ناولٹ

لمحۂ فریب: عائشہ آصف

پارک میں سب کچھ حسب معمول ہی تھا ۔ مخصوص ٹریک پر چلتے وہ پوری طرح پُر اعتماد تھی ۔ چند قدموں کے بعد اُس کے دائیں طرف کوئی ساتھ ساتھ چلنا شروع ہوا تھا ۔ بنا اُس کی طرف دیکھے وہ ہلکی گہرائی میں اُتر کر پھولوں کے پاس پڑے بینچ پر جا کر بیٹھ گئی۔
’’بہت فریش لگ رہی ہو؟‘‘
اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھتے ہوئے وہ ’’خوبصورت ‘‘ کہتے کہتے احتیاطً ’’فریش‘‘ کہہ گیا تھا۔
غیر ارادی طور پر میرب نے ہاتھ سے اپنی لپ اسٹک صاف کی۔
’’کیا وہ یہ سننے کے لیے میک اپ کر کے آئی تھی؟ شوہر کے ہوتے کسی نامحرم کے منہ سے تعریف سننا چاہتی تھی؟‘‘
اس کاضمیر جاگنا شروع ہو چکا تھا۔ وہ لب کاٹنے لگی۔
وہ وہاں سے اُٹھنا چاہتی تھی مگر پتا نہیں کیوں اُٹھ نہیں پا رہی تھی۔ یہ سب غلط تھا۔
’’بہت خاموش ہو۔‘‘ وہ اچانک بولا۔
’’نہیں تو ۔ ‘‘وہ چونک پڑی۔
’’ تم سے ایک بات کہوں؟‘‘ وہ سراپا سوال ہوا۔
’’ہاں کہو ۔‘‘وہ متوجہ ہوئی۔
’’میری باتوں کا برا نہ منانا ۔ میری نیت غلط نہیں ۔تم تو جانتی ہو میں کتنا صاف گو آدمی ہوں ۔‘‘وہ جیسے اس کا ذہن پڑھ رہا تھا۔
’’میں نے ان آٹھ سالوں میں تمہیں بھلانے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ میں تمہار ی شادی کو قبول کر چکا تھا،اب بھی جانتا ہوں تمہاری فیملی ہے ، بچے ہیں،اور میں تمہاری دل سے عزت کرتا ہوں،میرا کوئی غلط مقصد نہیں…‘‘ لمحہ بھر کے توقف کے بعدوہ دوبارہ گویا ہوا۔
’’مگر میں نے زندگی میں ایک بار تمہیں خوش و خرم دوبارہ دیکھنے کی خواہش ضرور کی تھی۔ اور دیکھو آج تم میرے سامنے خوش اور آباد ہو۔ میں تمہارے لیے بہت خوش ہوں۔‘‘ یہاں تک کہہ کر وہ پھر رکا۔
وہ ہمہ تن گوش تھی۔ اس کے الفاظ اس کا انداز … بہت کچھ یاد آیا ۔دل میں نا معلوم سی کسک سر اٹھانے لگی۔
’’میں صرف تمہاری زندگی سے اپنے لیے صبح کے یہ چند پل لینا چاہتا ہوں ۔ جس میں ہم بس اچھے دوستوں کی طرح بات کر سکیں اور بس۔ تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں؟‘‘
اُس کی اتنی لمبی بات کے جواب میں وہ محض نفی میں سرہلاسکی ۔ اسے بھلا ان بے ضرر لمحوں پر کیا اعتراض ہو سکتا تھا ۔ اس کی آواز کا فسوں ہر طرف سے اسے جکڑنے لگا ، وقت پر لگا کر پیچھے کو دوڑا اور سیدھا آٹھ سال پیچھے جا کر رکا۔
وہ ہینڈ فری لگائے اس کی آواز سن رہی تھی ، اس کی چھوٹی بہن ساتھ بے خبر سو رہی ہوتی ، رات کے یہ پہر آنکھوں میں خوابوں کی آبیاری کرتے،گالوں پر گلال ۔اور ہونٹوں پر مسکان بکھیرتے بیت رہے تھے ۔ یہاں تک کہ فجر کا وقت ہو جاتا ۔ اس کی امی نماز کے لیے اٹھتیں تو وہ جھٹ سے آنکھیں موند کے سوتی بن جاتی ۔ کبھی جو آنکھ لگ جاتی کالج ٹائم اٹھنا محال لگتا،مگر وہ ایک شخص کا’’تصور‘‘تھا جو اسے نیند سے بھی جگا دیتا تھا۔
’’ دیکھو تم اپنے شوہر سے کوئی بے وفائی ٹائپ کچھ نہیں کرنے جارہی ۔ ہم صرف دوست بن کر بات کریں گے ماضی کا کوئی حوالہ نہیں ہوگا ۔ ‘‘وہ اس کی خاموشی کا مطلب کچھ اور سمجھا تھا اور اپنی طرف سے اس کا ذہن پڑھ کر بولا۔
وہ ایک دم ہوش میں آئی ۔
گھر،شوہر،بچے،فیملی…
سورج کی پہلی کرن گرم حبس بھرے دن کا آغاز لے کر اس کے سر پہ طلوع ہوئی۔
’’یہ سب صحیح نہیں۔‘‘ اندر سے آتی آواز کا شور بہت زیادہ ہوا وہ گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’مجھے جانا ہے۔‘‘
’’اچھا تو اب تمہارے پاس میرے لیے چند پل بھی نہیں ۔ ‘‘وہی دھونس بھرا لہجہ جو آٹھ سال پرانا تھا۔
اُسے اِس لہجے کے ساتھ پھر سے بہت کچھ یاد آیا ۔ماضی اور اِس حال میں بہت فرق تھا ۔ابھی اسے یہ لہجہ اور انداز برداشت نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ مگر حیرت انگیز طور پر اسے کچھ بھی بُرا نہ لگا تھا۔
میر ب نے ایک نظر دیکھا ۔ سورج کی روپہلی کرن اس کے سر کے اوپری بالوں کو چھو رہی تھی،جن پر ہلکی سفیدی نمایاں ہو چکی تھی ۔ براؤن آنکھوں کے گرد ہلکی جھریاں نمودار ہو رہی تھیں ۔ یہ وہ شخص تھا جس نے اپنی زندگی کے ماہ و سال اس کی یاد کے نام کر دیے تھے ۔گہرا سانس لے کر وہ واپس بیٹھ گئی۔
یہ جانے بغیر کہ راکھ میں دبی ہوئی چنگاری کو خود اس نے پھونکوں کے حوالے کیا تھا۔
٭…٭
آج اُسے پارک میں کافی دیر ہوگئی ۔ باتیں کرتے وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا ۔ جیسے ہی وہ گھر پہنچی عفان بیزار منہ بنائے بچوں کے ساتھ مصروف تھا۔
’’کہاں رہ گئی تھی یار‘ آج اتنی دیر؟بچے کب سے ناشتے کے لیے شور مچارہے ہیں۔‘‘
عفان عریشہ کو یونیفارم پہناتے ہوئے سخت تپی ہوئی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ نظریں چرا کر گاڑی کی چابی ایک ریک پر رکھ کر بجلی کی تیزی سے کچن کی طرف گئی۔ فٹافٹ بچوں کا ناشتہ بنا کر دیا اور لنچ باکس پیک کر رہی تھی ‘ جب وین والے نے ہارن بجانا شروع کیا۔
دوڑ دوڑ کر وہ ہانپ گئی۔ اللہ اللہ بچوں کو سکول بھیج کر وہ عفان کا ناشتہ بنانے لگ گئی۔
’’مل گئی ہوگی کوئی سہیلی جس سے باتوں میں لگ گئی ہو گی۔ خواتین واک کرنے تھوڑی جاتی ہیں۔‘‘ عفان ابھی تک جلا بیٹھا ہوا تھا۔
خاموشی ہی میں عافیت تھی ۔عفان کو رخصت کرنے کے بعد وہ کرسی پر گرنے والے انداز میں بیٹھ گئی ۔ صبح والی ساری گفتگو کا سحر ہوا ہو چکا تھا ۔ یہ اس کی زندگی اور اس کا آج تھا ۔ صبح سارا وقت نہ چاہتے ہوئے بھی
وہ ماضی میں کھوئی رہی تھی مگر وہ وقت گزر چکا تھا ۔ وہ اپنا آج خراب نہیں کر سکتی تھی ۔ خود کو سرزنش کرتے ہوئے کل سے واک پر نہ جانے کاعہد کرنے لگی ۔ وہ اپنی ہنستی بستی زندگی کسی کو چند پل دینے کی خاطر عذاب نہیں کر سکتی تھی ۔ اس نے خود سے نئے سرے سے عہد کیا-
٭…٭
گزشتہ دن کی طرح آج بھی وہ وعدہ وفا نہ کر سکی ۔اور صبح سویرے ہی اس کے سامنے موجود تھی ۔
ہوا آج تیز چل رہی تھی ۔ بادل چھائے ہوئے تھے لگتا تھا کہ جلد ہی بارش شروع ہو جائے گی ۔ پونی کو بازو میں لپیٹے، کھلے بالوں میں انگلیاں چلاتی وہ موسم کو مکمل طور پر انجوائے کرتے دھیرے دھیرے ٹریک پر چلنے لگی ۔ سخت گرمی اور حبس کے مہینے میں ایسا موسم ‘ کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا،مست ہوا لہرا کر گزرتی تو اس کا دل جھوم جاتا۔
پارک میں صبح کے اس وقت یا تو’’جاگنگ ‘‘کرتے نوجوان نظر آتے یا بڑھاپے کی طرف مائل کپل جن کو اپنی عمر کے ڈھلتے پہروں میں بلآخر ایک دوسرے کو ’’سمجھنے‘‘ کا موقع ملا تھا ۔ اس کا شمار ان خواتین میں ہوتا تھا جن کا جسم فربہی کی طرف مائل ہونے لگتا تو وہ پارک کی طرف دوڑ لگاتیں ۔ شروع شروع میں اس نے عفان کو بھی لانے کی کوشش کی تھی مگر اس کو کوئی دلچسپی نہیں تھی،وہ اور بچے گہری نیند سونے کے عادی تھے مگر اس کو نماز کے بعد نیند نہیں آتی تھی ۔ اس وقت کا اس نے یہ بہترین مصرف ڈھونڈ لیا تھا اور برسوں سے اس پر قائم بھی تھی۔
دفعتاً ہی ’’وہ‘‘ اس کے ہم قدم ہوا ۔لبوں پر آنے والی مسکراہٹ بے ساختہ تھی۔ گہرائی میں اُتر کر وہ مخصوص بینچ کی طرف بڑھی۔ وہاں پہلے ہی کوئی جوڑا بیٹھا موسم انجوائے کر رہا تھا۔ میرب نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
’’ چھوڑو آج واک کرتے ہیں۔‘‘ اس کی نظروں کا مفہوم جان کروہ بولا۔
وہ اُس کے پیچھے پیچھے چلتی سوچ میں تھی کہ اُس نے ابھی تک اُس سے اُس کے بچوں کے بارے میں پوچھا نہ شوہر کے بارے میں؟
’’تمہیں یاد ہے ایسے ہی کھلے بالوں میں تم نے مجھے ایک بار اپنی تصویر بھیجی تھی ۔ جس میں چہرے کے آگے ہاتھ تھا۔‘‘
اس سے ایک قدم آگے چلتا وہ جیسے مکمل طور پر اس وقت میں پہنچ چکا تھا۔
’’صرف آنکھیں نظر آرہی تھیں۔ تمہارا ادھورا حسن قیامت ڈھا رہا تھا۔‘‘
اس کے پیچھے چلتی اس کی دھڑکن تیز ہوئی تھی ۔ کوئی عجیب سا احساس تھا جو آٹھ سال پہلے کا وقت تازہ کر گیا تھا۔ دل کی دھڑکن بے تال ہوئی تو ضمیر جاگ گیا۔ شرم شرم گونج سنائی دینے لگی۔
عفان نے تو کبھی ایسے ’’دلربا الفاظ‘‘ میں بات نہیں کی۔ بلکہ انہوں نے تو جیسے کبھی غور سے مجھے دیکھا بھی نہیں ۔ اس نے اپنے ضمیر کو بھونڈی سی دلیل دی۔
’’ تمہارا شوہر کتنا خوش قسمت ہے اُسے اندازہ نہیں۔‘‘
وہ اس کے اندر چھڑی جنگ سے بے خبر گزرے پلوں کی یاد میں سحر زدہ سا بولے جارہا تھا۔
تھوڑی سی خود ترسی کا شکار وہ اُس کے پیچھے پیچھے چلتی رہی ۔ ملامت کا شور ابھی تک سنائی دے رہا تھا ۔ اس نے سر جھٹک کر چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی ۔
’’سنوتم نے اب تک ایک بار بھی مجھے نام سے نہیں پکارا۔‘‘ ایک دم وہ پلٹا۔
وہ جو اس کے قدم گنتے پیچھے پیچھے تھی اُس سے ٹکراتے ٹکراتے بچی ۔ ہوا کے زور سے اس کے چہرے پر بال آگئے۔ وہ گہری نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔ وہ تھوڑی کنفیوژ ہو کر رخ موڑ گئی تھی۔
’’تمہارا حسن ان کھلے بالوں میں آج بھی کمال کا ہے۔‘‘
بے خود سا کہہ کر وہ رخ موڑ کر آگے چل پڑا ۔ وہ ساکت رہ گئی ۔ ملامت کا شور اس قدر بڑھا کہ بالکل غیر ارادی طور پر اس نے بازو میں لپیٹی پونی سے بال باندھ لیے ۔
آج وہ اُس کے روکنے کے باوجود جلدی گھر آگئی تھی۔ دل نا چاہتے ہوئے بھی اُس کے کہے سحر زدہ الفاظ بھول نہیں پا رہا تھا۔ غیر شعوری طور پر وہ آئینے کے سامنے کھڑی اپنے کھلے بالوں میں انگلیاں چلا رہی تھی۔ بلا شبہ اُس کا رنگ آج بھی سرخ و سفید تھا اور بالوں کی رعنائی میں بھی کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ بلکہ بچوں کے بعد اس کا سراپا اور نکھرا محسوس ہوتا تھا۔یہ سب سوچتے وہ بھول رہی تھی کہ یہ عفان کی محبت اور خیال کا اثر تھا۔ اُس میں اس کا کوئی ہاتھ نہ تھا۔
٭…٭
اتوار کو وہ واک پہ نہیں جاتی تھی ، بچوں کو چھٹی ہونے کی وجہ سے وہ دیر تک سوتی تھی اور عفان بھی عموماََ بچوں کی وجہ سے گھر پہ رہتا ۔ آج وہ اتوار ہونے کے باوجود جلدی اٹھ گئی تھی ۔ نا معلوم سی بے چینی تھی،دل عجیب سا اداس تھا ۔دل کر رہا تھا واک پر چلی جائے مگر وہ’’اسے‘‘ بتا آئی تھی کہ کل وہ نہیں آئے گی سو آج جانا بیکار تھا۔
اب اسے پچھتاوہ ہو رہا تھا ۔ اس نے ایک نظر سوئے ہوئے عفان کی طرف دیکھا ۔ قدرے فربہی کی طرف مائل ، عفان کروٹ لیے سو رہا تھا وہ غور سے اسے دیکھنے لگی ۔ یکایک اس کی کالی آنکھوں کی جگہ براؤن آنکھوں نے لے لی ۔سانولے رنگ کی جگہ چمکدار گندمی رنگت، سیدھے کالے بالوں کی جگہ بے تحاشہ گنگھریالے براؤن بالوں نے قبضہ جما لیا۔
’’خوش قسمت ہے تمہارا شوہر۔‘‘ کوئی کان کے پاس بولا۔
اس نے گھبرا کے بازو ٹانگوں کے گرد لپیٹ کے منہ گھٹنوں میں چھپا لیا ۔ پلک سے ایک آنسو ٹوٹ کر اس کی گود میں گرا تو وہ سناٹے میں آگئی۔
’’یہ سب کیا تھا۔‘‘
منہ پر ہاتھ پھیر کر وہ لا حول پڑھنے لگی۔ وہ اپنی شادی شدہ زندگی میں بے حد خوش تھی ۔ عفان اس کے بچوں کا باپ وہ اس کا موازنہ کس سے کر رہی تھی ؟ وہ عفان کی طرف لپکی ۔
’’عفان اٹھو نا آنکھیں کھولو ۔ ‘‘ اضطراری انداز میں اس کا کندھا جھنجھور ڈالا ۔ عفان نے مندی مندی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا۔
’’کیا ہوا؟ ‘‘ نیند میں ڈوبی آواز میں وہ گھبراکر بولا۔
’’وہ میں کیسی لگ رہی ہوں؟ ‘‘ کچھ بن نہ پڑا تو یہی کہ دیا۔
’’حد ہوتی ہے یار۔‘‘ شدید بد مزگی محسوس کرتے وہ رُخ بدل گیا۔
مگر اس کا دل ٹھہر گیا تھا۔سب واپس آگیا تھا۔ کالی آنکھیں،کالے بال،فربہہ جسم تکیے پہ سر گرا کر اس نے سختی سے آنکھیں میچ لی تھیں۔
خود میں چھڑی جنگ نے اسے بری طرح تھکا دیا تھا۔
٭…٭
یونیفارم پہن کے اس نے آئینے میں اپنا آپ دیکھا۔
’’آنکھوں میں کاجل،ہونٹوں پر لپ اسٹک۔ ڈسپلن والی لڑکیاں یہی معاف کر دیں تو بہت۔‘‘
گہرا سانس لے کر وہ ہاتھوں میں پہنی چوڑیاں اور انگھوٹھیاں اتارنے لگی۔
’’تم ابھی تک تیار نہیں ہوئی؟‘‘ دروازے سے چھوٹی نے جھانکا۔
’’بس آ رہی ہوں۔‘‘
’’میک اپ ختم ہو تو پھر نا۔‘‘
’’تمہیں تکلیف ہے۔‘‘ چھوٹی کی بات پر اس کا میٹر گھوم گیا۔
’’امی کو بھیجتی ہوں۔‘‘ ناک پر چشمہ درست کرتے وہ بھی تڑخ کر بولی۔
جواباََ وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ گئی ۔ سلمی نواز خود گورنمنٹ ٹیچر تھیں ۔ اپنا بیگ اور فائل اٹھاتے انہوں نے اچٹتی نظر ناشتہ کرتی بیٹی پر ڈالی۔
’’سٹوڈنٹ کو سٹو ڈنٹ ہی لگنا چاہیے۔‘‘
وہ ان سنا کیے ناشتہ کرتی رہی ۔ چھوٹی نے یقینا ان کے کان اچھی طرح بھر دیے تھے ، اس کا بدلہ کسی اور وقت پہ چھوڑ کے وہ بیگ اٹھا کے نکل گئی،چھوٹی کو اس کے پیچھے تقریباََ بھاگنا پڑا ۔ ان دونوں کا کالج واکنگ ڈسٹنس پر ہی تھا ۔ اپنی کالونی سے نکل کر ہاسٹل سٹی کی گلی نمبر پانچ سیدھی کالج روڈ پر کھلتی تھی دو رویہ سڑک کو کراس کرو تو سیدھا کالج گیٹ ۔ بمشکل دس منٹ کا راستہ تھا ۔ ان کی امی کو وین کے ذریعے شہر کے دوسرے کونے جانا پڑتا ۔ واپسی پر ان کو دیر ہو جاتی تھی تو گھر کی چابیاں میرب کے پاس ہوتی تھیں ۔ مسئلہ یہ تھا کہ اس کی تمام کلاسسز بارہ بجے آف ہو جاتی مگر منتہی کی ڈیڑھ بجے تک جاری رہتی ۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4اگلا صفحہ

Related Articles

2 Comments

  1. نام سے کہانی کافی حد تک واضح ہو گئی تھی مگر نام نے شک پیارا تھا۔ مگر اس کہانی کو سب سے خاص جو چیز بناتی ہے، وہ میرب کی کیفیت کو جس انداز سے بیان کیا گیا ہے۔ اس کے اندر کا حال اس انداز سے بیان ہے کہ پڑھنے والے کو اس کی مجبوری بھی سمجھ آ رہی تھی اور غلط کرنے سال کو وہ بری بھی نہیں لگ رہی تھی۔
    باقی ایک پیاری کہانی تھی جس میں سبق بھی تھا اور سچائی بھی۔ مستقبل کے لیے best of luck

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے