مکمل ناول

کوئی عشق وقت غروب سا : فرزانہ کھرل

جہاں سے وہ نئی اسکیم کی کالونی شروع ہو رہی تھی ۔ اس کے پہلے سرے پہ وہ ایک جدید طرزِ تعمیر کی کوٹھی تھی ۔ اسکول سے امینہ کو لے کر وہ سیدھی ادھر آگئی تھی ۔ جتنی وہ کو ٹھی باہر سے خوب صورت تھی ‘ اندر سے کہیں زیادہ آرائش و زیبائش سے مرئین تھی۔
وہ بوڑھی عورت ایک نرم مزاج اور نرم خو عورت تھی۔
’’ماں جی ! کل کے بعد میں سویرے ہی آجایا کروں گی۔ کیونکہ کل سے امینہ کی گرمیوں کی چھٹیاں ہو جائیں گی ۔ ‘‘ وہ بوڑھی اماں جس نے اپنا نام جاثیہ بتایا تھا۔ امینہ کو دیکھ کر محبت اور نرمی سے مسکرائی۔
’’بھئی امامہ! تمہاری بیٹی تو تم سے کہیں زیادہ خوب صورت ہے۔ ‘‘ اس نے امینہ کو اپنے ساتھ بیڈ پر بٹھا لیا۔ چھٹیوں کے بعد وہ سویرے ہی امینہ کو اپنے ساتھ لے کر آجاتی‘ اور مغرب سے کچھ دیر قبل ان دونوں کی واپسی ہوتی۔ امامہ چادر سے اپنا چہرہ ڈھک کر آتی تھی۔
٭…٭
ڈائری یہاں تک پڑھ کے میشان نے واپس رکھی اور سو گئی۔
اس نے مدرسے کے کافی کام اپنے ذمے لے لیے تھے ‘ وہ بچیوں کو اردو بھی پڑھاتی تھی اور کچن کے کاموں میں بھی منی کی مدد کرتی تھی ۔ یہاں آئے ہوئے اسے چھ ماہ سے زا ئدہ ہو گئے تھے۔ صدیقہ کا حکم تھا کہ اس مدرسے میں قرآن پاک اور اسلامی کتب کے علاوہ اور کچھ نہیں پڑھایا جاتا۔
دو تین دنوں سے صدیقہ خالہ کسی الجھن کا شکار تھیں ‘ گویا کوئی بات ان کے لب پہ آکے ٹھہر جاتی ۔ اس دن دروازے پہ وقفے وقفے سے دستک ہو رہی تھی۔ دروازہ کھولنا صرف منی کے ذمہ تھا۔
’’ارے کوئی مانگنے والی ہے تو دے ‘ دلا کر اسے بھگاؤ۔ ‘‘ خالہ نے منی کو گھورا۔
’’ارے نہیں خالہ۔ پہلے دودھ وہی والا۔ پھر دکان والا۔ اور اب بجلی والا آیا تھا ۔ ‘‘ منی کنڈی چڑھا کر ان کے پاس آبیٹھی۔
خالہ کے ماتھے یہ تیوریاں چڑھیں۔
’’ پہلے تو یہ سب کبھی دروازے پر نہیں آتے تھے۔میں ہی جاکر تمام حساب کتاب دے آتی تھی پھر اب ۔‘‘ انہوں نے چونک کر میشان کی طرف دیکھا۔ پھر دوسرے دن جب وہ وہاں سے رخصت ہو رہی تھی تو خالہ نے نظریں جھکا کر کہا تھا۔
” مجھے معاف کرنا بیٹی۔ میں بیوہ عورت اتنے سالوں سے مدرسہ چلا رہی ہوں۔ دور ‘ دراز کی بچیاں بھی یہاں حفظ کرتی ہیں مگر اس درازے پہ بھی مردوں نے دستک نہیں دی تھی۔‘‘
اس نے ان کا شکریہ ادا کیا اور رکشے میں اپنا سامان رکھا ۔ وہ اب اپنی سب سے اچھی دوست حمنہکے پاس جارہی تھی جو شہر کے پوش علاقے میں ایک پرائیویٹ اسکول چلا رہی تھی ۔ وہ اسکول ٹائم میں گئی تھی جلد ہی وہ اس کے سامنے بیٹھی تھی۔
’’مگر یار تمہاری شادی تو کسی لینڈ لارڈ سے ہوئی تھی ۔ ‘‘ حمنہ نے اپنے تراشیدہ ہالوں کو ایک نزاکت سے جھٹکا دیا۔
’’میرا کیس چل رہا ہے ‘ جلد ہی میرا حصہ مجھے مل جائے گا فی الحال مجھے جاب اور رہائش کی ضرورت ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے جاب تم میرے اسکول میں ہی کر سکتی ہو اور رہائش کا بھی بندوبست ہو جائے گا۔‘‘ کچھ دیر سوچنے کے بعد حمنہ نے اسے جیسے بہت بڑی خوش خبری سنائی تھی ۔ اس کے پاس کچھ کیش تھا ‘ زیورات بھی تھے‘ اس کا کوئی اکاؤنٹ نہیں تھا ۔ وہ اپنی دوست کو اپنے مالی حالات بتا کر خود کو ہلکا نہیں کرنا چاہتی تھی۔
’’اور تم نے یہ چادر کب سے لینی شروع کر دی ۔‘‘ اس نے اپنے حلیے پہ نظر ڈالی ۔ لباس چونکہ صاف تھا مگر دھل ‘دھل کر اپنا اصلی رنگ کھو چکا تھا ۔ حمنہ کی آنکھوں میں اس کے لیے استہز ا تھا۔
’’میری کسی بزرگ نے کہا تھا کہ بیوہ عورت کو بناؤ سنگھار نہیں کرنا چاہیے اور اپنا وجود ڈھانپ کر رکھنا چاہیے۔ ‘‘ اس نے دھیمے لہجے میں کہا ۔
’’اب میں وہ میشان نہیں ہوں۔‘‘ حمنہ پتا نہیں کیوں کوئی بھی بات کیے بنا چپ ہوگئی۔
’’اور تمہاری گاڑی ؟ ‘‘ اس کو جیسے کچھ یاد آیا۔
’’وہ میں نے بیچ دی ۔ ‘‘ اف جھوٹ پہ جھوٹ۔ آخر میں اور کتنے جھوٹ بولوں گی ۔ وہ جیسے خود سے شرمندہ ہوئی۔
٭…٭
ایک دو ہفتے حمنہ کے گھر رہنے کے بعد وہ ایک چھوٹے سے کرائے کے گھر میں شفٹ ہو گئی ‘ جہاں سے اسکول بھی قریب تھا ۔ زندگی میں جیسے ایک ٹھہراؤ سا آگیا تھا ۔ اس نے اپنے لیے کچھ نئے سوٹ خریدے تھے اور پرانے کپڑوں میں سے جو بہتر تھے ۔ وہ انہیں بھی استری کر کے رکھنا چاہتی تھی ‘ تب ہی اس کی نظر اٹیچی میں رکھی ڈائری پہ پڑی ۔ کل اتوار تھا اس نے سوچا آج میں اسے ختم کرلوں گی ۔
امینہ کی زندگی میں پایا جیسا شان دار مرد آخر کیسے آیا تھا ۔ اس تمام کہانی میں اسے یہ جاننے کا تجسس سب سے زیادہ تھا ۔ اس نے کمرے کا لاک چیک کیا ۔ پاپا کے گھر وہ بھی لاک لگا کر نہیں سوتی تھی ۔ اس کے دل پہ کوئی بوجھ سا گرا ۔ پاپا آپ نے مجھے زندگی میں آنے کیوں دیا تھا ۔ اگر مجھے اپنی زندگی سے بے دخل کرنا تھا۔ صوفہ کم بیڈ پہ لیٹ کر اس نے ڈائری اپنے زانو پر رکھی۔
٭…٭
ڈائری…
’’اتنی مشکل زندگی کیوں گزار رہی ہو۔ امامہ۔ ‘‘ وہ ان کے پیروں کی مالش کر رہی تھی جب جاثیہ نے دوبارہ سوال کیا ۔ تین ماہ پہلے بھی انہوں نے یہ سوال کیا تھا ۔
’’ مشکل میں ہی آسانی ہوتی ہے جی ! ‘‘ وہ آہستہ سے بولی۔ وہ نماز کی پابند تھی‘ اور بہت کم گو تھی۔
’’جس کا ہاتھ میں تھامتی ‘ وہ امینہ کا ہاتھ نہیں تھام سکتا تھا اور اب میں نے جس کو سہارا بنایا ہے وہ امینہ کاسہارا ضرور بنے گا ۔ ‘‘ اس کے چمکتے دمکتے پریقین لہجے پر جاثیہ اسے دیکھ کر رہ گئیں۔ انہوں نے امامہ کو اندر تک پڑھ لیا تھا جس نے اپنے لیے مشکل راستہ چنا تھا۔
’’پرسوں میرا نواسا آرہا ہے ‘ اوپر والا کمرہ اچھی طرح صاف کرنا ۔‘‘ جاثیہ خاتون اس کے چہرے سے نظریں ہٹا کر پر جوش سی ہو کر بولیں۔
’’اور آپ کی بیٹی؟‘‘ امامہ بھی خوش ہوئی۔
’’میری بیٹی اب اس دنیا میں نہیں۔ مگر ہر سال جب برطانیہ میں سردیوں کی چھٹیاں ہوتی ہیں تو وہ مجھ سے ملنے آجاتا ہے ۔ ‘‘ ان کا افسردہ لہجہ سن کر امامہ بھی دکھی سی ہو گئی۔
’’امینہ کو بھی کمپنی مل جائے گی۔ ‘‘ جاثیہ نے قالین پہ کھیلتی امینہ کو محبت پاش نظروں سے دیکھا ۔ جو ٹوٹی پھوٹی چیزوں سے بطور کھلونے کھیل رہی تھی۔
امامہ اپنے تئیں سوچے بیٹھی تھی کہ جاثیہ کا نواسا ایک مغرور بد تمیز اور نک چڑھا سا نوجوان ہو گا۔مگر اس کی سوچوں کے برعکس وہ انتہائی تمیزدار سلجھا ہوا ‘ آٹھ سال کا بچہ تھا۔ اسے امامہ پسند آئی تھی۔ جس کا اس نے فوراََ اظہار بھی کیا۔
’’آپ ہر بار بور ہوتے تھے تو دیکھ لو اس دفعہ میں نے آپ کی بوریت دور کرنے کے تمام انتظام کر رکھے ہیں ۔ ‘‘جاثیہ نے امینہ کو پاس بلا کر اس کا تعارف مصطفیٰ سے کروایا ۔ کیونکہ وہ دو دن ماں کے ساتھ نہیں آئی تھی ‘ حبیبہ بیمار تھی جسے اب زیادہ تر امینہ ہی سنبھالتی تھی ۔ مصطفیٰ نے اپنے سے چھوٹی، سہمی سہمی سی بچی کو دلچسپی سے دیکھا ۔ جو امید و بہم کی کیفیت میں گھری تھی کہ اتنے خوب صورت کپڑوں میں ملبوس صاف ستھرا بچہ اس سے دوستی کرے گا یا نہیں۔
مصطفیٰ نے مسکرا کر اس سے ہاتھ ملایا ‘ تو امینہ کے چہرے پہ بھی کھلی کھلی سی مسکراہٹ ابھری ۔
’’نانو آپ نے اس کے لیے وہ تمام ڈولز منگوائی ہیں ناں۔‘‘ وہ پلٹ کر پوچھنے لگا تو نانو نے اثبات میں سرہلایا۔
مصطفیٰ کو واقعی ایک اچھی کمپنی مل گئی تھی۔ اس دفعہ اس کو اس کے پسندیدہ کھانے بھی مل رہے تھے اور کھیلنے کے لیے ساتھ بھی مل گیا تھا اب وہ نانو کے کمرے میں صرف ان کے بلانے پر ہی آتا تھا۔
٭…٭
’’مجھے تو لگتا ہے تم نے اپنی بھانجی اس امیر بڑھیا کو سیل کر دی ہے۔‘‘ کریم سامنے شیشہ رکھ کر مونچھوں کو درست کر رہا تھا۔
’’بلی کو چھیچھڑوں کے خواب ہی آئیں گے۔‘‘ خدیجہ بڑبڑائی۔
’’ اپنا کما کر کھارہی ہے مفت کی روٹیاں نہیں توڑتی ۔‘‘ امینہ بظاہر حبیبہ سے کھیل رہی تھی مگر اس کا دھیان ان دونوں کی باتوں پہ لگا تھا۔
’’بڑا اچھا ٹھسے کا رشتہ ہے ایک ۔ اس سے کچھ ہمت دکھا کے بات کرنا۔‘‘ وہ قینچی رکھ کر خدیجہ کے پاس آیا۔ جو مشین پر جھکی حبیبہ اور امینہ کے کپڑے سی رہی تھی۔
’’میری بات کو سمجھنے کی کوشش تو کر ۔ ہماری اور ہماری بیٹی کے فائدے کے لیے کرتا ہوں ۔ پانچ لاکھ پر بھی وہ راضی ہے ‘ بس تو امامہ کو کسی نہ کسی طرح راضی کر ۔ ‘‘ وہ حدرجہ خوشامدی لہجے میں بولا ۔ خد یجہ نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اسے زخمی شیرنی کی طرح دیکھا۔
’’خدا کے قہر سے ڈر کریم یتیم بچی کے سرسے اس کا سہارا چھینے گا۔ ایک بیوہ کے دام کھرے کرے گا ‘ تو خدا کے سامنے کیا منہ لے کر جائے گا۔ ‘‘
امینہ اب آٹھ سال کی تھی ‘ وہ لوگوں کے رویے اور باتیں سمجھنے کی کوشش کرتی تھی ۔ اسے اتنا علم تھا کہ گفتگو اس کی ماں کے بارے میں ہو رہی ہے۔
’’تو صاف صاف کہہ کہ تو میرا ساتھ نہیں دے گی۔‘‘ وہ غصے سے تلملا کر بولا۔
’’ہاں نہیں دوں گی۔‘‘ وہ بھی اس کے انداز میں گویاہوئی۔
’’تو پھر ٹھیک ہے جو مجھے کرنا ہو گا کرلوں گا۔‘‘ یہ بات اس نے دل میں کی تھی ‘ خدیجہ کے انکار نے دل میں آگ سی لگادی تھی۔
’’بڑی پار سابنی پھرتی ہے ‘ جب یہ غرور ٹوٹے گا تو خود ہی سید ھی لائن پہ آجائے گی۔‘‘
اس لمحے امینہ کو کریم کے چہرے سے خوف محسوس ہوا تھا ۔ جتنا وہ سمجھ پائی تھی ‘ وہ ماں سے تنہائی میں ملتے ہی حرف بہ حرف بتاتی گئی ۔ بیٹی کی باتیں سن کر امامہ کے چہرے پہ ہوائیاں اڑنے لگیں ۔ اس کے بعد وہ اس قدر محتاط ہو گئی تھی کہ خدیجہ کے ساتھ ہی گھر سے نکلتی‘ واپسی پہ جاثیہ کا مالی اسے چھوڑنے آتا۔
اسے مسلسل کھانی کی شکایت رہنے لگی ۔ وہ احتیاط کرتی تھی مگر خوف زدہ نہیں تھی‘ اس کا توکل مضبوط تھا ۔ کریم کی ہر کوشش رائیگاں گئی ‘ وقت گزرتا گیا۔ اب مصطفیٰ کو پاکستان آنے کے لیے نانو کے علاوہ امامہ اور امینہ سے ملنے کی طلب بھی رہتی تھی۔ ایک دن امامہ جاثیہ کے گھر بے ہوش ہو گئی۔ جاثیہ ڈرائیور کے ساتھ اسے اسپتال لے آئیں ‘ امینہ بھی ساتھ تھی ۔ امامہ کے پھیپھڑے ناکارہ ہو چکے تھے۔
’’امینہ کو میں نے اللہ اور اس کے پیارے حبیب کی پناہ میں دیا ۔‘‘ کچھ ہی عرصے میں وہ اس دنیا سے جاچکی تھی۔ اس نے کلمہ پڑھنے سے پہلے یہ واحد اور آخری بات کی تھی ۔ اس کی تدفین کا سارا انتظام بھی جاثیہ نے ہی کیا تھا ۔ امامہ کی موت کی صورت کریم منہ کے بل گرا تھا ۔ اس کے تمام منصوبے چکنا چور ہو گئے تھے۔ کتنے ہی دن وہ بائولوں کی طرح مارا ‘ مارا پھرا تھا۔
اسے اپنے ناکام ہونے کا دکھ تھا یا کوئی اور یہ دلوں کے بھید بس اللہ جانتا ہے ۔
ڈائری نیچے گری تھی، میشان نے نیند کے غلبے میں یہ آخری الفاظ بمشکل پڑھے تھے ۔ امینہ ‘ امامہ اور کریم وہ تمام رات انہیں خواب میں دیکھتی رہی تھی۔
٭…٭
’’حمنہ! تمہارا شوہر ‘ہر سال میں کتنے چکر لگاتا ہے۔‘‘ ایک دن یوں ہی اس نے باتوں میں تذکرہ کیا۔
’’ وہ جہاں رہتا ہے وہاں بہت خوش ہے ۔ ‘‘ حمنہ نے آزردگی سے کہا۔
’’کیونکہ اسے وہ ماحول سوٹ کرتا ہے۔ خیر چھوڑو۔ تم بتاؤ اب آگے کیا ارادے ہیں۔‘‘ اس نے میشان کے دلکش چہرے کو نظر بھر کے دیکھا۔
’’یار میں لڑکی ہو کے تم پہ فدا ہونے لگتی ہوں‘ تو پھر سوچو مردوں کا کیا حال ہو تا ہو گا ۔ ‘‘ حمنہ کا شرارتی لہجہ ازِ حد شوخ تھا۔
’’کبھی تھا یہ غرور ۔ پھر یوں ٹوٹا کہ آئینہ ہی دیکھنا چھوڑ دیا۔‘‘ میشان جیسے ماضی میں جھانک کر بولی تھی۔
’’ایسا کون نظر کا اندھا تھا۔ ‘‘ حمنہ ذرا سا ہنسی۔
’’ہاں نظر کا اندھا تھا‘ اسے کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ وہ دل کی آنکھوں سے دیکھتا تھا اور پتا نہیں کسے دیکھتا تھا ۔‘‘ حمنہ اس کے بے خود سے انداز کو محویت سے تک رہی تھی۔
’’چھوڑو اب ان باتوں میں کیا رکھا ہے۔‘‘وہ ایک دم چونکی تھی۔
’’ ان باتوں میں بہت کچھ ہے۔ میری مانو میشان! کسی اچھے مخلص سے شخص سے شادی کر لو۔ ‘‘ اس کے دھیان کے پرندے کسی جانب اڑے تھے ‘ کوئی چہرہ بھی یاد آیا۔
’’اب تک تو وہ پاکستان آچکا ہو گا تو پھر اس نے تجھے ڈھونڈنے کی کوشش بھی کی ہوگی۔‘‘
دل خوش گماں ذرا ٹھہر جا
یہاں پل کا ساتھ بھی ہے کٹھن
جو ہے‘ عشق تو
وہ زوال ہے
یہاں فاصلوں کو عروج ہے
دل خوش گماں ذرا ٹھہر جا
تیرا عشق وقت غرور ہے
٭…٭
وہ اب امیر شہر نہیں تھا ۔
وہ غریب دل ‘ غریب جاں اور غریب نظر تھا ‘ دل بے حال … جاں ‘ جاں گسل اور نظر جسے تلاشتی تھی ۔
وہ چہرہ وقتِ شاخسار نے اپنی اوٹ میں لے رکھا تھا ۔ اس نے اسے پاگلوں کی طرح ڈھونڈا تھا اور ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر پاگل ہوا تھا ۔ وہ ہر اس ٹھکانے پر گیا، جہاں اس کا ملنا ممکن تھا۔
وہ ان راستوں پہ گھنٹوں کا حساب کیے بنا ٹھہرا رہا ۔ جہاں سے کبھی اس کا گزر ہوتا تھا۔
ڈرائیور جس کے گھر پہ حاشر نے ڈراپ کیا تھا ۔ اس کے اس انکشاف پہ کہ بی بی میرے ساتھ جہلم اپنے رشتے داروں کے ہاں جاتی تھی ‘ وہ اس شہر محبوب میں بھی دو ہفتے گزار آیا تھا ۔ وہاں اب جو لوگ مقیم تھے ‘ انہوں نے بتایا تھا کہ وہ لوگ چند سال قبل یہ گھر بیچ کر دبئی شفٹ ہو چکے ہیں ‘ مگر یہ فہیم عاقل کی موت سے پہلے کی بات تھی۔
مگر وہ دبئی بھی نہیں گئی تھی ‘ تو پھروہ کہاں تھی۔ دو سال کچھ زیادہ عرصہ تو نہیں ہوتا ۔ وہ تھک ہار کر گھر واپس آیا تھا ۔
نصیر کہتی تھی‘ جبیں زہرہ کے بعد یہاں سب کچھ بے آباد ہو گیا۔
’’وہ کوئی ولی اللہ نہیں تھی۔‘‘ اس کی بات سن کر انیقہ بیگم کا دل ‘ بھانبڑ کی طرح جل اٹھتا۔
’’ولی اللہ سے کم نہیں تھی ‘ اپنے جھلے اللہ لوک چچا کی مریدنی تو تھی ‘ نہ کبھی وہ حسن آرا کی طرح ہار سنگھار کرتی تھی‘ نہ ثوبیہ بی بی کی طرح خوشبوئیں لگاتی تھی ۔ چچا کو خوش کرنے کے لیے ننگے پاؤں چلتی تھی ۔ ‘‘ اب کے انیقہ بیگم پتا نہیں کیا سوچ کر خاموش رہیں ۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے