لمحۂ فریب: عائشہ آصف

منتہی اکیلے آنے جانے سے ڈرتی تھی ، خود اس کی امی کی بھی تاکید تھی کہ دونوں ایک ساتھ آئیں ، جائیں ۔ سو وہ ڈیڑھ گھنٹہ اس کا انتظار کرتی شدید کوفت زدہ رہتی۔ آج بھی وہ بیزار شکل بنائے گراؤنڈ میں بیٹھی گھاس نوچ رہی تھی جب فروا اس کے قریب آکر بیٹھی۔
’’چلو بک شاپ پہ چلتے ہیں،ساتھ میں دہی بڑے بھی کھا لیں گے۔‘‘
’’وہ چوکیدار جیسے جانے دے گا۔‘‘ وہ سر جھٹک کر سابقہ بے زار لہجے میں بولی۔
’’اس کی فکر نہ کرو،اپن کی سیٹنگ ہے ۔ ‘‘ وہ فرضی کالر کھڑے کرتے بولی۔
’’چوکیدار سے۔‘‘ میرب کی آنکھیں ابل پڑی۔
’’بکواس نہ کرو،میرا مطلب تھا کہ بہانہ بنائیں گے تگڑا سا ۔ ‘‘ فروا جی بھر کر بدمزہ ہوئی۔
’’او۔‘‘میرب کے ہونٹ سیٹی کے انداز میں اکھٹے ہوئے۔
’’بحث نہ کرو چلو بھئی۔‘‘ اس کا ہاتھ کھینچ کر اٹھاتے ہوئے بولی۔
’’گڈی چھوٹی بہن کہاں ہے؟‘‘ ابھی وہ گیٹ تک پہنچی ہی تھیں کہ چوکیدار کی آواز پہ اچھل پڑیں۔
’’وہ …‘‘ میرب بری طرح نروس ہو گئی۔
چوکیدار چاچا کو یقینا ہر لڑکی کی خبر رہتی تھی۔
’’ چاچا ہم تو بک شاپ تک جا رہے ، ابھی واپس آئیں گے نا ۔ ‘‘ میرب کا ہاتھ دبا کر فروا نے گیٹ کی طرف دوڑ لگا ئی۔
’’نا،نا گڈی کالج ٹائم کے بعد جانا۔‘‘
چاچا پیچھے سے آواز دیتا رہ گیا۔
”چاچا ہمارا ٹیسٹ ہے بہت ضروری ابھی جانا ضروری ہے ۔ ‘‘ وہ میرب کا ہاتھ پکڑے پکڑے آنا فانا سڑک پر تھی۔
کالج گیٹ کے سامنے دو رویہ سڑک کو کراس کر کے وہ بالکل سامنے بنے بک شاپ کے اندر گھس گئیں ۔ یہ بھی چوکیدار چا چا کی تسلی کے لیے تھا ۔ یوں ہی وقت گزاری کو کتابیں ادھر ادھر کرتی رہیں ۔ چوکیدار کے کیبن میں واپس جاتے ہی وہ گلاس ڈور کی طرف بڑھیں ۔ یہ کالج کا مین گیٹ تھا اس طرف رش بھی بے تحاشہ رہتا تھا ۔ گاڑی،موٹر سائیکل،رکشے،اب تو ویسے بھی کالج ٹائم ختم ہو رہا تھا سو رش کچھ زیادہ ہی تھا۔
گاڑیوں سے بچتے،بچاتے وہ فروا کا ہاتھ کسی ننھی بچی کی طرح تھامے اس کے پیروں پہ نظریں جمائے چل رہی تھی۔
’’یار کالج کی کینٹین سے ہی کھا لیتے ہیں ۔ ‘‘وہ پیچھے پیچھے چلتی منمنائی۔
’’تمہاری ماں نے تم لوگوں کو زمانے کی ہوا ہی نہیں لگنے دی ۔ پتہ ہی نہیں ذائقہ کس چڑیا کا نام ہے۔‘‘
میرب نے بھنا کر اس کی پشت کو دیکھا ۔ جو اس کا ہاتھ پکڑے تیز تیز’’کمرشل کیفے‘‘کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی ۔ اس کے کٹے ہوئے بالوں کی اونچی پونی ہر اسٹیپ کے ساتھ ساتھ اچھل رہی تھی۔
دروازے کے ساتھ والی ٹیبل پر ہی وہ دونوں بیٹھ گئیں۔
’’تھوڑا آگے ہی بیٹھ جاتے۔‘‘ میرب جز بز ہوئی۔
’’یہاں سے آتے جاتے لوگوں کو دیکھیں گے۔‘‘ فروا تسلی سے کرسی پہ بیٹھ کر دہی بڑے آرڈر کرنے لگی۔
’’یہاں کالج یونیفارم میں موجود لڑکیوں کو سب بہت عجیب سی نظروں سے دیکھتے ہیں۔‘‘ میرب ابھی تک جز بز سی دائیں بائیں دیکھ رہی تھی۔
’’جب کالج یونیفارم میں لڑکیاں ڈیٹ مارنے آئیں گی تو ایسے ہی دیکھیں گے نا۔‘‘ وہ کمال لا پرواہی سے ادھر ادھر دیکھتے بولی۔
’’وہ دیکھو ہماری کلاس فیلو نمرہ۔‘‘ فروا ایسے خوشی سے اس کے کان میں چیخی جیسے گوہر مقصود مل گیا ہو۔
میرب نے نظروں کے تعاقب میں دیکھا۔ نمرہ ایک لڑکے کے ساتھ ٹیبل پہ بیٹھ رہی تھی۔
’’ہائے نمرہ۔‘‘ فروا نے دور سے ہی ہاتھ ہلا کر متوجہ کیا۔
نمرہ کے تو کاٹو تو بدن میں لہو نہیں والی مثال،وہ تو ہوا میں ہی معلق رہ گئی۔
’’ میسنی کہہ رہی تھی امی کو بتائے گی میرے پروموشن ٹیسٹ کے رزلٹ کے بارے میں ۔‘‘
دانت پیستی مسکراہٹ سے وہ اسے مسلسل دیکھتی بولی ۔ فروا تین سبجیکٹس میں بہت بری طرح فیل ہوئی تھی ۔ مسسز انجم سے خاطر خواہ تواضح بھی کرا چکی تھی ۔نمرہ کے ہونٹوں پر بدقت مسکراہٹ آئی ۔ اس کی ڈیٹ کا سارا مزہ تو خراب ہو چکا تھا۔
’’تم اس مقصد کے لیے آئی تھی۔‘‘ میرب نے تحیر سے کہا۔
’’تو اور کیا۔اتنی مشکل سے آج ہاتھ لگی۔ناک میں دم کر رکھا تھا کمبخت نے۔‘‘
نمرہ اس کی کرائے دار تھی اور کلاس فیلو بھی اس لیے اس کی امی کے سامنے بہت ذمہ دار بنتی تھی ۔ میرب کا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا تھا ۔ یوں ہی ہنستے ہوئے نگاہ اٹھائی سامنے ہی کاؤنٹر سے ٹیک لگائے کھڑا لڑکا نہ جانے کب سے اسے دیکھ رہا تھا ۔ میرب کی ہنسی کو بریک لگے ۔ نظریں ملنے پر لڑکے نے ہلکی سی مسکراہٹ اس کی طرف اچھالی ۔ دائیں گال پر پڑنے والاڈمپل یہاں سے بھی واضع نظر آرہا تھا ۔ میرب نے گھبرا کر فروا کی طرف دیکھا،فروا کھانے کی طرف متوجہ تھی۔
’’میرب۔‘‘
اس نے آہستہ سے پکارا تھا۔میرب گھبرا گئی اسے میرا نام کیسے پتا؟
’’میرب۔‘‘ اب کچھ تیز آواز سے پکارا۔
اس کی بھوری آنکھوں کا سحر سارے میں پھیل گیا۔وہ آہستہ آہستہ آواز دیتا اس کے قریب آرہا تھا۔ میرب بری طرح گھبرا گئی۔
’’میرب …‘‘ اب کے آواز کے ساتھ کندھا ہلایا گیا تھا۔
میرب نے جھٹکے سے آنکھیں کھولیں۔
’’یار دس بج گئے،ناشتہ نہیں بنانا۔ کب سے آوازیں دے رہا ہوں اتنی گہری نیند ۔ بچوں کے شور سے بھی آنکھ نہیں کھل رہی۔‘‘
میرب نے دائیں بائیں دیکھا ۔ عریشہ اور نوفل اس کے آس پاس ادھم مچائے ہوئے تھے ۔ وہ کسلمندی سے اٹھ بیٹھی ۔ سارا فسوں ٹوٹ چکا تھا ۔ خواب ٹوٹ جانے کا افسوس الگ تھا مگر یہ بھی حقیقت تھی وقت آٹھ سال آگے بڑھ چکا تھا۔
٭…٭
آج موسم کافی حبس زدہ تھا ۔ ہوا بالکل بند تھی ۔ سورج کی پہلی کرن ہی سوا نیزے پہ محسوس ہو رہی تھی ۔ آج اسے پارک میں ملتے پندرہ دن ہو گئے تھے ۔ وہ دھیرے دھیرے جیسے پرانے وقت میں پہنچ چکی تھی۔
اس کا ذہن شدید متاثرہو چکا تھا ۔ وہ جیسے دو زندگیاں جینے لگی تھی۔
وہ جیسے اُس کی تعریف کرتا اس کے ناز اٹھاتا، وہ عفان اور بچوں سے بے پرواہ ہوتی جا رہی تھی ۔ سونے پہ سہاگہ عفان کو نیا پروجیکٹ ملا تو وہ شدید مصروف ہو گیا ۔عفان کی ہر بات اسے چبھنے لگی تھی ۔ اسے لگنے لگا تھا عفان کو اس میں دلچسپی نہیں،تو وہ بھی جو کر رہی ہے ٹھیک کر رہی ہے ۔ بچوں کو اسکول بھیجنے کے بعد اُس کے پاس فضول سوچوں کے لیے فرصت ہی فرصت ہوتی تھی ۔وہ گھنٹوں اُسے سوچتی، باتیں دہراتی ۔ آئینہ دیکھتی اور مسکراتی ۔ ہر رات وہ دن چڑھنے کا انتظار کرتی ۔ کبھی پوری پوری رات سونہ پاتی ۔ آنکھیں بند ہوتیں مگر دماغ جاگتا رہتا ۔ کبھی نیند آتی تو عجیب خواب اور ابہام محسوس ہوتے۔
کبھی وہ غیر شادی شدہ اُسی وقت میں اس اجنبی کے ساتھ ہوتی۔ اور کبھی موجودہ حیثیت میں عفان کو چھوڑ کر جا رہی ہوتی ۔ اچانک بچے دامن پکڑ لیتے۔ روتے بلکتے اُسے روکتے ۔ لاحول پڑھتے وہ اٹھ بیٹھتی ۔ ایسا تو وہ کبھی نہیں چاہتی تھی جو بھی تھا وہ اپنی زندگی میں بہت مطمئن تھی ۔ اتنی عقل مند تھی کہ اپنی ہستی بستی زندگی کو خود نہ اُجاڑتی مگر دل اس کی باتوں میں نہ چاہتے ہوئے بھی آئے جارہا تھا ۔ضمیرالگ اپنی عدالت لگا لگا کر تھک چکا تھا ۔ وہ شدید چڑ چڑی ہو رہی تھی نہ گھر کے کسی کام میں دل لگتا اور نہ بچوں میں ۔ عفان تو خیر نوٹ کرنے کی پوزیشن میں ہی نہ تھا ۔ ایسے میں بچوں کوالٹا سیدھا کھلا دیتی اور جان چھڑوا کر ماضی میں گھومتی رہتی۔ عزیر کی گفتگو کو یاد کرتے مسکراتی رہتی۔
آج بھی وہ بے دم سی چھاؤں میں پڑے بینچ پر بیٹھی تھی۔ اس کے مخصوص بنچ پر دھوپ آچکی تھی ۔ آج اتوار کو بھی وہ پارک میں موجود تھی ۔ پچھلا اتوار بہت بے چینی میں گزرا تھا اس لیے کل ہی اس نے عزیر سے آج بھی آنے کے لیے کہ دیا تھا۔
عفان اور بچے ابھی تک سو رہے تھے ۔ عریشہ نے آنکھیں کھولیں تھیں مگر وہ اسے زبردستی سلا کر آگئی تھی ۔ اب مسلسل سوچ میں تھی ۔ وہ جاگ گئی ہو گئی،رو رہی ہو گی،عفان شدید ناراض ہو گا کہ آج کیوں چلی گئی۔
کہیں وہ میرے پیچھے ہی نہ آ جائے؟ وہ گھبرا کر اٹھنے لگی۔
’’سوری مجھے تھوڑی دیر ہو گئی۔‘‘
تازہ شیمپو اور پر فیوم کی خوشبو اس کے نتھنے سے ٹکرائی ۔ میرب نے چونک کے نظریں اٹھائیں ۔ بلیو جینز پہ لائٹ پنک شرٹ پہنے بھوری آنکھوں میں ہمیشہ کی طرح نرمی لیے وہ اس کے پاس بیٹھ رہا تھا۔
’’کیا بات ہے،طبیعت تو ٹھیک ہے؟ ‘‘ اس کے ابتر حلیے کو دیکھ کر وہ فکر مند سا پوچھ رہا تھا۔
وہ یک ٹک اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
’’کیا یہ مجھے اپنا لے گا،اگر میں عفان کو چھوڑ دوں ؟‘ ‘ دل میں آنے والی اس سوچ پر دماغ ہکا بکا رہ گیا تھا۔
وہ خود بھی ساکت رہ گئی،یہ وہ کیا سوچنے لگی تھی ۔ عفان اور بچوں کے چہرے آپس میں گڈ مڈ ہونے لگے۔
’’میری میرو آج بہت خاموش ہے ۔ ‘‘ اس کی سوچوں سے بے خبر وہ کہہ رہا تھا۔
’’آپ کی میرو۔‘‘ وہ چونک گئی۔
’’ہاں یہی تو کہتا تھا تمہیں۔‘‘ پورے جذب سے بولا۔
’’ایک بات پوچھوں ؟ آپ نے مجھ سے کبھی میرے شوہر اور بچوں کے بارے میں نہیں پوچھا۔‘‘
’’ان سے میرا کیا لینا دینا،مجھے تو کچھ وقت تمہارے ساتھ گزارنا ہوتا ہے ۔ تم خوش ہو اور اپنی زندگی یہ میرے لیے اطمینان کی بات ہے ۔ ‘‘ وہ گہری سنجیدگی سے بولا۔
’’میں چلتی ہوں۔‘‘ ایک دم اس کا دل اچاٹ ہوا تھا۔
اپنی کچھ دیر پہلے والی سوچ پہ ازحد شرمندگی ہوئی۔
’’ارے رکو تو۔‘‘ وہ بھی ایک دم اٹھا ۔
’’آج تو اتوار ہے۔‘‘
’’یہی تو آج سب گھر پہ ہیں،کہیں وہ میرے پیچھے ہی نہ آ جائیں۔‘‘
’’او اچھا۔‘‘اس کے پیچھے آتا وہ ایک دم رکا۔
’’اچھا سنو کل مجھے،میری میرو ایک دم فریش اورخوبصورت چاہئے ۔‘‘
وہ ان سنی کر کے چلی گئی ۔ نہ جانے آنکھوں سے آنسو کیوں نکل آئے جن کو بے دردی سے رگڑ ڈالا ۔ جس وقت وہ گھر واپس آئی،عفان اور نوفل ابھی تک سو رہے تھے،جبکہ عریشہ موبائل پر کارٹون دیکھ رہی تھی ۔
بہت دنوں سے وہ بچوں کو اگنور کر رہی تھی ۔ آٹھ سال پہلے وہ جس آگ میں جھلسی تھی وہ پوری آب وتاب سے دوبارہ بڑھک اٹھی تھی ۔ لیکن اب اسے ڈر تھا کہ کہیں اس سے نکلنے والی چنگاریاں اس کے گھر کو نہ جھلسا دیں،وہ بے دم ہو کر بیڈ پر بیٹھی،فرط محبت سے عریشہ کو گلے لگایا تو دھک سے رہ گئی۔معصوم سی بچی بری طرح بخار میں جل رہی تھی۔
٭…٭
آٹھ سال پہلے کیفے میں عزیرسے ہونے والی ملاقات اتفاقیہ نہیں رہی تھی ۔ اس کے بعد وہ اسے ہر جگہ نظر آیا،اکثر کالج کے باہر،بک شاپ پر اور ایک بار تو اپنی ہی گلی میں گھر کے باہر ۔ ہر بار نظر ٹکرانے پر وہ ہلکی سی مسکراہٹ اچھالتا ، لمحے بھرکواس کے دائیں گال کا گڑھا واضح ہوتا وہ گھبرا کر نظریں جھکا لیتی۔
’’آپی یہ لڑکا کیا ہمارا پیچھا کرتا ہے ۔ ‘‘ ایک دن چھوٹی نے بھی پوچھ لیا۔
وہ دھک سے رہ گئی چھوٹی کو پتا لگنے کا مطلب امی کو پتا لگنا۔
’’بکواس نہ کرو وہ ہمارے پیچھے کیوں آئے گا۔‘‘
چھوٹی کو بری طرح جھڑک دیا ۔ اتنا تو وہ جانتی تھی کہ وہ اسی کے پیچھا آتا ہے ۔ امی کو پتا لگنے کا مطلب اس کا کالج جانا بند ۔ ابو کی وفات کے بعد امی بہت حساس ہو گئی تھیں ۔ خاص طور پر اس وقت جب ان کے اپنے رشتہ داروں نے دو بچیوں کی ذمہ داری سے گھبرا کر امی کے کولیگ عمران کے ساتھ ان کو بدنام کرنا شروع کر دیا تھا ۔ وہ بہت چھوٹی تھی ان سب باتوں کی سمجھ نہیں رکھتی تھی کبھی ماں کے آنسو پونچھتی اور کبھی چھوٹی بہن کو گلے لگاتی ۔ ایسے ہی تکلیف بھرے دنوں میں ایک دن امی ان کو لے کر ایک نئے گھر میں چلی آئیں۔
’’اب سے ہم یہاں رہیں گے اور ۔ ‘‘ لمحے بھر کے توقف کے بعد وہ بولیں۔
’’یہ تمہارے بابا ہیں۔‘‘
لڑکپن کی دہلیز پر قدم رکھتی میرب ماں کے منہ سے نکلنے والے الفاظ پر شاکڈ رہ گئی ۔آنکھیں پھاڑے وہ ڈھلتی عمر کے گہرے سانولے رنگ اور درمیانے قد کے آدمی کو دیکھ رہی تھی ۔ اس کے ذہن میں سرخ وسفید رنگت والے اپنے بابا کا چہرہ تھا اس شخص کو اپنے باپ کا درجہ وہ کبھی نہیں دے سکتی تھی ۔ نفی میں سر ہلاتے وہ بھاگ گئی۔
عمران انکل وہی شخص تھے جن کے بارے میں وہ خاندان والوں کی چہ مگوئیاں سنتی رہی تھی ۔ وہ ماں سے مزید متنفر ہو گئی ۔ وہ عمر کے اس حصے میں تھی جہاں وہ ماں کی مجبوری نہیں سمجھ سکتی تھی۔
عمران علی جو اپنے والدین کے بعد اپنے پانچ بہن بھائیوں کا واحد سہارہ تھے ۔ بہن بھائیوں کی کفالت کرتے کرتے خود اپنی عمر کی چالیس بہاریں گزار چکے تھے ۔ سار ی زندگی انتہائی شرافت سے گزری تھی ‘ بیوہ کولیگ سے چند ہمدردی بھرے فقرے بولنا ان کے لیے بدنامی کا باعث بن گئے ۔ وہ بری طرح بوکھلا گئے ۔ پھراپنی بہن کے کہنے پرہی سلمی کا سہارہ بن گئے ۔ جتنی دیر زندہ رہے ان ماں بیٹیوں کو کسی چیز کی کمی نہ ہونے نہ دی ۔ منتہی کی نسبت،میرب ان کو کبھی قبول نہ کر سکی ۔ یوں ان دونوں ماں بیٹی کے درمیان ان دیکھی خلیج ہمیشہ حائل رہی ۔ دس سال بعد عمران انکل کی وفات کے بعد ان ماں بیٹیوں کو تھوڑا بہت حصہ دے کر خاندان سے الگ کر دیا گیا۔ نتیجتاََ وہ ایک چھوٹے سے فلیٹ میں منتقل ہو گئیں۔
٭…٭
نام سے کہانی کافی حد تک واضح ہو گئی تھی مگر نام نے شک پیارا تھا۔ مگر اس کہانی کو سب سے خاص جو چیز بناتی ہے، وہ میرب کی کیفیت کو جس انداز سے بیان کیا گیا ہے۔ اس کے اندر کا حال اس انداز سے بیان ہے کہ پڑھنے والے کو اس کی مجبوری بھی سمجھ آ رہی تھی اور غلط کرنے سال کو وہ بری بھی نہیں لگ رہی تھی۔
باقی ایک پیاری کہانی تھی جس میں سبق بھی تھا اور سچائی بھی۔ مستقبل کے لیے best of luck
آپ جیسے رائٹرز سے ایسے الفاظ میرے لیے کسی خزانے سے کم نہیں،بہت شکریہ