مکمل ناول

میرے آقا: پہلا حصہ

چھ سال پہلے
آتش… آتش اور آتش عشق…
مختلف آگ کے شعلے مل کر جنت کے کمرے کی طرف کھلنے والی کھڑکی سے آگ کا بڑا سا الاؤ لگ رہے تھے۔ گلستانی زندہ دل لوگ تھے، خطہ چھوٹا تھا مگر وسائل سے مالا مال تھا۔ اس لیے یہاں کے لوگ بھی ہر موسم کی آمد پر تہوار منانے کا موقع ڈھونڈ لیتے۔ اور پھر بہار کی آمد کا جشن تو بنتا ہی تھا۔
اسلام کے آنے سے پہلے گلستانی آتش پرست تھے۔ اسلام کے آنے پر آتش پرستوں کے کئی رسم و رواج مٹ تو گئے تھے مگر نشان ابھی بھی باقی تھے ۔ جیسے ہر نئے تہوار کے موقع پر آگ کے مختلف کرتب دکھانا ، آگ کا الاؤ روشن کر کے اس کے ارد گرد رقص کرنا اور آتش بازی کرنا۔
گلستانیوں کو اپنی آگ سے بے حد محبت تھی۔ وہ بھی اسی آگ میں جلنے کے لیے جشن بہاراں کا میلا دیکھنے جا رہی تھی۔
پچھلے مہینے وہ سولہ سال کی ہو گئی تھی ۔ اس نے یہ میلہ تماش بین کی حیثیت سے کئی بار دیکھا تھا مگر کبھی بھی اس کے کھیلوں میں شریک ہونے کا موقع نہیں ملا تھا۔ اب کی بار اس کا نہ صرف وہاں جانے کا ارادہ تھا بلکہ ایک خاص کھیل میں حصہ لینے کا بھی تھا۔ وہ کھیل جو اس کی ساری تقدیر کی بازی بدل دے گا۔
’’یہ لو تمہارا نقاب…‘‘ رضیہ نے اس کا سرخ نقاب اس کی طرف اچھالا جس کو اس نے کمال مہارت سے ہوا میں پکڑ لیا۔
وہ آدھے چہرے کا چیل کی شکل کا مکھوٹا تھا جو عینک کی طرح آنکھیں اور ناک ڈھانپ لیتا۔ ہونٹ کھلے رہتے ۔ ہونٹ… جو دعوت دیتے تھے۔ اس کا ارادہ میلے میں نقاب لگا کر جانے کا تھا۔ پھوپھی کو خبر ہو جاتی تو وہ اس کی جان نکال لیتی۔ مگر پھوپھی کو خبر ہوتی تو پھر نا!
سولہ سال کی شرارتی عمر اس کے ساتھ بھی کھیلنے کا ارادہ رکھتی تھی۔ پھر یہ تو اس کی واحد چوری تھی۔ اس نے جلدی سے نقاب اپنے لباس میں چھپالیا اور بالوں کو سرخ چنر سے اچھے سے ڈھانپ لیا۔ وہ جشن بہاراں کے موقع پر سرخ گلاب بن کر جانے والی تھی ۔ پھوپھی نے نقاب لگائی ہوئی لڑکیوں کو نخوت سے دیکھا، مگر کہا کچھ نہیں۔
’’سرخ رنگ جنت۔‘‘ پھوپھی کی سرزنش پر دل کا چور آنکھوں میں چھلکا، مگر وہ بس چور سا مسکرا دی۔ اسی دل کے چور نے اس کا ہاتھ اس کی پوشاک کے اندر چھپے نقاب تک پہنچایا۔
’’بس ذرا سی دل لگی تو ہے۔‘‘ دل کو تسلی دی گئی۔
میلے کی شکل دکھتے ہی لڑکیاں بالیاں الگ الگ بکھرنے لگی ، وہاں سب کی دلچسپی کا سامان تھا۔ زیادہ تر لڑکیاں کھانے اور زیورات کے ٹھیلوں کی طرف بڑھ گئیں ۔
جنت کی توجہ اس آگ کےالاؤ کی طرف تھی جو دور سے ہی دیکھنے والوں کو اپنی طرف بلاتا تھا ۔ اس آگ کے الاؤ کے پاس آتش پرست منتیں مانگنے آتے تھے ۔ ان میں سے کئی اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ یہ آتش ان کو بہار کے آغاز کے موقع پر جادو کا تحفہ دے گی۔ جنت کو آتش پرستوں کے جادو کی ضرورت نہ تھی ، اس کے پاس تو پہلے ہی خدا کا دیا ہوا تحفہ تھا ۔ وہ تو اس جادو کی تلاش میں تھی جس کے لیے ہر جوان دل جلتا رہتا تھا۔ کیونکہ چاہے کسی بھی مذہب سے ان کا تعلق ہو، گلستانیوں کے لیے بہار کی آمد بے حد اہمیت رکھتی تھی ۔ یہ دل ملنے کا موسم ہوتا تھا اور اس دل ملنے کے انتظام کے لیے انہوں نے ایک خاص رسم رائج کر رکھی تھی ۔
آگ کے رقص کے دوران آپ نقاب میں کسی مانوس اجنبی کو تلاش کرتے ہو ۔ وہ مانوس اجنبی جس کے گلستانیوں کے بقول آپ کی روح کا تعلق جڑا ہوتا تھا، وہ آپ کو آگ کے الاؤ کے قریب ضرور ملتا تھا۔ اصول کے مطابق آپ اپنی شناخت اس اجنبی پر ظاہر نہیں کر سکتے ۔ اس سے ملاقات اور بات ہو سکتی تھی مگر نام و نسب نہیں بتائے جا سکتے تھے۔ اگلے سال بھی وہ مانوس اجنبی آپ کو دوبارہ مل جائے اور آپ دونوں ایک دوسرے کو پہچان جاؤ تو سمجھو اس کے دل کے تار آپ کے تاروں سے جڑے ہوئے تھے۔
جنت کی ہم حجرہ رضیہ سترہ سال کی تھی اور آخری بار کے میلے میں کسی نیلی آنکھوں والے نوجوان سے ملی تھی ۔ اس کی قصیدہ سرائی اس نے پورے سال نہیں چھوڑی تھی۔
’’چلو دوسری بار تو سمجھ آتا ہے مگر پہلی بار کیسے معلوم پڑتا ہے کہ یہی وہ انسان ہے جس سے آپ کے دل کے تار جڑے ہوئے ہیں۔‘‘ اس نے رضیہ سے پوچھا۔
’’معلوم ہو جاتا ہے۔‘‘
’’مگر کیسے؟‘‘
’’بس لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتا، مگر معلوم ہوجاتا ہے۔‘‘
سوجنت آدھے چہرے کے سرخ مکھوٹے اور سرخ لباس میں ملبوس آگ کے الاؤ کے پاس کھڑی اس وقت کو کوس رہی تھی جب اس کو یہاں آکر شرارت کرنے کی سوجھی تھی۔ اس کو اس سچی محبت کے کھیل پر یقین تو نہیں تھا، مگر نوجوانی کے شرارتی جذبات دل میں ہلچل مچاتے تھے اور کچھ باغیانہ پن بھی تھا جو اصولوں سے ہٹ کر کچھ کرنے کے لیے سجھاتا تھا۔
کئی نوجوان جوڑے نقاب پہنے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے کسی الگ گوشے کی طرف جاتے ہوئے دکھائی دیے ۔ ان میں سے اکثر ہی آگ کے الاؤ کے پاس روایتی رقص پیش کرنے میں مصروف تھے ۔ ان کے انداز میں تلاش سے زیادہ سر خوشی تھی ۔ جیسے ان کو اس چیز سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کو اس دن کون ملتا تھا؟ وہ بس رقص میں مدہوش ہو کر آگ کو گواہ بنا کر نئے سال کی بہار کا استقبال کرنا چاہتے تھے۔
کچھ نوجوان رقص کے دوران گول گھومتے اور رکنے پر مخالف جنس کا سامنا ہونے پر ساتھ ساتھ رقص پیش کرتے اور اگر باتوں کے دوران نوجوان جوڑا ایک دوسرے میں دلچسپی محسوس کرتا تو وہ رقص سے الگ ہو جاتے کہ گویا ان کی تلاش ختم ہوئی۔
جنت ان سے ذرا دور ایک پتھر پر بیٹھی دلچسپی سے یہ نظارہ دیکھ رہی تھی ۔ اس کے ہاتھ اور بایاں پاؤں پتھر پر بیٹھے بیٹھے تال پر ہلکا ہلکا تھرک کر رقص سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔ مگر خود میں وہ اتنی ہمت نہیں پا رہی تھی کہ رقص میں شریک ہو سکے۔
’’کیا یہ سچ ہے کہ ایک شام کے چند گھنٹوں میں آپ کو آپ کا ہم ذات مل جاتا ہے؟” اس نئے جملے نے اس کی توجہ رقص سے ہٹا کر اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے وجود کی طرف کھنچی۔
اس کے ساتھ پڑے پتھر پر اسی کی عمر کا یا اس سے چند سال بڑا نوجوان بیٹھا تھا۔ اس کے بال سیاہ تھے اور آگ کی روشنی میں اس کی رنگت سنہری لگتی تھی۔
وہ یہاں کا نہیں تھا۔
’’ہم…ذات ۔‘‘ جنت کے لیے یہ لفظ اجنبی تھا۔
’’یہی مانوس اجنبی جس سے آپ کی روح کے تار جڑے ہوتے ہیں ۔ ہم ذات نہیں ہوا تو کیا ہوا؟‘‘ اجنبی کا لہجہ پر یقین تھا۔
’’ہم… ذات۔‘‘ جنت نے لفظ کو توڑ کر دوہرایا تو اس کے معنی اس پر آشکار ہوئے ۔
پھر جنت نے اس کو گھور کر دیکھا ۔ اس اجنبی کی آنکھوں میں اس رواج کے لیے بے یقینی تھی۔ اس کے اندر کا گلستانی کرلایا اور وہ فوراً اس بے یقین رسم کا دفع کرنے کے لیے میدان میں آگئی۔
’’اگر اتنی ہی بے یقینی ہے تو نقاب کیوں لگایا ہوا ہے؟‘‘
اجنبی نے اس کی بات پرکندھے اچکا دیے۔
کچھ آتش بازوں نے آگ کی چنگاری کو گول گما کر الائو میں ڈالا۔ ایک چنگاری اجنبی کے رویے سے جنت کو بھی جالگی۔
’’تم یہاں کے نہیں ہو!‘‘ جنت کا انداز ایسا تھا جیسے وہ اس کو جتانا چاہتی ہو کہ تم کیا جانو گلستانیوں کے دل اور اس میں بسی سچی محبت…
اجنبی نے اس کی طرف دیکھا۔
’’جی ہاں، میں یہاں کا نہیں ہوں ۔ میں مشرق سے مغرب شکار کھیلنے جا رہا تھا تو راستے میں گلستان پڑتا ہے ۔ میرے دادا جان کا خیال تھا کہ ہمیں اس میلے میں جانا چاہیے تاکہ گلستانیوں کے رسم و رواج کو قریب سے سمجھ سکیں۔‘‘
’’رسم و رواج کو سمجھنے میں اور ان کی ہنسی اڑانے میں فرق ہے؟‘‘
’’میں نے کب ہنسی اڑائی؟‘‘ اجنبی مکر گیا۔
’’یقیں نہ کر کے۔‘‘
’’تو یہ سچ ہے کہ بہار کا یہ میلا آپ کو آپ کے بچھڑے ہوئے روح کے ٹکڑے سے ملا دیتا ہے؟‘‘ اجنبی کی آنکھوں میں تحیر اترا۔
’’ہاں یہ سچ ہے۔‘‘ جنت کا جواب بغیر کسی جھجھک کے تھا۔
’’تو پھر گلستانیوں نے اپنے آپ کو بہت محدود کر رکھا ہے ۔ ان کو چاہئے کہ باہر سے آنے والوں کو بھی اس رسم میں شرکت کی دعوت دیں ۔ ہمیں کیا معلوم ہماری روح کے ٹکڑے کہاں کہاں بکھرے ہوئے ہیں ۔ ‘‘ اس نے کھوئے ہوئے سے انداز سے کہا، نظریں ابھی بھی آگ کے الاؤ پر ٹکی ہوئی تھی۔
’’باہر والوں کو کسی نے نہیں روکا ۔ انہوں نے خود ہمارے خلاف کدورت رکھی ہوئی ہے۔‘‘ وہ خفا کر بولی۔
اس اجنبی نے اس کو گہری نظروں سے دیکھا۔
’’اچھا تو یہ معلوم کیسے ہوتا ہے کہ یہی وہ انسان ہے جس کی آپ کو تلاش ہے ؟ ‘‘اس کے سوال میں جنت کے رضیہ کو پوچھے جانے والے سوال کا عکس تھا۔
جنت سوچ میں پڑ گئی۔
’’بس معلوم ہو جاتا ہے۔‘‘
’’تو پھر تو وہ کوئی بھی انسان ہو سکتا ہے ۔ ‘‘ جنت محسوس کر سکتی تھی کہ اجنبی کا سوال اس کو کسی سمت لے کر جا رہا تھا۔
مگر کہاں؟
’’ممکن ہے۔‘‘ اس نے کندھے ا چکا دیے۔
’’دوسرے خطے سے آیا ہوا اجنبی بھی؟‘‘اس سوال پر جنت کا دل دھڑکا۔
کچھ دیر کے لیے اس کی زبان کسی نے تالو سے چپکا دی۔ مگر پھر بولی۔
’’اگر وہ اجنبی ایک سال تک دوسرے اجنبی کا وفادار رہے اور اگلے سال اسی مقام پر اس کو ملے تو ہاں، یہ ممکن ہے۔‘‘
اجنبی اس کے جواب پر محظوظ ہوا۔
’’تو پھر آپ اس دوسرے خطے کے اس اجنبی کو آزمانا چاہے گی؟‘‘
سیاہ نقاب والے کی اس بات پر ایک بار پھر سے اس کی دل کی دھڑکنیں تیز ہوئی۔ اس نے اس کی طرف بھرپور نظروں سے دیکھا ۔ وہ مضبوط شانوں والا نوجوان تھا۔ اس کا جسم گلستانیوں سے مختلف تھا مگر مضبوط تھا۔ آگ کی روشنی میں اس کی آنکھوں کا رنگ واضح نہ تھا ۔ بھورا یا پھر کالا…اس کی جلد دکھنے میں سخت لگتی تھی۔
’’وہ اس چوٹی پرآتش بازی اچھے سے دکھائی دیتی ہے ۔ اگر آتش بازی دیکھنے میں دلچسپی ہے تو وہ ایک اچھی جگہ ہے۔‘‘ جنت نے سامنے ایک پہاڑی کی طرف اشارہ کیا ۔
انداز ایسا تھا جیسے ایک انسان نے کسی جگہ جاکر ایسی منت مان لی ہو، جس کی اس کو خواہش نہ ہو مگر وہ صرف یہ دیکھنا چاہتا ہو کہ آیا کہ اس وسیلے سے اس کی منت پوری ہوتی تھی یا نہیں۔ اس اجنبی نے ایک نظر اس چوٹی کی طرف دیکھا پھر اس کے آگے چل دیا۔ کیا یہ مردانہ انا تھی ، جو اس اجنبی کو اس کے آگے چلائے جا رہی تھی یا پھر یہ حیا تھی؟ جنت اپنی پوشاک سنبھالے تیزی سے اس کے پیچھے بڑھی، مگر اس کے لمبے قدموں سے قدم ملانے میں ہف گئی۔ چوٹی سر کرنا آسان تھا ۔ وہاں کتنے سر پھرے ہر تہوار پر آتش بازی دیکھنے آتے تھے ۔ اس لیے ایک طرف سیڑھیاں بنا دی گئی تھی ۔ وہ دونوں آخری سیڑھی پر کچھ فاصلے پر بیٹھ گئے۔
’’حکومت نے یہاں سیڑھیاں بنا کر اس چوٹی کی خوبصورتی ختم کر دی ہے۔‘‘ اس اجنبی کا پہلا جملہ تنقید لیے ہوئے تھا۔
جنت کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ کچھ لوگ تنقید کر کے ہر چیز کی خوبصورتی کیوں ضائع کر دیتے تھے؟
’’اچھا ایسا کیوں؟‘‘ وہ پھر بھی پوچھ بیٹھی۔
’’جو محنت اس چوٹی سر کرنے والے کو بغیر سیڑھیوں کے کرنی پڑتی وہ اس نظارے کا لطف دوبالا کر دیتی۔‘‘
اس اجنبی کی نگاہ آسمان کی طرف تھی جہاں تاروں کی بارات تھی۔ آتش بازی ہونے میں ابھی وقت تھا ۔ اس کی دلیل موزوں تھی، اس لیے وہ چپ ہو گئی۔ اجنبی نے بھی کتنی دیر اس سے کچھ نہیں پوچھا تھا۔
’’جہاں تم رہتے ہو وہ جگہ کیسی ہے؟‘‘ جنت نے بالآخر خاموشی کو توڑا۔
’’یہاں سے بہت مختلف۔‘‘ اجنبی کا جواب مبہم تھا۔
وہ ایک دوسرے کو اپنی پہچان نہیں بتا سکتے تھے، مگر انہیں کس حد تک چھپانا تھا وہ نہیں جانتی تھی۔ وہ اس کھیل میں نئی تھی اور شاید وہ اجنبی بھی ۔ کیا وہ دونوں ایک سال کے بعد بہار کے استقبال پر مل پائے گے؟ جنت کو یہ رسم عجیب سی لگی۔ یہ سب کچھ ایسا ہی تھا جیسے اس کے ابا جان نے ایک اجنبی جگہ کے اجنبی سے اس کا رشتہ طے کر دیا ہو ۔ اس کو یہ رسم پہلے دلچسپ لگی تھی مگر اب اس کا مقصد سمجھ آنے لگ گیا تھا ۔ گوکہ اس کے لیے سیاسی شادیاں اتنی انوکھی نہ تھی اور وہ جانتی تھی کہ اس کے والد اس کے حق میں جتنے بھی اچھے ہو ، ایک ایسی ہی شادی اس کی بھی منتظر تھی۔ یہاں پر آنے والوں کے لیے یہ رسم ذرا سا فرار تھی ۔ اس اجنبی سے جو ان کی تقدیر میں لکھے جانے والا تھا ۔ مگر اس کے لیے یہ رسم کیا اہمیت رکھتی تھی؟ وہ نہیں جانتی تھی ۔ اس کی تقدیر کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا تھا مگر جلد ہی ہو جائے گا۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے