی پہچان جاؤں گی۔‘‘ اس کا ڈھیل ڈول، قد کاٹھ، اس کی آنکھوں کی گہرائی اور بالوں کی سیاہی، اس کورنگ برنگے گلستانیوں سے جدا کرتی تھی ۔ اس دوسری سرزمین کے باسی کو کوئی بھی آسانی سے پہچان لیتا۔
’’اور میں آپ کو۔‘‘اس اجنبی کا جواب اس کو چونکا گیا۔
اس نے بال ڈھانپے ہوئے تھے اور اس کی آنکھوں کا رنگ اتنا انوکھا نہ تھا اور اس کو شک تھا کہ شام کے سرمئی اندھیروں میں اس کی آنکھوں کا رنگ واضح بھی ہوگا یا نہیں۔اس کو نہیں لگتا تھا کہ وہ اتنے گلستانیوں میں اپنے لب اور تھوڑی کی بنیاد پر پہچانی جائے گی۔
’’اچھا وہ کیسے؟‘‘ اس نے محظوظ ہوتے ہوئے مسکرا کر پوچھا۔
’’کیوں کہ آپ ایک شہزادی ہو۔‘‘ اجنبی کا جواب اس کی مسکراہٹ غائب کر گیا تھا۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی آتش بازی کا شور اس کی سماعتوں سے ٹکرایا ۔ گہرا نیلا آسمان آگ کے رنگین پھولوں سے سج گیا تھا ۔ آتش بازی میں ہمیشہ اس کی جان بستی تھی۔ مگر اس اجنبی کی بات نے اس کی جان نکال دی تھی۔
’’آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہو؟‘‘ تم سے آپ پر آیا گیا۔
’’آپ کی چال نے مجھے متوجہ کیا تھا ۔ آپ کی چال میں وقار تھا جو اس عمر کی بہت کم لڑکیوں میں ہوتا ہے ۔ یہ وقار خاص تربیت سے آتا ہے جو عموماً شاہی اور شرفا کے خاندان کی لڑکیوں کو دی جاتی ہے۔‘‘ اس کے جواب نے اس کا سانس بحال کیا۔
’’اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں شہزادی ہوں۔‘‘
’’آپ کے بال سرخ ہے۔‘‘سانس دوبارہ چلی گئی۔
’’میری چنر سرخ ہے۔‘‘
’’چنر سے جھلکتے بال سرخ ہیں ۔ آپ نے ان کو ڈھانپا ہوا ہے تو آپ کے ڈھانپنے کا انداز غلط ہے ۔ مرد عورت کو سات پردوں میں پرکھ لیتا ہے ۔ بحیثیت شہزادی آپ کو ان سب رسم و رواج میں حصہ لینا زیب نہیں دیتا۔‘‘ وہ اس کی طرف دیکھ نہیں رہا تھا ۔ اس کی نگاہیں آسمان پر بنتے ہوئے پھول بوٹوں پر تھیں، مگر وہ اس کو پرکھ چکا تھا۔
شرم و خفت سے اس کا چہرہ اس کے لباس کے سے رنگ کا ہو گیا۔
’’اگر یہ جگہ اور یہاں کی شہزادی اور یہاں کے رسم و رواج اتنے ہی بے ہودہ ہے تو آپ خود یہاں کیا کر رہے ہیں؟‘‘ وہ اپنا لباس سنبھالتے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’کیوں کہ آپ ہمارے معیار کی ہے۔‘‘مقابل کے انداز میں بے نیازی تھی۔
شہزادی کے سر پر لگی تلووں پر بجھی۔
’’اور آپ کا معیار کیا ہے؟ شاہی خاندان؟ آپ خود کیا ہو؟ کہیں کے شہزادے؟‘‘ شہزادی نے تمسخر سے اس کو اس کی اوقات یاد دلائی۔
’’میں ہوں۔‘‘کمال بے نیازی سے اطلاع دی گئی۔
’’کہاں کے؟ خوابوں کے؟‘‘
’’صحرا نگر کا۔‘‘اگلا جواب شہزادی کا منہ بند کروانے کے لیے کافی تھا۔
ایک نظر اس نے اس بے نیاز سے اجنبی کو دیکھا اور دوسری نظر آسمان پر چھلکتے رنگوں پر ڈالی ۔ یہ اس کی زندگی کی سب سے بری آتش بازی تھی اور یہ اس کا اس رسم میں پہلی اور آخری بار لیا ہوا حصہ تھا۔ وہ اجنبی صحیح کہتا تھا کہ یہ رسم و رواج اس جیسے لوگوں کے لیے نہیں تھے ۔ مگر اس اجنبی کا منہ بند کروانا بھی ضروری تھا ۔ ایسی بے نیازی سے گلستان کی زمین پر بیٹھ کر اس کو وہاں کی شہزادی کا مذاق اڑانے کا کوئی حق نہیں تھا ۔
’’آپ کہیں کے بھی شہزادے ہو آپ مجھ پر حکومت نہیں کرتے ۔ اور نہ ہی آپ کو یہ بتانے کا حق ہے کہ میرے لیے کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔‘‘ اس کا راز دوسری زمین کے شہزادے کے سامنے کھل گیا تھا ۔ وہ وہاں جا کر اس کو بد نام کرتا تو وہ اپنے لوگوں کو کیا جواب دیتی؟ اس کویہاں آنے پر پچھتاوا ہوا۔
’’کروں گا…بہت جلد۔‘‘
’’میں سمجھی نہیں۔‘‘
’’میں بہت جلد حکومت کروں گا آپ پر بھی اور آپ کے گلستان پر بھی۔‘‘
اس کو اس خبطی شہزادے سے بات نہیں کرنی تھی۔ وہ فیصلہ کرکے آگے بڑھنے لگی۔
’’اور جب کروں گا تو سب سے پہلے یہ رسم ختم کرواؤں گا ۔ تاکہ کوئی شہزادی کسی اجنبی سے نہ مل سکے۔‘‘ اس کے لہجے کا یقین جنت کو اچھا نہیں لگا۔
’’اس سے پہلے یہ رسم میں ختم کرواؤں گی۔ تاکہ کوئی اجنبی شہزادہ گلستان کی شہزادی سے خبطی باتیں نہیں کر سکے۔‘‘ وہ پھنکاری۔
اس کی خفت تھی کہ آتش بازی کی آوازوں میں بھی دب نہیں پا رہی تھی۔
’’فکر مت کریں میں آپ کو بد نام نہیں کروں گا۔‘‘ اجنبی شہزادے نے نقاب کے ساتھ بھی اس کا چہرہ پڑھ لیا تھا۔
شہزادی کی اب بس ہوگئی تھی۔ وہ ہف تف کر کے زمین کی طرف بڑھنے لگی ۔ اجنبی نے اس کو روکنے کی کوشش نہیں کی ، اس کو اپنے دعوے پر یقین تھا۔ وہ وہی بیٹھا سرخ لباس میں ملبوس اس گلستانی شہزادی کے سرخ چنر سے چھلکتے انگارہ نما زلفوں کو تکتا رہا ۔ وہ ناگن کی طرح کے بل کھاتے بالوں میں کچھ تھا جو اس کا اٹک گیا تھا ۔ وہ جانتا تھا کہ چاہے وہ اس کی روح کا بچھڑا ہوا ٹکڑا ہو یا نہیں ہو مگر وہ اس کو سالوں تک بھولنے والا نہیں تھا ۔
دوسری طرف جنت اس شرم ناک واقعے کو بھول جانا چاہتی تھی ۔ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اس کی خفت اتنی زیادہ تھی کہ وہ اس واقعے کو سالوں بھولنے والے نہیں تھی ۔ یہ بھی شکر تھا کہ وہ واقعہ ایک اجنبی کے ساتھ پیش آیا تھا ۔ وہ کون سا اس سے آئندہ سال ملنے والی تھی۔
ویسے بھی آئندہ سال ملنے کا مطلب تھا کہ ان دونوں کے روح کے تار ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے یا پھر کم ازکم تقدیر کے ۔ایسا ہوتا ہوا اس کو اس وقت دکھائی نہ دیتا تھا۔ مگر وہ کتنی غلط تھی ، اس کا اندازہ اس کو پورے ایک سال بعد بہار کے آغاز پر ہوا تھا۔ جب اس نے اس کو ایسی ہی آتش کے درمیان کھڑا پایا تھا ۔ اس بار اس کے چہرے پر نقاب نہیں تھا مگر وہ پھر بھی اس کو پہچان گئی تھی ۔ اس بار وہ آتش بازی بہار کے استقبال کے لیے نہیں تھی، حکومت کے بدلنے پر تھی ۔ اس اجنبی شہزادے نے اپنا دعویٰ سچ ثابت کر دکھایا تھا۔
اس بار جنت کا لباس سرخ نہیں تھا۔
شہزادے کے ہاتھ تھے، اس کی تلوار تھی۔اور گلستان کی زمین تھی۔لہو سے… وہ لہو جو اس اجنبی شہزادے کی رگوں میں بھی دوڑتا تھا ۔ وہی لہو، جو جنت کی ولدیت میں بھی تھا ۔
کسی نے اس کو پناہ گاہ کی طرف کھینچا تھا، اس کے دماغ میں آخری منظر آتش میں آگے بڑھتے صحرانگر کی فوج کا تھا ۔اس کے کانوں میں آخری پکار گلستانیوں کی چیخوں کی تھی اور اس کی آنکھوں میں آخری چہرہ اس گڑھ سوار کا تھا۔جس کے ہاتھ اور تلوار اس کے پیاروں کے لہو سے سرخ تھے۔
اس دن کے بعد سے بہار ہمیشہ گلستان کی زمین پر سوگ کی چادر پہن کر اترتی تھی ۔ اب اس کے استقبال کے لیے پھر کبھی کسی نے آتش بازی نہیں کی ، میلا نہیں لگایا گیا۔ پھر کبھی کوئی نوجوان دل اپنے روح کے بچھڑے ہوئے ٹکڑے سے ملنے کے لیے نہیں تڑپا تھا۔ کیوں کہ گلستانی شہزادی کی سولہویں بہار میں اس سے ملنے والے شہزادے سے اس کی تقدیر کے تار جڑ گئے تھے ۔ جس نے اس کو اس کی سترہویں بہار پر نفرت کا تحفہ دیا تھا۔
٭…٭
شاہی طبیب کا کام صرف بادشاہ کی خدمت کرنا نہیں ہوتا بلکہ بادشاہ کے پورے خاندان کی صحت کی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی تھی ۔ اس کو نہیں معلوم تھا کہ عبدالمطلب شاہی خاندان میں آتا تھا یا نہیں، مگر کوئی اور بھی تھا جس سے بادشاہ کا سب سے قریبی تعلق تھا ۔ جو اس کھیل میں سب سے اہم مہرہ بننے والا تھا ۔ وہ اس تخت اور تختے کی جنگ کے سب سے بڑی پہیلی تھا ۔ آخر شاہ داستان اورنگزیب نے اپنے بڑے بھائی اور تخت کے وارث کو کیوں چھوڑ دیا تھا ؟ جب اس نے اپنے دوسرے بھائیوں اور باقی کے خاندان کو نہیں بخشا تھا۔
’’میرا نام جنت ہے اور آج سے آپ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری مجھ پر ہے۔‘‘ وہ اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے بولی۔
وہ کندھے تک آتے سیاہ بالوں اور پرکشش نقوش والا تقریباً تیس سالہ جوان مرد تھا ۔ اس میں اسفندیار کی شباہت صاف دیکھی جا سکتی تھی، مگر اسفند یار کے مقابلے میں اس کے تیکھے نقوش میں بھی نرمی تھی اور اس کا چہرہ جنگ کی سختیوں سے پاک تھا جس کی جگہ ایک عجیب سی تھکاوٹ نے لی ہوئی تھی۔
’’اس سے کیا ہوگا؟ طبیب بدلنے سے تقدیر نہیں بدلتی ۔ ‘‘ وہ اس وقت نچلی میز پر شطرنج کی بساط بچھائے ہوئے شاید اپنے آپ سے ہی لڑرہا تھا۔
’’کوشش کرنے والے تقدیر بھی بدل دیتے ہیں، شہزادہ عالم!‘‘ جنت کی بات پر شہزادہ عالم نے اس بھوری آنکھوں والی طبیبہ کو دیکھا ۔
’’مجھے آپ کی بیماری کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے ۔ اس کو جاننے کے لیے مجھے آپ کچھ سوالوں کے جواب دیں گے اور مجھے آپ کا نئے سرے سے معائنہ کرنا ہوگا۔‘‘
’’یہ سب ایک مرد طبیب کا کام نہیں؟‘‘
’’زمانہ بدل گیا ہے شہزادہ عالم ۔ ویسے بھی آپ کے معائنے کے لیے مجھے آپ کو چھونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ میں ایک قدرتی معالج ہوں اور یہاں بیٹھے بیٹھے آپ کی سانسوں کی کھڑکھڑاہٹ کو محسوس کر سکتی ہوں۔‘‘ اس کو پسند نہیں تھا جب کوئی اس کی صلاحیتوں پر شک کرے ۔
’’معاف کرنا میرا مطلب آپ کی صلاحیتوں پر شک کرنا نہیں تھا، میں بس یہ پوچھنا چاہ رہا تھا کہ آیا کہ یہ مناسب ہے یا نہیں؟‘‘عالم نے اس کا برا ماننا بھانپ لیا تھا۔
’’یقین مانیں ، اس پورے ملک میں کوئی بھی مجھ سے بہتر طبیب ہے تو شہزادی گل رخ ہے اور وہ بھی ایک عورت ہے۔‘‘
’’وہ میری پھوپھی ہے۔‘‘
’’رشتے کی پھوپھی جو آپ کی نا محرم ہے۔‘‘
عالم نے اس نئی طبیبہ کو دلچسپی سے دیکھا۔
’’خیر، زیادہ تر طبیب مجھے چھونے سے ڈرتے ہیں۔ ان کو نہیں معلوم کہ مجھے کیا بیماری ہو اور اگر وہ ان کو لگ جائے تو…‘‘
’’یہ بیماری چھوت کی نہیں ہے اتنا تو میں کہہ سکتی ہوں۔‘‘ اس نے اپنے اوزار نکالتے ہوئے کہا۔
’’میرے بھائی کے دور حکومت میں میں نے آج تک کسی کو اتنا بولتے ہوئے نہیں دیکھا۔‘‘ عالم کو وہ دلچسپ لگی، ویسے بھی اس محل میں شطرنج کے کھیل کے علاوہ اس کے لیے کوئی تفریح نہ تھی۔ اور وہ اپنے ساتھ کھیلتے کھیلتے تھک گیا تھا۔
’’ آپ کے بھائی کو معلوم ہونا چاہیے کہ لوگ باتیں کرتے ہیں۔ ان کے سامنے نہیں تو ان کے پیچھے ہی سہی۔‘‘
اس کو عالم کا اعتماد چاہیے تھا ۔اس کے لیے اس کو عالم نام کی پہیلی بوجھنے کی ضرورت تھی۔
’’یقین مانیں جنت صاحبہ، میرے بھائی کو معلوم ہے۔ چاہے وہ ظاہر کرے یا نہیں کرے، وہ آپ کو آپ کے سائے سے بڑھ کر جانتا ہے۔‘‘
اس نے بالا ہی بالا عالم کی طرف دیکھا۔
’’اچھے حکمران کی یہی نشانی ہوتی ہے۔‘‘ وہ مختصراً جواب دے کر معائنے میں مصروف ہوگئی۔
معائنے کے دوران وہ مختلف مفروضات کو کاغذ پر اتارتی رہی۔
’’آپ کے پچھلے طبیب کیا کہتے تھے؟‘‘ معائنے کے بعد اس نے ازراہ گفتگو پوچھا، وہ پچھلے طبیبوں کا مہیا کردہ مواد پہلے ہی پڑھ چکی تھی ۔
’’یہی کہ میں زیادہ عرصہ جی نہیں پاؤں گا۔‘‘ عالم دوبارہ اپنے خود ساختہ شطرنج کے کھیل میں مصروف ہوگیا تھا۔
’’آپ کی بیماری آپ کو اندر سے کمزور کر رہی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ میں نے ایسا پہلے کچھ نہیں دیکھا ۔ مگر یہ آپ کو مارے گی نہیں ۔ کم از کم اتنی جلدی نہیں۔‘‘ اس نے صاف گوئی سے جواب دیا۔
’’آپ پہلی طبیب ہو جس نے میرے منہ پر یہ بات کہی ہے۔‘‘ عالم نے اگلی چال چلی۔
’’آج سے آپ کی خوراک میں تبدیلی میں خود کروں گی۔ آپ ورزش کرتے ہیں؟‘‘ وہ اس کے روزمرہ کے معمولات کے متعلق سوالات پوچھنے لگی۔
پوچھ گچھ کے آخر میں اس نے ایک نظر عالم کی بچھائی ہوئی بساط پر ڈالی ۔ وہ اپنی ہی بچھائی ہوئی بساط میں الجھا ہوا تھا۔ اس کی سیاہ رانی سفید پیادوں کے درمیان گھری ہوئی تھی۔ کیا اس کو یہ نہیں معلوم تھا کہ رانی کو کبھی بھی معمولی چالوں کے لیے استعمال نہیں کرتے ؟ عالم شطرنج کے کھیل میں اس کی رانی تھا ۔ اور اس نے اس کو زندہ رکھنا تھا، چاہے کچھ بھی ہو جاتا۔
٭…٭
دوسرا حصہ پڑھنے کے لیے کلک کریں 👇🏻

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے