مان جاؤ : عاتکہ ایوب
سارے کام نمٹا کر وہ چائے کا کپ تھامے لاؤنج میں آ بیٹھی تھیں ۔ اس وقت صبح کے دس بج رہے تھے ۔ مشتاق صاحب ان کے شوہر ایک بجے تک گھر آتے تھے۔ ان کے آنے سے کچھ دیر پہلے وہ کھانا بنا لیا کرتیں تھیں۔ اوپر کے کاموں کے لیے ایک ملازمہ رکھی ہوئی تھی۔ عموماً یہ وقت ان کے لکھنے کا ہوتا تھا۔ وہ ایک معروف مصنفہ بھی تھیں اورابھی حال ہی میں کالج سے ریٹائر ہوئی تھیں جہاں وہ اردو کی پروفیسر کے عہدے پر فائز تھیں۔
چائے کی چسکیاں لیتے وہ اپنے ادھورے افسانے پر نظریں دوڑا رہیں تھیں جبھی فون کی بیل بج اٹھی تھی۔
’’اسلام علیکم آپا… ‘‘دوسری جانب ان کی بہن ثریا تھیں ۔ ہمیشہ کی طرف انداز قدرے عجلت لیے ہوئے تھا۔
’’ وعلیکم اسلام، کیسی ہو ثریا۔ ‘‘انہوں نے دھیمے لہجے میں دریافت کیا۔
’’بس آپا خیریت کا نہ پوچھیں کیا بتاؤں آپ کو بیٹھے بٹھائے مصیبت کھڑی کر دی ہے اس لڑکی نے میرے لیے۔ ‘‘ثریا کے پریشان لہجے پر وہ چونک پڑیں۔
’’کیا ہوا؟ سب خیریت تو ہے ۔ کس کی بات کر رہی ہو۔‘‘ چائے کا مگ سائیڈ پر رکھتے ہوئے وہ سیدھی ہو بیٹھیں۔
’’ارے یہ ایک ہی تو ہے آپ کی لاڈلی عفرہ،دماغ پھرا کر رکھ دیا ہے اس لڑکی نے،کہاں جاؤں میں اس کے ہاتھوں آخر۔ ‘‘ثریا کا لہجہ بتا رہا تھا کہ بات کوئی معمولی نہیں ہے۔
’’کیا کیا ہے اس نے۔ ‘‘ان کے اندر پریشانی کی لہراٹھی تھی مگر تحمل کا دامن ہا تھ سے نہیں چھوڑا جو ان کہ شخصیت کا خاصہ تھا۔
’’کیا بتاؤں آپا، کہتی ہے فرخ سے شادی نہیں کروں گی ۔ اتنا تھوڑا وقت رہ گیا ہے شادی میں کارڈ تک بٹ گئے ہیں اور اب یاد آیا ہے اسے جب سب طے ہو چکاہے ۔ ‘‘ثریا روہانسی ہوئی بول رہی تھیں اور بات تھی بھی پریشانی کی۔
’’ لیکن یہ ایک دم انکار کی وجہ! کچھ بتایا اس نے ، کیا کہتی ہے۔‘‘
’’ بات کیا ہونی آپا،کہتی ہے انڈرسٹینڈنگ نہیں ہے فرخ کے ساتھ اس لیے شادی نہیں کروں گی ۔ لو اور سنو اب جا کے اسے انڈرسٹینڈنگ یاد آئی ہے ۔سب کچھ اس کی مرضی سے ہی ہوا تھا کوئی زورزبردستی تھوڑی تھی ۔ اس عمر میں خاک ڈلوائے گی سر پہ، میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا آپا ،اس کے باپ کی کیا عزت رہ جائے گی اور یہاں تو دوہری رشتہ داری کا معاملہ ہے میں کیا کروں آخر۔ ‘‘ثریا کی کی حالت سرپیٹنے والی ہو رہی تھی ۔ کچھ ان کی اس بہن میں برداشت کا مادہ بھی کم ہی تھا۔ذرا سی بات پر بے حد پریشان ہو اٹھتی تھیں۔
’’اچھا تم تھوڑا حوصلہ رکھو۔عفرہ کہاں ہے میری بات کرواؤ اس سے۔‘‘
’’ بات کیسے کرواؤں آپا۔کل سے منہ سر لپیٹے کمرہ بند کیے لیٹی ہے۔ ‘‘
’’اچھا تم پریشان مت ہو، میں شام میں چکر لگاتی ہوں ۔ بات کرتی ہوں اس سے۔ ‘‘ثریا کو تسلی دے کر انہوں نے فون بند کر دیا۔
عفرہ ان کی بے حد لاڈلی اور اکلوتی بھانجی تھی ۔ خود ان کے اپنے تو دو بیٹے ہی تھے تو بیٹی کی کمی انہوں نے ہمیشہ عفرہ سے ہی پوری کی تھی ۔ خود وہ بھی ان کے بے حد قریب تھی ۔ ان کی خواہش تو اسے ہمیشہ کے لیے اپنی بیٹی بنا کر رکھنے کی تھی ۔ لیکن فیضان تو ویسے ہی عمر میں عفرہ سے زیادہ تھا اور اس کی شادی انہوں نے اپنی بھتیجی کے ساتھ کی تھی ۔ ریان کی دفعہ تو ان کی ازحد خواہش تھی کہ اس کی شادی عفرہ سے ہی ہو مگر اس نے صاف منع کردیا کہ وہ اسے صرف بہن کی نظر سے دیکھتا ہے اور ویسے بھی وہ اپنی پھپھو کی بیٹی میں انٹرسٹڈ تھا ۔ تو انہوں نے بخوشی اس کی بات مان لی ویسے بھی وہ رشتوں میں زبردستی کی قائل نہ تھیں ۔ تاہم ایک ملال دل میں رہ گیا تھا۔
پھر قرعہ فال فرخ کے نام نکلا ۔فرخ ان کی بڑی نند کا بیٹا تھا کوالیفائیڈ اور ہینڈسم … فیضان کی شادی میں میں اس نے عفرہ کو دیکھا تھا اور کچھ دن بعد ہی اس کا پرپوزل عفرہ کے لیے آگیا ۔ فرخ دیکھا بھالا لڑکا تھا ۔ عفرہ نے بھی کوئی اعتراض نہ کیا اور یوں اس کا رشتہ قبول کر لیا گیا تھا ۔ منگنی کے بعد بھی دونوں اکثر ملتے تھے ۔ کوئی پابندی نہیں تھی ۔ تاہم اس آزادانہ میل جول پر ان کو اعتراض تھا اور انہوں نے ایک دو دفعہ ثریا کو سمجھانے کی کوشش بھی کی لیکن انہوں نے ہنس کر ٹال دیا ۔ جس پر وہ خاموش ہوگئیں۔
اب جبکہ شادی کی ڈیٹ فکس ہوچکی تھی ، ایسے میں عفرہ کی جانب سے یہ اعتراض خاصا پریشان کن تھا ۔ یکایک ایسی کو نسی افتاد آن پڑی کہ شادی سے ہی انکار کردیا ۔ وہ پوری طرح اپنی سوچوں میں غلطاں تھیں کہ اشفاق صاحب کے آنے کی خبر ہی نہ ہو سکی ۔ انہوں نے بغور ان کا گم سم سا انداز ملاحظہ کیا ۔ پھر ان کو متوجہ کرنے کی غرض سے ہلکا سا کھنکھارے تو وہ چونک پڑیں۔انہیں سامنے پا کر آنکھوں میں حیرت اتری تھی۔
’’ یہ اتنے انہماک سے کیا سوچا جا رہا ہے؟‘‘انہوں نے شگفتہ سے انداز میں پوچھا۔
’’ آپ آج یہ بے وقت کیوں لوٹ آئے۔‘‘انہوں نے جواباً استفسار کیا۔
’’ اصولاً تو جواب پہلے مجھے ملنا چاہیے کیوں کہ سوال پہلے میں نے پوچھا تھا لیکن خیر، طبیعت کچھ ٹھیک نہ تھی اس لیے واپس آگیا۔‘‘ اشفاق صاحب بھی ریٹائر پروفیسر تھے تاہم ریٹاٹر منٹ کے بعد گھر بیٹھنے کے بجائے وہ ایک اکیڈمی میں لیکچر دیا کرتے تھے۔
’’ اب آپ بتائیں کس چیز نے آپ کو پریشان کر چھوڑا ہے۔‘‘ انہوں نے دریافت کیا۔
’’ میں چائے بنا لاؤں تو بات کرتے ہیں۔‘‘ وہ اٹھ کر کچن میں چلی آئیں۔
’’ ثریا کا فون آیا تھا آج۔‘‘ چائے کا کپ ان کے سامنے رکھتے انہوں نے بات شروع کی۔
’’ بہت پریشان تھی۔عفرہ شادی سے انکار کر رہی ہے ۔ کہتی فرخ کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ نہیں بن پا رہی ۔ ‘‘ انہوں نے بتاتے ہوئے اشفاق صاحب کے تاثرات جانچے۔ جو آرام سے چائے کی چسکیاں لے رہے تھے ۔ وہ خاموش ہو کر ان کے بولنے کا انتظار کرنے لگیں۔ چائے پی کر انہوں نے کپ سائیڈ پر رکھا۔
’’ آج فرخ بھی میرے پاس آیا تھا یہی بتانے، کافی پریشان دکھ رہا تھا ۔‘‘ انہوں نے انکشاف کیا تو وہ پریشان ہواٹھیں ۔ فرخ اشفاق صاحب سے بے حد کلوز تھا۔
’’مطلب معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔میں تو ابھی تک اسے عفرہ کا بچگانہ پن ہی سمجھ رہی تھی ۔ آپ نے تومجھے پریشان کر کے رکھ دیا۔‘‘
’’ خیر یہ الزام آپ مجھ پہ نہ دھریں ۔ یہ پریشانی لینے اور دینے کا شعبہ آپ عورتوں کے پاس ہے۔‘‘ انہوں نے ہلکے پھلکے سے انداز میں کہا۔
’’فرخ نے گھر میں کوئی بات کی ہے؟ آپا کو پتا اس بارے میں کچھ؟‘‘ انہوں نے پریشانی سے استفسار کیا۔
’’ وہ میرا بھتیجا ہے اتنا احمق نہیں ہے کہ پورے جہاں میں شور ڈال دے ۔یہ صرف آپ عورتوں میں عادت ہوتی ہے کہ رائی کا پہاڑ بنا ڈالتی ہیں ۔ ‘‘ انہوں نے صوفے ہر نیم دراز ہوتے ہوئے لطیف سی چوٹ کی تو برخلاف عادت وہ چڑ گئیں۔
’’ ہماری خصوصیات پر آپ بعد میں روشنی ڈال لیجئے گا پہلے یہ بتائیں اب کرنا کیا ہے ۔ زرا سی بات باہر نکل گئی تو بہت جگ ہنسائی ہو گی۔‘‘
’’ دیکھیں بھئی لڑکا لڑکی نا راضی ‘تو کیا کر لے گا قاضی مطلب آپ یا میں۔‘‘ انہوں نے اطمینان سے ہاتھ جھاڑے۔
’’ بہرحال آپ پریشان نہ ہوں،فرخ نے عفرہ کو لے کر کچھ تحفظات کا اظہار کیا ہے ۔میں سمجھاؤں گا اسے باقی آپ بھی عفرہ سے بات کریں ۔‘‘
ان کے چہرے پر پریشانی کے تاثرات دیکھتے اشفاق صاحب نے کہا تو انہوں اثبات میں سر ہلادیا اور دل ہی دل میں ارادہ باندھ لیا کہ وہ آج ہی ثریا کی طرف جا کہ عفرہ سے بات کریں گی۔
٭…٭…٭
کمرے میں ملگجی سی روشنی پھیلی ہوئی تھی ۔ بیڈ کے بیچوں بیچ آڑھی ترچھی لیٹی وہ تکیے میں منہ چھپائے ہوئے تھی ۔ جب ہلکی سی آواز کے ساتھ دروازہ کھلا تھا۔ اندر آنے والی ثریا تھیں۔
’’ مجھے کھانا نہیں کھانا اور کسی سے کوئی بات نہیں کرنی۔‘‘ تکیے کے پیچھے سے ایک نروٹھی سی آواز بلند ہوئی تھی۔
یہ اپنی بات منوانے کا اس کا پرانا طریقہ تھا کہ بھوک ہڑتال کر کے کمرے میں بند ہوجانا اور احتجاج کے طور پر بات چیت ترک کردینا ۔ چونکہ اکلوتی اور لاڈلی بیٹی تھی ان کا کوئی کمزور سا احتجاج بھی اس کی ناراضی کے آگے دم توڑ دیتا اور یوں وہ اپنی بات منوا لیتی تھی ۔ لیکن اب انہیں احساس ہوا کے اس طرح ڈھیل دے کر انہوں نے اسے خاصا سر پہ چڑھالیا ہے اور اس دفعہ تو ضد بھی کوئی ایسی معمولی نہ تھی ۔ خشمگیں تیوروں سے اسے دیکھتے ہوئے انہوں نے کمرے کی لائٹ آن کی۔
’’ فائزہ باجی آئیں ہیں نیچے تم سے ملنے،اٹھو اور اپنا حلیہ درست کرو ۔ ‘‘ انہوں نے خاصی سختی سے کہا کہ اس دفعہ نرمی برتنے کا ان کا کوئی ارادہ نہ تھا۔
دوسری جانب چہیتی خالہ کی آمد کا سنتے ہی ان سے ملنے کی خواہش اس کے اندر بیدار ہوئی تاہم احتجاجاً وہ لیٹی رہی۔
’’مجھے کسی سے نہیں ملنا۔‘‘ اس کے ہٹ دھرم لہجے ہر ثریا کا دماغ تپ اٹھا۔
’’ ٹھیک ہے مت ملو،پڑی رہو ایسے ہی لیکن جو خرافات تم نے دماغ میں پال رکھی ہیں نا ں، انہیں نکال دو ‘ کسی خوش فہمی میں مت رہنا کہ اس دفعہ بھی تمہاری بات مانی جائے گی۔‘‘ بے حد درشتی سے کہتی ہوئیں وہ باہر نکل گئیں ۔ دروازہ زوردار آواز سے بند ہوا تو وہ اچھل کر رہ گئی اور غصے سے سر دوبارہ تکیے میں گھسیڑدیا ۔ اسی طرح لیٹے جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی ۔کسی کی نرم انگلیوں کا لمس اسے اپنے بالوں میں محسوس ہوا تھا۔ اس نے اچھنبے سے آنکھیں کھولیں۔
’’ لگتا ہے میری بیٹی ناراض ہے مجھ سے ۔ ‘‘ ان کے مہربان لہجے پر وہ اٹھ بیٹھی ۔
سامنے ہی اپنی مخصوص مشفقانہ مسکراہٹ کے ساتھ فائزہ بیٹھی تھیں ۔ اس کی ملگجی سی حالت دیکھ کر ان کے دل کو کچھ ہوا تھا۔
’’ آنی۔‘‘ اس نے بازو ان کے گرد لپیٹ دیے۔
’’ آپ کو مما نے بلایا ہے نہ آپ بھی ان کی ہی وکالت کرنے آئیں ہوں گی ۔ لیکن مجھے اس ٹاپک پر کوئی بات نہیں کرنی ۔ مجھے فرخ سے شادی نہیں کرنی۔ ‘‘ اس نے ضدی لہجے میں کہا تو انہوں نے ایک طویل سانس بھری۔
’’ بات تو آپ نے خود ہی شروع کردی ہے تو میرے خیال سے اب کھل کر بات ہو جانی چاہیے ۔ فرخ سے کیا شکایت ہے آپ کو ۔ جہاں تک میرا خیال ہے کچھ دن پہلے تک تو فرخ سے اچھا کوئی بھی نہیں تھا ۔ ‘‘ ان کے شگفتہ انداز میں کہنے پر کچھ خوشگوار پل ذہن سے ٹکرائے تاہم پھر اس نے لب بھینچ لیے ۔ فائزہ بغور اس کے تاثرات کا جائزہ لے رہیں تھیں۔
’’ آنی سے تو شئیر کر سکتی ہو نا آپ، دیکھو بیٹا جب تک آپ اصل بات نہیں بتائیں گی مسئلے کا حل کیسے نکلے گا ۔ شاباش بتاؤ مجھے کیا بات ہو ئی ہے ۔ ‘‘ انہوں نے نرم لہجے میں دریافت کیا ۔ وہ جو پہلے ہی زودرنج سی ہو رہی تھی۔دل کی بھڑاس نکالنے کو اک کندھا چاہیئے تھا سو وہ میسر آگیا تھا اور ان سے تو وہ ویسے بھی کوئی بات نہ چھپاتی تھی۔
’’ آنی اسے سمجھنے میں مجھے شدید غلطی ہوئی ہے ۔ وہ ویسا نہیں ہے جیسا نظر آتا ہے ۔مجھے لگا تھا وہ بالکل فیضان اور ریان بھائی کے جیسا ہو گا مگر وہ…وہ بہت کنزرویٹو ہے آنی ۔ ‘‘ ان کے کندھے پر سر رکھے وہ بولے جا رہی تھی۔وہ خاموشی سے اسے سن رہی تھیں۔
’’اسے میری ہر بات پر اعتراض ہوتا ہے ۔یہ نہ کرو،ایسے نہ کرو،اونچی آوازمیں مت ہنسو ۔ دوپٹہ ٹھیک سے لو ۔ میں نے پھر بھی اگنور کیا لیکن اس دن تو اس نے حد کردی ۔ ‘‘ سیدھی ہو کر بیٹھتی وہ انہیں حالیہ لڑائی کا احوال سنانے لگی۔
اس دن فرخ کے ساتھ وہ برائیڈل ڈریس پسند کرنے گئی تھی ۔ پوری مارکیٹ چھان لینے کے بعد اس کی نگاہ کو بلآخر ایک ڈریس بھا ہی گیا تھا ۔ ڈیپ ریڈ کلر کا بے حد خوبصورت لہنگا سوٹ جس کی آستینیں ندارد تھیں ۔ آگے پیچھے کا گلہ بے حد گہرا اور شرٹ کی لمبائی اتنی تھی کہ بمشکل اس کے وجود چھپائے ہوئے تھی ۔ ٹرائی روم میں چینج کرکے وہ بے حد اشتیاق سے فرخ کو دیکھانے باہر آئی تھی اور مسکراتی نظروں سے اس کی جانب سے ستائش کی منتظر تھی جس کہ چہرے کے تاثرات اسے اس لباس میں دیکھتے ہی بدل گئے تھے۔
’’ یہ کیسا ڈریس سلیکٹ کیا ہے تم نے ۔ چینج کر کے آؤ ابھی اسے۔‘‘ اس نے بمشکل خود کو بیہودہ کہنے سے روکاتھا ۔ سامنے کھڑی سیلز گرل انہیں کی جانب متوجہ تھی ۔عفرہ کو یک گونہ توہین کے احساس نے آن گھیرا۔
’’ واٹ ڈویو مین۔‘‘ اہانت کے مارے وہ بس اتنا ہی کہ سکی تھی۔
’’ آئی سیڈ گو اینڈ گیٹ چینجڈ ۔ میں باہر انتظار کر رہا ہو۔‘‘ بے حد سرد لہجے میں کہتا وہ مڑ گیا تھا۔
وہ جو ابھی تک قدرے ناسمجھی سے اسے دیکھ رہی تھی فرخ کے مڑتے ہی اسے جیسے ہوش آیاتھا۔
’’ یہ تمہارا موڈ کیوں اس قدر خراب ہو گیا۔کیا پرابلم ہے اس ڈریس میں ۔ ‘‘ چند ہی لمحوں بعد وہ اس کے مدمقابل تھی۔
’’ میں نہیں چاہتا کہ تم یہ ڈریس پہنو،کچھ اور دیکھ لو اپنے لیے ۔ ‘‘ وہ بے حد سنجیدہ لہجے میں کہتا گاڑی سٹارٹ کرنے لگا۔
’’ لیکن اس ڈریس سے تمہیں کیا پرابلم ہے ۔ پورے دن کی خواری کے بعد میں نے یہ پسند کیا ہے اوراب صرف تمارے کہنے پر میں اسے ریجیکٹ کردوں۔‘‘
’’ تو گویا میری پسند ناپسند تمہارے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔ ‘‘ اس نے سنجیدہ نظروں سے عفرہ کو دیکھا تو وہ قدرے جھلا سی گئی۔
’’ بات کو غلط رنگ مت دو ۔ میں صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ اس ڈریس میں کیا برائی ہے ۔ ‘‘ اب کی بار وہ قدرے رسانیت سے بولی۔
’’لباس کا مقصد جسم کو چھپانا ہوتا ہے ۔ تمہارا منتخب کردہ لباس ایسے کسی تقاضے کو پورا نہیں کر رہا ۔میں نہیں چاہتا کہ کی کسی کی ایسی ویسی نظریں میری بیوی پر پڑیں ۔‘‘فرخ کی مختصر سی بات کا مفہوم وہ اچھی طرح سے سمجھ گئی تھی۔گو اس کے الفاظ کا چناؤ بے حد محتاط تھا پھر بھی وہ جل اٹھی تھی۔
’’ تو کیا چادر اوڑھ کر بیٹھ جاؤں وہاں پر ۔ ‘‘ اس نے سلگ کر پوچھا۔
’’ کوئی حرج بھی نہیں ہے ۔ ‘‘ اس نے قدرے بے نیا زی سے کہا۔
’’ دیکھو میں تمہیں چادر یا برقع پہننے کا نہیں کہہ رہا لیکن میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ تم ایسا لباس پہنو جو سب کے سامنے تمہاری رعنائیاں اجاگر کرتا پھرے ۔ تم میری بیوی ہو نمائش میں لگی کوئی چیز نہیں ہو جس پہ طرح طرح کی نگاہیں پڑتی ہیں ۔ تمہاری ستائش کا حق صرف مجھے حاصل ہونا چاہیے ۔ ‘‘ عفرہ کا رنگ بدلتا چہرہ دیکھ کر اس نے نرمی سے اپنی بات کی وضاحت کی۔
’’ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ تم اتنے کنزرویٹو بھی ہو سکتے ہو ۔ بہرحال تم جو بھی سوچتے ہو میرا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ اور ابھی تمہیں ایسا کوئی حق ملا نہیں ہے جو تم یوں مجھ پہ پابندیاں عائد کرتے پھرو ۔ میں برات پہ یہی ڈریس پہن رہی ہوں ۔ ‘‘ اس نے اپنے ازلی ہٹ دھرم لہجے میں اعلان کیا۔
’’ ٹھیک کہا تم نے، میں واقعی ایسا کوئی حق محفوظ نہیں رکھتا لیکن جس دن تم یہ لباس زیب تن کروں گی اس دن تم میرے حوالے سے جانی جاؤ گی اور میں اپنی چیز پرکسی کی میلی نظریں برداشت نہیں کر سکتا ۔ اب تم جو بھی فیصلہ لو نتائج کی ذمہ دار تم خود ہو گی ۔ ‘‘ گاڑی اس کے گھر کے آگے روکتے ہوئے فرخ نے بے حد ٹھنڈے لہجے میں کہا۔