مان جاؤ : عاتکہ ایوب
وہ تو گویا جلتے انگاروں پر جا بیٹھی تھی ۔ اپنی بات کی نفی آج تک اس نے سنی کہاں تھی۔ اس کا دماغ سلگ اٹھا تھا۔
’’ تو پھر میرا فیصلہ تم ابھی سنتے جاؤ ۔ تم جسے تنگ نظر آدمی سے مجھے شادی نہیں کرنی ۔ ‘‘
جذباتی اور جلد باز تو وہ ہمیشہ سے ہی تھی سو ابھی بھی اس نے لمحوں میں فیصلہ لیا تھا ۔چبا چبا کر ایک ایک لفظ بولتے اس نے ہاتھ میں پہنی انگوٹھی اتار کر اس کے سامنے رکھ دی اور گاڑی سے نیچے اتر آئی۔ وہ بغیر کچھ کہے اسے جاتے دیکھتا رہا تھا۔ گھر آتے ہی اس نے ثریا کو اپنا فیصلہ سنا دیا تھا
’’ آپ بتائیں آنی میں نے بالکل ٹھیک کیا ناں ۔ ایسی پابندیاں تو آج تک پاپا نے مجھ پر نہیں لگائیں اور وہ ابھی سے مجھ پر اتنی پابندیاں لگا رہا ہے ۔ میں اتنے گھٹے ہوئے ماحول میں نہیں رہ سکتی ۔ مجھے اس سے شادی نہیں کرنی ۔ ‘‘ سارا احوال سناتے اس نے آخر میں ان کی تائید چاہی تھی تاہم اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہ پاتیں ثریا اندر داخل ہوئیں ۔ ان کے تاثرات دیکھ فائزہ کو اندازہ ہو گیا کہ وہ بھی سب کچھ سن چکی ہیں ۔جو دانت کچکچاتے ہوئے عفرہ کو دیکھ رہیں تھیں۔
’’ تم… تم منگنی کی انگوٹھی بھی واپس کر آئی ہو، یا اللہ ۔‘‘
’’ اس عمر میں ہمارے سروں میں خاک ڈالوئے گی یہ لڑکی، کیامنہ دیکھائیں گے ہم سب کو۔‘‘ وہ سر پکڑے رہ گئیں۔
’’ آپا فرخ نے گھرمیں تو کوئی بات نہیں کی ۔‘‘ انہیں نئے خدشات ستانے لگے ۔ جبکہ فرخ کا نام سنتے ہی اس کے منہ کے زاویے بگڑے تھے۔
’’ بے فکر رہو فرخ بے حد سمجھ دار بچہ ہے مجھے یقین ہے اس نے کسی سے کوئی بات نہ کی ہوگی ۔ ‘‘ انہوں نے ثریا کو تسلی دیتے ہوئے کہا جواباً وہ گہری سانس بھر کے رہ گئیں اور اسے گھور کر دیکھا جو اطمینان سے ناخن چبانے میم مصروف تھی ۔ان کو نئے سرے سے غصے نے آن گھیرا۔
’’ تم ابھی فون کرو فرخ کو،معافی مانگو اس سے۔‘‘ ان کی بات پر وہ بدکی تھی۔
’’ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ویسے بھی یہ رشتہ میں ختم کر چکی ہوں ۔ اور آپ سے میں کوئی بات نہیں کررہی ۔ آج پاپا واپس آرہے ہیں میں ان سے بات کروں گی اور وہ میرا ہی ساتھ دیں گے۔‘‘ اس کے ہٹ دھرمی یا دوسرے لفظوں میں ڈھٹائی سے کہنے پر ثریا کا دماغ گھوما تھا جبھی وہ اسے مارنے کو لپکیں تو فائزہ درمیان میں آگئیں۔
’’ کیا کررہی ہو ثریا، جوان اولاد پر ہاتھ اٹھا رہی ہو۔ ایسے مسئلے حل تھوڑی ہوتے ہیں۔بیٹھ کر بات کرتے ہیں ۔ ‘‘ انہوں نے بازو سے پکڑ کر انہیں کرسی ہر بٹھا دیا۔
’’ اس کی باتیں سن رہی ہیں آپ، ہمارے لاڈ پیار نے ہی آج یہ دن دکھایا ہے ۔ یہ صلہ دے رہی ہے ہمیں‘شروع سے ہی کھینچ کر رکھنا چاہیے تھا ۔ ‘‘ وہ غصے کی شدت سے ہانپنے لگیں۔ وہ ان کے غصے سے قدرے خائف سی ہو گئی تھی مگر ابھی بھی اپنی بات ہر ڈٹی ہوئی تھی ۔ فائزہ نے اسے باہر جانے کا اشارہ کیا ۔فی الحال اس کا منظر سے ہٹ جانا ہی بہتر تھا۔
’’ آپ زبردستی مجھ سے کوئی بات نہیں منوا سکتیں ۔ ‘‘ جاتے جاتے بھی وہ کہنے سے باز نہیں آئی تھی۔
’’ دیکھ رہی اس کو آپ‘ کیسے منہ زور ہو رہی ہے ۔ اب کیا ہو گا آپا۔‘‘ وہ رونے لگیں تھیں۔
’’ تھوڑا تحمل سے کام لو ثریا، ایسے زور زبردستی سے کام نہیں ہوتے ۔ عفرہ نا سمجھ ہے ۔ پیار سے سمجھایا جائے تو سمجھ جائے گی ۔‘‘ ا نہوں نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
’’ اور ا گر فرخ نے انگوٹھی واپس کرنے والی بات گھر میں بتادی ہوئی تو ۔ ‘‘ انہیں یہ بھی دھڑکا لگا ہوا تھا۔
’’ بتانا ہوتا تو اسی دن بتا دیتا۔ فرخ بہت ذمہ دار بچہ ہے ۔ اس کی جانب سے تم تسلی رکھو وہ ایسا کچھ نہیں کرے گا ۔ ‘‘ فائزہ کی بات پر وہ دل گرفتہ سی ہو گئیں۔
’’ صحیح کہتی ہو آپا وہ تو ہیرا ہے اور ایک یہ میری گندی اولاد۔‘‘ انہوں نے آہ بھری۔
’’ تم ایسا کروعفرہ کو کچھ دن میرے ساتھ بھیج دو ۔ میں سمجھاؤں گی اسے۔‘‘ انہوں نے کچھ سوچ کر کہا پھر ان کا پریشان چہرہ دیکھ کر تسلی دی۔
’’ان شا اللہ سب ٹھیک ہو گا۔‘‘ وہ ان کا ہاتھ تھپتھپاتے باہر نکل آئیں۔ جہاں وہ صوفے پر منہ پھلائے بیٹھی تھی۔
’’ عفرہ تم ایسا کرو اپنے کچھ کپڑے بیگ میں رکھ لو۔تم میرے ساتھ چل رہی ہو ہو۔‘‘ ان کی بات پر وہ نافہمی سے انہیں دیکھنے لگی۔
’’ اس وقت جو صورتحال ہے بہتر ہے کہ تم میرے ساتھ چلو ۔ثریا ابھی غصے میں ہے بٹ ڈونٹ وری میں سمجھاؤں گی اسے۔ تب تک تم ہمیں کمپنی دو ۔ ریان بزنس ٹرپ پر ہے تو کچھ دن ہم بڑھوں کے ساتھ گزارلو ۔‘‘ انہوں نے قصداً ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔ کہیں نہ کہیں وہ خود بھی فرار چاہتی تھی سو بلا تردد مان گئی تھی۔
٭…٭…٭
فائزہ کی ہمراہی میں چلتی وہ ڈھیلے قدموں سے اندر آئی تھی۔ لاؤنج سے ٹی وی کی آواز کے ساتھ کچھ اور آوازیں بھی آرہی تھیں جبھی ایک بھرپور مردانہ قہقہہ فضا میں گونجا تھا۔
’’ یہ اشفاق صاحب کسے گھر لائے ہیں۔‘‘
فائزہ کچھ اچھنبے سے لاؤنج کی جانب بڑھیں ۔ وہ بھی متجسس سی ان کے پیچھے ہو لی ۔ لاؤنج میں داخل ہوتے ہی انہیں حیرت نے آن گھیرا جبکہ عفرہ کے قدم دروازے میں ساکت ہو گئے تھے۔
’’فرخ تم…تم کب آئے۔‘‘ وہ اس کی جانب بڑھیں تو وہ احتراماً اٹھ کھڑا ہوا نگاہ پیچھے کھڑی عفرہ سے ٹکرائی تو اس کے مسکراتے لب بھنچ گئے تھے۔
’’آپا نہیں آئیں ساتھ۔‘‘ انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔
’’ پھوپھو کی طبیعت ناساز تھی تو اماں اورابا صادق آبا د گئے ہیں اور ارسل کی پہلی سالگرہ بھی ہے تو کچھ دن ادھر ہی قیام کریں گے ۔ ‘‘ اس نے تفصیلی جواب دیا۔
ارسل فرخ کی بڑی بہن زہرہ کا بیٹا تھا جو اپنی پھوپھو کے ہاں بیاہی تھی۔
’’ اسی لیے میں صاحبزادے کو ادھر لے آیا کہ کچھ دن ہمیں بھی مہمان نوازی کا شرف بخشیں ۔‘‘ اشفاق صاحب نے اضافہ کیا۔
’’ بہت اچھا کیا۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے صوفے پر آن بیٹھیں ۔
اپنی باتوں میں وہ اس کے وجود کو فراموش ہی کرچکے تھے جو دروازے پر کھڑی جز بز ہو رہی تھی ۔ فرخ کی یہاں موجودگی کا اسے خیال تک نہ آیا تھا اب اس کا سامنا کیسے کرے گی ۔ اس کا دل چاہا یہیں سے واپس پلٹ جائے۔ جبھی فائزہ کی نظر اس پر پڑی تھی۔
’’ ارے میں تو بھول ہی گئی عفرہ بھی میرے ساتھ ہے ۔ عفرہ یہاں آؤ نہ بیٹا۔‘‘ ان کے بلانے پر چاروناچار اسے اندر آنا ہی پڑا ۔ اشفاق صاحب بے حد گرمجوشی سے اسے ملے۔ فرخ نے اچٹتی سی نظر اس پر ڈالی اور ٹی وی کی جانب متوجہ ہوگیا۔
’’ ارے بھئی یہ تو بے حد حسین اتفاق ہو گیا کیوں میاں ۔ ‘‘ انہوں نے فرخ کو مخاطب کیا جبکہ وہ خاموشی سے سر جھکائے بیٹھی تھی۔ ساری تیزی طراری اس غیر متوقع صورتحال پر ہوّا ہو گئی تھی۔
’’ جی بالکل آج کل ایسے اتفاقات میرے ساتھ کچھ زیادہ ہی پیش آرہے ہیں ۔ ابھی تو پچھلے جھٹکے سے نہیں سنبھل پایا میں ۔ ‘‘ اس کے خوشگوار لہجے میں چھپی طنز کی گہری کاٹ پر عفرہ نے جھٹکے سے سر اٹھایا مگر وہ اشفاق صاحب کی جانب متوجہ تھا ۔ وہ لب کچلتی ادھر ادھر دیکھنے لگی ۔ فائزہ کی جہاندیدہ نگاہیں بغور اس کے چہرے کا اتار چڑھاؤ دیکھ رہی تھیں۔
’’ خوش قسمت ہو میاں ورنہ ایک ہمارا وقت تھا شادی سے دو ماہ پہلے ہی تمہاری ممانی اپنا رخ روشن ہم سے چھپا کر پردے میں بیٹھ گئی تھیں ۔ گھنٹوں مارے مارے پھرتے پر ایک جھلک دیکھنے کو نہ ملتی…‘‘ انہوں نے سرد آہ بھری تو فائزہ نے خشمگیں نظروں سے انہیں گھورا۔
’’ بس کریں آپ،آپ نے کہاں کسی پردے کا لحاظ رکھا ۔ آئے دن تو ٹپکے رہتے تھے یہاں تک کہ مہندی والی رات تو پٹتے پٹتے بچے ہیں ۔‘‘ فائزہ نے جھلاتے ہوئے ان کا راز کھولنا چاہا تو انہوں نے ہاتھ اٹھا کر درمیاں میں ہی انہیں روک دیا۔
’’ بس بس بیگم صاحبہ ہم نے لحاظ نہیں کیا مگر آپ ہی پردہ رکھ لیں اپنے شوہر کا بچے کیا سوچیں گے ۔ ‘‘ ان کے گڑبڑائے ہوئے انداز پر عفرہ کی ہنسی چھوٹی تھی۔
فرخ کی نظر ایک لمحے کو اس کے چہرے پر ٹھہری تھی تاہم دوسرے ہی لمحے وہ نگاہ کا زاویہ بدل گیا۔
’’ میں کھانا گرم کروں کافی ٹائم ہو گیا ہے۔‘‘ فائزہ اٹھتے ہوئے بولیں۔
’’ کھانا ہم لوگ تو کھا چکے آپ اپنے لیے دیکھ لیں ۔ ہاں چائے ضرور چاہئے ۔ ‘‘ اشفاق صاحب نے کہا تو وہ اثبات میں سرہلاتے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
’’میں آپ کے ساتھ چلتی ہوں۔‘‘ وہ بھی جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور ان سے پہلے ہی باہر نکل گئی۔
٭…٭…٭
بستر پر چت لیٹے اس کے ذہن میں آج کے مناظر گھوم رہے تھے ۔ اس دن کے بعد وہ آج آمنے سامنے ہوئے تھے ۔ اسے رہ رہ کر اس کابے نیاز سا رویہ یاد آرہا تھا ۔ فرخ کا رویہ غیر متوقع نہیں تھا مگر پھر بھی اسے چبھ رہا تھا ۔ کیوں… اس نے بے چینی سے کروٹ بدلی ۔ وہ یہاں نہیں رکے گی کل ہی واپس چلی جائے گی ۔ اس نے فیصلہ کیا۔
مگر کیوں؟ کیا وہ اس کا سامنا کرنے سے گریزاں تھی ۔ غلطی فرخ کی تھی وہ کیوں راہ فرار اختیار کرے ۔ اس کو تو کوئی فرق ہی نہیں پڑا کیسے انکل کے ساتھ قہقہے لگ رہے تھیچ۔ اس کا کھلکھلاتا انداز اسے بے حد کھلا تھا ۔ اس کے خیال میں تو وہ مجنوں بنا پھر رہا ہو گا ۔ کہیں نہ کہیں یہ سوچ بھی دل میں تھی کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرے گا ۔ اس کے آگے گڑگڑائے گا پھر وہ اسے معاف کرنے کا سوچے گی مگر اس نے تو ایک کے بعد دوسری نظر ڈالنا نہیں گوارا کی۔ اسے جی بھر کر غصہ آیا۔
یہاں سے جانے کا مطلب ہار ماننا ہے وہ کہیں نہیں جائے گی ‘یہیں رہ کر اس کا سامنا کرے گی ۔ وہ کیوں مجرم بنی چھپتی پھرے جس کی غلطی ہے اسے تو کوئی احساس تک نہیں ( اس کے خیال میں) پس طے ہوا کے وہ کہیں نہیں جا رہی۔اس نے فیصلہ کیا اور آنکھیں موند لیں۔
٭…٭…٭
پراٹھوں کی اشتہا انگیز خو شبو پورے گھر میں پھیلی ہوئی تھی ۔ رات کچھ نہ کھانے کی وجہ سے اس کی بھوک مزید چمک اٹھی تھی ۔ منہ ہاتھ دھو کر وہ کچن میں چلی آئی جہاں فائزہ مہارت سے پراٹھے بنانے میں مصرف تھیں۔
’’ بہت مزے کی خوشبو آرہی ہے آنی۔‘‘ اس کے للچائے ہوئے انداز پر وہ مسکرا دیں۔
’’ آلو کے پراٹھے بنا رہی ہوں فرخ کی فرمائش پر،اسے میرے ہاتھ کے پراٹھے بہت پسند ہیں ۔ ‘‘ روٹی بیلتے ہوئے انہوں نے بتایا تو اس کا مسکراتا چہرہ ساکت ہو گیا۔
’’ میں کچھ مدد کروں۔‘‘ کچھ دیر کے توقف کے بعد اس نے پوچھا۔
’’ ہاں تم ایسا کرو یہ برتن لگاؤ ٹیبل پر۔‘‘ ان کی ہدایت پر سر ہلاتے وہ برتنوں کی جانب متوجہ ہو گئی۔
گلاس ٹرے میں رکھے وہ ٹیبل کی جانب بڑھ رہی تھی جب ہی آستینوں کے کف سیدھے کرتے وہ ڈائننگ روم میں داخل ہوا تھا ۔عفرہ کا دھیان بھٹکا اوراچانک اس کا پاؤں سلپ ہوا تھا ۔ اس سے پہلے کے ٹرے زمیں بوس ہوتی فرخ نے سرعت سے آگے بڑھ کر تھاما تھا اسے نہیں ٹرے کو ۔ گلاسوں کے آپس میں بجنے سے ایک کھنکھناہٹ سی پیدا ہوئی تھی۔
’’ سنبھل کر بیٹا۔‘‘ فائزہ اس کے پیچھے ہی آئیں تھیں جبکہ وہ بے نیازی سے کرسی گھسیٹتا براجمان ہو چکا تھا۔
’’ وہ میرا دھیان نہیں تھا ۔ ‘‘ اس نے شرمندہ سی ہو کر وضاحت دی۔
’’یہ بے دھیانی میں ہی بڑے بڑے نقصان کر جا تی ہیں اپنے بھی اور دوسروں کے بھی ۔ ‘‘ وہ زیر لب بڑبڑایا گو آواز آہستہ تھی پھر بھی عفرہ کی سماعتوں تک رسائی ہو ہی گئی تھی ۔
اس نے جلتی نظروں سے اسے دیکھا تھا جو اب مکمل طور پر ناشتے کی جانب متوجہ تھا ۔ اس سے پہلے کے وہ جواب دینے کو لب کشائی کرتی اشفاق صاحب اند ر آگئے ۔ اس کے الفاظ لبوں میں ہی رہ گئے۔
’’ آہا کیا خوشبو آرہی بیگم دل خوش کردیا آج تو ۔ ‘‘ وہ پرشوق نظروں سے ٹیبل کو دیکھتے گویا ہوئے اور آلو کے پراٹھے کی جانب ہاتھ بڑھایا جو فائزہ بیگم نے اطمینان سے پیچھے ہٹا دیا۔
’’ آپ کا ناشتہ یہ رہا۔‘‘ انہوں نے دوسری ٹرے ان کی جانب بڑھائی جس میں توس گرم کرکے رکھے گئے تھے۔
’’ آپ کو پتہ ہے یہ آئلی پراٹھے آپ کے لیے ٹھیک نہیں ہیں آئلی فوڈ سختی سے منع ہے آپ کو ۔ ‘‘ اشفاق صاحب کے منہ بنانے پر انہوں نے کہا۔
’’ ہاں تو کبھی کبھی بے احتیاطی کر لینی چاہیے ۔ اب یہ تو کھلا ٹارچر ہے کہ تم لوگ تو یہ لذیذ پراٹھے اڑاؤ اور میں یہ سوکھے ہوئے توس ۔ ‘‘ انہوں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی پراٹھے کی جانب ہاتھ بڑھا دیا۔
’’ اور بعد جو میں آپ کی طبیعت خراب ہوتی ہے وہ،پچھلی دفعہ بھی دو دن ہسپتال میں لگا کے آئے تھے ۔‘‘ فائزہ قدرے ناراضی سے گویا ہوئیں ۔
وہ بے حد دلچسپی سے ان کو دیکھ رہی تھی ۔ ہمیشہ سے ہی ان کی نوک جھونک سن کر اسے مزہ آتا تھا۔
’’ اچھا بھئی!آپ جیتیں ہم ہارے ۔ ‘‘ اشفاق صاحب نے ہتھیار ڈالتے ہوئے توس اٹھا لیا تو ان کے لبوں ہر مسکراہٹ در آئی۔
’’ تو ثابت ہوا اس عمر میں بھی آپ بیوی کی ناراضی افورڈ نہیں کرسکتے،کیا کہتے ہیں اسے…رن مریدی ۔ ‘‘ فرخ نے انہیں چھیڑا۔
’’ تم اسے باہمی محبت بھی کہہ سکتے ہو ۔ ‘‘ انہوں نے اسے گھورا تو وہ ہلکا سا قہقہہ لگا گیا۔
’’ ارے بیٹا تم کیوں سوکھے ہوئے توس زہر مار کر رہی ہو ۔ میری راہ میں تو ظالم سماج حائل ہے مگر تمہاری تو ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے ۔ ‘‘
وہ جو دانتوں سے سلائس کتر رہی تھی اشفاق صاحب کے مخاطب کرنے ہر بوکھلا گئی۔۔
’’ میں صبح صبح اتنا ہیوی ناشتا نہیں لیتی ۔ ‘‘ اس نے جتاتی نظروں سے فرخ کو دیکھا جو دوسرے پراٹھے پر ہاتھ صاف کررہا تھا ۔ یہ اور بات کہ دل تو اس کا بھی للچا رہا تھا مگر انا آڑے آرہی تھی۔
’’ سن لو میاں …‘‘ انہوں نے فرخ کو مخاطب کیا۔
’’ اب تم بھی یہ پراٹھے بھول جاؤ اب جو بیوی سامنے لا کے رکھے گی وہی کھانا پڑے گا میری طرح صبر شکر کر کے ۔ ‘‘ انہوں نے آہ بھری۔
’’ بے فکر رہیں اس کی نوبت ہی نہیں آئے گی ۔ ‘‘ اس نے اطمینان سے ہاتھ صاف کرتے کہا۔ عفرہ کا دل اچھل کر حلق میں آیا اب آگے کیا کہنے جارہا تھا ۔
’’ آپ کی طرح رن مرید تھوڑی ہوں ‘ کھینچ کے رکھوں گا ۔ ‘‘ مسکراتے ہوئے اس نے بات مکمل کی ۔ عفرہ کو وہاں بیٹھنا دوبھر ہونے لگا۔
’’ میں چلوں اب دیر ہو رہی ہے اور ممانی اتنے لذیذ پراٹھوں کے لیے شکریہ…‘‘