ناولٹ

مان جاؤ : عاتکہ ایوب

’’سوری مگر مجھے یہی وقت مناسب لگا ۔ ‘‘ اس نے آہستگی سے کہا توفرخ نے غور سے اسے دیکھا۔
اس کے بدلے بدلے انداز اسے چو نکا رہے تھے۔ یہ پسپائی تو کبھی بھی اس کے مزاج کا حصہ نہیں رہی تھی۔
’’ بولو۔‘‘ اب کی بار اس کا لہجہ قدرے ہموار تھا
’’ وہ میں تم سے معذرت کرنے آئی ہوں اس دن کے لیے ۔ پتہ نہیں مجھے کیا ہو گیا تھا آئی ایم سوری۔‘‘ اس نے ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا
’’ ٹھیک ہے اور کچھ۔‘‘ اس کے سپاٹ لہجے پر عفرہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ اس کا بے تاثر چہرہ دیکھ کر عفرہ کے حوصلے پست ہونے لگے۔
’’ اس دن وہ سب میں نے غصے میں بے سوچے سمجھے بول دیا تھا ۔ میں یہ رشتہ ختم نہیں کرنا چاہتی۔ تم وہ رنگ مجھے واپس کردو۔‘‘ اس نے اٹک اٹک کر بات مکمل کی تھی۔ فرخ کے تاثرات ایکدم بدلے تھے۔ قدم بہ قدم چلتا وہ بالکل اس کے سامنے آن رکا۔
’’ بہت خوب محترمہ جب آپ کا دل چاہا رشتہ توڑ دیا جب دل چاہا جوڑ لیا ۔ میں، میری ذات، میری رائے کچھ اہمیت نہیں رکھتے تمہاری نظر میں ۔ کاٹھ کا الو سمجھا ہے کیا جسے تم اپنی مرضی سے جیسے چاہے چلا لو گی۔‘‘ اس کے ہاتھ عفرہ کے کندھوں پر گڑ گئے تھے۔ لہجے میں شعلوں کی سی لپک تھی۔ اس کے خطرناک تیور دیکھتے وہ گھبرا کر پیچھے ہٹی تھی۔
’’ویسے وضاحت کرنا پسند کرو گی کہ رات ورات مجھ جیسے تنگ نظر آدمی میں ایسی کون سی خصوصیات پیدا ہو گئیں جو آپ نے اپنا فیصلہ تبدیل کر لیا۔‘‘ سینے پر ہاتھ لپیٹتے اس نے استہزائیہ انداز میں پوچھا تو وہ پشیمانی سے سر جھکا گئی۔
’’ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہے ۔ میں نے بہت کم ظرفی کاظاہرہ کیا ۔ تنگ نظری تم میں نہیں میری محدود سوچ میں تھی ۔ میں مانتی ہوں مجھ سے غلطی ہوئی ہے میں نے تمہیں بہت ہرٹ کیاہے۔آئی ایم سوری…‘‘ وہ رو ہانسی ہوئی۔۔سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا بولے بہرحال یہ بگاڑ اسی کا پیدا کردہ تھا۔
’’ تو تم مان رہی ہو تم سے غلطی ہوئی ہے۔‘‘ وہ اس کی جانب قدرے جھک کر بولا تو اس نے اثبات میں سر ہلادیا۔
’’ تو پھر غلطی کی سزا تو بنتی ہے۔‘‘
’’ تم جو بھی بولو گے مجھے منظور ہے۔‘‘ وہ اس کی بات سنتے ہی جھٹ سے بولی تھی۔ اس کی بات پر وہ مسکرادیا
’’کم از کم’’اس وقت ’’تمہیں میرے سامنے یہ بات نہیں کہنی چاہیے ۔ ‘‘ اس کے گھمبیر لہجے پر عفرہ کا دل زور سے دھڑکا تھا۔
پہلی دفعہ اسے رات کے اس پہر ان دونوں کے درمیان تنہائی کا احساس ہوا تھا۔
’’ مم…میں چلتی ہوں ۔‘‘ عجلت سے کہتی وہ دروازے کی جانب بڑھی تو وہ آگے بڑھ کر اسے روک گیا۔
’’ اپنی سزاتو سنتی جاؤ۔‘‘
عفرہ کے قدم وہیں تھم گئے تھے۔ قدرے بے یقینی سے اس نے فرخ کو دیکھا تو کیا وہ واقعی اب اس سے بدلہ لے گا۔
’’تم…تم ایسے تو نہیں تھے فرخ۔‘‘ اس کی بات پر وہ استہزائیہ مسکرایا
’’ میرے یہ رویے آپ ہی کی مرہون منت ہیں ۔‘‘ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے اس نے کہا تو وہ نظریں چرا گئی۔
’’ سزا کا اختیار تم مجھے دے چکی ہو۔ اب تم میرے فیصلے کا انتظار کرو۔‘‘
اس کے الفاظ پر عفرہ نے گھبرا کراسے دیکھا ۔ کہیں وہ یہ رشتہ واقعی ختم تو نہیں کر رہا۔اس کے اندر کئی خدشات سر اٹھانے لگے۔
’’تم ایسا ویسا کچھ نہیں کرو گے۔‘‘ وہ قدرے کمزور لہجے میں بولی تو فرخ کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ دوڑ گئی۔
’’ مجھے کچھ بھی کرنے کے لیے تمہاری اجازت درکار نہیں ہے ۔‘‘ اس کے ٹھنڈے لہجے پر وہ لب کاٹ کر رہ گئی مارے بے بسی کے آنکھوں میں آنسو آگئے۔
’’ اب آپ جانا پسند کریں گی یا ادھر ہی قیام کا ارادہ ہے ۔‘‘ ابرو اچکا کر اس نے پوچھا تو وہ سٹپٹا کر دروازے کی جانب بڑھی تھی۔
دروازہ اپنے پیچھے بند کرتے اس نے خود کو نارمل کرنے کے لیے گہرے گہرے سانس لیے تھے ۔آگے کیا ہو گا؟ ایک بڑا سوالیہ نشان اس کا منہ چڑا رہا تھا۔
٭…٭…٭
اگلے دن وہ وہاں سے چلی آئی تھی ۔ ثریا نے اسے بروقت عقل آجانے پر شکر ادا کیا تھا ۔ دونوں جانب سے شادی کی بھرپور تیاریاں جاری تھیں۔ وہیں اس کا دل اندیشوں سے لرزتا رہتا تھا ۔ فرخ نے اس سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا ۔ خود اس نے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو ہر مرتبہ اس کی کال کاٹ دی۔ جانے وہ اس کے ساتھ کیا سلوک کرنے والا تھا۔
’’ اگر اس نے عین نکاح کے ٹائم انکار کردیا۔‘‘ نئے سے نئے خدشات اسے ستاتے رہتے تھے وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی۔
’’نہیں،نہیں وہ ایسا کچھ نہیں کرے گا۔‘‘ اس نے خود کو تسلی دی یہ اور بات کہ یہ تسلی اسے بہلاوا ہی لگی تھی۔
دن گویا پر لگا کر اڑ رہے تھے ۔ شادی میں محض ہفتہ ہی باقی تھا ۔ اس کی خالہ زاد اورچچازاد کزنوں نے گھر میں ڈھیرے جما لیے تھے ۔ تقریباً روز ہی بازار کے چکر لگ رہے تھے ۔ اسے بھی ساتھ میں گھسیٹا جاتا مگر اس کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی ۔ اس وقت بھی وہ قدرے بے دلی سے ان کی لائی چیزیں دیکھ رہی تھی ۔ جب اچانک فائزہ نے ایک بڑا سا ڈبہ اٹھا کر اس کے سامنے رکھ دیا۔
’’ اسے کھولو ذرا۔‘‘ انہوں نے معنی خیز سی مسکراہٹ سے کہا تو کچھ ناسمجھی سے اس نے ڈبے کی پیکنگ کھو لنی شروع کی ۔
ڈبہ کھلتے ہی اس کی آنکھیں خیرہ ہوئیں ۔ ڈیپ ریڈ کلرکی پیروں کو چھوتی دیدہ زیب کام والی میکسی نے سب کی توجہ کھینچ لی تھی ۔ عفرہ کی آنکھوں میں بھی ستائش اتر آئی تھی۔
’’ فرخ نے خود پسند کی ہے۔‘‘ فائزہ کے بتانے پر اوہ کی آواز بلند ہوئی تھی۔
ہر کوئی اس کی پسند کی داد دے رہا تھا ۔ کوئی اور وقت ہوتا تو وہ بھی دل کھول کر ان کے تبصروں سے لطف اندوز ہوتی مگر اس وقت دل کی کیفیت ایسی تھی کہ کچھ بھی اچھا نہ لگ رہا تھا۔ اس نے بے دلی سے لباس ایک طرف ڈال دیا۔ فائزہ نے بغور اس کا رد عمل دیکھا تھا۔
’’ کیا ہوا عفرہ پسند نہیں آیا تمہیں۔ ہم چینج کروا لیتے ہیں۔‘‘ ان کے پوچھنے پر وہ سٹپٹا گئی۔
’’ نہیں آنی بہت اچھا ہے مجھے بہت پسند آیا ہے۔ ‘‘ اب کی بار وہ واقعی دل سے بولی تھی جبھی انہوں نے مطمئن ہو کر سر ہلادیا۔
’’چلو لڑکیوں یہ سب سامان سمیٹ دو۔‘‘ ثریا دوسری لڑکیوں سے مخاطب ہوئیں تھیں۔ ان کے ہنسی مذاق سے بے نیاز وہ اپنی ہی سوچوں میں غلطاں تھی۔
’’ایک طرف تو وہ بدلہ لینے کی بات کررہا تو دوسری طرف اس کے لیے خریداری کررہا ہے تو کیا وہ اسے معاف کر چکا ہے۔‘‘ اس کا دل ایک پل کو خوش فہم ہوا تھا۔
’’ یہ پھر یہ سب وہ دنیا دکھاوے کو اپنا بھرم رکھنے کے لیے کر رہا ہے آخر کو سب کی نظروں میں اس کا امیج بے حد تابعدار اور سعادت مند بچے کا تھا ۔ ‘‘کچھ سمجھی نا سمجھی کی کیفیت لیے وہ نئی الجھنوں کا شکار ہوئی بیٹھی تھی۔
٭…٭…٭
آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے اپنے سجے سنورے روپ کو دیکھا تھا ۔ زرد لباس میں ملبوس پھولوں کا زیور پہنے اس کا چہرہ کسی بھی قسم کے میک اپ سے مبرّہ تھا ۔ چہرے پر چھائی حزن و ملال کی کیفیت نے اس کے سوگوار حسن کو عجیب سی جاذبیت دے رہی تھی ۔ آج اس کی مہندی تھی۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی فرخ کے ساتھ اس کا نکاح ہوا تھا جبکہ مہندی کا فنکشن کمبائن رکھا گیا تھا ۔ فضا اس کی کزن ابھی اسے تیار کرکے باہر نکلی تھی۔
اس وقت کمرے میں وہ اکیلی ہی تھی۔ فرخ کے گھر والے مہندی لے کے آچکے تھے۔باہر اس کے کزنز نے ہنگامہ برپا کیا ہوا تھا۔
بیڈ سے ٹیک لگائے وہ آنکھیں موندے بیٹھی تھی ۔ دل کی کیفیت بے حد عجیب سی ہو رہی تھی ۔ ماں باپ کو چھوڑنے کا دکھ، فرخ کی ناراضی،آگے کی زندگی کے اندیشے ساری کیفیات گڈ مڈ سی ہو رہی تھیں ۔ آنسو خوامخواہ ہی امڈے چلے آرہے تھے۔ اس نے بھی کھل کر انہیں بہنے دیا تھا۔
جبھی ہلکی سی آواز سے دروازہ کھلا تھا ۔ اسے لگا فضا چائے لے کر آئی ہو گی سو آنکھیں موندے بیٹھی رہی مگر کئی لمحوں تک جب فضا کی آواز نہ آئی ۔ اس نے کچھ اچھنبے سے آنکھیں کھول کر اسے تلاشنا چاہا تو نگاہ سامنے جا رکی ۔ سفید براق سوٹ میں ملبوس اپنی تمام تر وجاہت کے ساتھ وہ چہرے پر بے پناہ سنجیدگی لیے وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا جبکہ اسے یوں غیرمتوقع طور پر اپنے سامنے پاکر وہ بوکھلا کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔ یوں اچانک اٹھنے سے دونوں ہاتھوں میں موجود چوڑیوں نے جلترنگ سا بجایا تھا۔
’’تم… مم میرا مطلب ہے آپ یہاں۔‘‘
’’ہوں تمہاری ایک امانت تھی میرے پاس وہی لوٹانی تھی ۔ ‘‘
وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اس کے سامنے آن کھڑا ہوا اور بھر پور نظروں سے اس کے سجے سنورے روپ کو دیکھا۔ اس کی نظروں کے ارتکاز پر عفرہ کی نظریں آپوں آپ ہی جھکتی چلی گئیں۔
’’ کک…کون سی امانت۔۔‘‘ اس نے خشک ہوتے لبوں پر زبان پھیری۔ وہ اب کیا کرنے والا تھا۔
’’ ہاتھ دو اپنا۔‘‘ اس نے مطا لبہ کیا تو عفرہ نے لاشعوری طور پر ہاتھ چھپانے کی کوشش کی ۔ اس کی یہ کوشش فرخ کی آنکھوں سے مخفی نہ رہی تھی جبھی اس نے آگے بڑھ کر خود ہی اس کا ہاتھ اپنی مضبوط گرفت میں لیا تھا۔
عفرہ نے قدرے ہراساں ہو کر اسے دیکھا تھا ۔ اس کے چہرے کے سنجیدہ تاثرات اس کا دل دہلا رہے تھے ۔ اس کی نظروں سے بے نیاز وہ جیب میں ہاتھ ڈالے کچھ کھنگالنے میں مصروف تھا۔
’’ کیا کر رہے ہو تم ۔ ‘‘ وہ بولی تو لہجہ اندیشوں سے پر تھا۔
’’ بتایا تو ہے امانت لوٹانے آیا ہوں ۔ ‘‘ اس نے سیدھے ہوتے ہوئے اس کی آنکھوں میں جھانکا ۔ جذبوں سے بھر پور چمکتی سیاہ آنکھیں ۔ عفرہ نے نظریں چرا لیں۔
’’ میں نے تم سے کہا تھا کے میرے فیصلے کا انتظار کرنا تو…‘‘ وہ ایک ثانیے کو رکا۔
عفرہ کا دل اچھل کے حلق میں آیا تھا وہ کیا فیصلہ کرنے جا رہا تھا ۔ آنکھیں بند کیے وہ اپنی سزا کی منتظر تھی۔
’’ دیکھنا نہیں چاہو گی۔ اتنی بزدل تو تم کبھی بھی نہ تھی عفرہ حماد ۔ ‘‘ اس کی مسکراتی آواز پر اس نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا جو اس کا ہاتھ تھامے اس میں رنگ پہنا رہا تھا ۔ وہی رنگ جو وہ اس دن اس کے منہ پر مار آئی تھی۔عفرہ کی آنکھیں ایکدم سے پوری کھلیں تھیں ۔ بے یقینی سے اس نے فرخ کو دیکھا جو مسکراتے ہوئے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
’’ پسند آیا میرا فیصلہ۔‘‘ وہ اس کی جانب قدرے جھک کر بولا
’’ تم مجھ سے ناراض نہیں ہو اب،تم نے مجھے معاف کردیا ۔‘‘ وہ مسرت و بے یقینی میں گھری اس سے پوچھ رہی تھی جواباً اس نے ایک طویل سانس لیا۔
’’ معاف تو خیر میں نے اسی دن کر دیا تھا جس دن تم میرے کمرے میں آئی تھی ۔ باقی سب ایک ڈرامہ تھا تمہیں ہلکا سا سبق دینے کے لیے جو تم مجھے بے نقط سنا کر منٹوں میں منگنی توڑ کر چلی آئی تھی ۔ ‘‘ اس کے کہنے پر وہ پھر سے پشیمانی میں گھری تھی۔
’’ آئی ایم سوری۔میں نے بہت غلط کیا تھا ۔ میرے الفاظ بہت ہارش تھے۔ پتا نہیں مجھے کیا ہو گیا تھا ۔‘‘ نظریں جھکا کر کہتی ہوئی وہ فرخ کو اپنے دل کے بے حد قریب محسوس ہوئی تھی۔ دل کی رو ایک دم بدلی تھی۔
’’خالی خولی سوری کے بجائے تم کوئی عملی طریقہ کیوں نہیں اپناتی ۔ یقین کرومیں فوراً مان جاؤں گا۔‘‘
اس کے معنی خیز لہجے پر وہ سٹپٹا کر پیچھے ہوئی مگر کلائی اس کی مضبوط گرفت میں آگئی۔
’’ یہ کیا بات ہوئی بیوی کام کی بات آتے ہی تم دور بھاگنے لگتی ہو ۔ ‘‘ اس کی وارفتہ نگاہوں سے عفرہ کے رخسار تپ اٹھے تھے۔
معنی خیز سرگوشیاں اسے خود میں سمٹنے پر مجبور کر رہیں تھیں۔ بدگمانیاں کہیں اڑنچھو ہو چکیں تھیں۔ اس پل یہاں صرف محبتوں کا راج تھا۔

ختم شد

گھبرا کر وال کلاک کی جانب دیکھا جو گیارہ بجنے کا اعلان کر رہا تھا۔
’’سوری مگر مجھے یہی وقت مناسب لگا ۔ ‘‘ اس نے آہستگی سے کہا توفرخ نے غور سے اسے دیکھا۔
اس کے بدلے بدلے انداز اسے چو نکا رہے تھے۔ یہ پسپائی تو کبھی بھی اس کے مزاج کا حصہ نہیں رہی تھی۔
’’ بولو۔‘‘ اب کی بار اس کا لہجہ قدرے ہموار تھا
’’ وہ میں تم سے معذرت کرنے آئی ہوں اس دن کے لیے ۔ پتہ نہیں مجھے کیا ہو گیا تھا آئی ایم سوری۔‘‘ اس نے ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا
’’ ٹھیک ہے اور کچھ۔‘‘ اس کے سپاٹ لہجے پر عفرہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ اس کا بے تاثر چہرہ دیکھ کر عفرہ کے حوصلے پست ہونے لگے۔
’’ اس دن وہ سب میں نے غصے میں بے سوچے سمجھے بول دیا تھا ۔ میں یہ رشتہ ختم نہیں کرنا چاہتی۔ تم وہ رنگ مجھے واپس کردو۔‘‘ اس نے اٹک اٹک کر بات مکمل کی تھی۔ فرخ کے تاثرات ایکدم بدلے تھے۔ قدم بہ قدم چلتا وہ بالکل اس کے سامنے آن رکا۔
’’ بہت خوب محترمہ جب آپ کا دل چاہا رشتہ توڑ دیا جب دل چاہا جوڑ لیا ۔ میں، میری ذات، میری رائے کچھ اہمیت نہیں رکھتے تمہاری نظر میں ۔ کاٹھ کا الو سمجھا ہے کیا جسے تم اپنی مرضی سے جیسے چاہے چلا لو گی۔‘‘ اس کے ہاتھ عفرہ کے کندھوں پر گڑ گئے تھے۔ لہجے میں شعلوں کی سی لپک تھی۔ اس کے خطرناک تیور دیکھتے وہ گھبرا کر پیچھے ہٹی تھی۔
’’ویسے وضاحت کرنا پسند کرو گی کہ رات ورات مجھ جیسے تنگ نظر آدمی میں ایسی کون سی خصوصیات پیدا ہو گئیں جو آپ نے اپنا فیصلہ تبدیل کر لیا۔‘‘ سینے پر ہاتھ لپیٹتے اس نے استہزائیہ انداز میں پوچھا تو وہ پشیمانی سے سر جھکا گئی۔
’’ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہے ۔ میں نے بہت کم ظرفی کاظاہرہ کیا ۔ تنگ نظری تم میں نہیں میری محدود سوچ میں تھی ۔ میں مانتی ہوں مجھ سے غلطی ہوئی ہے میں نے تمہیں بہت ہرٹ کیاہے۔آئی ایم سوری…‘‘ وہ رو ہانسی ہوئی۔۔سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا بولے بہرحال یہ بگاڑ اسی کا پیدا کردہ تھا۔
’’ تو تم مان رہی ہو تم سے غلطی ہوئی ہے۔‘‘ وہ اس کی جانب قدرے جھک کر بولا تو اس نے اثبات میں سر ہلادیا۔
’’ تو پھر غلطی کی سزا تو بنتی ہے۔‘‘
’’ تم جو بھی بولو گے مجھے منظور ہے۔‘‘ وہ اس کی بات سنتے ہی جھٹ سے بولی تھی۔ اس کی بات پر وہ مسکرادیا
’’کم از کم’’اس وقت ’’تمہیں میرے سامنے یہ بات نہیں کہنی چاہیے ۔ ‘‘ اس کے گھمبیر لہجے پر عفرہ کا دل زور سے دھڑکا تھا۔
پہلی دفعہ اسے رات کے اس پہر ان دونوں کے درمیان تنہائی کا احساس ہوا تھا۔
’’ مم…میں چلتی ہوں ۔‘‘ عجلت سے کہتی وہ دروازے کی جانب بڑھی تو وہ آگے بڑھ کر اسے روک گیا۔
’’ اپنی سزاتو سنتی جاؤ۔‘‘
عفرہ کے قدم وہیں تھم گئے تھے۔ قدرے بے یقینی سے اس نے فرخ کو دیکھا تو کیا وہ واقعی اب اس سے بدلہ لے گا۔
’’تم…تم ایسے تو نہیں تھے فرخ۔‘‘ اس کی بات پر وہ استہزائیہ مسکرایا
’’ میرے یہ رویے آپ ہی کی مرہون منت ہیں ۔‘‘ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے اس نے کہا تو وہ نظریں چرا گئی۔
’’ سزا کا اختیار تم مجھے دے چکی ہو۔ اب تم میرے فیصلے کا انتظار کرو۔‘‘
اس کے الفاظ پر عفرہ نے گھبرا کراسے دیکھا ۔ کہیں وہ یہ رشتہ واقعی ختم تو نہیں کر رہا۔اس کے اندر کئی خدشات سر اٹھانے لگے۔
’’تم ایسا ویسا کچھ نہیں کرو گے۔‘‘ وہ قدرے کمزور لہجے میں بولی تو فرخ کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ دوڑ گئی۔
’’ مجھے کچھ بھی کرنے کے لیے تمہاری اجازت درکار نہیں ہے ۔‘‘ اس کے ٹھنڈے لہجے پر وہ لب کاٹ کر رہ گئی مارے بے بسی کے آنکھوں میں آنسو آگئے۔
’’ اب آپ جانا پسند کریں گی یا ادھر ہی قیام کا ارادہ ہے ۔‘‘ ابرو اچکا کر اس نے پوچھا تو وہ سٹپٹا کر دروازے کی جانب بڑھی تھی۔
دروازہ اپنے پیچھے بند کرتے اس نے خود کو نارمل کرنے کے لیے گہرے گہرے سانس لیے تھے ۔آگے کیا ہو گا؟ ایک بڑا سوالیہ نشان اس کا منہ چڑا رہا تھا۔
٭…٭…٭
اگلے دن وہ وہاں سے چلی آئی تھی ۔ ثریا نے اسے بروقت عقل آجانے پر شکر ادا کیا تھا ۔ دونوں جانب سے شادی کی بھرپور تیاریاں جاری تھیں۔ وہیں اس کا دل اندیشوں سے لرزتا رہتا تھا ۔ فرخ نے اس سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا ۔ خود اس نے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو ہر مرتبہ اس کی کال کاٹ دی۔ جانے وہ اس کے ساتھ کیا سلوک کرنے والا تھا۔
’’ اگر اس نے عین نکاح کے ٹائم انکار کردیا۔‘‘ نئے سے نئے خدشات اسے ستاتے رہتے تھے وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی۔
’’نہیں،نہیں وہ ایسا کچھ نہیں کرے گا۔‘‘ اس نے خود کو تسلی دی یہ اور بات کہ یہ تسلی اسے بہلاوا ہی لگی تھی۔
دن گویا پر لگا کر اڑ رہے تھے ۔ شادی میں محض ہفتہ ہی باقی تھا ۔ اس کی خالہ زاد اورچچازاد کزنوں نے گھر میں ڈھیرے جما لیے تھے ۔ تقریباً روز ہی بازار کے چکر لگ رہے تھے ۔ اسے بھی ساتھ میں گھسیٹا جاتا مگر اس کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی ۔ اس وقت بھی وہ قدرے بے دلی سے ان کی لائی چیزیں دیکھ رہی تھی ۔ جب اچانک فائزہ نے ایک بڑا سا ڈبہ اٹھا کر اس کے سامنے رکھ دیا۔
’’ اسے کھولو ذرا۔‘‘ انہوں نے معنی خیز سی مسکراہٹ سے کہا تو کچھ ناسمجھی سے اس نے ڈبے کی پیکنگ کھو لنی شروع کی ۔
ڈبہ کھلتے ہی اس کی آنکھیں خیرہ ہوئیں ۔ ڈیپ ریڈ کلرکی پیروں کو چھوتی دیدہ زیب کام والی میکسی نے سب کی توجہ کھینچ لی تھی ۔ عفرہ کی آنکھوں میں بھی ستائش اتر آئی تھی۔
’’ فرخ نے خود پسند کی ہے۔‘‘ فائزہ کے بتانے پر اوہ کی آواز بلند ہوئی تھی۔
ہر کوئی اس کی پسند کی داد دے رہا تھا ۔ کوئی اور وقت ہوتا تو وہ بھی دل کھول کر ان کے تبصروں سے لطف اندوز ہوتی مگر اس وقت دل کی کیفیت ایسی تھی کہ کچھ بھی اچھا نہ لگ رہا تھا۔ اس نے بے دلی سے لباس ایک طرف ڈال دیا۔ فائزہ نے بغور اس کا رد عمل دیکھا تھا۔
’’ کیا ہوا عفرہ پسند نہیں آیا تمہیں۔ ہم چینج کروا لیتے ہیں۔‘‘ ان کے پوچھنے پر وہ سٹپٹا گئی۔
’’ نہیں آنی بہت اچھا ہے مجھے بہت پسند آیا ہے۔ ‘‘ اب کی بار وہ واقعی دل سے بولی تھی جبھی انہوں نے مطمئن ہو کر سر ہلادیا۔
’’چلو لڑکیوں یہ سب سامان سمیٹ دو۔‘‘ ثریا دوسری لڑکیوں سے مخاطب ہوئیں تھیں۔ ان کے ہنسی مذاق سے بے نیاز وہ اپنی ہی سوچوں میں غلطاں تھی۔
’’ایک طرف تو وہ بدلہ لینے کی بات کررہا تو دوسری طرف اس کے لیے خریداری کررہا ہے تو کیا وہ اسے معاف کر چکا ہے۔‘‘ اس کا دل ایک پل کو خوش فہم ہوا تھا۔
’’ یہ پھر یہ سب وہ دنیا دکھاوے کو اپنا بھرم رکھنے کے لیے کر رہا ہے آخر کو سب کی نظروں میں اس کا امیج بے حد تابعدار اور سعادت مند بچے کا تھا ۔ ‘‘کچھ سمجھی نا سمجھی کی کیفیت لیے وہ نئی الجھنوں کا شکار ہوئی بیٹھی تھی۔
٭…٭…٭
آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے اپنے سجے سنورے روپ کو دیکھا تھا ۔ زرد لباس میں ملبوس پھولوں کا زیور پہنے اس کا چہرہ کسی بھی قسم کے میک اپ سے مبرّہ تھا ۔ چہرے پر چھائی حزن و ملال کی کیفیت نے اس کے سوگوار حسن کو عجیب سی جاذبیت دے رہی تھی ۔ آج اس کی مہندی تھی۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی فرخ کے ساتھ اس کا نکاح ہوا تھا جبکہ مہندی کا فنکشن کمبائن رکھا گیا تھا ۔ فضا اس کی کزن ابھی اسے تیار کرکے باہر نکلی تھی۔
اس وقت کمرے میں وہ اکیلی ہی تھی۔ فرخ کے گھر والے مہندی لے کے آچکے تھے۔باہر اس کے کزنز نے ہنگامہ برپا کیا ہوا تھا۔
بیڈ سے ٹیک لگائے وہ آنکھیں موندے بیٹھی تھی ۔ دل کی کیفیت بے حد عجیب سی ہو رہی تھی ۔ ماں باپ کو چھوڑنے کا دکھ، فرخ کی ناراضی،آگے کی زندگی کے اندیشے ساری کیفیات گڈ مڈ سی ہو رہی تھیں ۔ آنسو خوامخواہ ہی امڈے چلے آرہے تھے۔ اس نے بھی کھل کر انہیں بہنے دیا تھا۔
جبھی ہلکی سی آواز سے دروازہ کھلا تھا ۔ اسے لگا فضا چائے لے کر آئی ہو گی سو آنکھیں موندے بیٹھی رہی مگر کئی لمحوں تک جب فضا کی آواز نہ آئی ۔ اس نے کچھ اچھنبے سے آنکھیں کھول کر اسے تلاشنا چاہا تو نگاہ سامنے جا رکی ۔ سفید براق سوٹ میں ملبوس اپنی تمام تر وجاہت کے ساتھ وہ چہرے پر بے پناہ سنجیدگی لیے وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا جبکہ اسے یوں غیرمتوقع طور پر اپنے سامنے پاکر وہ بوکھلا کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔ یوں اچانک اٹھنے سے دونوں ہاتھوں میں موجود چوڑیوں نے جلترنگ سا بجایا تھا۔
’’تم… مم میرا مطلب ہے آپ یہاں۔‘‘
’’ہوں تمہاری ایک امانت تھی میرے پاس وہی لوٹانی تھی ۔ ‘‘
وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اس کے سامنے آن کھڑا ہوا اور بھر پور نظروں سے اس کے سجے سنورے روپ کو دیکھا۔ اس کی نظروں کے ارتکاز پر عفرہ کی نظریں آپوں آپ ہی جھکتی چلی گئیں۔
’’ کک…کون سی امانت۔۔‘‘ اس نے خشک ہوتے لبوں پر زبان پھیری۔ وہ اب کیا کرنے والا تھا۔
’’ ہاتھ دو اپنا۔‘‘ اس نے مطا لبہ کیا تو عفرہ نے لاشعوری طور پر ہاتھ چھپانے کی کوشش کی ۔ اس کی یہ کوشش فرخ کی آنکھوں سے مخفی نہ رہی تھی جبھی اس نے آگے بڑھ کر خود ہی اس کا ہاتھ اپنی مضبوط گرفت میں لیا تھا۔
عفرہ نے قدرے ہراساں ہو کر اسے دیکھا تھا ۔ اس کے چہرے کے سنجیدہ تاثرات اس کا دل دہلا رہے تھے ۔ اس کی نظروں سے بے نیاز وہ جیب میں ہاتھ ڈالے کچھ کھنگالنے میں مصروف تھا۔
’’ کیا کر رہے ہو تم ۔ ‘‘ وہ بولی تو لہجہ اندیشوں سے پر تھا۔
’’ بتایا تو ہے امانت لوٹانے آیا ہوں ۔ ‘‘ اس نے سیدھے ہوتے ہوئے اس کی آنکھوں میں جھانکا ۔ جذبوں سے بھر پور چمکتی سیاہ آنکھیں ۔ عفرہ نے نظریں چرا لیں۔
’’ میں نے تم سے کہا تھا کے میرے فیصلے کا انتظار کرنا تو…‘‘ وہ ایک ثانیے کو رکا۔
عفرہ کا دل اچھل کے حلق میں آیا تھا وہ کیا فیصلہ کرنے جا رہا تھا ۔ آنکھیں بند کیے وہ اپنی سزا کی منتظر تھی۔
’’ دیکھنا نہیں چاہو گی۔ اتنی بزدل تو تم کبھی بھی نہ تھی عفرہ حماد ۔ ‘‘ اس کی مسکراتی آواز پر اس نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا جو اس کا ہاتھ تھامے اس میں رنگ پہنا رہا تھا ۔ وہی رنگ جو وہ اس دن اس کے منہ پر مار آئی تھی۔عفرہ کی آنکھیں ایکدم سے پوری کھلیں تھیں ۔ بے یقینی سے اس نے فرخ کو دیکھا جو مسکراتے ہوئے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
’’ پسند آیا میرا فیصلہ۔‘‘ وہ اس کی جانب قدرے جھک کر بولا
’’ تم مجھ سے ناراض نہیں ہو اب،تم نے مجھے معاف کردیا ۔‘‘ وہ مسرت و بے یقینی میں گھری اس سے پوچھ رہی تھی جواباً اس نے ایک طویل سانس لیا۔
’’ معاف تو خیر میں نے اسی دن کر دیا تھا جس دن تم میرے کمرے میں آئی تھی ۔ باقی سب ایک ڈرامہ تھا تمہیں ہلکا سا سبق دینے کے لیے جو تم مجھے بے نقط سنا کر منٹوں میں منگنی توڑ کر چلی آئی تھی ۔ ‘‘ اس کے کہنے پر وہ پھر سے پشیمانی میں گھری تھی۔
’’ آئی ایم سوری۔میں نے بہت غلط کیا تھا ۔ میرے الفاظ بہت ہارش تھے۔ پتا نہیں مجھے کیا ہو گیا تھا ۔‘‘ نظریں جھکا کر کہتی ہوئی وہ فرخ کو اپنے دل کے بے حد قریب محسوس ہوئی تھی۔ دل کی رو ایک دم بدلی تھی۔
’’خالی خولی سوری کے بجائے تم کوئی عملی طریقہ کیوں نہیں اپناتی ۔ یقین کرومیں فوراً مان جاؤں گا۔‘‘
اس کے معنی خیز لہجے پر وہ سٹپٹا کر پیچھے ہوئی مگر کلائی اس کی مضبوط گرفت میں آگئی۔
’’ یہ کیا بات ہوئی بیوی کام کی بات آتے ہی تم دور بھاگنے لگتی ہو ۔ ‘‘ اس کی وارفتہ نگاہوں سے عفرہ کے رخسار تپ اٹھے تھے۔
معنی خیز سرگوشیاں اسے خود میں سمٹنے پر مجبور کر رہیں تھیں۔ بدگمانیاں کہیں اڑنچھو ہو چکیں تھیں۔ اس پل یہاں صرف محبتوں کا راج تھا۔

ختم شد

پچھلا صفحہ 1 2 3 4

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے