ناولٹ

مان جاؤ : عاتکہ ایوب

’’ آپ چلیں گے۔‘‘ اب وہ اشفاق صاحب سے مخاطب تھا۔
’’ ہاں ہاں چلو۔‘‘ وہ بھی ساتھ ہی اٹھ کھڑے ہوئے۔
ان دونوں کے جاتے ہی گھر میں خاموشی سی چھا گئی تو اس نے بھی سکون کا سانس لیا۔
’’ بہت اچھا بچہ ہے فرخ۔ اشفاق سے بہت اٹیچ بھی ہے رونق لگائے رکھتا ہے۔ فیضان تو مستقل امریکہ ہوتا ہے اور ریان کو آئے دن کہیں نہ کہیں جانا پڑتا ہے ۔ ایسے میں اس کی وجہ سے بہت سہارا ہو جاتا ہے ۔ ‘ ‘ فائزہ چائے کے مگ تھامیں اس کے پاس آن بیٹھیں ۔ فرخ کے لیے ان کے لہجے میں بے پناہ محبت تھی۔
کچھ دن پہلے تک اس کی یہ فکر اس کے لیے بھی تھی ۔ اس نے بے اختیار ہی سوچا مگر پھر فوراً ذہن کو جھٹک دیا۔
’’ آنی آپ کی اور انکل کی کتنی اچھی انڈرسٹینڈنگ ہے ۔ انکل آپ کی ہر بات مانتے ہیں ۔ ‘‘ اس نے قصداً بات کا رخ بدلا ۔
’’ باہمی ہم آہنگی کسی بھی رشتے کی خوبصورتی کو بڑھاتی ہے ۔ کچھ منوانے کے لیے بہت کچھ ماننا پڑتا ہے ۔ میں اور تمہارے انکل اسی اصول پر کاربند ہیں ۔ ‘‘ انہوں نے کہا۔
’’ فرخ تو میری ایک بات کا بھی مان نہیں رکھ سکا ۔ ‘‘ دل کی بات لبوں پر آہی گئی تھی اس کے شکوہ آمیز لہجے پر فائزہ مسکرادیں ۔
وہ قصداً اس سے اس موضوع پر بات نہیں کر رہی تھیں پر اب یہ ٹاپک اس نے خود ہی شروع کر لیا تو ان کے خیال میں یہ اچھا موقع تھا اسے سمجھانے کا۔
’’ دیکھو چندا! ابھی میں نے کہا کہ کچھ منوانے کے لیے کچھ ماننا بھی پڑتا ہے ۔ میاں بیوی کے رشتے میں خاص طور پر یہ بات بہت اہم ہوتی ہے ۔ آپ ان کی ایک بات مان کر اپنی سو باتیں ان سے منوا سکتے ہو۔‘‘ وہ ایک ثانیے کے لیے رکیں۔
’’ فرخ نے آپ کی بات نہیں مانی تو کیا آپ نے اس کی بات کا مان رکھا ۔ ‘‘ ان کے سوالیہ انداز پر وہ نظریں جھکا گئی۔
’’ لوجکلی اگر دیکھا جائے تو یہاں غلطی بھی آپ کی تھی ۔ فرخ نے کوئی غلط بات نہیں کی تھی مگر تم نے اسے انا کا مسئلہ بنا لیا ۔ ضد اور ہٹ دھرمی سے رشتے تباہ تو ہو سکتے ہیں پھل پھول نہیں سکتے ۔ تم بتاؤ اس سے پہلے فرخ نے کبھی کوئی بات زبردستی منوائی ہو تم سے…‘‘ سوچنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ اس کا سر نفی میں ہلا تھا۔
’’ وہ تنگ نظر نہیں ہے۔ تمہارے لیے پروٹیکٹو ہے ۔ کوئی بھی مرد نہیں چاہے گا کہ اس کی بیوی کی خوبصورتی دوسروں کو متوجہ کرے ۔ ہم دوسروں کے دیکھنے پر پابندی نہیں لگا سکتے لیکن اپنی ذات کی حد تک تو ہمارا اختیار ہے نا کہ خود کو جہاں تک ہو سکے محفوظ کریں ۔ ‘‘ ان کی باتیں اس کے ذہن سے بدگمانی کے پردے ہٹاتی جارہیں تھیں۔
’’ تمہیں پتہ ہے میں نے فیضان کی شادی پر ساڑھی کیوں نہیں باندھی سب کے پر زور اصرار کے باوجود ۔ ‘‘ ان کے استفسار پر اس نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا ۔
اسے یاد تھا کہ ان سب نے فیضان کے ولیمے پر ساڑھیاں باندھنے کا پلان کیا تھا مگر فائزہ نہیں مانیں تھیں اور سب کو یہی کہا کہ وہ اس میں کمفرٹیبل نہیں رہتیں۔
’’ اشفاق صاحب کو پسند نہیں ہے ساڑھی بالکل بھی ۔ انہوں نے ایک دفعہ منع کیا تو میں نے ان کی بات مان لی اور دوبارہ کبھی ساڑھی کی طرف دیکھا بھی نہیں ۔ اسی طرح فیضان کی پیدائش پر میری مصروفیت بہت بڑھ گئی تھی کالج کی جاب، پھر لکھنا لکھانا اور سب سے بڑھ کر فیضان کی مصروفیت ۔ اشفاق صاحب چاہتے تھے میں جاب چھوڑ دوں حالانکہ پڑھانا میرا خواب تھا جنوں کی حد تک مجھے شوق تھا ۔ میں چاہتی تو جاب نہ چھوڑتی،اڑ جاتی لیکن میں نے ان کی بات مان لی ۔ مجھے اپنے گھر کا سکون عزیز تھا ۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے مجھے خو دوبارہ جاب کی اجازت دی ۔ نا صرف یہ بلکہ ریان کی مرتبہ انہوں نے فل ٹائم ملازمہ میرے لیے ارینج کی۔ ‘‘
’’ انا،ضد، اکڑ یہ انسانوں کو اور رشتوں کو صرف توڑتی ہے ۔ بیٹا تھوڑا سا جھک کر ہم خود کو بہت بلند کرسکتے ہیں ۔ رویوں میں لچک بہت ضروری ہوتی ہے یہ لچک برداشت لاتی ہے ہم میں ۔ بہت کچھ سہنے کی ہمت دیتی ہے جو جھکتے نہیں ہیں وہ ٹوٹ جاتے ہیں۔‘‘
’’ لیکن آنی کیا ضروری ہے کی قربانی صرف عورت ہی دے، ہمیشہ عورت ہی کیوں جھکے۔‘‘ اس نے سوال داغا۔
’’ نہیں بیٹا ہر گز نہیں۔ توازن دونوں طرف سے برابر ہونا چاہیے مگر عورت میں فطری طور ہر لچک زیادہ ہوتی ہے ہو ہر طرح کے حالات میں خود کو ایڈ جسٹ کر لیتی ہے۔اس لیے یہ توقع بھی زیادہ عورت سے رکھی جاتی ہے۔ مرد آزاد پنچھی کی مانند ہے اسے باندھ کر رکھنے کا یہی ایک طریقہ ہے ۔ اس کی ایک مانو وہ آپ کی سو مانے گا ۔ اسے زیادہ ضد دکھاؤ گے تو وہ نئی منزلوں کی طرف اڑے گا ۔ ‘‘ انہوں نے سوچ کے نئے در اس پر وا کیے تھے۔
’’ لیکن تم پر کوئی زور زبردستی نہیں ہے تم اچھے سے سوچ لو ۔ بے فکر رہو تمہارا جو بھی فیصلہ ہوا میں تمہیں پوری طرح سپورٹ کروں گی اور ثریا کو بھی سمجھاؤں گی۔‘‘ انہوں نے گیند اس کے کورٹ میں ڈال دی تھی۔
٭…٭…٭
اگلا سارا دن اس نے کمرے میں بند رہ کر ہی گزارا تھا ۔ فائزہ کی باتوں کو سوچتے وہ خود احتسابی کے عمل سے گزر رہی تھی ۔ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچا تو اسے غلطی اپنی ہی نظر آئی تھی ۔ اپنے شدید رد عمل پر اب اسے پشیمانی ہورہی تھی ۔ نام نہاد انا میں آکر وہ خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار بیٹھی تھی ۔ یہ سچ تھا کہ فرخ نے کبھی کسی معاملے کولے کر اس پر زور زبردستی نہیں کی تھی بلکہ ہمیشہ اس کی رائے کو وہ مقدم جانتا تھا ۔ وہ انگوٹھی اس کے منہ پہ مار آئی تھی مگر اس نے کسی سے ذکر تک نہ کیا اور خود اس نے کس کم ظرفی کا مظاہرہ کیا تھا ۔ اس نے غصے سے اپنے لب چبا ڈالے ۔ جبھی کمرے کا دروازہ ہلکے سے بجایا گیا تھا اور پھر فائزہ دروازہ کھول کر اندر آگئیں۔
’’ عفرہ کیا بات ہے بیٹا ہے طبیعت ٹھیک ہے تمہاری ۔ ‘‘ ان کی نرم انگلیاں ان کے بالوں میں سرسرا رہی تھیں ۔ اس کے اندر کی اکھاڑ پچھاڑ سے وہ بخوبی واقف تھیں تاہم قصداً انجان بنیں ۔ وہ چاہتیں تھیں کہ وہ خود اپنی محاسبہ کرے اور اس کی الجھی بکھری کیفیت گواہ تھی کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہی ہیں۔
’’ جی آنی میں ٹھیک ہوں بس وہ آنکھ لگ گئی پتا ہی نہیں چلا۔‘‘ اس نے بال درست کرتے خود کو ہشاش بشاش دکھانے کی کوشش کی۔
’’ تو پھر جلدی سے فریش ہو کر نیچے آجاؤ۔ تمہاری پسندیدہ بریانی بنائی ہے ۔ ریان بھی آگیا ہے اور تمہارا پوچھ رہا ہے ۔ ‘‘ انہوں نے مسکراتے ہوئے اطلاع دی تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’ آپ چلیں میں بھی آرہی ہوں۔‘‘
’’ بائی داوے یہ ہمارا گھر ڈیٹنگ پوائنٹ میں کب سے بدل گیا ۔ تم بھی یہاں وہ محترمہ بھی ادھر‘چکر کیا ہے آخر ۔ ‘‘ ریان کی آواز ٹی وی لاؤنج سے آرہی تھی ۔ عفرہ کے قدم وہیں تھم گئے۔
’’ محض اتفاق! تم اپنے اس چھوٹے سے ذہن پر زیادہ بوجھ نہ ڈالو ۔ ‘‘ فرخ کی مسکراتی آواز آئی۔
’’ایسے حسین اتفاق ہمارے ساتھ تو کبھی نہ ہوئے ۔ جب کبھی پھوپھو کے گھر گئے ان کی ساس سے ہی شرف ملاقات حاصل ہوا ۔ ‘‘ اس کے بیچارگی سے کہنے پر وہ ہنسا تھا جبکہ عفرہ کے لبوں ہر بھی مسکراہٹ دوڑ گئی۔
’’ یہ بتاؤ زارا کو رنگ کب پہنا رہے ہو ۔‘‘
’’ ابا محترم صاف الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ انگوٹھی وہ خود جا کر پہنائیں گے ۔ یو نو پھوپھو لوگ ان چیزوں کو خاص پسند نہیں کرتے ۔ ویسے بڑی پھوپھو تو ان معاملات میں چھوٹی پھو پھو سے بھی زیادہ قدامت پسند ہیں تو تم نے ان کو کیسے منا لیا تھا کمبائن انگیجمنٹ پر ۔ ‘‘ ریان کے استفسار پر عفرہ کو جھٹکا سا لگا ۔
اسے یاد تھا امی نے اسے جب اسے بتایا کہ فرخ کے گھروالے روایتی سے لوگ ہیں تو منگنی کا فنکشن کمبائن نہیں ہو گا تو اسے بہت قلق ہوا تھا اور اس نے فرخ سے اس بات کا شکوہ بھی کیا تھا ۔ پھر منگنی کا فنکشن کمبائن ہی ہوا تھا گو انگوٹھی اس کی ساس نے پہنائی تھی مگر فرخ بھی ساتھ آیا تھا ۔ یقیناً اس کے پیچھے بھی فرخ کا ہاتھ ہوگا ۔ اس نے عفرہ کی خواہش کو مقدم رکھا تھا ۔ اپنی خوشی میں وہ یہ بات بھول ہی گئی تھی کہ اس نے اپنے گھر والوں کو کیسے راضی کیا ہوگا ۔ اب ریان کی زبانی یہ انکشاف سن کر اسے مزید پشیمانی نے آن گھیرا تھا۔
دل کے بوجھ میں مزید اضافہ ہوا تھا۔
’’ بس اپنا اپنا ٹیلنٹ ہے۔‘‘ ریان کو جواب دیتے اس کی نظر یونہی باہر جا پڑی ۔
دروازے میں لہراتا نیلا دوپٹہ اسے چونکا گیا ۔ جب سے وہ آیا تھا وہ اسے نظر نہیں آئی تھی چاہتے نا چاہتے اس کی متلاشی نظریں اسی کو تلاش کررہی تھیں۔
’’ ارے عفرہ وہاں کیوں کھڑی ہواندر آؤ ناں۔‘‘ اس کی نظروں کے تعاقب میں ریان نے بھی دروازے کی جانب دیکھا تو اسے آواز دے ڈالی ۔
وہ قدرے جھجھک کر اندر آئی تھی ۔ نیلا سوٹ شکنوں سے بھرا تھا ۔ بے ترتیب سے بال اور چہرے پر چھائی حزن کی کیفیت ۔ وہ بغور اسے دیکھ رہا تھا جبکہ وہ اس کی نظروں کے ارتکاز سے گھبرا سی گئی تھی۔
’’ آپ کب آئے ریان بھائی۔‘‘ وہ پھیکا سا مسکرائی۔
’’ میں تو ستائیس سال پہلے تشریف لا چکا ہوں تم کہاں غائب تھی اور تمہاری طبیعت بھی مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی ۔ ‘‘ ریان کے پوچھنے پر اس نے دذدیدہ نظروں سے فرخ کو دیکھا وہ بھی ادھر ہی دیکھ رہا تھا ۔ نظروں کا تصادم بے حد معنی خیز تھا۔ عفرہ نے گھبرا کر نظریں چرا لیں۔
’’ میری طبیعت بالکل ٹھیک ہے بس سونے کی وجہ سے طبیعت بوجھل سی ہو رہی ہے ۔‘‘ قدرے پزل سا ہو کر اس نے جواب دیا۔
’’ اچھا تو پھر ایسا کرو ہمارے لیے چائے بنا لاؤ ۔ ‘‘ ریان کے کہنے پر وہ فوراً ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔ فی الوقت وہ اس پوزیشن میں نہ تھی کہ اس کا سامنا کرپاتی۔
’’ یہ تم کیا ٹکٹکی باندھ کر میری بہن کو تاڑ رہے تھے ۔ یاد رکھو میری غیرت کسی بھی وقت جاگ سکتی ہے ۔ ویسے تم دونوں کے درمیان سب ٹھیک تو ہے ۔ عفرہ کچھ پریشان لگ رہی ہے۔‘‘ عفرہ کے جانے کے بعد وہ فرخ سے مخاطب ہوا۔ لہجہ قدرے کھوجتا ہو تھا۔
’’ بے فکر رہو تمہاری بہن پریشان ہونے والوں میں سے نہیں پریشان کرنے والوں میں سے ہے۔‘‘ وہ استہزائیہ مسکرایا
’’ پھر بھی پوچھو تو سہی کیوں پریشان ہے ۔ ‘‘ ریان قدرے سنجیدہ تھا عفرہ اسے چھوٹی بہنوں کی طرح ہی عزیز تھی۔
’’ تم پوچھنا چاہو تو بصدِ شوق‘ میں فی الحال ایسا کوئی حق محفو ظ نہیں رکھتا ۔‘‘ وہ آرام سے دامن بچا گیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔
’’ ارے کہاں چلے؟ چائے تو پیتے جاؤ۔‘‘ ریان نے چونک کر اسے اٹھتے دیکھ کر کہا۔
’’ پھر کبھی سہی،ابھی ایک ضروری کام سے جانا ہے۔‘‘ وہ باہر نکل آیا۔ کچن کے سامنے سے گزرتے اس کے قدم تھم گئے تھے۔ چائے چولہے پر چڑھائے وہ جانے کن سوچوں میں گم تھی۔
’’ چہرے پر دکھوں کا اشتہار لگا کر تم کیا ثابت کرنا چاہ رہی ہوں ۔‘‘ اس کے سرد لہجے پر وہ اچھل کر رہ گئی ۔ قدرے سراسیمہ سی ہو کر اس نے فرخ کو دیکھا جو آنکھوں میں درشتی لیے اس سے مخاطب تھا۔
’’ اماں واپس آجائیں تو ان سے بات کرتا ہوں ۔ تمہارے حسب منشا فیصلہ ہو جائے گا ۔ تمہیں مزید اس ناپسندیدہ رشتے کا بوجھ ڈھونے کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ ‘‘
ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے اس نے کہا۔ وہ جو اس کے تیور دیکھ کر گھبرائی کھڑی تھی اس کے الفاظ پر چکرا سی گئی۔
’’ میں…وہ تم…غلط سمجھ رہے ہو ۔ ‘‘ اس کے الفاظ بے ربط ہو رہے تھے۔ زبان کی تیزی نجانے کہاں جا کھوئی تھی۔
’’ بے فکر رہو تم پہ کوئی آنچ نہیں آئے گی ۔ ‘‘ آزادی کا مژدہ سنا کر وہ چلا گیا تھا ۔
وہ زرد رنگت لیے اسے دیکھتی رہ گئی ۔ تو کیا وہ واقعی یہ رشتہ ختم کردے گا اس کے اندر جھکڑ چلنے لگے تھے ۔ فائزہ کسی کام سے اندر آئیں تو اس کا پیلا پھٹک چہرہ دیکھ کر وہ پریشان سی اس کی جانب بڑھیں۔
’’ عفرہ کیا ہوا ہے سب ٹھیک ہے۔‘‘ انہوں نے اسے تھام کر کرسی پر بٹھایا۔
’’آنی وہ…وہ کہہ رہا ہے وہ یہ رشتہ ختم کردے گا ۔‘‘ الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر اس کے لبوں سے نکلے۔
’’ تو اس میں اتنی پریشانی کی کیا بات ہے تمہیں تو خوش ہونا چاہیے اس کنزرویٹو شخص سے تمہاری جان چھوٹ رہی ہے۔ تم بھی تو یہی چاہتی تھی ۔ ‘‘ انہوں نے اطمینان سے کہا۔
اس سے کوئی جواب نہ بن پڑا تووہ لب کاٹ کر رہ گئی ۔ بدگمانی کے بادل چھٹے تو ہر جگہ اپنی ذات ہی قصوروار نظر آرہی تھی ۔ وہ فرخ کی بے رخی اس سے برداشت نہیں ہو پا رہی تھی۔ اس سے دستبرداری کا خیال ہی اس کے لیے سوہانِ روح تھا۔
’’ میں ایسا نہیں چاہتی آنی ۔ میں اب ایسا نہیں چاہتی۔‘‘ کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد اس نے اعتراف کیا۔
’’ اچھی طرح سوچ لو بیٹا۔ رشتے ناطے مذاق نہیں ہوتے جب جی چاہا جوڑ لیا اور جب جی چاہا دامن چھڑا لیا ۔‘‘ انہوں نے سنجیدگی سے کہا تو وہ سر جھکا گئی۔
’’ میں شرمندہ ہوں آنی۔ غلطی میری تھی مجھے احساس ہو گیا ہے ۔ میں فرخ سے بھی سوری کر لوں گی ۔ آئندہ آپ کو میری طرف سے کوئی شکایت نہیں ہو گی ۔ ‘‘ اس نے بے حد پشیمانی کے ساتھ اپنی غلطی کا اعتراف کیا تو فائزہ کے لبوں سے اطمینان بھری سانس خارج ہوئی۔
’’ یہ ندامت وقتی تو نہیں ہے۔ پھر سوچ لو ابھی فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے یہ نہ ہو وقتی جذبات کے زیر اثر تم کوئی فیصلہ لے بیٹھو اور بعد میں اس پر پچھتانا پڑے ۔ ‘‘ انہوں نے گویا مزید تسلی چاہی تھی اس کی جذباتی فطرت سے آگاہ جو تھیں۔
’’ اچھی طرح سوچ لیا ہے آنی میں فرخ کے بغیر نہیں رہ سکتی ۔ ‘‘ اس نے دھیمے لہجے میں اعتراف کیا۔ تو انہوں نے اسے خود سے لگا لیا۔
’’خوش رہو۔‘‘ اس کا ماتھا چوم کر انہوں نے دعا دی تو وہ آسودہ سی مسکرادی
’’ میں ثریا کو خوشخبری سناآؤں پھر۔‘‘ وہ اٹھتے ہوئے بولیں تو اس نے اثبات میں سرہلادیا۔
٭…٭…٭
اپنے تئیں تو وہ فیصلہ کر چکی تھی مگر ابھی فرخ سے بات کرنے کا کٹھن مرحلہ باقی تھا ۔ اس کے بگڑے تیور اسے ڈرا رہے تھے مگر بات تو کرنا ہی تھی کہ صبح اسے واپس چلے جانا تھا اس لیے دل کڑا کر وہ اس کے کمرے میں چلی آئی تھی جہاں وہ آج کل قیام پذیر تھا ۔ دستک دیتے ہوئے اس کے ہاتھوں کی لرزش بے حد نمایاں تھی ۔ چند ہی لمحوں بعد دروازہ کھل گیا تھا۔
فرخ نے آنکھوں میں تحیر بھر کر اسے دیکھا بہرحال وہ اس کی یہاں موجودگی کی توقع نہیں کررہا تھا۔
’’ وہ مجھے کچھ بات کرنی ہے تم سے ۔ ‘‘ وہ انگلیاں چٹخاتی ہوئی بولی۔ کچھ لمحے اسے دیکھتے رہنے کے بعد وہ سائیڈ پر ہو گیا تو اندر آگئی۔
کمرے کے بیچوں بیچ کھڑا وہ اس کے بولنے کا منتظر تھا جو سرجھکائے اس سوچ میں غلطاں تھی کہ بات کہاں سے شروع کرے۔
’’ محترمہ جو بات کرنی ہے جلدی کریں ۔ رات کے اس وقت آپ کی یہاں موجودگی میرے ساتھ ساتھ آپ کو بھی مشکوک بنا سکتی ہے ۔پہلے ہی آپ کے احسانات کم نہیں ہیں میری ذات پر ۔ ‘‘ اس نے کوڑے مار لہجے میں کہا تو اس نے کوڑے مار لہجے میں کہا تو اس نے گھبرا کر وال کلاک کی جانب دیکھا جو گیارہ بجنے کا اعلان کر رہا تھا۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے