مکمل ناول

میرے آقا: پہلا حصہ

میرے آقا از صبا زین

’’اسفند یار صاحب! آشیان میں سپاہیوں کا آنا ممنوع ہیں۔ شاید آپ یہ بھول گئے ہیں کہ اس ملک کے قانون کے مطابق آشیان پر کوئی حکمران حکومت نہیں کر سکتا۔‘‘ اس نے ناگواری سے گھور کر اس کو مخاطب کرنے والی کو دیکھا۔
اسفند یار…یہ نام تو وقت کی دھول میں کہیں گم ہو گیا تھا۔
اب تو وہ بادشاہ اورنگزیب تھا۔
شاہِ داستان…
بھائیوں کا قاتل…
اسفند یار تو اس کے اندر سے نجانے کب کا ختم ہو گیا تھا۔
آشیان نامی یتیم خانے میں پلنے والی اس ذرا سی لڑکی کو زیب نہیں دیتا تھا کہ وہ بادشاہِ وقت کو اس کے نام سے پکارے۔ اس نے اس لڑکی کی بھوری آنکھوں میں دیکھا۔ وہاں صرف نفرت کا پیغام لکھا تھا۔ ایسی نفرت، جو گلستان کے تقریباً ہر شہری کی آنکھوں میں اس مسلط کیے ہوئے حکمران کے لیے تھی۔
اس نے اپنے سپاہیوں کو ہاتھ کے اشارے سے باہر رکنے کا حکم دیا اور خود گھوڑے سے اتر کر بھوری آنکھوں والی گستاخ کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ گستاخ کے چہرے پر سورج کی شعاعیں سیدھا پڑ رہی تھی ۔ وہ مقابل کھڑا ہوا تو سورج نے ناراض ہو کر اس حکمران کو دیکھا، جس نے اس کا شکار اس سے چھین لیا تھا۔
آفتاب کو نہیں معلوم تھا کہ جو اسفند یار کا شکار ہو جائے ، ان سے روشنی ناراض ہی ہو جایا کرتی تھی۔
اُس کی بھوری آنکھوں میں اسفند یار کی سیاہ آنکھوں سے زیادہ گہرائی تھی۔ آشیان کے دروازے کے سامنے سرخ اینٹوں سے بنی پکی سڑک سیدھا رہائشی عمارت کی طرف جاتی تھی، جس کے دونوں اطراف دور تک سبزہ زار بنا ہوا تھا۔ کچھ لڑکیاں کتابیں لے کر سبزے پر بیٹھی ہوئی تھیں، کچھ کے کندھوں پر بڑی بڑی ٹوکریاں تھیں جن میں وہ سب کیاریوں میں لگی ہوئی جڑی بوٹیاں چن رہی تھیں۔
اسفند یار کے یہاں قدم رکھتے ہی ہر آنکھ اور اس کے مالک کا ایک ایک عضو اس کی طرف متوجہ تھا، چاہے وہ ظاہر کریں یا نہ کریں۔
’’اصول کے مطابق آپ کو یہاں اجازت لے کر آنا چاہیے تھا۔‘‘
’’اصول کے مطابق آشیان کا دروازہ ہر کسی کے لیے کھلا ہوتا ہے۔‘‘ سینے پر ہاتھ باندھے اپنی سیاہ آنکھوں میں طوفان سے پہلے کی خاموشی لیے ہوئے وہ پہلی بار بولا تھا۔
آشیان صرف یتیم خانہ اور تربیت گاہ نہیں تھا بلکہ پناہ گاہ بھی تھی۔
بھوری آنکھیں طنزیہ مسکرائی۔
’’آشیان کے اس حصے میں صرف خواتین ہوتی ہیں۔ جن میں سے اکثر پردہ کرتی ہیں۔ اصول کے مطابق مرد حضرات کو اطلاع دے کر آنا چاہیے۔‘‘ اس لڑکی کی نہ ہی زبان لڑکھڑائی تھی نہ ہی بھوری آنکھوں میں تعظیم اتری تھی۔
اسفند یار کو یہ لڑکی پسند نہیں آنے والی تھی۔ اس نے پہلی ملاقات میں ہی فیصلہ کر لیا تھا۔
’’اصول بنانے اور توڑنے کا اختیار صرف بادشاہ وقت کے پاس ہوتا ہے۔‘‘ اس کا ایک جملہ سارے دلائل پر بھاری تھا،اُمید تھی کہ اب مقابل خاموش ہو جائے گی۔
بھوری آنکھوں میں تمسخر اترا۔
’’کیا داستان کے بادشاہ کا قانون سارے جہانوں کے بادشاہ پر بھاری ہے؟‘‘
داستان کا بادشاہ لاجواب ہو گیا تھا۔
’’جنت! یہ کیا طریقہ ہے مہمانوں سے بات کرنے کا؟‘‘ اس نئی آواز نے جنت کو خاموش کروا دیا تھا۔
جنت…وہ اس نام پر ٹھٹکا تھا ۔ اسی نام والی کی تلاش تو اس کوآشیان تک لے کر آئی تھی۔
اگر یہ وہی جنت تھی، جس کی اس کوتلاش تھی تو آج ستاروں نے ضرور اس کی ہنسی اڑائی ہوگی۔
آنے والی شخصیت کو دیکھ کر وہ فوراً مؤدب ہوکر ایک طرف کھڑی ہوگئی ۔ تماشہ دیکھنے والیاں بھی ایسے ہوگئی جیسے وہ کب سے اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھیں۔
آنے والی شخصیت کا ہر ہر عضو احترام مانگتا تھا۔ وہ اس کے سامنے کھڑی ہوئی تو اس نے تعظیماً جھک کر ان کو سلام کیا۔
’’شہزادی گل رخ…‘‘
شاہی خاندان کے مردوں کو قتل کرنے کا رواج بھلے اسفند یار نے دریافت کیا ہو، مگر شاہی خاندان کی بزرگ عورتوں کو جھک کر سلام کرنے کی روایت کو وہ نہیں بھولا تھا۔
شہزادی گل رخ نے اپنے سامنے کھڑے نوجوان کو بغور دیکھا۔ وہ ان کے تایا زاد کا بیٹا تھا جس کو اپنے سامنے دیکھنے کا ان کو پہلی بار اتفاق ہوا تھا۔ اس کے کندھے تک آتے سیاہ بال پیچھے کی طرف بندھے ہوئے تھے۔ اس کا لباس شیر کی کھال سے بنا ہوا تھا، جو کہ شاید تحفہ تھا۔ کیوں کہ جہاں سے اس کا تعلق تھا وہاں نہ تو کوئی جنگل تھا اور نہ ہی جنگلی جانور۔ البتہ وہاں کے انسان کسی خونخوار بھیڑیوں سے کم نہ تھے۔ اس کی گندمی رنگت میں صحراؤں کی سرخی گھلی ہوئی تھی، جو اس کی رنگت سیاہی مائل کر رہی تھی۔ اس کی تھوڑی کے پاس سے لے کر گردن تک خنجر کا گہرا نشان تھا۔ اس کے نقوش تیکھے تھے اور سیاہ آنکھوں میں ذہانت کے ساتھ ساتھ سنگ دلی بھی چمکتی تھی۔ اگر جنگ اور صحرا کی سختیاں نہ ہوتی تو وہ ایک خوبصورت نوجوان ہوتا۔
’’بادشاہ سلامت!‘‘ انہوں نے بھی جواباً سر کو خم دے کر سلام کیا، جھکی نہیں۔
شہزادیاں جھکتی نہیں تھیں، اسفند یار یہ جانتا تھا۔ مگر وہ یہ نہ جانتا تھا کہ شہزادیاں جھکاتی ضرور تھیں۔
’’آپ مجھے اسفندیار کہہ کر نہیں بلائے گی؟‘‘ اس کی آنکھوں میں شرارت ناچی ۔ ایسی شرارت جس میں کہیں معصومیت نہ تھی، شیطانی تھی۔
’’آپ نے مجھے میرے رشتے سے نہیں بلایا ۔ شہزادی گل رخ کا خطاب تو میں کب کا چھوڑ چکی ہوں ۔ یہاں پر سب مجھے خالہ یا پھوپھی کہہ کر بلاتے ہیں ۔ پھوپھی تو خیر آپ کی بھی لگتی ہوں مگر میرے بھائی آپ کے چچا لگتے تھے ۔ جب ان کو قتل کرتے ہوئے نہیں سوچا تو کیسی رشتہ داری۔‘‘ انہوں نے گردن اٹھا کر سامنے کھڑے حکمران کو دیکھا۔
’’میں نے سوچا کہ آشیان پر کسی بادشاہ کا راج نہیں چلتا۔‘‘ حکمران نے ذرا کی ذرا جنت کی طرف دیکھا جو کہ کسی بت کی طرح کھڑی تھی۔
’’یہ صحیح ہے ۔ یہ ہمارے دادا حاتم کا بنایا ہوا اصول تھا کہ آشیان پر کبھی بھی کوئی حکمران حکومت نہیں کرے گا ۔ میرے والد نے نہیں کی تھی، نہ میرے بھائی نے کی اور نہ ہی میرا بھتیجا کرتا اگر وہ زندہ ہوتا ۔ اس کی حدود میں کھڑا ہر انسان برابر ہوتا ہے۔‘‘ انہوں نے تؤقف کیا، پھر جنت کی طرف ایک نظر دیکھا اور بولی۔
’’بہرحال آپ ہمارے مہمان ہیں ۔ مہمانوں کے آنے کا راستہ دوسری طرف سے ہیں۔‘‘ انہوں نے اس کو دوسری طرف چلنے کا اشارہ کیا تو اس نے ہاتھ اٹھا کر منع کر دیا۔
’’میں جس کام سے آیا تھا، وہ تو ہو گیا۔‘‘
’’جی؟‘‘
’’مجھے یہ لڑکی چاہیے۔‘‘ اس نے جنت کی طرف اشارہ کیا۔
اسفند یار نے غور کیا کہ اس کے جملے کے ساتھ ہی باغیچے میں موجود ہر وجود میں ایک نامحسوس کیے جانے والی بے چینی پھیل گئی تھی۔
اس نے اس گستاخ لڑکی کا رد عمل دیکھا تو اس کا جسم تناؤ کا شکار تھا اور اس کے ہونٹ بھینچے ہوئے تھے ۔ اس نے شہزادی گل رخ کی طرف دیکھا، بظاہر وہ پرسکون تھی مگر ان کی آنکھوں میں طوفان وہ محسوس کر سکتا تھا۔
’’آپ شاید بھول گئے ہیں آشیان کی کوئی لڑکی بھی کسی مرد کی کنیز یا حرم کا حصہ نہیں بنے گی ۔ بشرطیکہ کوئی نکاح کا خواہش مند ہو۔‘‘
’’اصول کے مطابق ہر نئے سلطان کا شاہی طبیب آشیان سے ہی ہوتا ہے ۔ تو یہ لڑکی حرم کا نہیں، دربار کا حصہ بنے گی ۔‘‘ اس نے سکون سے جواب دیا۔
وہ اس کو گستاخی کے بدلے میں دربار میں جگہ دے رہا تھا۔ وہ ایک سخی دل بادشاہ تھا، ان کو یقین کرنا چاہیے تھا۔
’’آپ اس کے بارے میں جانتے ہی کیا ہے؟‘‘ وہ شہزادی تھی اور بزرگ تھی، اس لیے بادشاہ سے بحث کرنے کا حق رکھتی تھی۔ ورنہ یہ جرات کسی اور میں کہاں تھی؟
’’کیا یہاں کوئی اور بھی جنت ہے؟ اگر نہیں ہے تو میں اس کے بارے میں پہلے سے ہی جان چکا ہوں اور مجھے مزید جاننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’اس سے بہتر طبیب ہے۔‘‘
’’مجھے یہی چاہیے۔‘‘ بادشاہ کا ارادہ پختہ تھا۔
’’یہ ابھی کم عمر ہے اور…‘‘ شہزادی ابھی بھی بضد تھی۔
’’اس کی تربیت مکمل ہے۔‘‘ بادشاہ کی معلومات بھی مکمل تھی۔
’’میرے بھائی کا طبیب…‘‘
’’اس نے مجھے زہر دینے کی کوشش کی تھی۔‘‘
’’زہر تو میں بھی دے سکتی ہوں۔‘‘ جنت کے لب خاموش تھے، مگر نجانے کیسے اس کو سنائی دے دیا تھا۔
’’آشیان کے باسی اپنے حلف کو بہت عزیز رکھتے ہیں ۔ یہ بھی کام سے پہلے حلف لے لیں گی۔‘‘ کہا شہزادی کو گیا تھا، سنایا جنت کو تھا۔
وہ جنت جو اس کے سامنے حد ادب بھول گئی تھی۔ آشیان کی دیواروں سے نکلے گی تو یاد آ جائے گا کہ حکومت کون کرتا تھا؟
’’آپ کو ایک مرد طبیب رکھنا چاہیے۔‘‘ شہزادی نے ایک آخری حربہ آزمایا۔
’’آپ تو عورتوں کی فلاح و بہبود کی باتیں کرتی ہیں شہزادی! تو کیا آپ ایک لڑکی کو میرے دربار کا حصہ بنانے پر ڈرتی ہیں؟‘‘ اب کی دلیل نے شہزادی کا منہ بند کر دیا۔
’’بہت خوب!‘‘ وہ جنت کی طرف مڑی۔
’’اپنا سامان تیار کر لو۔‘‘
’’مگر آپ کی غیر موجودگی میں…‘‘ جنت نے احتجاجاً کچھ کہنا چاہا۔
’’میں یہاں موجود ہوں جنت۔‘‘ ان کا دوٹوک لہجہ جنت کا منہ بند کر گیا۔
’’میری وہاں جاکر عزت رکھنا اور سب سے ان کے عہدے کے مطابق بات کرنا۔‘‘ شہزادی کے لہجے میں تنبیہہ تھی ۔ وہ جنت کی زبان اور اس کے مزاج کو جانتی تھی۔ اپنی یہ شاگردہ ان کو بے حدعزیز تھی، وہ نہیں چاہتی تھی کہ کسی گستاخی کے الزام میں وہ سولی پر لٹکا دی جائے۔
’’اب مجھے اجازت ہے۔‘‘ اس نے ایک بار پھر سے تعظیماً شہزادی کے سامنے سر کے خم سے سلام کیا ۔
’’اور امید کرتا ہوں کہ میں جب واپس محل پہنچوں گا تو جنت صاحبہ وہی پر ہو گی۔‘‘ اس کے ہونٹوں پر بڑی کمینی سی مسکراہٹ تھی ۔ جس میں فتح چھلکتی تھی۔ اس نے اپنے سپاہیوں کو چلنے کا اشارہ کیا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان بھوری آنکھوں سے نکلتے شعلے اس کوبھسم کر دینا چاہتے تھے۔مگر بادشاہوں کو ان باتوں سے کیا فرق پڑتا تھا؟
اگر کوئی ایسے جل کر مر سکتا تو وہ چھ سال پہلے ہی خاک ہو چکا ہوتا ۔ جب ایسی ہی بھوری آنکھوں میں اس کے لیے آگ لگی تھی۔
نہیں… یہ وہ لڑکی نہیں تھی ۔ وہ جو کوئی بھی تھی، وہ کبھی اس کا سامنا کرنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ دل سے دعا گو تھا۔ مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اب اس کی دعاؤں میں اب کوئی اثر باقی تھا بھی یا نہیں۔
٭…٭
دربار عام طور پر مردوں کا ہوتا تھا ۔ اگر وہاں کوئی عورت ہوتی بھی تھی تو وہ بادشاہ کے پاس بیٹھی ہوئی ملکہ ہوتی تھی مگر اب بادشاہ کے ساتھ والی کرسی خالی تھی۔ وہاں پر کسی زمانے میں بڑی نرم سی مسکراہٹ والی ملکہ بیٹھتی تھی ۔ اس کی لمبی پلکوں تلے سنہری آنکھیں تھیں اور اس کی ملائی جیسی رنگت میں لالیاں گھلی ہوئی تھی۔ اس کے گالوں پر آنکھوں کے حلقے کے نیچے بے انتہا بھورے تل تھے جو اس کے ناک تک پھیلے ہوئے تھے۔ وہ تل اس کی خوبصورتی کو اور بڑھاتے تھے۔ اب وہاں کوئی ملکہ نہ تھی، نہ کوئی مسکراہٹ تھی اور نہ ہی بھورے تل…
وہاں پر زیادہ تر کرخت چہرے والے مرد تھے ۔ جن کے چہرے تیز دھوپ سے سنولائے ہوئے تھے ۔ نہ ہی ان کی تاریک آنکھوں میں نرمی تھی ۔ اگر ان کے چہرے پر کوئی بھورا تل تھا بھی تو ان کی گہری رنگت میں میں دکھائی نہی دیتا تھا۔
وہ دربار میں داخل ہوئی تو ہر آنکھ اس پر تھی ۔ گلستان کی صرف زمین ہی رنگین نہیں تھی بلکہ وہاں کے لوگوں میں بھی رنگ تھے ۔ وہاں کے باشندے سرخ و سفید رنگت کے تھے جن کے بال اور آنکھیں ہلکے رنگ کی ہوتی تھیں۔اس کے برعکس صحرانگر کے لوگوں کی قدرتی رنگت کچھ بھی ہو، مگر تیز دھوپ اور پانی کی کمی ان کی رنگت گہری اور جلد سخت کر دیتی تھی۔
دوسری طرف تخت پر بیٹھنے والے چاہے کسی بھی خطے سے ہو دور سے ہی پہچانے جاتے تھے ۔ فاتح حاتم کے نقوش عربی تھے اور رنگت سنہری اور بال سیاہ گھنگریالے تھے۔ داستان کے ہر خطے پر فاتح حاتم کے بیٹے کی اولاد حکومت کرتی تھی ۔ اس لیے شاہی خاندان کے نقوش کھڑے اور رنگت سنہری ہوتی تھی۔ سوائے گلستان کی شاہی حکومت کے۔
گلستان پر حکومت کرنے والا بیٹا ان کی دوسری بیوی سے تھا جو کہ وہاں کی شہزادی تھی ۔ ان کا وہ بیٹا اپنے رنگوں پر اپنی ماں پر گیا تھا اور نقوش اپنے باپ کے چرائے تھے۔ گلستان کے شاہی خاندان کے نقوش تیکھے اور بال سرخ ہوتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے بالوں کی وجہ سے ہر جگہ پہچان لیے جاتے تھے۔
صحرا نگر کے ساتھ پوٹھوہاری خطہ بھی اسفند یار کے ساتھ جنگ میں شریک تھا۔ اس لیے دربار میں صحرا نگر کے علاوہ کچھ پوٹھوہاری چہرے بھی نمایاں تھے ۔ ان کی رنگت صحرا کے باسیوں کے مقابلے میں صاف تھی اور جلد ان کے علاقے کی طرح پتھریلی تھی۔ ان کی بڑی بڑی تیکھی آنکھیں سیاہ اور بھوری کے علاوہ سنہری بھی ہوتی تھیں۔ اتنے چہروں کے درمیان اس کی بھوری آنکھیں ایک چہرے پر رک گئی ۔

1 2 3 4 5اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے