ناولٹ

لمحۂ فریب: عائشہ آصف

آج موسم کافی بہتر تھا،کافی دنوں سے چھائے حبس کا بلآخر خاتمہ ہو گیا تھا ۔صبح کی تازہ ہوا میں آج کچھ زیادہ ہی ٹھنڈک تھی یا صرف اسے ہی محسوس ہو رہی تھی۔وہ فیصلہ نہ کر سکی ۔’’ پھولوں اور کلیوں‘‘ والے پارک کے داخلی راستے سے وہ اندر داخل ہوئی ۔گرے شلوار، پیلے کرتے اور کنٹراس دوپٹے کو سنبھالتے اس نے گاڑی سے نکلنے سے پہلے اپنا چہرہ آئینے میں دیکھا ۔موسم خوشگوار ہونے کی وجہ سے آج معمول سے زیادہ رش تھا ۔ پارک میں اندر بڑھتے ہی وہ اپنے مخصوص ٹریک کی طرف بڑھی۔
کن انکھیوں سے اس نے اطراف میں دیکھا اور اپنی کپکپاہٹ پر قابو پانے کے لیے گہرا سانس لیا۔فی الحال تو ’’وہ‘‘ اسے نظر نہیں آیا تھا ۔ہاتھ سے ماتھے پہ آیا پسینہ صاف کرتے اُسے محسوس ہوا کہ اس کاماتھا ٹھنڈا ہورہا ہے ۔اور دل بھی جیسے معمول سے دھیمی رفتار میں دھڑک رہا ہے ۔دل پہ ہاتھ رکھ کراس نے خود کو ڈانٹا اور پہلے کی نسبت خود کو پُر اعتماد ظاہر کرتے ہوئے دھیرے دھیرے ٹریک پر واک کرنے لگی۔
ہر روز وہ مخصوص بینچ سے آغاز کر کے پورے ٹریک کا ایک راؤنڈ لگاتی، پھراندرونی ٹریک پر ایک چکر لگا کر گھر واپس لوٹ جاتی ۔ یہ اس کی برسوں کی روٹین تھی ۔وہ بہت ہی کم گو اور لیے دیے رکھنے والی لڑکی تھی ۔ اس لیے اتنے سالوں میں باقاعدگی سے آنے جانے والے لوگ اس کا چہرہ تو پہچانتے تھے مگر جانتااس کو کوئی بھی نہ تھا ۔وہ سلام دعا سے آگے کبھی کسی کے ساتھ نہ بڑھی تھی ۔
کل بھی معمول کی واک کے دوران تقریباً آٹھ سال بعد اس نے ’’عزیر‘‘کو دیکھا تھا ۔ یا پھر شایدیہ اس کا وہم تھا ۔ مگروہ لمحہ بڑا قیامت کا تھا ۔ عزیر نے بھی شاید اسے دیکھ لیا تھا ، پہلے تو وہ ساکت ہو گئی تھی مگر فوراََ خود کو اجنبی ظاہر کرتے واک ادھوری چھوڑ کر وہ گھر واپس چلی گئی تھی ۔
مگر آج جانے انجانے میں وہ اس کا انتظار کر رہی تھی ۔ اگر وہ سچ میں تھا تو یقیناوہ اب اس کا پیچھا کرے گا ۔ خود کو اس سے لا پرواہ ثابت کر کے وہ کوئی نقصان نہیں اٹھانا چاہتی تھی ۔گرے شرٹ کی چوڑی دار آستینوں پر اضطراری انداز میں ہاتھ پھیرتی وہ اس کے سامنے آنے کا انتظار کرنے لگی۔
’’السلام علیکم ۔‘‘ پیچھے سے کسی نے ایک دم سلام کیا۔
وہ اچھل پڑی ۔ یہ لمحہ اتفاقیہ نہیں تھا، مگر پھر بھی وہ پوری جان سے کانپ گئی ۔دل پر کپکپاتے ہاتھ رکھے وہ اس کی طرف دیکھنے کی ہمت جمع کرنے لگی۔
’’سوری ۔ میں نے شاید آپ کو ڈرا دیا؟ ‘‘وہ شرمندہ ہوا۔
وہ اس کی حالت کو اپنے اچانک سامنے آجانے پر محمول کر رہا تھا۔
ایک لمحے کے لیے اُس کے دل میں آیا وہ اُسے پہچاننے سے ہی انکار کر دے ۔ یہی سوچ کر وہ اس کی طرف گھومی ۔ دونوں ہونٹوں کو آپس میں بھینچے شرمندہ سے انداز میں وہ اس کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ اس طرح کہ دائیں گال کا گڑھا واضح ہو رہا تھا ۔
میرب کا دل ڈوب کر ابھرا۔اس گڑھے کے ساتھ بہت کچھ یاد آیا تھا ۔بنا کچھ کہے وہ ایک دم پلٹی۔
’’آپ نے مجھے پہچانا ؟ ‘‘
اُس کا سوال بڑے موقع پر آیا تھا۔
’’نہیں ۔ ‘‘ وہ کہنا چاہتی تھی مگر اس کی حالت اور لرزتی پلکوں نے اس کے دل کا حال پہلے ہی عیاں کر دیاتھا ۔ نہ میں ہلتا اس کا سر ہاں میں ہل گیا۔
’’کیسی ہیں آپ؟‘‘ وہ گھوم کر میرب کے سامنے آتا بات بڑھانے کو بولا۔
اُس نے سر کی جنبش سے جواب دیا ۔نہ جانے کیوں وہ اس کی طرف دیکھ نہیں پا رہی تھی۔
’’اور گھر والے سب ٹھیک۔‘‘
وہ جو دو قدم چل پڑی تھی اس کی آواز پریکدم رکی ۔بنا اس کی طرف دیکھے پھر سے سر ہلایا ۔وہ اپنی حالت پر خود کو کوسنے لگی۔
’’آپ کو پتا ہے ۔آپ کی آواز سنے مجھے آٹھ سال کا عرصہ گزر چکاہے۔‘‘ وہ مزید دو قدم چل کر بالکل اس کے سامنے آ رکا۔
بے وجہ سر پر دوپٹہ ٹھیک کرتے وہ اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔
’’بلکہ یوں کہیں‘ آٹھ سال تین مہینے ۔ پانچ دن اور دس گھنٹے ۔‘‘ میرب نے چونک کر سر اٹھایا۔
’’کیوں حیرت ہو رہی ہے؟‘‘ وہ براہ راست اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا ۔ بھوری آنکھوں میں جیسے استہزاء تھا۔
’’ نہیں ۔‘‘
یک لفظی جواب دے کر وہ آگے چل پڑی ۔ پہلے جذباتی جھٹکے سے وہ نکل آئی تھی اس لیے پورے اعتماد سے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی تھی ۔ اسے ایک دم ہی احساس ہوا تھا یہ سب سننا اسے اچھا نہیں لگ رہا ۔ وہ تقریباََ بھاگتا ہوا اس کے پیچھے آیا ۔وہ اور تیز تیز قدموں سے آگے بڑھنے لگی ۔صبح تک دل اسے دھڑک دھڑک بے حال کر رہا تھا ۔اور اب عجیب طرح کی بے چینی شروع ہو گئی تھی۔
اس کی بھور ی آنکھیں اور دائیں گال کا گڑھا‘ کچھ بھی تو نہ بدلا تھا ۔ وقت نے جیسے لمحے میں ہی آٹھ سال پیچھے پٹخ دیا ۔ وہ عجیب بے بسی محسوس کرنے لگی۔
’’رکیں تو ۔‘‘
ایک دم وہ اُس کے سامنے آیاتو وہ ٹکراتے ٹکراتے بچی ۔اس نے کوفت سے نگاہ اٹھائی ۔پارک میں واک کرتے لوگوں نے ان کی طرف دیکھاتھا۔
’’کیا ہم کچھ دیر بیٹھ کربات کر سکتے ہیں؟‘‘ لوگوں کی طرف دیکھ کر وہ لجاجت سے بولا۔
’’ میں یہاں واک کرنے آئی ہوں آپ پلیز…‘‘ سر پہ اوڑھے دوپٹے کو گردن کے قریب سے دبوچے وہ اپنی کپکپاہٹ پر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی ۔
’’تمہیں اندازہ ہی نہیں کہ تمہاری آواز سن کر میں درمیان میں گزرا تمام عرصہ بھول کر جیسے آٹھ سال پیچھے چلا گیا ہوں۔‘‘
’’پلیز!‘‘
وہ ایک دم ٹوک گئی ۔ اسے حقیقتاً غصہ آیا،جو بھی تھا وہ ’’اب‘‘ یہ سب سننے کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔
’’میں تمہیں کچھ یاد تو نہیں دلا رہا ۔ ‘‘وہ معنی خیز انداز میں بولا۔
’’مجھے کچھ یاد ہے بھی نہیں ۔ ‘‘سخت انداز میں کہہ کر وہ آگے بڑھ گئی ۔ اب اس کا اعتماد واپس آرہا تھا۔
’’مگربھولنے والا بھی نہیں تھا ۔ ‘‘ پیچھے آتا وہ لوُ دیتے انداز میں بولا-
وہ کیوں اُس سے بات کرنے لگی ۔اب حقیقتا ً پچھتاوا ہوا تھا ۔ مسز شمس قریب سے سلام کرکے حال احوال پوچھ کر گزریں ۔اس سے پہلے کہ کوئی اور اس کو اس کے ساتھ دیکھتا‘ وہ ٹریک سے اُتر کر ہلکی اترائی میں پودوں کے ساتھ پڑے بینچ پر بیٹھ گئی ۔وہ بھی اس سے کچھ فاصلے پر آکر بیٹھ گیا۔
’’ میں نے پچھلے اتوار تمہیں یہاں دیکھا تھا ۔ مجھے واک کرنے کی عادت نہیں اس دن جلدی اُٹھ گیا تو یہاں آگیا ۔ میں نے دیکھتے ہی تمہیں پہچان لیا تھا۔ مگر کچھ سوچ کر بات نہ کی ‘ تین دن تک تمہیں مسلسل نظر میں رکھا آج ہمت کی بات کرنے کی۔‘‘
وہ کچھ نہ بولی ۔ سر جھکائے پیر کی انگلی سے گھاس کُریدتی رہی ۔وہ اسے یہ نہیں بتا سکتی تھی کہ وہ بھی اسے ایک ہی نظر میں پہچان گئی تھی ۔
’’تم کچھ بات تو کرو ۔ ‘‘ایک دم وہ بولا۔
’’کیا…؟‘‘
’’تم بالکل ویسی ہی ہو اور…‘‘
’’ویسی نہیں ہوں۔ شادی شدہ ہوں اور دو بچوں کی ماں بھی ہوں۔‘‘ اس کی بات کاٹ کر وہ جتاتے انداز میں بولی۔
’’میرے لیے تو تم آج بھی ویسی ہی ہو ۔ ‘‘وہ گمبھیر لہجے میں بولا۔
’’تم بتاؤ تمہاری بیوی بچے سب کیسے ہیں؟‘‘
اس کے لہجے اور الفاظ کو نظر انداز کر کے وہ انتہائی سرسری انداز میں بولی ۔ تا کہ مقابل کو پتا چل سکے کہ وقت آگے بڑھ چکا ہے۔
وہ ہلکا سامسکرایا۔
’’ چھوڑو ‘ اس بات کو۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ وہ حیران ہوئی۔
’’میں نے شادی ہی نہیں کی۔‘‘
’’واٹ؟‘‘ میرب کو حیرت کا جھٹکا لگا۔
’’کیوں نہیں کی؟ ‘‘ بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا مگر اس کی گہری بھوری آنکھوں میں نہ جانے کیا تھا کہ وہ ایک دم نظر چرا گئی۔
’’اور تم تو اس شہر سے نہیں تھے ۔ یہاں کیسے؟‘‘ وہ فوراََ بات بدلتے بولی ۔
’’پہلی جاب ختم ہوئی تو دوسری جاب کے لیے آیا ہوں یہاں۔‘‘وہ ہلکا سا ہنس کر بولا۔
’’میں چلتی ہوں بچوں کو اسکول بھیجنا ہے ۔‘‘
اس نے سر جھکائے آہستگی سے کہا اور واپس جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ۔
’’کل آؤ گی نا؟‘‘ اس نے پکارا۔
میرب نے کوئی جواب نہ دیا۔
پارکنگ میں رش تھا ۔اس نے مڑ کر دیکھا وہ ایسے کہیں نظر نہیں آیا ۔ اطمینان بھرا سانس لے کر وہ اپنی گاڑی کی طرف بڑھی ۔ اس کا مطلب وہ اس کے گھر تک پیچھا نہیں کرے گا ۔ وہ عجیب سی کیفیت میں گھر تک پہنچی ‘ بچے ابھی تک سورہے تھے ۔بچوں کو جگا کر اسی کیفیت میں وہ کچن کی طرف بڑھ گئی ۔بھاگم بھاگ بچوں کو ناشتہ کروایا ۔اُن کو اسکول بھیج کر وہ عفان کا ناشتہ بنانے لگی۔
نوفل کلاس ٹو کا اسٹوڈنٹ تھا ۔جبکہ عریشہ نے ابھی نیا نیا سکول جانا شروع کیا تھا ۔ اس کے شوہر کی ایک چھوٹی سی کنسٹرکشن کمپنی تھی ‘ سو وہ خود ہی باس تھا ۔ اپنی مرضی سے سو کر اُٹھتا اور دس گیارہ بجے تک گھر سے
جاتا پھر رات گئے واپس آتا تھا ۔سب روٹین کے کاموں سے فارغ ہو کر وہ اپنی چائے لے کر ٹی وی کے آگے بیٹھ گئی۔
صبح کا واقعہ ابھی تک ذہن سے چپکا ہوا تھا ۔ اپنی شدید مصروفیت کی وجہ سے وقتی طور بھول چکی تھی۔ اب’’فراغت ‘‘میسر آئی تو ملاقات یاد آئی۔
’’میں نے شادی نہیں کی ۔‘‘ ذہن نے اس کے کہے الفاظ دہرائے ۔
’’کیوں نہیں کی؟ کیا میری وجہ سے…‘‘
یہ وہ سوال تھا جس پر وہ قطعاً غور نہیں کرنا چاہتی تھی۔ آج کے دور میں کون کسی کے لیے جوگ لیتا ہے بھلا،سب افسانوی باتیں ہیں۔ اس لیے سر جھٹک کر ٹی وی کی طرف متوجہ ہوگئی۔
تو یہ ملاقات محض اتفاق تھی وہ اس کا پیچھا نہیں کر رہا تھا،اب تو خیر وقت ہی اتنا گزر چکا تھا وہ خوامخواہ اتناڈر گئی تھی ۔ابھی میں دو دن و اک پر نہیں جاؤں گی تو خود ہی آنا چھوڑ دے گا ۔ وہ دل ہی دل میں پختہ ارادہ کر رہی تھی،نیند آنے تک اس کے دماغ میں ایک ہی بازگشت تھی۔
’’ میں نے شادی ہی نہیں کی۔‘‘
٭…٭
الارم کی آواز پر اس کی آنکھ کھلی ۔ حسب عادت اٹھنے سے پہلے اُس نے ہاتھ بڑھا کر عفان کا بازو ہلایا۔
’’اٹھیں نماز کا وقت نکل رہا ہے۔‘‘
ہلکا سا’’ہوں ‘‘کہہ کر وہ کروٹ بدل گیا ۔گہرا سانس لے کر وہ اُٹھ گئی ۔نماز سے فارغ ہو کر وہ دوبارہ بیڈ پر آکر بیٹھ گئی ۔کل والی بات ذہن میں تھی ۔ سو آج وہ پارک نہیں جانا چاہتی تھی ۔برسوں کی روٹین کی وجہ سے دوبارہ نیند آنا بھی دشوار تھا ۔سو وہ موبائل لے کر لیٹ گئی ۔نظریں اسکرین پہ تھیں اور ذہن کل والے واقعہ میں الجھ رہا تھا۔
’’کیاوہ آج بھی پارک آیا ہوگا؟ اور آج اگر میں جاتی تو وہ مجھ سے اور کیا کہتا؟ ‘‘
اس سوچ نے دل میں انگڑائی کیا لی،وہ کب بیڈسے اُٹھ بیٹھی خبرہی نہ ہوئی ۔ روزانہ کے معمول میں وہ جیسے تیسے حلیے میں ہوتی چل پڑتی مگر آج اُس کی گاڑی گیٹ سے نکل رہی تھی تو وہ ہلکے پنک رنگ کے لباس میں‘ لائٹ میک اپ کیے ہوئے تھی۔
٭…٭

1 2 3 4اگلا صفحہ

Related Articles

2 Comments

  1. نام سے کہانی کافی حد تک واضح ہو گئی تھی مگر نام نے شک پیارا تھا۔ مگر اس کہانی کو سب سے خاص جو چیز بناتی ہے، وہ میرب کی کیفیت کو جس انداز سے بیان کیا گیا ہے۔ اس کے اندر کا حال اس انداز سے بیان ہے کہ پڑھنے والے کو اس کی مجبوری بھی سمجھ آ رہی تھی اور غلط کرنے سال کو وہ بری بھی نہیں لگ رہی تھی۔
    باقی ایک پیاری کہانی تھی جس میں سبق بھی تھا اور سچائی بھی۔ مستقبل کے لیے best of luck

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے