مکمل ناول

میرے آقا: پہلا حصہ

بادشاہ کے تخت کے نیچے پانچ زینے بنائے گئے تھے ۔ ہر زینے پر درباری ان کے عہدے کے مطابق بیٹھے ہوئے تھے ۔ باقی عام درباریوں کی نشستیں فرشی قالین پر تھیں۔
بادشاہ کے تخت کے بعد سب سے اونچی نشست پر عبدالمطلب شاہ بیٹھا ہوا تھا۔ گنجا سر، سنہری رنگت، لمبی سی سفید داڑھی اور تیکھی آنکھوں میں سنگدلی…
وہ داستان کے پہلے حکمران، فاتح حاتم کا پہلا بیٹا تھا ۔ عمر ان کی ستر سال کے قریب ہوگی ۔ اصول کے مطابق ان کو داستان کے تخت پر بیٹھنا تھا ۔ مگر انہوں نے وہاں اپنے بھائی کے پوتے کو بٹھایا تھا۔
جنت کی آنکھیں کسی سوچ کے تحت سکڑ ی تھیں۔
’’ایسا کیوں؟‘‘
عبدالمطلب کی شاطر نگاہیں فوراً دہلیز پر کھڑی لڑکی کی طرف اٹھی ۔ اس نے بظاہر مسکرا کر سر خم کرکے ان کو سلام کیا اور سہج سہج کر چلتی تیسرے زینے پر رکھی نشست پر بیٹھ گئی۔ اگر وہ شاہی طبیب تھی تو اس کی وہی نشست تھی۔ وزارتی مشیروں سے کم اور عام درباریوں سے اونچی،اس کے وہاں بیٹھنے سے دربار میں اس نے غیر محسوس ہلچل محسوس کی۔ وہ ہلچل اس کی جنس کی وجہ سے تھی یا اس کی عمر کی وجہ سے ، اسے نہیں معلوم تھا۔
وہاں پر زیادہ تر چہرے اس سے کئی بڑی عمر کے تھے۔ چند ایک نوجوان بھی تھے مگر وہ فرشی نشستوں پر تھے۔ مگر ان کو اس کی عمر پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے جب سب سے اونچی نشست پر بیٹھنے والا انسان محض چوبیس سالہ نوجوان تھا ۔ اور اس شخص کا ذکر کیا جائے تو اس وقت اس کی دربار میں آمد نے ہر جی کو چوکنا کر دیا تھا ۔ اس کی آمد بغیر کسی اطلاع کے ہوئی تھی۔
’’ایسا کیوں؟‘‘ اس نے سوچا۔
محل کے اصول بدلے گئے تھے ۔ جنت نے اس بات کو کسی اور وقت کے لیے غور طلب قرار دے دیا اور خود چوکنا ہو کر بادشاہ کے اعزاز میں کھڑی ہو گئی تھی۔ اس وقت اس کو اپنے کان اور آنکھیں کھلے رکھنے کی ضرورت تھی۔ وہ اپنے ملک میں تھی، مگر دشمنوں کے درمیان تھی ۔
اسفند یار تخت پر بیٹھا تو وہ سب بھی اس کی تقلید میں بیٹھ گئے۔ وہ آج بادشاہ کے شایان شان لباس میں تھا۔ اس کی ساری توجہ عبدالمطلب کی طرف تھی جو کہ اب اس کے ساتھ والی نشست پر بیٹھا ہوا تھا۔ عبدالمطلب کے چہرے پر ناخوشگوار تاثرات تھے ۔ وہ سرگوشی میں تیز تیز کچھ بول رہا تھا ۔ دوسری طرف اسفندیار کی سرگوشیاں اس کو پرسکون کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
جنت نے یہ منظر بڑے غور سے دیکھا ۔ بالا کی بالا ان دونوں کی نظریں جنت پر اٹھیں تو اس نے فوراً نظریں جھکا لی اور کتنی دیر جھکائے رکھیں۔
کچھ دیر میں ان دونوں کی سرگوشیاں ختم ہوئی تو دربار کا آغاز ہوا۔
جنت اسفندیار کے فیصلے دیکھنا چاہتی تھی۔ مگر کچھ اور بھی تھا جو دربار میں ہونے والی گفتگو سے اس کا دھیان ہٹا رہا تھا ۔ کچھ تھا، جو اس کے دماغ میں کھٹک رہا تھا۔ مگر کیا؟ اس کو اس کا جواب نہیں مل رہا تھا۔
وہ اپنا نام سن کر اپنے خیالات سے چونکی ۔ اس کے متعلق بات ہو رہی تھی۔
’’ہمارے دادا عبدالمطلب کو اعتراض ہے کہ اتنی کم عمر دوشیزہ شاہی طبیب کے عہدے پر کیا کر رہی ہے؟‘‘ وہ اپنا نام سن کر فوراً اپنی نشست سے کھڑی ہو گئی۔
ہر آنکھ اس پر تھی۔ اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں مگر سر اٹھا ہوا تھا۔
’’جنت صاحبہ ، شہزادی گل رخ کی خاص الخاص شاگرد ہیں۔ یہ تربیت مکمل کر چکی ہیں اور قدرتی معالج ہیں اور آپ سب کو معلوم ہے کہ قدرتی معالج کتنے نایاب ہوتے ہیں۔‘‘ اسفند یار کی بات پر اس نے چونک کر اس کو دیکھا۔
اس کی صلاحیتوں کے بارے میں صرف آشیان کے چند لوگ جانتے تھے ۔ اگر بادشاہ وقت کو یہ بات معلوم تھی تو اس کا مطلب تھا کہ یا تو پھوپھی نے یہ بات اس کو بتائی تھی یا پھر …اس پھر کے آگے جنت کا دل ڈوبا۔
دربار میں بڑبڑاہٹ بڑھ گئی تھی۔ کچھ کے چہرے اس بات سے روشن ہوئے تھے تو کچھ کے غیر آرام دہ… مگر اس کا دماغ کہیں اور تھا۔
’’یا پھر کیا؟‘‘ اس نے سوچا۔
یا پھر اسفند یار کے آشیان میں جاسوس تھے۔
اسفند یار کا اگلا جملہ اس کے سر پر سے گزر گیا ۔ جب وہ خاموش ہوا تو اس نے سب کی نظریں اپنے اوپر محسوس کی ۔ اس نے گلا کھنکار کر سب کو سلام کرنے کے بعد چند جملے اپنی قابلیت، ایمانداری اور لگن کا یقین دلانے کے لیے کہے اور واپس اپنی نشست پر بیٹھ گئی۔
دربار برخاست ہوا تو طعام لانے کا حکم دیا گیا ۔ اس کو الجھن ہوئی، سابقہ حکمران کی حکومت میں کبھی بھی دربار میں دستر خوان نہیں لگتا تھا۔
سابقہ سلطان ہمیشہ کھانا اپنے حجرے میں اپنے خاندان کے ساتھ کھانا پسند کرتا تھا۔
اسفندیار کا خاندان تو ختم ہو گیا تھا۔
اس نے بادشاہ کے تخت کی طرف ذرا کی ذرا نظر کی ۔ زہر شناس اس کے سامنے رنگ رنگ کے طعام میں سے ایک تھالی میں ایک طرف سے کھانا نکال کر پہلے جانچ اور پھر چکھ رہا تھا۔ وہ زہر شناس نہیں تھی۔ مگر ایک معالج ہونے کی حیثیت سے اس کو زہر کی تشخیص کرنے کی تربیت دی گئی تھی۔ اس کی جانچ کا طریقہ صحیح نہیں تھا ۔ وہ کھانا ایک طرف سے نکال رہا تھا ۔ زہر دینے والا اس بات سے با خبر ہو سکتا تھا اور زہر کھانے کے درمیانی حصے میں ڈال سکتا تھا ۔ خاص طور پر ایسے طعام میں جس کا اس کو علم ہو کہ بادشاہ رغبت سے کھاتا تھا۔
بادشاہ نے اس کا غور کرنا غور کیا۔ اسفند یار کی آنکھیں عقاب تھی ۔ ایسے ہی تو اس نے محض پانچ سال میں داستان کے پانچ خطے فتح کر کے ہر شاہی خون رکھنے والے کو راستے سے نہیں ہٹایا تھا۔
سوائے عبدالمطلب، تخت کے اصل وارث کے… جس سے اس کو سب سے زیادہ خطرہ ہونے والا تھا۔
اس کے دماغ میں پھر سے کچھ کھٹکا تھا ۔ اس نے اپنا دھیان ہٹا کر دوبارہ اپنے سامنے رکھے طعام کی طرف کیا۔ اس کے آس پاس دشمن تھے مگر وہ سب کے سامنے اپنے کھانے میں زہر کی تشخیص کا عمل کرکے مشکوک نہیں ٹھہرنا چاہتی تھی۔ اس کا آسان طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنی قدرتی معالج کی صلاحیت استعمال کریں ۔ قدرتی معالج خدا کی طرف سے تحفہ ہوتے تھے ۔ ان سے ہر زخم، ہر دوا، ہر زہر باتیں کرتا تھا۔ وہ زمین سے نکلنے والی ہر معدنیات اور زمین پر اگنے والے ہر جڑی بوٹی کا اثر قدرتی طور پر جان جاتے تھے۔ ان کو زخم دیکھ کر معلوم ہو جاتا تھا کہ یہ کس قسم کا زخم تھا اور اس کے علاج کے لیے کس قسم کی جڑی بوٹی یا دوا کرنی چاہیے۔ مگر ان کی صلاحیتیں خام حالت میں ہوتی تھیں۔ نامکمل سی…ان کو استعمال میں لانے کے لیے تربیت کی ضرورت ہوتی تھی۔ مگر عام معالجوں کے مقابلے وہ میں جلد سیکھ جاتے تھے ۔ ان کے لیے یہ ایسا ہوتا تھا کہ جیسے مچھلی تالاب میں تیرنا سیکھ جائے۔
جس حکمت کو پہنچنے کے لیے عام انسان کو دہائیاں لگتی تھی، اس کی تربیت جنت محض بیس سال کی عمر میں مکمل کر چکی تھی۔ وہ ایک پل کے لیے آنکھیں بند کر کے مراقبے میں چلی گئی ۔ اس کا دھیان صرف اور صرف دربار میں موجود کھانوں اور ان کے اجزاء پر تھا۔ اس کے نتھنو سے مختلف کھانوں کی خوشبوئیں ٹکرائی۔ کھانے کی غذایت…فولاد، نشاستہ … وہ رکی۔ کچھ اور بھی تھا جو بے رنگ تھا، بے خوشبو تھا مگر خطرناک تھا۔
پانی…
اس نے فوراً اپنا پانی دیکھا تو وہ عام پانی تھا ۔ اس کی حسیں اس سے اونچی نشستوں کی طرف گئی اور وہاں سے ہوتی ہوئی بادشاہ کے لیے لگے دسترخوان پر پہنچی اور اس کی پانی کی صراحی پر اٹک گئی۔ زہر شناس نے صرف کھانا چکھا تھا۔ پانی نہیں پیا تھا۔ پانی اتنا بے ضرر ہوتا تھا کہ کسی کا اس طرف دھیان نہیں جاتا۔
’’کوئی مسئلہ ہے جنت صاحبہ؟‘‘ عقاب جیسی نگاہ رکھنے والے نے اس سے پوچھا۔
’’آپ کے طعام میں زہر ہے۔‘‘ اس کے منہ سے بے ساختہ پھسلا اور وہ اپنی زبان دانتوں تلے دبا گئی۔
دربار میں ایک دم سناٹا چھا گیا۔ پھوپھی صحیح کہتی تھی خ اس کی زبان ایک دن اس کو مروائے گی۔ وہ دن شاید آج کا ہی تھا۔
’’یہ کیسے ممکن ہے میں نے سب کچھ چکھا اور جانچا ہے۔‘‘ زہر شناس موسیٰ کی طرف سے احتجاج آیا۔
’’زہر پانی میں ہے۔‘‘ تیر کمان سے نکل چکا تھا ۔ اس کو اب زبان سے نکلے الفاظ کی ذمہ داری لینی تھی۔
اس کی بات دربار میں دبی دبی سرگوشیاں لے آئی تھی۔
’’آپ اس بات کو ثابت کر سکتی ہے جنت صاحبہ؟‘‘ یہ عبدالمطلب تھا۔
وہ اپنی جگہ سے اٹھی، اور بادشاہ کے دستر خوان کے سامنے آ کر بیٹھ گئی۔
’’اپنے زہر شناس کو کہیں کہ وہ یہ پانی پی لے۔‘‘
’’آشیان کے لوگ تو میں نے سنا ہے بہت رحم دل ہوتے ہیں ۔ اگر پانی میں زہر ہے تو آپ کے اس عمل سے ایک معصوم کی جان نہیں جائے گی؟‘‘ کوئی طنزاً بولا۔
’’وہ ایسا ہے بادشاہ سلامت یا تو آپ کا زہر شناس نکما ہے یا پھر وہ دشمن سے ملا ہوا ہے ۔ کیوں کہ آپ کے سامنے پڑے کئی کھانوں میں مرچوں کی مقدار زیادہ ڈالی گئی ہیں ۔ ‘‘اس نے اپنی بات کو ثابت کرنے کو لیے کچھ کھانوں میں چمچ ہلایا ۔
’’ان کھانوں کو چکھنے کے بعد پانی پینا قدرتی امر تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ پانی میں زہر ہے۔‘‘
’’کیونکہ مجھے پانی کی طلب محسوس نہیں ہوئی۔‘‘ موسیٰ کا لہجہ تیز تھا۔
جنت نے اس کے ہونٹوں کے گرد سرخ دائرے کی طرف اشارہ کیا ۔
’’میرا خیال ہے کہ کھانے میں مرچوں کی مقدار جان بوجھ کر زیادہ رکھی گئی ہے ۔ یہ آپ دیکھ سکتے ہیں اس کے ہونٹوں کے گرد سرخ دائرے تیکھا لگنے کے سبب ہیں اور ان کی آنکھوں میں بھی پانی آیا ہوا ہے۔‘‘
’’پانی کا نہ رنگ بدلہ ہے اور نہ ہی کوئی بدبو ہے۔‘‘ موسیٰ نے دفاعی انداز میں صراحی کا ڈھکن اٹھا کر دکھایا۔
’’یہ کیسا زہر شناس ہے کہ اس کو یہ نہیں معلوم کہ چند زہر ایسے ہوتے ہیں جو نہ چیز کا رنگ بدلتے ہیں اور نہ ہی ذائقہ ۔ اگر یہ سچا ہے تو اس بات کو ثابت کرنے کے لیے پانی پی لے۔‘‘ موسیٰ کے چہرے کا رنگ بدلا۔
’’پانی پیو موسیٰ!‘‘ اب کی بار حکم بادشاہ کی طرف سے آیا۔
موسیٰ نے کوئی چارہ نہ پاکر کانپتے ہاتھوں سے صراحی سے پانی پیالے میں انڈیلا۔ مگر ان کانپتے ہوئے ہاتھوں سے پانی کا پیالہ اس کے ہونٹوں تک پہنچتے پہنچتے راستے میں ہی گر گیا۔ جنت نے دیکھا کہ جیسے ہی موسیٰ اٹھنے لگا تو اس سے بھی تیزی سے پہرے دار نیزے لے کر اس کے سر پر کھڑے ہوگئے تھے۔ وہ جو موسیٰ کی گرفتاری کا حکم سننے کی منتظر تھی۔ اسفندیار کا اگلا حکم سن کر حیران رہ گئی۔
اسفند یار نے پیالا دوبارہ بھرا اور اس کی طرف بڑھا دیا۔
’’آپ کو بہت پسینہ آ رہا ہے موسیٰ! پانی پیجئے ۔ ‘‘ اس کا لہجہ دوٹوک تھا اور انداز ایسا تھا کہ جیسے وہ موسی کو آسان موت چننے کا انتخاب دے رہا ہو۔
اس کو حیرت تھی کہ کیا یہ بادشاہ کی بیوقوفی نہ تھی کہ وہ اس کو پوچھ تاچھ کے لیے زندہ نہیں رکھنا چاہتا تھا۔ اس کے لبوں پر سوال تھے مگر اب کی بار اس نے اپنے الفاظوں کو روک رکھا۔ جب دربار میں بیٹھے ہوئے بادشاہ کے خاص الخاص نے اس کے حکم پر سوال نہیں اٹھایا تھا تو وہ وہ کون ہوتی تھی؟
’’بادشاہ سلامت…‘‘ موسیٰ کراہا۔
’’پانی، موسیٰ!‘‘
موسیٰ نے کانپتے ہاتھوں سے پانی کا پیالہ تھاما اور ایک گھونٹ میں ہی پی گیا ۔ زیادہ تر پانی اس کی تھوڑی اور گریبان کو گیلا کر گیا تھا۔جنت اس زہر کے بارے میں جانتی تھی اور جانتی تھی کہ آگے کیا ہونے والا تھا۔ مگر نہ چاہتے ہوئے بھی وہ نظریں چرا گئی ۔ موت اس کے لیے نئی نہیں تھی مگر ہر بار اس کا نظارہ کرنا ضروری نہ تھا۔
’’جنت صاحبہ کیا آپ تشخیص کر سکتی ہے کہ یہ زندہ ہے یا مر گیا ہے؟‘‘
اسفندیار کے مخاطب کرنے پر وہ چونکی ۔ ہاں وہ اس عہدے پر تھی کہ اس سے ہی یہ سوال پوچھا جانا تھا۔ اس نے خود کو پرسکون کرکے زہر شناس کی طرف دیکھا ۔ اس کا جسم بے سدھ تھا اور منہ سے جھاگ نکل رہی تھی۔ اس نے اس کی گردن پر ہاتھ لگایا تو چند سانسیں باقی تھی مگر اس کے پاس زیادہ وقت نہیں تھا۔ زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ… جنت کو جلدی کرنی تھی۔
’’یہ مر چکا ہے۔‘‘
اسفند یار مسکرایا تھا۔
’’بہت خوب! یہ جگہ صاف کرکے نیا دستر خوان بچھایا جائے ۔ اب کی بار زہر کی تشخیص جنت صاحبہ کریں گی ۔ ‘‘ اس کے نئے حکم پر ایک بار پھر سے دربار میں انتشار پھیلا تھا مگر سوال کسی نے نہیں اٹھایا تھا۔
کچھ دیر میں سب کچھ ایسے صاف کردیا گیا تھا کہ وہاں پر جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ ملک کا حکمران اپنے ظہرانے کے لیے تیار تھا۔
’’اورنگزیب ظہرانے میں انسانی جان کھاتا ہے ۔ ‘‘ اس نے نہ جانے کس کے منہ سے یہ بات سنی تھی، اب دیکھ بھی لیا تھا۔
وہ موسیٰ کی جگہ پر دوبارہ بیٹھنے لگی تو اس کواپنے سامنے کھڑے پہرے دار نے متوجہ کیا۔
’’پہلے حلف…‘‘ ایک پہرے دار جلدان میں لپٹا قرآن لے کر اس کے سامنے آیا تو وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
عموماً طبیب کا دربار میں کوئی کام نہیں ہوتا ۔ وہ اس وقت حاضر ہوتا تھا جب اس کی ضرورت ہوتی تھی یا اس کو بلایا جاتا تھا ۔ وہ دربار میں اپنے حلفی بیان کے لیے تھی وہ جانتی تھی اور دعاگو تھی کہ کچھ ایسا ہو جائے کہ حلف اٹھانے کی نوبت نہ آئے۔ جس بادشاہ کو اس نے برباد کرنے کی قسم کھائی تھی، اس کی حفاظت کرنے کا حلف وہ کیسے اٹھا سکتی تھی؟
’’گستاخی معاف میرے آقا! مجھے لگا کہ اب حلف اٹھانے کی ضرورت نہیں رہی ، آخر کو میں اپنی وفاداری ثابت کر چکی ہوں ۔ ‘‘ وہ اسفند یار کو مخاطب کرکے بولی ۔ ایک ایک لفظ جیسے کسی کڑوی دوا کی طرح اگلا گیا تھا۔
’’دشمن پر کبھی بھی بھروسہ نہیں کرنا چاہیے جنت صاحبہ! آپ سے نفرت کرنے والا ہر انسان آپ کا دشمن ہوتا ہے ۔ بہرحال میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ نے آپ نے مجھے کیوں بچایا؟”
’’یہ ملک کچھ عرصے پہلے ہی جنگ سے سنبھلا ہے ۔ ناپسندیدہ ہی صحیح ، حکمران کا وجود ملک کے لیے ضروری ہوتا ہے۔‘‘ بادشاہ نے اس کودشمن گردانہ تھا تو وہ بھی اس کواس کی حیثیت کو جتانا نہیں بھولی تھی۔
ہائے یہ زبان! اس کی گردن کٹوائے گی۔
اسفند یار کے ہونٹوں کے ایک طرف خم ٹھہرا۔
’’بہت خوب… حلف۔‘‘ جنت کو اس وقت احساس ہوا کہ اسفند یار کا ہر لفظ حرف آخر اس کے تخت و تاج کی وجہ سے نہیں ہوتا تھا ۔ بلکہ کچھ لوگ منہ سے بات نکلاتے ہی پورے ہونے کے یقین کے ساتھ تھے۔ وہ تخت پر بیٹھا انسان انہی لوگوں میں سے تھا۔
اس کے کانپتے ہاتھ خدا کی آخری مقدس کتاب پر ٹھہر گئے اور اس نے وہ قسم کھائی جو اس کے دل کے عہد کے خلاف تھی۔ وہ قسم جو اس کو نبھانا تھی۔
’’میں بحیثیت شاہی طبیب ، بادشاہ اور اس کے خاندان کے علاج کے لیے اپنی ہر صلاحیت استعمال کروں گی ۔‘‘ اس نے زیادہ الفاظ استعمال کرنے سے گریز کیا۔
قسم اتنی ہی کھانی چاہیے جتنا انسان نبھا سکے اور وہ اتنی ہی قسم نبھا سکتی تھی۔
’’اور بحیثیت زہر شناس…‘‘ عبدالمطلب کی آواز نے اس کوحلف جاری رکھنے کا حکم دیا۔
’’اور بحیثیت زہر شناس اپنی پوری ایمانداری کے ساتھ بادشاہ کا ہر طعام پرکھوں گی اور کسی زہریلے مادے کو ان تک پہنچنے نہیں دو گی۔‘‘دوسرا حلف پہلے حلف سے آسان تھا۔
کھانے میں زہر دینا بزدلوں کا کام تھا اور وہ بزدل نہیں تھی کہ اپنے دشمن کی ایسے جان لے۔ وہ دل میں خنجر گھونپنے پر یقین رکھتی تھی۔ وہ عبدالمطلب کی طرف دیکھ کر مسکرائی تو اس کے دماغ میں ہوتی کھٹک پھر سے جاگ گئی۔ کچھ تو تھا جو اس کی سمجھ نہیں آرہا تھا ۔ طعام پرکھنے کے دوران اس نے بالا ہی بالا اپنے حکمران کی طرف نظر اٹھائی تو اسفند یار کی نظریں اپنے دادا پر ٹکی ہوئی تھی ۔ وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں عبدالمطلب کو نہ جانے کیا تسلی دے رہا تھا۔
عبدالمطلب کی رائے اسفند یار کے لیے اتنی اہمیت کیوں رکھتی تھی؟
جب وہ شاہی خاندان کا ہر فرد موت کے گھاٹ اتار چکا تھا تو وہ کیوں زندہ تھا۔ اس کے پانی کی طرف بڑھتے ہوئے ہاتھ ایک پل کے لیے رکے تھے۔ عبدالمطلب اسفند یار کا سگا دادا نہ تھا اور نہ ہی اسفند یار نے اس کو وزارت سونپی تھی۔ پیالے میں پانی انڈیلتے ہوئے اس کا دماغ اسی نقطے پر اٹکا ہوا تھا۔
پانی جو کہ بے رنگ اور بے ذائقہ ہوتا ہے، اپنے اندر ہر رنگ، ہر ذائقہ سب سے زیادہ جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پیالہ اپنے ہونٹوں تک لے کے جاتے ہوئے اس کے ہاتھ کچھ دیر کے لیے کسی ادراک کی گرفت میں آکر رک گئے۔ دوسرے ہی پل اس نے پانی پی کر اپنے فرض کا اختتام کیا۔
جب دربار برخاست ہوا تو اسفند یار کی نظریں اس کے ساتھ دور تک گئی تھی مگر اس کا اپنا دماغ کہیں اور تھا۔ عبدالمطلب اسفندیار کا وزیر نہیں تھا اور نہ ہی بحیثیت دادا کے اسفند یار اس کو اتنی اہمیت دیتا تھا۔ عبدالمطلب اسفندیار کا پیر تھا ۔ پیر شاہی خاندان میں مذہبی رہنما کو نہیں کہتے تھے۔ پیر بادشاہ یا ہونے والے بادشاہ کو تخت پر بیٹھنے کی تربیت دیتا تھا۔
پیر بادشاہ کا سلطان ساز ہوتا تھا۔
عبدالمطلب اسفند یار کا سلطان ساز تھا۔
٭…٭

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے