افسانے

مٹی کی خوشبو : ماہ نوراحمد

وہ پردیس ضرور گیا تھا مگر اپنے دیس کے در وبام بھولا نہیں تھا ۔ اُس کی آنکھوں میں بیتے سمے کے چراغ وقت کے ساتھ جلتے اور بُجھتے رہتے تھے۔
اپنے گھر کی مٹی بیس سال بعد بھی اُس کے سامان میں موجود تھی،جس کی خوشبو آج بھی اُسے ماضی کے دریچوں میں کھینچ لے جاتی تھی ۔ اُسے یاد آتا ‘عید کے دن صبح کاذب کے وقت جاگنا ، کلف والا سفید کرتا اور شلوار پہنے اچھے سے تیار ہونا ۔ سویوں کی خوشبو پر باورچی خانے کی اَور دیوانہ وار بھاگنا،ماں کا ڈپٹنا اور پھر خوب سیر ہو کر والد اور بڑے بھائی کے ساتھ عید پڑھنے مسجد چلے جانا۔
سارا دن ننھیال اور ددھیال سے عیدی اکٹھی ہوتی ، اور شام کو وہ سکے گننے بیٹھتا تو سب پوچھتے ’’علیم تیری عیدی کتنی بنی اے ؟کچھ سانوں وی دے دو۔‘‘
وہ خطرہ بڑھتے دیکھ پیسے جھولی میں ڈالتا اور ماں کی آغوش میں چھپ جاتا ۔ سب اُس کی معصومیت پر خوب ہنسا کرتے ۔ اور یہ قہقہہ سال میں صرف عید کے دن ہی اُس کی سماعتوں سے ٹکراتا تھا ۔ اُس کا بچپن دکھ بھرا تھا ۔ غربت نے اس کنبے کے نقوش بھی دھندلا دیے تھے ۔ خواہشوں کے چراغ اپنی ہی آگ میں جل کر راکھ ہو گئے تھے۔
اُس کا سب کچھ ادھورا رہا تھا ۔ خواب،خواہشیں اور پڑھائی بھی ۔ طلب وقت پر پوری نہ ہو تو اُکتاہٹ میں بدل جاتی ہے۔
اُسے وہ خوشگوار موسم نصیب نہیں ہوا تھا کہ وہ کھل کر سانس لے سکے ۔ چار سُو اُسے حسرتوں کی گردو غبار ہی دکھائی دی تھی۔
وقت سے پہلے بڑا اور سمجھدار ہو جانا بھی نرا عذاب ہوتا ہے۔
والدین کی کسمپرسی کی حالت یاد آنے پر وہ چالیس برس کا مضبوط مرد ہوتے ہوئے بھی رو پڑتا تھا ۔ کیسے وہ ضرورتیں پوری کرنے کے لیے دن رات محنت و مشقت کرتے تھے۔مگر بچوں کے لیے ہمیشہ ہمہ تن گوش رہتے تھے ۔بچپن کی سرحد پار کیے جب وہ جوانی کے خوشنما دور میں محو خرام ہوا تو زندگی کی تلخ حقیقتوں سے اُس کا جابجا واسطہ پڑتا رہا ۔ عمر کی بیسویں بہار دیکھتے ہی اُس نے رخت سفر باندھ لیا تھا ۔
درختوں کی اُوٹ میں نظر آتے عید کے چاند میں نگاہیں اُلجھائے وہ اُداس سا مسکرا دیا ۔ وہ اپنے خوبصورت گھر کے دروازے کی مرمریں سیڑھیوں پر بیٹھا تھا ۔ اُس کے چہرے پر نامکمل مسکان اور آنکھوں میں حزن وملال کا سیلاب موجزن تھا ۔
بیس برس کی عمر میں اُس نے اپنے ملک کو خیر آباد کہا تھا ۔ پہلے حسب ضرورت ذریعہ معاش اور پھر کچھ بن جانے کی جہت مسلسل۔
شادی،جب بچے ہو گئے تو ان کے روشن مستقبل کے لیے جانفشانی سے کام میں سرگرداں رہا ۔ انسان کی حرص کبھی ختم نہیں ہوتی ۔ وہ بھی کسی حد تک لالچ میں پڑ گیا تھا۔بہتر سے بہترین کی تگ ودو نے اُسے تھکنے نہیں دیا تھا ۔ جب پل بھر کو سستانے کی غرض سے وہ رکا اور اُس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اُسے بوڑھے ماں باپ کی ڈُبڈباتی منتظر آنکھیں دکھائی دیں ۔ وہ بے چین ہو گیا ‘ اُس کا دل واپسی کے لیے مچلنے لگا ۔ یہ سوچ کر کہیں یہ منتظر آنکھیں قبر کی مٹی کی چادر نہ اُوڑھ لیں۔
جیسے ہی عید کا چاند اُفق پر ظاہر ہوا ، اُس کا دل ڈوب گیا ۔ بیتے سمے کی یادیں اُس کے ذہن پر حاوی ہو گئی تھیں ۔ اس دفعہ اُس کی شدت سے تمنا تھی کہ یہ عید اپنے وطن میں ، اپنوں کے ساتھ منائی جائے ۔ مگر اُس کے ولایتی بچے اس بات پر راضی نہیں ہوئے تھے ۔ غلط وہ بھی نہیں تھے ۔ اب جس ماحول میں وہ پروان چڑھے تھے،جیسی آزادی انہیں میسر رہی تھی ۔ بھلا وہ محض باپ کی خواہش پر کیسے تیاگ سکتے تھے؟وہاں تو سب کی اپنی زندگی پر صرف اپنا ہی حق سمجھا جاتا ہے،کسی اور کا نہیں۔یہاں تک کہ والدین کا بھی نہیں۔
لیکن اُس کے بچے بے راہ روی کا شکار نہیں مہذب مگر آزادی پسند ضرور تھے ۔ اس تمام بحث و مباحثہ کے بعد وہ مایوس ہو کر ٹوٹے دل کے ساتھ باہر بیٹھ کر تاروں بھرے آسمان کو تکنے لگا تھا ۔تاروں سے اُس کی پرانی شناسائی تھی ۔ وہ بچپن میں کھلے آسمان تلے چارپائی پر چت لیٹ کر خوب تارے گنا کرتا تھا ۔ یہ اُس کا پسندیدہ مشغلہ رہا تھا ۔ یا شاید یہ ہر بچے کا مشغلہ ہوتا ہے؟
کندھے پر نرم ہاتھ کے دباؤ پر اُس کے وجود کو چونکنے کا ہلکا سا جھٹکا لگا ۔ اُس نے چہرے کا رُخ موڑ کر نگاہیں شریکِ حیات پر جمائیں ۔ اِن شدت بھری نظروں میں وہ اکثر کھو جایا کرتی تھی ۔ جب بھی اُس کی آنکھوں میں یادوں کے چراغ جلتے تو اس روشنی میں اُس کی پاکیزہ روح کا عکس عیاں ہو جاتا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اُس کے رنگ میں رنگ گئی تھی ۔ اپنی انگلش تہذیب و ثقافت کو پسِ پشت ڈال کر ایک رنگین خوابوں کا سا گھر بنایا تھا ۔جس میں لازوال محبت اور وفا کے پھول سجائے تھے ۔ اور ان پھولوں کی مہک سے ان کی روح ہر لحظہ معطر رہتی تھی ۔ علیم حیدر کا وہ گھر خوابوں کا جزیرہ لگتا تھا ۔ اُس کی شریکِ حیات نیک بخت خاتون تھی ۔ پھولوں کی سوداگر سچے اور کھرے سودے کرتی تھی ۔ اور خود اُس شخص کی وفا اور مخلصی کے حوض بن داموں بِک گئی تھی۔
’’چلیں۔‘‘
وہ نہیں سمجھا اور ابرو اُٹھا کر پوچھا۔
’’کہاں؟‘‘
’’ وہیں جہاں کی مٹی کو سینے سے لگائے رکھتے ہو۔‘‘
وہ حیرت زدہ چہرہ اُس کی سمت دیکھنے پر مجبور ہو گیا۔اور بے یقینی کے گرداب سے نکل نہ سکا۔
’’ بچے… ؟‘‘
اسے ان کی فکر تھی۔وہ ہی تو اب اُس کی اُمیدِ سحر تھے۔
’’ اُن کو میں نے منا لیا ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی خوشی اور آسودگی اُس کی آنکھوں میں آنسو بن کر اُمڈ آئی ۔ پیارے وطن کی مٹی کی پوٹلی کو ہتھیلی پر رکھے وہ ہنسنے لگا ۔ اتنے میں اُس کی شریک سفر نے اپنا ہاتھ بھی اُس پر جما دیا ۔ روئے زمین پر یہ خوبصورت نظارہ دیکھ کر اُفق پر چمکتا عید کا چاند بھی کسی پھول کی مانند کِھل گیا تھا۔

ختم شد

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے