لمحۂ فریب: عائشہ آصف

’’تمہاری فروا سے بات ہوتی ہے؟‘‘ آج اچانک اُس نے پوچھا۔
وہ جو عریشہ کے بارے میں سوچ رہی تھی چونک اٹھی۔
’’کون …؟‘
’’فروا‘ تمہاری دوست۔‘‘
’’نہیں‘ اُس کی شادی کے بعد سے رابطہ نہیں ہوا۔‘‘
’’اُس کا نمبر ہے تمہارے پاس ۔‘‘وہ دوبارہ بولا تھا۔
’’نہیں۔‘‘ نہ جانے کیوں اُس نے جھوٹ بولا۔
حالانکہ اُس کے پاس فروا کا نمبر تھا مگر بات چیت صرف ایک دوسرے کا واٹس ایپ اسٹیٹس دیکھنے اور کمنٹ کرنے کی حد تک ہی تھا۔
’’میں چلتی ہوں وہ ایک دم بے چین ہو کر اٹھ بیٹھی۔‘‘
اس کی بیٹی بیمار تھی اُسے اُس کے پاس ہونا چاہیے تھا نہ کہ یہاں ۔ جو بھی تھا ایک مامتا زندہ تھی اور بے چین بھی۔
’’تھوڑی دیر تو رک جاؤ۔‘‘
وہ آوازیں دیتا رہ گیا مگر وہ گھر آ گئی تھی ۔ عریشہ کا بخار تھاکہ کم ہونے میں نہ آرہا تھا ۔ چھوٹی سی بچی بے دم ہوئے جارہی تھی۔
کوئی دوا بھی جیسے اثر نہیں کر رہی تھی ۔ وہ ماں کے ساتھ مسلسل چپکی ہوئی تھی ۔ ماں کی کھوئی کھوئی حالت اور بے توجہی کا اس نے بہت اثر لے لیا تھا ۔ پوری رات وہ اور عفان اُس کے سرہانے جاگتے رہے تھے۔ فجر کی اذان کے قریب اُس کے بخار کا زور ٹوٹاتو وہ شکر ادا کرتی نماز کے لیے اُٹھ گئی۔ نماز سے فارغ ہو کر وہ چائے بنا کرلے آئی ۔ عفان بھی نماز ادا کر کے بیڈ پر لیٹ چکا تھا۔
’’ آج تو موسم بہت خوش گوار ہے باہر لگتا ہے بارش ہوگی۔‘‘
’’ہاں ہے تو ۔‘‘ چائے سے لطف اندوز ہوتے وہ بولی تھی۔
’’آج واک پر نہیں جاؤ گی؟‘‘
’’نہیں نیند پوری کروں گی ۔‘‘
’’بچے تو جاگ رہے ہیں اور ہم بھی تو ایسا کرتے ہیں سب واک پر چلتے ہیں۔ کیا خیال ہے؟‘‘ اس سے کہہ کر وہ بچوں سے مخاطب ہوا۔
میرب کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔بچوں نے تو فورا رضامندی دیدی۔
’’ عریشہ کے لیے بھی اچھا ہے تھوڑا تازہ ہوا میں سانس لے لے گی۔ کیوں؟‘‘
’’نہیں نہیں کیا ضرورت ہے ۔‘‘دل بری طرح دھڑک رہا تھا، اندر کا چور جیسے سٹپٹا گیا۔
’’کیوں بھئی، چلو چلو بچو گاڑی میں بیٹھو آج ماما کے ساتھ ہم بھی واک کریں گے ۔ ‘‘ اس کا اعتراض ہوا میں اُڑا کے وہ سب جا کر گاڑی میں بیٹھ چکے تھے۔
وہ مرے مرے قدموں سے گاڑی کی طرف آئی تھی۔ نہ آج میک اپ کا یاد رہا تھا نہ کپڑے بدلنے کا ہوش تھا۔ اپنے شل ہوتے اعصاب کے ساتھ وہ دعا مانگ رہی تھی کہ آج وہ پارک نہ آیا ہو ۔ اللہ پاک عفان کے سامنے آج بچا لینا ۔ دل ہی دل میں دعا کرتی وہ شدید پریشان ہو رہی تھی ۔ یہ وہ صورت حال تھی جس کا تصور وہ خواب میں ہی کر سکتی تھی ،حقیقت میں تو اس کے اعصاب جواب دینے لگے۔
’’ہم کسی اور پارک چلتے ہیں۔‘‘ گلی سے نکلتے ہی سڑک پر آتے وہ سوکھے گلے کو تر کرتی بولی۔
’’نہیں یار عریشہ کی طبیعت ٹھیک نہیں جلدی واپس آنا ہوگا۔ اس لیے قریب ہی چلتے ہیں۔ اور تم بھی روٹین کی واک کر لینا۔‘‘ عفان نے بات ختم کردی تو وہ لب کاٹنے لگی۔
دل ہی دل میں آیات کا ورد کرتی وہ شدید خوف کا شکار ہو رہی تھی۔ عفان کے سوالات اور شک پھر نفرت ایسے برے برے خیالات ذہن میں آرہے تھے وہ آج اپنے گھر اور گرہستی کو بچانے کے لیے فکرمند ہو رہی تھی ۔ وہ عفان کے سامنے ہی اس سے بات کرنے کی کوشش کرتا تو وہ کیا جواب دیتی عفان کن نظروں سے اسے دیکھتا ۔ اِس کا کردار آج سوالیہ ہونے جارہا تھا اور وہ شدید بے بس تھی۔ ایسی سوچوں میں ہلکان ہوتے وہ پارک پہنچ چکے تھے۔ وہ عفان کے پیچھے تقریبا چھپی ہوئی تھی۔
بالکل ایسے ہی جیسے آٹھ سال پہلے وہ چھوٹی بہن کے پیچھے چھپ رہی تھی۔
٭…٭
اپنی چادر کو کس کر اپنے گرد لپیٹے وہ تیز تیز گلی میں جا رہی تھی ۔ دونوں ہاتھوں کو آپس میں رگڑکر سن ہوتی ناک پر رکھتی ‘ اس کے قدموں کی رفتار میں بہت تیزی تھی ۔ آج چھوٹی کو بخار تھا وہ نہیں آئی تھی ۔ اسے اکیلے جانا بہت عجیب لگ رہا تھا ۔ سموگ کی چادر نے بصارت الگ دھندلا رکھی تھی ۔ اپنے شولڈر بیگ کو ایک کندھے سے دوسرے پر منتقل کرتی وہ رکی ۔ سامنے سے یونیفارم میں ملبوس ایک بچہ بھاگتا ہوا اس کی طرف آیا۔
ایک چٹ اس کے ہاتھ میں پکڑا کر منٹوں میں غائب ہو گیا۔ میرب نے چٹ کھول کر دیکھی۔
green shaw For a girl who looks pretty in grapes
پیپر کے کونے میں ادھ کھلے گلاب کی چھوٹی سی کلی ٹیپ سے چپکائی گئی تھی اور نیچے فون نمبر لکھا ہوا تھا۔ میرب دھک سے رہ گئی۔اس نے فوراََ اردگرد دیکھا۔
وہ اس ٹائم اسمارٹ اسکول کے سامنے کھڑی تھی ۔ جس کے آگے سے گزر کر اسے کالج روڈ تک جانا تھا ۔ بچوں اور رکشے والوں کے علاوہ کوئی قابل ذکر انسان نظر نہیں آیا تھا مگر وہ جانتی تھی کہ یہ کون ہو سکتا ہے۔
وہ تقریباََ بھاگتے ہوئے کالج پہنچی تھی اور پھولے ہوئے سانس کے ساتھ فروا کو تمام واقعہ بتایا تھا ۔ فروا تو جیسے تیار بیٹھی تھی جھٹ بیگ میں چھپایا موبائل نکالا اور لگی کال ملانے اس کے ہزار منع کرنے کے باوجود ۔ اور پھر تو یہ روز کا معمول بن گیا ۔ اگلے چار سال تک اس کا عزیر سے رابطہ رہا جس میں وہ اس کی محبت میں پور پور ڈوب چکی تھی ۔ نہ جانے اور کتنا عرصہ گزرتاکہ اس کی امی اور ساتھی ٹیچر نے آپس میں ان کا رشتہ
طے کر دیا ۔ عفان اکلوتا تھا ۔ اس کے ابو کی وفات ہو چکی تھی اور امی کا وہ واحد سہارہ تھا ۔ اس لیے وہ جلد ی شادی کرنا چاہتے تھے ۔ جب اسے پتا چلا تو اس نے چھوٹی بہن کے ذریعے ماں تک اپنا انکار پہنچایا تھا۔
’’جو تم نے بہن سے کہا ایک بار پھر سے کہو۔‘‘
’’میں کسی اور کو…‘‘
ماں کا زناٹے دار تھپڑ اس کا جبڑا ہلا گیا تھا ۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ماں کی طرف دیکھ رہی تھی جن کی آنکھوں میں ان کی طویل مسافت آنسو بن کر بہنے لگی تھی ۔ وہ درد،وہ تکلیف ، وہ بدنامی ، اپنوں کی بے اعتنائی وہ منہ سے نہیں بول رہیں تھیں مگر میرب وہ سب سن رہی تھی۔
’’کسی بھی فیصلے سے پہلے اپنی ماں کی پسند کو غور سے دیکھ ضرور لینا۔‘‘
وہ گالوں پر ہاتھ رکھے،بے یقینی سے ماں کو تکتی جانے لگی تھی جب پیچھے سے ان کی آواز آئی۔
ماں کے الفاظ اور انداز نے اس کے سارے احتجاج کو جھاگ کی طرح بٹھا دیا تھا ۔ وہ جو سمجھتی تھی اسے ماں سے ڈر نہیں لگتا،وہ جو چاہے کر سکتی ہے ماں کی نظروں کی تاب ہی نہ لا سکی تھی ۔ اس نے خود کو کمرے میں بند کر لیا تھا ۔ وہ بے چینی سے عزیر کا نمبر ملانے لگی،ماں کی پسند دیکھنے سے پہلے وہ عزیر سے دو ٹوک بات کرنا چاہتی تھی۔
جس کا یہ نتیجہ نکلا تھا کہ وہ اپنے کمرے میں قید نارسائی میں جل رہی تھی ۔ کیونکہ عزیر جس کو اس نے اپنی ماں کو بھیجنے کے لیے کہا تھا،تا حال غائب تھا ۔ اس کی ماں نے نہ اس سے اس کا فون چھینا اور نہ اس کا اکاؤنٹ بند کروایا ۔ جیسے انہیں اپنے ایک ہی تھپڑ پر اتنا بھروسہ تھا۔ اور واقعی تھا بھی کچھ ایسے ہی۔ ہفتہ دس دن سوگ منا کر وہ عفان کے ساتھ رخصت ہو گئی۔
عفان اور اس کی امی نے اسے وہ عزت اور مان دیا تھا جس کی وہ ہمیشہ سے متلاشی تھی۔اپنے گھر اور گرہستی کا سکون نصیب ہوا تو وہ سب کچھ بھول گئی مگر اب آٹھ سال بعد وہ پھر اس کے سامنے تھا۔
٭…٭
نوفل اپنا فٹ بال لے کر گہرائی میں اُتر گیا اور عفان عریشہ کولے کر اُسی پھولوں والے بینچ پر بیٹھ گیا تو وہ ٹریک پر مرے مرے قدموں سے واک کرنے لگی۔
محتاط نظروں سے وہ چاروں طرف دیکھ رہی تھی۔ اچانک وہ اُسے بچوں کی طرف بڑھتا نظر آیا۔ اس کا دل سوکھے پتے کی طرح لرزنے لگا۔ نوفل کی طرف بال پھینک کر وہ اب عفان سے ہاتھ ملا رہا تھا.
اور ساتھ ساتھ عریشہ کو بھی پیار کررہا تھا۔ کچھ دور کھڑی وہ پتھر کا بت بن چکی تھی۔ اس کے جسم سے جیسے جان ختم ہو رہی تھی۔ آج سب ختم ہونے جارے تھا ۔ وہ سب کچھ عفان کو بتا دے گا۔ اپنی راہ ہموارکرنے کے لیے اور اس کا گھر خراب ہو جائے گا۔ کہاں کی واک کہاں کا جنون اس وقت اسے اپنے گھر اور عفان کے علاوہ کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ کچھ دیر عفان سے بات کرنے کے بعد وہ دوسری سائیڈ سے اوپر چڑھ کر غائب ہو گیا ۔ عفان نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بلایا۔ بے جان قدموں سے وہ عفان کی طرف بڑھی تھی۔
’’عریشہ کو بخار ہورہا ہے گھر چلنا چاہیے۔‘‘
سنجیدہ لہجے میں عفان اِس سے بولا اور عریشہ کو لے کر گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔ وہ جیسے عفان کے چہرے کو کھوجنے میں مصروف تھی۔ کچھ نہ پا کروہ ہمت کر کے بولی۔
’’وہ کون تھا؟ ‘‘
’’کون؟‘‘
’’وہی آدمی جس سے آپ بات کر رہے تھے۔‘‘ دھک دھک کرتے دل کے ساتھ وہ عفان سے پوچھ رہی تھی۔
’’پتا نہیں ویسے ہی بچوں کے نام پوچھ رہا تھا اور کہہ رہا تھا بڑے خوبصورت بچے ہیں۔ ‘‘
’’ہاں بھئی ماں پر جو گئے ہیں۔‘‘
اس کے سر کے ساتھ سر ٹکرا کرعفان نے کہا اور گاڑی میں بیٹھ گیا- اس کے سینے سے جیسے رکی ہوئی سانس خارج ہوئی۔ سنسناتے ہاتھ پیروں میں جیسے زندگی لوٹ آئی تھی۔ تشکرانہ نظروں سے اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور ایک چور نظر چاروں طرف دوڑائی وہ اسے کہیں نظر نہیں آیا۔
٭…٭
اگلے دن وہ واک پر نہیں گئی۔ کل والے واقعے کا خوف ابھی تک اعصاب پر سوار تھا۔ خوف زائل ہوا تو دل پھر نہ معلوم بے چینی کا شکار ہونے لگا ۔ سچ ہے انسان کی فطرت بہت عجیب ہے،موت کے خوف سے توبہ کرتا ہے،خطرہ ٹل جانے کے بعدپھر سے وہی حرکتیں شروع کر دیتا ہے۔ہزار تاویلیں،دس ہزار بہانے۔
’’پارک میں آج بھی وہ اس کا انتظار کررہا ہوگا۔‘‘ عریشہ کو دوائی دے کر سلا کر وہ موبائل لے کر لاؤنج میں آکر بیٹھ گئی تھی۔
یونہی واٹس ایپ پر نمبر اوپر نیچے کرتے اس کی نظر فروا پر پڑی تو اس نے کال ملائی۔ چار پانچ بیل کے بعد فون اٹھا لیا گیا تھا۔
’’کیسے یاد آگئی جناب؟‘‘
فروا کی چہکتی آواز اس کے کانوں میں گونجی۔
’’ہاں آج تمہارا نمبر نظر آیا تو اچانک بہت یاد آئی تو کال ملالی۔‘‘ جھوٹ سچ کی آمیزش کرتی وہ گویا ہوئی۔
’’بہت اچھا کیا ۔ آج میں بھی فری تھی اور بہت بور ہو رہی تھی۔ چلو اچھاہے خوب باتیں کریں گے۔‘‘
ایک دوسرے کے بچوں اور شوہروں کا حال احوال پوچھنے کے بعد وہ آٹھ سال پہلے کی یادوں کی طرف آ نکلی تھیں ۔ میرب جان بوجھ کر ایسے حالات بنا رہی تھی کہ فروا کو خود ہی عزیر کی یاد آجائے۔اور وہ اس سے عزیر کی باتیں کرے۔ کچھ دیر کے بعد فروا کو یاد آہی گیا تھا۔
’’اور وہ ایک نمونہ تھا عزیر ۔‘‘قہقہہ لگا کر وہ ہنسی تھی۔
میرب کا رواں رواں کان بنا تھا۔
’’کیوں کیا ہوا تھا اُسے ۔‘‘
’’وہ تمہاری شادی کے بعد مجھے میسج کرتا تھا۔ بھئی بہت اوورایکٹنگ کرتا تھا۔ شروع شروع میں مجھے کہتا مجھ سے صرف میرب کی باتیں کرو ۔ میرو یہ، میرو وہ ۔ چند دن میں نے اس کو برداشت کیا پھر اُس نے ٹریک بدل لیا ۔‘‘وہ لیٹے سے اُٹھ بیٹھی ۔
’’ مطلب۔‘‘
’’مطلب کہ پھر کہنے لگا مجھے تم سے محبت ہوگئی ہے؟‘‘
’’واٹ؟‘‘ دھڑام سے کوئی چیز اُس کے اوپر گری۔
وہ جو اپنا گھر اور گرہستی چولہے میں جھونک کر اُس کے ناکام عشق کو سہارہ دے رہی تھی اس غلط فہمی میں کہ وہ جوگ لیے بیٹھا تھا ۔ اس کی خاطر اب وہ کیا سن رہی تھی۔
فروا کی بات جاری تھی۔
’’چھ ماہ تک میں بھی فری تھی ۔ خوب ڈرامہ جاری رہا ۔‘‘ آنکھ مار کر وہ جیسے ہنسی تھی۔
میرب جیسے زمین میں دھنستی جا رہی تھی۔
’’پھر چھ ماہ بعد میری بھی بات طے ہو گئی تو میں نے اسے بائے بائے کہہ دیا۔ اس کے بعد نہیں پتا کہ وہ کہاں گیا ۔ سنا ہے اُس کی شادی ہوگئی تھی۔ اس کی کزن کے ساتھ۔ بعد کا مجھے نہیں پتا۔‘‘
ایک اور بم گرا تھا اور میرب کو ریزہ ریزہ کر گیا تھا۔
’’اچھا فروا عریشہ اُٹھ گئی ہے پھربات کرتے ہیں۔‘‘
فروا کو اتنا کہہ کر اس نے فون بند کردیا اور سرہاتھوں پر گرا لیا۔ یہ کیا سنا تھا اُس نے اور وہ کیا کرنے جا رہی تھی۔ اپنی خوبصورت، بے مثال زندگی کے ساتھ کھیلنے جارہی تھی ۔ عفان کی بے لوث محبت اور اعتبار کو دھوکے کی آگ میں جھونکے بیٹھی تھی۔ خود کو کوستے وہ حیرت زدہ تھی کہ وہ بجائے رونے دھونے اور پریشان ہونے کے جیسے ہلکی پھلکی اور پرسکون ہو گئی تھی۔ کوئی بادل جیسے چھٹ گئے تھے۔
اس کا دل اور ذہن جیسے کسی جنگ سے آزاد ہوا تھا۔ پر طرف موسم جیسے خوشگوار ہو گیا تھا۔ شاید کسی جادوگر کا سحر ٹوٹا تھا ۔ اسے آج ہمیشہ سے بھی زیادہ اگلی صبح کا انتظار تھا۔
٭…٭
اگلی صبح بچوں اور عفان کو زبر دستی اٹھا کر وہ واک پر اپنے ساتھ لے کر آئی تھی۔ صبح کی ہلکی نم نم ہوا میں سویا سویا عفان اس کے ہمراہ تھا۔ نثار ہوتی نظروں سے اپنے ہم سفر کو دیکھتی وہ اس کے قدم سے قدم ملا کر چل رہی تھی۔ کچھ دور کھڑا عزیر اسے نظر آیا
’’بچو جاؤ اسی انکل کے ساتھ جا کر کھیلو۔‘‘ اُسے سنانے کی خاطر وہ ذرا زور سے بولی۔
’’میں اور بابا۔ یہاں بیٹھتے ہیں ۔‘‘
گہرائی میں اتر کر پھولوں والے بینچ پر بیٹھتے ہوئے اس نے عفان کا ہاتھ تھام لیا۔ سامنے نظر آنے فرد کے چہرے پر واضح حیرت نظر آئی۔ قریب سے پھول توڑ کر اس نے عفان کی سمت بڑھایا۔
’’میری محبت کے لیے ۔‘‘ صدق دل اور پورے جذب سے وہ بولی۔
عفان نے پھول پکڑ کر واپس اس کی جانب اچھالا وہ کھلکھلائی۔ سامنے والے فرد کے لیے یہ نا قابل برداشت تھا۔ تیز قدموں سے اُسے وہ خارجی رستے کی طرف بڑھتا نظر آیا۔ اس کے سینے سے گہری سانس خارج ہوئی۔
’’وہ انکل چلے گئے‘ وہ نہیں کھیل رہے۔‘‘ نوفل منہ بسورنا اس کے پاس آیا۔
’’کوئی بات نہیں آپ اپنے بابا ساتھ کھیل لینا ۔‘‘
عفان کی طرف اشارہ کرکے اس نے بینچ کے ساتھ ٹیک لگا کرآنکھیں موند لیں۔ اسے توقع تھی کہ آج وہ اسے آخری بار دیکھ رہی تھی۔ وہ شادی شدہ ہونے کے باوجود چسکے لینے کے لیے عارضی تعلق بنانے والے
انسانوں میں سے ایک انسان تھا‘ جیسے وہ نہ جانے کیا سمجھ بیٹھی تھی۔ اللہ کا لاکھ احسان تھا کہ بھٹکنے سے پہلے وہ پلٹ آئی۔ عفان اور بچوں کو کھیلتے دیکھ کروہ اندر تک سکون محسوس کر رہی تھی۔
عفان ہی اس کے لیے اللہ تعالیٰ کا بہترین انتخاب تھا وہ جسے اس کی پیاری ماں نے اس کے لیے پسند کیا تھا۔ماں کو یاد کر کے وہ دل سے مسکرا دی تھی۔
٭…٭
نام سے کہانی کافی حد تک واضح ہو گئی تھی مگر نام نے شک پیارا تھا۔ مگر اس کہانی کو سب سے خاص جو چیز بناتی ہے، وہ میرب کی کیفیت کو جس انداز سے بیان کیا گیا ہے۔ اس کے اندر کا حال اس انداز سے بیان ہے کہ پڑھنے والے کو اس کی مجبوری بھی سمجھ آ رہی تھی اور غلط کرنے سال کو وہ بری بھی نہیں لگ رہی تھی۔
باقی ایک پیاری کہانی تھی جس میں سبق بھی تھا اور سچائی بھی۔ مستقبل کے لیے best of luck
آپ جیسے رائٹرز سے ایسے الفاظ میرے لیے کسی خزانے سے کم نہیں،بہت شکریہ