مکمل ناول

میرے آقا: پہلا حصہ

سورج سوا نیزے پر تھا۔ جب اس کے حواس بحال ہوئے تھے۔ کوٹھری میں اس وقت اندھیرا تھا مگر روشن دان سے چھلکتی روشنی اس وقت دوپہر کا پتہ دے رہی تھی۔
وہ کہاں تھا؟
اس کو اس رخ سے لٹایا گیا تھا کہ سورج کی تیز روشنی سیدھی اس کی آنکھوں میں چبھ رہی تھی۔ اس کو محسوس ہوا کہ کوئی اور بھی اس کے کمرے میں ساتھ تھا۔ اگر اس ویران جگہ کو کمرہ کہنا درست تھا تو؟وہ یہاں کیا کر رہا تھا؟ اس کے دماغ میں آخری منظر زہر کے پیالے کا تھا۔ جب کافی دیر تک اس نے سورج کی چھبتی روشنی کے باوجود آنکھیں بند کرکے رکھی تو مقابل کا صبر جواب دے گیا اور ایک زور دار ٹھوکر اس کی ٹانگوں پر ماری گئی ۔ اس نے چیخ مار کر آنکھیں کھولیں اور مقابل نے اس کا گریبان پکڑ کر اس کو کنکریٹ کے فرش پر گھسیٹا۔
’’بتاؤ کس کے لیے کام کرتے ہو ؟ اورنگزیب کو زہر کس کے کہنے پر دیا تھا؟‘‘
’’مم… میں کسی کے لیے کام نہیں کرتا۔ نہ مم… میں نے کھانے میں زہر ملایا تھا ۔ مجھے صرف یہ بتایا گیا تھا کہ پانی میں زہر ہے مجھے پانی کسی بھی حال میں نہیں پینا ۔‘‘ وہ جلدی جلدی سچ اگلنے لگا۔
’’تو تم نے یہ اطلاع اپنے بادشاہ کو کیوں نہیں دی؟۔‘‘
اب کی بار وہ رکا اور اپنے لفظوں کو تولنا چاہا، مگر مقابل نے اس کی مہلت نہ دی اور بھاری بوٹ اس کی گردن پر رکھ دیے۔ اس نے جواب دینے کے لیے تیزی سے ہاتھ پاؤں مارے تو مقابل نے اپنا پاؤں اس کی گردن سے ہٹا دیا۔
’’کیونکہ اس کی وجہ سے اس ملک میں جنگ ہوئی تھی ۔ وہ مر بھی جاتا تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔‘‘
پوچھ گچھ کرنے والا آدمی پیچھے ہوا۔
’’آپ کو کیا لگتا ہے، یہ سچ بول رہا ہے؟‘‘ اس آدمی نے کسی سے پوچھا تو اس کو احساس ہوا کہ کوٹھری میں کوئی تیسرا وجود بھی تھا۔
اس نے آنکھیں بھینچ کر اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کی تو سوائے اندھیرے میں کھڑے دو ہیولوں کے اس کو کچھ دکھائی نہ دیا ۔ موسیٰ کو اس زاویے پر لٹایا گیا تھا کہ تیز روشنی کی وجہ سے وہ صحیح سے اپنے سے پوچھ گچھ کرتے آدمی کا چہرہ نہیں دیکھ سکتا تھا تو وہ اندھیرے میں چھپے وجود کو کیسے دیکھ پاتا؟
’’اور تمہیں اطلاع کیسے پہنچائی گئی تھی؟‘‘ وہ آدمی ابھی بھی اندھیرے میں تھا۔
’’مجھے اپنے خواب گاہ میں ایک رقعہ پڑا ہوا ملا تھا ۔ جس میں اطلاع دی گئی تھی کہ پانی میں زہر ہے ۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ سچ ہے یا نہیں مگر میں نے یقین کرنے کا فیصلہ کر لیا۔‘‘ الفاظ ادا کرنا مشکل تھا، مگر موت سر پر کھڑی ہو تو انسان سب کچھ کر لیتا ہے۔
’’بیوقوف انسان…‘‘یہ آواز دوسرے وجود سے آئی تھی، موسیٰ کو یہ آواز سنی سنائی لگی۔
مگر وہ اتنی آہستہ تھی کہ وہ یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔
’’اب اس کے ساتھ کیا کرنا ہے؟‘‘ اس آدمی نے پھر سے دوسرے وجود سے پوچھا۔
اس نے ان کی گفتگو سننے کی کوشش کی مگر نقاہت بھرے وجود میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ طاقت لگا کر سن سکے۔ بے ہوش ہونے سے پہلے نہ جانے کیوں اس کو لگا کہ اس آدمی نے اس دوسرے وجود کو شہزادی کہہ کر پکارا تھا۔
٭…٭
داستان پانچ خطوں پر مشتمل ملک تھا۔ تقریبا 70 سال پہلے یہاں پر سمندر پار ملک سے ایک شہزادہ آیا تھا۔ وہ شہزادہ کسی تخت کا وارث نہیں تھا مگر اس کو سیر و تفریح سے شغف تھا۔ اس کے ملک سے سمندر پار یہ پانچ خطے وسائل سے مالا مال تھے مگر یہاں کے لوگ جاہل تھے۔ یہ ایسا تھا کہ کسی کے پاس دولت تو ہو مگر اس کو برتنے کا سلیقہ نہ ہو۔
شہزادہ حاتم جس ملک سے آیا تھا، وہ علم و ادب کا خزانہ تھا۔ جب اس نے یہاں قیام کیا تو ان پانچ خطوں کے لیے بھی علم کا خزانہ کھول دیا گیا۔
کتابیں منگوائی گئیں اور لوگوں کا علم و ادب بانٹا گیا، تجارت کا سلیقہ سکھایا گیا۔
یہ پانچ خطے جغرافیے اور موسم کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے۔ ان کو اپنے اضافی وسائل بیچنے اور جن وسائل کی کمی تھی ان کو پورا کرنے کا سلیقہ سکھایا گیا۔ جب پانچ خطے ایک دوسرے سے مدغم ہوئے تو وہاں پر حکومتی نظام کی ضرورت پیش آئی۔ تب وہاں کے باشندوں نے پردیس سے آئے ہوئے شہزادہ حاتم کو اپنا بادشاہ تسلیم کیا اور اس کو فاتح کا خطاب دیا۔
تب اس داستان گو نے اس ملک کو داستان کا نام دیا تھا۔
مگر جب اس ملک کو اگلے وارث کو سونپنے کا وقت آیا تو فاتح حاتم کو نہ جانے کیا سوجھی کہ اس ملک کو اپنے جانشین اور بڑے بیٹے عبدالمطلب کو سونپنے کے بجائے ہر ایک خطے کو الگ ریاست میں تقسیم کر دیا اور اپنے ہر ایک بیٹے کو وہاں کا سلطان مقرر کر دیا۔ ہر خطے کے وسائل محدود تھے۔ جو خوشحالی یکجہتی میں تھی وہ خوشحالی بٹوارے میں نہ رہی تھی۔
شمال کا علاقہ برف نگر کہلاتا تھا۔ وہ پہاڑی علاقہ تھا۔ وہاں سردی زیادہ تھی۔ برف کی شدت کی وجہ سے وہاں سردیوں میں پانی اور اناج کی کمی ہو جاتی تھی۔
جنوب کا میدانی علاقہ تھا اور زمین نگر کہلاتا تھا۔ یہ سب سے خوشحال اور ترقی یافتہ علاقہ تھا۔ یہاں کے لوگ جدید تعلیم کو بروئے کار لاتے ہوئے مشینیں بناتے اور صنعت کاری کرتے تھے۔
مشرق میں صحرا نگر تھا جہاں سورج قہر برساتا اور زمین آگ… وہاں معدنیات کا خزانہ تھا مگر پانی کی کمی تھی۔
مغرب میں پوٹھوہار تھا، پتھریلا علاقہ… صحرا نگر کی طرح وہاں بارش بہت کم ہوتی مگر جب ہوتی تو پتھریلی زمین وہاں کا پانی جذب نہیں کر پاتی اور سیلاب آ جاتا۔
ان سب کے درمیان گلستان تھا۔ مرکزِ داستان…
وہ رقبے کے لحاظ سے سب سے چھوٹی ریاست تھی مگر خوشحالی میں سب سے اوپر۔
یہ ریاست اپنے نام کی طرح سچ میں گلستان تھی۔ یہاں ہر قسم کا پھل و پھول پایا جاتا اور یہ علاقہ وسائل سے مالامال تھا۔ وہاں کے لوگ گیت گاتے، خوشیاں مناتے اور ان کا ہر دن تہوار ہوتا۔ گلستان کی ملکہ حاتم کی دوسری بیوی تھی اور گلستانی شہزادی تھی ۔ اس لیے اس نے یہاں کے قانون قاعدہ بدلنے کی زحمت نہیں کی تھی۔
عبدالمطلب کو یہ علاقہ بہت خوبصورت لگتا تھا۔ مگر بٹوارے کے بعد ان کو سب سے زیادہ یہی خطہ زہر لگتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ دنیا کا کوئی غم یہاں کے باشندوں کو چھو نہیں سکتا تھا۔ آئے دن کسی نہ کسی بہانے سے کوئی نہ کوئی تہوار منایا جاتا ، جس پر بے جا کھانے اور مشروبات کا اہتمام ہوتا ۔ ان کے اندر کا پوٹھوہاری سلطان اتنے اسراف کو دیکھ کر کڑھتا ۔ بٹوارے کے بعد ان کے اپنے چھوٹے بھائی صحرا نگر کے سلطان سے ہی تعلقات قائم تھے۔ کچھ ان دونوں کا غم بھی یکساں تھا ۔ اس لیے وہ اکثر ہی مشرق کا سفر کرتے ہوئے پائے جاتے تھے ۔ مگر وہ دونوں خطے مشرق و مغرب میں تھے، اس لیے انہیں اپنے سفر کے دوران گلستان سے گزرنا پڑتا ۔ کسی اور راستے سے سفر کرتے تو سفر بہت لمبا ہو جاتا۔ پھر ان کی اپنی اولاد نہیں تھی ۔ وہ بوڑھے ہو رہے تھے اور ان کا ارادہ اپنے بھائی کے کسی پوتے کو اپنا جانشین بنانے کا تھا۔
پہلے نمبر پر عالم تھا۔اس کے بعد دو جڑواں بیٹے اور پھر اسفند یار تھا ۔ عالم گو کہ وارث تھا مگر اس کی بیماری کی وجہ سے ان کا ارادہ جڑواں میں سے کسی ایک کو چننے کا تھا مگر پھر ان کی نگاہ میں اسفندیار آگیا۔ وہ چہرے پر پختگی اور آنکھوں میں آگ رکھنے والا نوجوان تھا۔
’’میرا خواب ہے کہ یہ ملک پھر سے داستان بن جائے۔‘‘ جس دن انہوں نے اسفندیار کے منہ سے یہ جملہ سنا تھا وہ جان گئے تھے کہ یہی شہزادہ ان کا جانشین بننے کے لائق تھا۔
اس دن سے انہوں نے اس کو اپنے پروں میں لے لیا تھا ۔ وہ اس کی تربیت اپنے جانشین کے طور پر نہیں بلکہ ہونے والے شاہ داستان کے طور پر کر رہے تھے۔ وہ ہمیشہ اس کو اپنے ساتھ رکھتے اور ملک کا چپہ چپہ دکھاتے۔ وہاں کے لوگوں اور ان کے رہن سہن سے متعارف کرواتے۔ مگر ان کو وہ آگ نہیں ملی تھی، جس سے اسفند یار کا خواب جنون بن جاتا۔ پھر وہ موقع ان کو اسفند یار کے گھر والوں کی ناگہانی موت نے دیا تھا۔ انسان بہت خود غرض ہوتا ہے، اپنی دہایوں پر مشتمل زندگی میں انہیں اس دن اس چیز کا احساس ہوا تھا۔
ان کے بھائی کا خاندان، ان کے اپنے خاندان کی طرح تھا۔ ان کی ناگہانی موت کا افسوس بھی تھا۔ مگر یہی وہ موقع تھا اس آگ میں تیل ڈالنے کا، جو پورے داستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی۔ یہ اس وقت کی بات تھی جب وہ اور اسفند یار ہرنوں کا شکار کرنے زمین نگر کے جنگلات گئے ہوئے تھے ۔ سوائے عالم اور اسفند یار کے ان کا سارا گھرانہ مارا گیا تھا ۔ ان کے طعام میں ایسا زہر ملایا گیا تھا جس کا اثر چند گھنٹوں بعد ہونا تھا۔ زہر شناس بھی اس زہر کی شناخت کرنے سے قاصر تھا اور زہر چکھ چکا تھا۔ تشخیص کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ زہر صرف شمال کے پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا تھا۔ اس آگ میں مزید تیل اس وقت ڈالا گیا، جب معلوم ہوا کہ یہ شمال اور گلستان کی ملی سازش تھی ۔ پہاڑوں میں صرف یہ زہر اگتا تھا۔ مگر یہ گلستان کے طبیب ہی تھے جو اس طرح کے زہر بنانے میں ماہر تھے۔
گلستان سے ان کے تعلقات اچھے نہیں تھے ۔ پانی اور دوسرے وسائل پر ان کی چھوٹی موٹی جنگیں ہوتی رہتی تھیں ۔ مگر ان کی فوجی قوت زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ ہمیشہ گلستان پر بھاری تھے۔ اب انہوں نے جو چال چلی تھی وہ ایک آخری کیل کا کام کر گئی تھی۔
اپنے گھر والوں کی موت کے بعد محض سترہ سال کی عمر میں اسفند یار تخت پر بیٹھا تھا اور اٹھارہ کا ہونے تک اس نے گلستان پر قبضہ کر لیا تھا۔
ویسے بھی گلستان مرکز تھا اور پورے ملک پر قبضہ کرنے کے لیے مرکز پر قبضہ ضروری تھا ۔ مزید چار سال اس کو پورے داستان کو فتح کرنے میں لگے تھے ۔ بے شک اس کی قیمت لہو تھا، مگر اسفند یار نے ان کا خواب شرمندہ تعبیر کر دیا تھا۔
پانچوں ریاستوں کو ایک بار پھر سے داستان بنا دیا گیا تھا۔ اتنی کامیابی کے بعد بھی کچھ تھا جو عبدالمطلب کو کھٹک رہا تھا۔
انسان جب زیادہ اونچائی پر پہنچ جائے تو گرنے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا تھا، وہ یہ جانتے تھے، اس لیے اسفند یار کو وہ اپنے ساتھ ساتھ ہی رکھتے تھے۔ وہ دونوں اس وقت بھی رات کی چہل قدمی کے لیے ایک ساتھ نکل رہے تھے۔
بحثیت شہزادے کے بھی اسفندیار کی یہ عادت تھی کہ وہ رات کے کچھ لمحے اپنے ساتھ بتانے کا عادی تھا ۔ اور اس کی یہ عادت ابھی بھی قائم تھی ۔ اکثر عبدالمطلب بھی اس کے ساتھ ہوتا ۔ تھوڑا دور جانے کے بعد وہ دادا اور پوتا الگ ہوجاتے ۔ اس رات بھی ایسا ہی ہونے والا تھا۔
اس رات وہ محل کے پیچھے والے دروازے سے نکل رہے تھے تو ان کو اپنے پیچھے سے کھٹکا سا محسوس ہوا ۔ اس وقت محل کے اس طرف کسی کا ہونا اچنبھے کی بات تھی یا خطرے کی ۔ وہاں پر عموماً چند پہرے داروں کے علاوہ کوئی بھی نہیں ہوتا تھا۔
اسفندیار عقاب کی نگاہ اور چیتے کی چال رکھتا تھا۔ ابھی بھی اس کے قدم تیزی سے سامنے کی روش کی طرف بڑھ گئے جہاں سے کھٹکے کی آواز آئی تھی۔
کچھ ثانئے اور چند قدموں کے بعد چور اور بادشاہ ایک دوسرے کے سامنے تھے ۔ سامنے کا منظر دیکھ کر وزیر کے قدم ہی نہیں دماغ بھی ٹھٹکا تھا ۔ اسفند یار کی گرفت میں وہ چور نہیں تھا چورنی تھی۔
سیاہ رات کے سے لباس میں، کسی ناگن کے سے بل کھاتے ہوئے بالوں کے ساتھ …شاہی طبیب جنت صاحبہ اپنے عہدے کے پہلے دن محل کے پچھلے راستے کی طرف کیا کر رہی تھی؟ اس سے بھی بڑھ کر بات یہ تھی کہ کچھ اور بھی تھا جس کو اس منظر نے ساکت کردیا تھا۔
اسفندیار نے جنت کو دیوار کے ساتھ لگا دیا تھا ۔ اس کی گردن پر خنجر رکھے اسفند یار کے ہاتھوں کے جنبش جیسے کسی نے روک دی تھی۔ جس دیوار کے ساتھ وہ دونوں لگے ہوئے تھے، اس کے اوپر شمع جل رہی تھی۔ اس کی لو میں اسفندیار کا سایہ جنت پر حاوی تھا، بھاری تھا، لمبا تھا اور طاقتور بھی…
جنت سیاہ چغے میں ملبوس تھی ۔ بال شاید پہلے اس نے دوپٹے سے ڈھانپے ہوئے تھے ۔ اس جدوجہد کے دوران چند لٹیں چہرے اور کندھے پر آ گئی تھی ۔ اس کے سیاہ بال عبدالمطلب کے لیے حیرانگی کا باعث تھے۔ ایسے سیاہ اور گھنگریالے بال اس نے داستان میں حاتم کے خاندان کے مردوں کے علاوہ کہیں نہیں دیکھے تھے ۔ ان کے اپنے بال بھی جوانی میں ایسے ہی تھے۔
’’تمہارے بال سیاہ ہیں۔‘‘ چورنی سے ساری تفتیش بھول کر عبدالمطلب کے منہ سے پہلا سوال یہ پھسلا تھا۔
بادشاہ اور چورنی کا فسوں ٹوٹا ۔ اسفند یار نے ان دونوں کے درمیان فاصلہ کیا مگر اپنی گرفت اس پر سے نہ چھوڑی تھی۔ جنت نے بالا ہی بالا عبدالمطلب کی طرف دیکھا اور نظریں جھکا لی۔
’’جی حضور…‘‘
بادشاہ کے پیر نے بادشاہ کی گرفت میں سرخ رنگت اور تیکھے نقوش والی لڑکی کو غور سے دیکھا۔
’’کون ہو تم؟‘‘
’’جنت…‘‘
’’خاندان کا نام۔‘‘
’’آشیان میں جو بھی لڑکی آتی ہے وہ یتیم اور بے گھر ہوتی ہے ۔ میں بھی وہی ہوں۔‘‘ وہ سچ بول رہی تھی، مگر پورا نہیں ۔ اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں، انداز مؤدب تھا ۔ اس کے وجود میں ایک عجیب سا وقار اور نڈر پن تھا جو کہ کسی یتیم اور بے گھر لڑکی کا خاصہ نہیں تھا۔
عبدالمطلب نے پھر سے اس کے سیاہ بالوں کی طرف دیکھا ۔ اس کا باپ سالوں پہلے جب اس زمین پر آیا تھا تو اپنے ساتھ سپاہیوں کی فوج لے کر آیا تھا جن میں سے اکثر نے یہاں کے باسیوں سے شادیاں کی تھی۔ سیاہ بال داستان کے دوسرے خطوں میں اچنبھے کی بات نہیں تھی مگر گلستان کے لوگ زیادہ تر آپس میں شادیاں کرتے تھے۔یہاں تک کہ شاہی خاندان بھی گلستانی عورت کو اپنے لیے پسند کرتا تھا ۔
انہوں نے پھر سے جنت کو غور سے دیکھا ۔ گلستانیوں کی طرح اس کی رنگت سرخ و سفید تھی، ہونٹ بھرے ہوئے تھے اور چہرے پر جابجا بھورے تل تھے ۔ شاہی خاندان کی طرح اس کے نقوش تیکھے، آنکھیں کھلی ہوئی، روشن اور عربی تھی۔ ان کا رنگ بھوری اور سبز کے درمیان تھا ۔ پلکوں اور بھنووں کا رنگ بھورا یا پھر سرخ تھا؟ کسی حسینہ کے بالوں اور پلکوں کا رنگ الگ الگ کیسے ہو سکتا تھا ؟
’’آپ اس وقت محل کے اس حصے میں کیا کر رہی ہے؟‘‘ انہوں نے سارے خیالات جھٹک کر دوبارہ سوال کیا۔
’’مجھے محل دیکھنے کی چاہت تھی اس لیے وقت اور جگہ کی پروا نہ کی اور بھٹک کر اس حصے کی طرف نکل آئی ۔ آپ کی مہربانی ہوگی اگر آپ میری میرے حجرے کی طرف رہنمائی کر دیں گے۔‘‘پہلی بار محل کے فسوں میں کھونا کچھ حیرت انگیز نہ تھا ۔ اس کی دلیل وزنی تھی۔
’’اور یہ خنجر آپ کے پاس کیا کر رہا ہے ؟ آشیان میں تو ہتھیار ممنوع تھے؟‘‘ اس بار سوال بادشاہ وقت کی طرف سے آیا تھا۔
عبدالمطلب نے دیکھا کہ اسفند یار کی طرف دیکھتے ہوئے اس کی آنکھوں میں عجیب سا جنوں اور گستاخی آجاتی تھی ۔ مگر انداز مؤدب ہی رہتا تھا ۔ بلاشبہ بادشاہ کے سامنے سب کو اپنی گردن عزیز رکھنی ہوتی تھی۔
’’میرے آقا! گستاخی معاف، مگر وہ وقت گیا جب آشیان میں صرف مرہم لگانا سکھایا جاتا تھا ۔ پانچ سال سے چھڑی جنگ نے مرہم رکھنے والوں کو زخم لگانا بھی سکھا دیا ہے۔‘‘ اس کا لہجہ نرم مگر الفاظ خنجر کی دھار کی طرح تھے۔
اسفند یار ضرب لگانے والوں میں سے تھا، مسکرا دیا۔ اس نے اس خنجر کو الٹ پلٹ کر دیکھا ۔ وہ ہاتھی دانت سے بنا اوسط درجے کا خنجر تھا ۔ اس نے وہ خنجر جنت کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔
’’داستان کی فوج کے لیے یہ خنجر نا کافی ہے جنت صاحبہ!‘‘
عبدالمطلب جانتا تھا کہ اپنی طاقت سے بڑھ کر کام کرنے والے لوگ اسفندیار کو محظوظ کرتے تھے ۔ وہ ان کو ایسے دیکھتا تھا جیسے کوئی ہاتھی چیونٹی کو دیکھتا ہو۔ اس وقت بھی وہ جنت کو ایسی ہی نظروں سے دیکھ کر محظوظ ہورہا تھا۔
جنت نے کوئی جواب نہیں دیا مگر اس کی بھوری آنکھوں میں جیسے آتش جل اٹھی تھی ۔ اس آتش کا عکس اسفند یار کی سیاہ رات جیسی آنکھوں میں بھی دیپ جلائے ہوئے تھا۔ اسفندیار نے اس ایک سال کو چھوڑ کر پچھلے پانچ سال جنگ اور فتح کے دوران گزارے تھے۔ اس استحکام کے ایک سال میں وہ حرم کی کنیزوں کی طرف صرف ضرورت کے تحت گیا تھا۔
نہ ہی وہ کسی عیش پرست بادشاہ کی طرح تھا اور نہ ہی کسی درویش کی طرح…کچھ درمیانہ سا تھا، عورت ذات اور اسفند یار کے درمیان…
مگر جو عورت آپ کی آنکھوں میں آگ لگا دے، اس کے ساتھ کچھ بھی درمیانہ نہیں رہتا۔ جنت کے اندر عجیب سی گستاخی تھی جو ظاہر نہیں ہوتی تھی مگر محسوس کی جا سکتی تھی۔ اور سرپٹ عورت اور گھوڑے کو سرنگوں کرنا تو بادشاہوں کی شان ہوتی ہے۔ عبدالمطلب جانتا تھا کہ سدھانے کے بعد وہی گھوڑا بادشاہوں کا پسندیدہ ہوتا تھا۔ اتنے سالوں کے تجربے نے عبدالمطلب کو یہ بھی سکھا دیا تھا کہ عموماً جب چیونٹی ہاتھی کو کاٹتی ہے تو اس کو چاروں شانے چت کر دیتی تھی ۔
اسفند یار حاتم کی اولادوں میں سے تھا۔ عشق اس کے خون میں تھا، عا شق مزاجی نہ تھی۔ اسفند یار کی نظر جنت کے وجود پر بھٹکی اور اس نے آگے بڑھ کر اپنے ہاتھ سے شمع بجھا دی۔ اب جنت کا حسن اندھیرے میں تھا۔
’’جنت صاحبہ اپنا حجاب درست کیجئے اور یہاں سے سیدھا جاکر آپ کو پہرے دار ملے گا۔ وہ آپ کے رہائشی حصے کی طرف رہنمائی کر دے گا۔‘‘
اسفند یار اس کو ہدایت دے کر خارجی حصے کی طرف آگے بڑھ گیا ۔ اس کے آگے بڑھنے پر عبدالمطلب نے ایک نظر اندھیرے میں واپس جاتے جنت کے وجود پر ڈالی، پھر بجھی ہوئی شمع کو دیکھا۔ وہ جانتے تھے کہ شمع بجھ گئی تھی، مگر آتشِ عشق جل اٹھی تھی۔
٭…٭…٭

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے