کوئی عشق وقت غروب سا : فرزانہ کھرل
وہ ایک نئے دروازے کے سامنے کھڑی تھی۔ بھولی بسری یادوں نے سر اٹھایا ‘ ہاتھ دستک کے لیے اٹھا‘اس کی تیسری دستک پہ دروازہ کھل گیا تھا۔
’’ کون ہے منی؟ ‘‘ میشان نے وہ آواز پہچان لی تھی۔
’’بے بے کوئی باجی آئی ہے۔‘‘ بچی بڑے اشتیاق سے اسے دیکھ رہی تھی۔
’’تو پھر اسے آگے آنے دے ‘ راستے میں کھڑی ہے۔‘‘ بے بے نے گھر کا ۔ بچی فوراََ ایک طرف ہوئی۔
’’میں صدقے ‘ میں قربان ۔‘‘ صدیقہ اسے پہچان کر بمشکل کمر پر ہاتھ رکھ کر اٹھیں۔
’’ارے‘ ارے خالہ! بیٹھی رہیے۔‘‘ میشان تیزی سے ان کی طرف آئی ۔ چائے پینے کے دوران وہ اس سے چیدہ ‘چیدہ باتیں پوچھ چکی تھیں اور میشان بھی جتنا بتانا تھا بتا چکی تھی۔
’’خالہ! مجھے اس مدرسے میں رہنے کے لیے کمرہ دے دو ۔ میں ہرماہ کرایہ دوں گی اور باقی خرچا بھی۔‘‘ صدیقہ نے اس کا روشن ‘ پریشان چہرہ دکھ سے دیکھا۔
’’منیا۔ باجی کا سامان سب سے بڑے والے کمرے میں رکھ دو۔‘‘
’’میں جلد ہی کوئی کام ڈھونڈ لوں گی۔‘‘ میشان نے آنکھوں میں آئے تشکر کے آنسو سرجھکا کر صاف کیے۔
خالہ نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا پھر چپ ہو گئیں۔
’’اچھا ٹھیک ہے ابھی جاکر آرام کر۔‘‘ خالہ پھر سے بچیوں کو سبق یاد کروانے لگیں۔ تو میشان منی کی معیت میں اپنے ٹھکانے کی طرف بڑھی ۔وہ کشادہ اور پرسکون کمرہ تھا۔ پلنگ پہ چادر بھی صاف ستھری تھی۔ لیٹتے ہی اس کی آنکھ لگ گئی ۔ وہ تمام رات کی جاگی ہوئی تھی۔
تین چار روز تک صدیقہ خاموشی سے اس کا جائزہ لیتی رہیں ۔ میشان اور آئمہ نے صدیقہ سے ہی قرآن پاک پڑھا تھا۔ وہ بہت نیک اور با مروت خاتون تھیں ۔ کبھی میشان کو ان سے کچھ پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی۔اس دن اس نے نہا کر ہلکا پیازی کلر کا سوٹ پہنا۔ اُس کا گورا رنگ دمک رہا تھا۔صدیقہ نے دہل کر اسے دیکھا ‘ پھر فارغ وقت میں موقع دیکھ کر اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’میری بچی تو خوب صورت ہے ‘ جوان ہے ‘ زندگی ایسے نہیں گزرے گی ۔ میر ی مان کسی کا ہاتھ تھام لے۔ اپنا گھر دوبارہ آباد کر۔‘‘میشان کی حیرت دیدنی تھی ۔
’’سیما کی بھی گزر گئی۔ آپ کی بھی گزر گئی۔ میں کیوں نہیں گزار سکتی۔” وہ روہانسی ہی ہو کر بولی۔
’’بیٹا! ہمارے پاس اماں باوا کا ٹھکانہ تھا۔ سو گزر گئی۔ ‘‘خالہ نے دکھ سے سرہلایا۔
’’تو میرے پاس بھی آپ کا ٹھکانہ ہے ۔‘‘ وہ رسانیت سے بولی ۔
’’بیٹا برا مت ماننا مگر …‘‘ وہ کچھ جھجکیں۔
’’گلی محلے والے خصوصا مرد حضرات مجھ سے کئی دفعہ تمہارا پوچھ چکے ہیں‘ میں نے جھڑک کے انہیں خاموش کروا دیا ۔ یہ دنیا بڑی ظالم ہے میشان! تیرا اپنا گھر ہے جب تک دل کرتا ہے رہ مگر میری بات پہ سوچنا ضرور ۔ ‘‘ خالہ وضو کے لیے اٹھ گئیں تو وہ بھی اپنے کمرے میں آگئی، کروٹیں بدل بدل کر اس کے پہلو تھک گئے تھے مگر کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی۔اس کے ذہن میں جھما کا سا ہوا۔ وہ سرعت سے اٹھی۔
زندگی کبھی بھی کسی کے لیے تمام دروازے بند نہیں کرتی ۔ وہ تیزی سے اپنے اٹیچی کیس کی طرف آئی ۔ اس نے تمام چیزوں کو الٹ پلٹ کر باہر پھینکا‘ اور سب سے نیچے پڑی ڈائری کو کسی قیمتی خزانے کی طرح دیکھا ۔ اس نے ڈائری تکیے کے پاس رکھی اور تمام چیزیں دوبارہ اٹیچی میں بھر کر اپنی کوپلنگ کے نیچے کھسکا دیا ۔ ڈائری ہاتھوں میں لینے کے بعد وہ کتنی دیر اسے گھورتی رہی۔ پہلا صفحہ کھولنے پر ڈائری سے ایک خوشبو سی اڑی تھی‘ جو اس کے حواسوں پر چھانے لگی۔
٭…٭
ڈائری…
ایک مہینے کے اندر انہوں نے چار گھر چھوڑے تھے ۔ اب یہ پانچواں گھر تھا ‘ جس کے دروازے پہ امامہ دستک دے رہی تھی ۔ سخت گرمی کے دن تھے دور ‘ نزدیک عصر کی اذانیں ہورہی تھیں ۔ امامہ نے سوٹ کیس دائیں ہاتھ میں منتقل کیا ۔ اس کا بایاں ہاتھ سن ہوچکا تھا۔ اس کے ہمراہ ایک پانچ برس کی بچی بھی تھی۔ جو اپنے منہ اور گردن سے بار بار پسینہ پوچھ رہی تھی۔
’’ آرہی ہوں۔ آرہی ہوں۔‘‘ کوئی عورت بولی تھی ‘ دوسرے لمحے دروازہ کھل گیا ۔ دروازہ کھولنے والی عورت نے حیرت و خوشی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ اسے دیکھا ۔ پھر ایک طرف ہو کر اسے اندر آنے کا راستہ دیا۔
’’آجاؤ آجاؤ۔ ‘‘کہتی وہ ان سے آگے ‘آگے تھی ۔ امامہ اس عورت کے ساتھ برآمدے میں بچھے تخت پر بیٹھ گئیں ۔ چھت والا پنکھا چلا ہوا تھا بچی کو تھوڑ اسکون محسوس ہوا۔
’’ ماشاء اللہ بڑی ہوگئی ہے کیا نام ہے اس کا۔‘‘ اس عورت کی آنکھوں میں بچی کے لیے ہمدردی اور رحم کے جذبات تھے۔
’’امینہ‘ امینہ ابرار …‘‘ امامہ نے پورا نام بتایا۔
’’شہزادی ہے ‘ شہزادی… ایسی کیا ضرورت تھی خدا کو ابرار کی‘ بچی بیچاری تو رل گئی‘ آہ ۔‘‘ خالہ نے ٹھنڈی آہ بھری تھی۔
’’ایسا نہیں کہتے خالہ ۔ رب عظیم کے ہر کام میں حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔‘‘ امامہ کو ان کی بات سن کر خوف محسوس ہوا تھا ۔ خالہ اس کے لیے پانی وغیرہ لینے گئیں ‘ تو اس نے نگاہ چاروں اطرف دوڑا کر گھر کا جائزہ لیا۔ تین یا چار مرلے کا گھر خاصا کشادہ لگ رہا تھا ‘ شاید سامان یا پھر افراد کی کمی وجہ سے ۔
’’اپنے دل پہ مت لینا امامہ !ویسے ایک بات پوچھ رہی ہوں۔ تم جوان ہو ‘خوب صورت بھی ہو۔ تمہاری اولین ترجیح تمہارا میکہ ہونا چاہے تھا ۔ ‘‘ خالہ نے اس کے خاصے بھاری اٹیچی کیس کو دیکھا۔ اور گلاس میں شربت ڈال کر اس کی طرف بڑھایا۔ وہ کتنی ہی دیر سر جھکائے بیٹھی رہی۔ امینہ نے شربت ختم کر کے گلاس ٹرے میں رکھ دیا۔
’’میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ دل پہ مت لینا۔‘‘ خالہ نے اس کے ہاتھ میں گرم ہو تا شربت دیکھا۔
’’حسنہ بھابھی نے اپنے رنڈوے بھائی سے میرا نکاح کرنے میں ایک دن کی تاخیر بھی نہیں کرنی تھی ۔ جس کے دو جوان ہوتے بیٹے بھی ہیں‘ اور پیچھے میکے میں بھی بھائیوں کے بیٹے ہی ہیں ۔ خالہ میری بیٹی نے رل جانا تھا ۔ ایسی بہت سی کہانیاں دیکھیں اور پڑھی بھی ہیں ۔ جہاں بچیاں سوتیلے باپ سے بھی محفوظ نہیں رہ پاتیں ۔ میں نے اب زندگی اس کے لیے گزارنی ہے ۔‘‘اس نے گھونٹ گھونٹ گرم شربت حلق میں انڈیلتے ہوئے اپنے خدشات کا اظہار تفصیل سے کیا۔
’’بچی تو صرف محرم رشتوں میں ہی محفوظ تھی۔‘‘ خالہ نے جیسے اپنے آپ سے کہا۔
’’خالہ! میں نے بہت کوشش کی کہ امینہ کو وہاں سے لے کر نہ نکلوں مگر انہوں نے حالات ہی ایسے پیدا کردیے ۔ ابرار کے چالیسویں پر بھری برادری میں دونوں بھائیوں نے اعلان کر دیا کہ ابرار کاروبار اور مکان سے اپنا حصہ وصول کر چکا تھا ۔ وہ دبئی جا کر بزنس کرنا چاہتا تھا ۔ انہوں نے تمام کاغذات پہ ابرار کے دستخط سب کو دکھا دیے تھے اور مجھ اکیلی کی بات پہ کسی نے بھی یقین نہیں کیا ۔ میری جیٹھانیوں نے بعد میں مجھے پہ الزام لگا دیا کہ تم اپنے حسن کے چنگل میں ہمارے شوہروں کو پھانسنا چاہتی ہو ۔ میں تو اپنی بیٹی کی وجہ سے ان لوگوں کے برتن مانجھ کر بھی گزارا کر لیتی مگر وہ ٹھکانا نہ چھوڑتی‘ مگر خالہ…‘‘
وہ ایک دم چپ ہو گئی۔ پھر توقف سے بولی۔
’’میرے جیٹھ بھی مجھے مفت کا مال سمجھنے لگے تھے۔‘‘ اس کے ٹوٹے لہجے میں آنسوؤں کی نمی گھل گئی تھی۔ خالہ نے بے ساختہ اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔
’’چپ کرو امامہ ‘ اللہ بھلا کرے گا۔‘‘
’’میں کوئی نہ کوئی کام ڈھونڈلوں گی یا ٹیوشن سینٹر کھول لوں گی۔ بس مجھے محفوظ ٹھکانہ چاہیے ۔‘‘ خدیجہ نے اثبات میں سرہلا تو دیا تھا مگر ان کے چہرے پہ سوچ کی لکیریں مٹ اور بن رہی تھیں۔
٭…٭
اور وہی ہوا جو اندیشہ خدیجہ کو ستا رہا تھا۔ سارا قصہ سنتے ہی کریم ہتھے سے اکھڑ گیا۔
’’ہم نے ایدھی سینٹر میں کھول رکھاہے۔‘‘
’’کیا ہو گیا ہے آہستہ بولو۔‘‘ خدیجہ نے چارپائی پر لیٹی ایک سالہ حبیبہ پہ ہاتھ رکھا ۔ جو باپ کی آواز سن کر نیند میں بد کی تھی۔
’’چند ماہ کی بات ہے پھر اس کا بھائی اپنے پاس دبئی بلالے گا ۔‘‘ فی الحال وہ اسے سچائی بتانے کی مرتکب نہیں ہو سکتی تھی ۔ کریم اس کے میکے کی برادری کو زیادہ نہیں جانتا تھا ۔ سو خدیجہ نے اسے یہی بتایا تھا کہ رشتے میں وہ اس کی بھانجی لگتی ہے ۔ اکلوتا بھائی دبئی رہتا ہے ۔ سسرال والوں نے گھر سے نکال دیا تو یہاں چند ماہ پناہ کی خاطر آئی ہے۔
کریم رات کو گھر آیا تھا۔ ایک اجنبی بچی صحن میں حبیبہ کے ساتھ کھیل رہی تھی۔
’’گھر میں کوئی مہمان آئے ہیں ۔ ‘‘کھانے میں گوشت کا سالن اور فیرنی دیکھ کر اس نے بیوی سے پوچھا ۔ اس کے استفسار پر ہی خدیجہ نے جتنا مناسب سمجھا اتنی ہی آگاہی فراہم کی ۔ اس نے ابھی بچی کی ماں کو نہیں دیکھا تھا۔
’’ٹھیک ہے یہ قیام چند ماہ سے زیادہ طویل نہیں ہونا چاہئے۔‘‘ اس کی نیم رضامندی پہ خدیجہ نے سکھ کا سانس لیتے ہوئے برتن اٹھائے تھے ۔ اگر کریم رضامند نہ بھی ہوتا تو پھر بھی اپنی پناہ میں آئی امامہ ابرار کو خدیجہ کریم نے گھر سے نہیں نکالنا تھی ۔
وہ خوف خدا رکھنے والی ایک خدا ترس عورت تھی۔
٭…٭
رات کو صحن میں جلتے زرد بلب کی روشنی میں بچی کی شکل واضح نہیں دیکھ سکا تھا ۔ پہلے تو اس نے کوئی گلی کی بچی سمجھی تھی ۔ وہ حبیبہ کے سامنے بیٹھ کر اس کے منہ میں روٹی کے چھوٹے چھوٹے نوالے ڈال رہی تھی۔ کریم غسل خانے سے نہا کر نکلا تھا ۔ اس نے ٹھٹک کر بچی کی شکل دیکھی ۔ اللہ نے دودھ سے میدہ گوندھ کر اسے بنایا تھا ۔ کریم آہستہ قدم اٹھانا اس کے پاس آکر رک گیا۔بچی نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا۔ اور اسے اپنی طرف گھورتے پاکر تھوڑا جزبز ہوگئی۔
’’بیٹا آپ کا کیا نام ہے؟‘‘ اس کی گھبراہٹ محسوس کر کے کریم نے جلدی سے پوچھا۔
’’امینہ ۔‘‘ کچھ پل اسے دیکھتے رہنے کے بعد بچی نے نام بتانے کا فیصلہ جیسے مشکل سے کیا تھا ۔ وہ پہلے جتنے گھروں میں گئی تھی ‘وہاں سارے انکل اُسے ایسے ہی دیکھتے تھے ۔ بعد میں نام پوچھتے تھے پھر دوسرے یا تیسرے دن انہیں وہ گھر چھوڑنا پڑے تھے ۔ نام بتا کر وہ بچی اپنے سابقہ مشغلے میں مصروف ہو گئی۔ وہ بھی تولیے سے بال رگڑ تا کچن کی طرف چلا آیا۔
’’حبیبہ کی ماں ! آج ناشتے کا ارادہ نہیں ۔‘‘ دہلیز نے اس کے پیر پکڑ لیے تھے یا سامنے نظر آتے چہرے نے اس کی نگاہیں جکڑ لی تھیں ۔ صبح کی تازگی کے تمام رنگ اس کے سپاٹ پتھریلے چہرے پہ موجود تھے۔
’’خالو جی السلام علیکم ! ‘‘ امامہ نے اس کی پھٹی آنکھوں میں دیکھ کر اپنا اور اس کا رشتہ اسے جتا دیا تھا۔
’’وعلیکم السلام …‘‘ کہتے ہوئے اس نے حلق سے بمشکل کچھ نیچے اتارا تھا ‘ پھر بیوی کے ہاتھ میں ناشتے کی ٹرے دیکھ کرالٹے قدموں مڑا ۔ خدیجہ جانتی تھی کریم بدفطرت نہیں تھا ‘ اگر ایسا ہوتا تو وہ امامہ کو کبھی اپنے گھر رکھنے پہ آمادہ نہ ہوتی مگر پھر بھی احتیاطاََ برآمدے کے کونے والا چھوٹا کمرہ جس سے ملحقہ سیڑھیوں کے نیچے باتھ روم کا دروازہ اس کمرے میں کھلتا تھا ‘ اس میں پڑا کاٹھ کباڑ نکال کر اوپر والے اسٹور میں شفٹ کر دیا اور وہ کمرا امامہ کے سپرد کر دیا ۔ باتھ روم کا صحن میں کھلنے والا دروازہ مقفل کر دیا گیا ۔ اور اندر سے مضبوط کنڈی لگا کر بھی چھوٹا سا تالا ڈال دیا ۔ یہ سب کام کریم کی غیر موجودگی میں کیے گئے۔
’’چھت والا اسٹور ان کے لیے ٹھیک تھا۔ میں نہیں چاہتا کہ ہماری پرائیویٹ زندگی میں کوئی مداخلت کرے ۔ ‘‘ کریم نے محتاط لہجے میں اس کے کارنامے کی مخالفت کی۔
’’ اوپر سردی اور گرمی دونوں زیادہ ہوتی ہیں۔ دونوں ماں بیٹی اکیلی کیسے رہ پائیں گی۔‘‘ کریم کا دماغ بھک سے اڑا۔
’’تمہارے لہجے سے تو لگ رہا ہے کہ وہ اب یہیں رہیں گی۔‘‘ کریم نے ماتھے پہ بل ڈال کر پوچھا۔ مگر خدیجہ کوئی بھی جواب دیے بنا کروٹ بدل گئی ‘ جیسے اس نے کچھ سناہی نہ ہو۔ اچھا ہو گا یا برا وقت گزر ہی جائے گا۔
٭…٭
امینہ کو اس نے قریبی گورنمنٹ اسکول میں داخل کروادیا تھا ۔ شام کو وہ محلے کے کچھ بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی تھی ۔ گھر کے کام کاج میں خدیجہ کا ہاتھ بھی بٹاتی تھی اور ننھی حبیبہ کی تمام ذمہ داری امینہ اور امامہ نے اپنے سر لے رکھی تھی۔ امینہ اب مطمئن تھی کہ اب رات کو ان کے دروازے پہ دستک نہیں ہوتی تھی ۔ جس کے سبب وہ اپنی ماں کی گود میں دبکی ‘ اس کا زرد چہرہ خوف کے عالم میں دیکھتی تھی ۔ جب بھی اس کی آنکھ کھلتی ماں جائے نمازپہ بیٹھی ہوتی۔
وقت گزرنے لگا ۔ سردیاں بھی آئیں اور پھر گرمیوں نے اپنے الگ ڈھنگ دکھلانے شروع کیے ۔ کریم کو یقین ہو گیا تھا کہ وہ دونوں اب کہیں نہیں جانے والی۔
’’امامہ تم سارا مہینہ کھپتی ہو اور مشکل سے ہزار ڈیڑھ ہزار کما پاتی ہو۔ فیکٹری میں کام کرنے کا سوچو تم پڑھی لکھی ہو۔ اچھا کما سکتی ہو۔‘‘ کریم نے اپنی بات کہہ کر کن اکھیوں سے اس کے تاثرات جانچے۔ صاف دکھ رہا تھا کہ اسے کریم کا مشورہ پسند نہیں آیا۔
’’گرمیوں کی چھٹیاں ہوں گی تو کافی بچے جمع ہو جائیں گے ۔‘‘ وہ سبھائو سے جواب دے کر کمرے میں گھس گئی۔ اُس کا اس قدر اطمینان دیکھ کر کریم بھڑک اٹھا۔
’’ کسی ٹھکانے کا کرایہ دینا پڑے تو دماغ ٹھکانے آجائے گا اس کا۔‘‘ وہ بیوی پہ چڑھ دوڑا۔
’’ہر وقت ایک پنکھا چلتا ہے ۔ بجلی کا بل بڑھ گیا ہے، پانی بھی زیادہ خرچ ہوتا ہے ۔ ہم نے مفت خوروں کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا۔ بس اب انہیں چلتا کرو۔‘‘ وہ بت بنی خدیجہ پہ گرج برس رہا تھا ‘ اور پھر جو وہ کرنا چاہتا تھا اس نے دوسرے دن ہی دھما کا کر دیا۔
’’ٹھیکے دار نے امامہ کو اسکول آتے جاتے شاید دیکھا ہے ‘شادی کرنا چاہتا ہے وہ ۔‘‘ خدیجہ کے سر پہ پہاڑ گر اتھا۔ کتنی ہی دیر تک وہ کچھ بول ہی نہیں سکی۔ کریم ٹھیکے دار کا منشی تھا ۔ حساب کتاب کر کے بھٹہ مزدوروں کو تنخواہ بھی دیتا تھا اور ٹھیکےدار کے الٹے سیدھے کام کر کے بھی خوب کماتا تھا۔
’’اس اوباش ٹھیکے دار کا منہ کیوں نہیں توڑا تم نے ۔ ‘‘ خدیجہ کے تو سر پہ لگی اور تلوؤں تک آپہنچی تھی۔
’’تو اس میں برائی کیا ہے؟‘‘ وہ اکڑ کر بولا۔
’’تو اس میں اچھائی بھی نہیں ہے؟‘‘ خدیجہ اس کے انداز میں گویا ہوئی۔ جانتی تھی کہ ٹھیکے دار کچھ ماہ اپنے پاس رکھے گا ‘ پھر طلاق دے کر آگے کہیں بیچ دے گا۔
’’نکڑ والی بڑی کو ٹھی میں اسے کام مل گیا ہے ۔ ایک بوڑھی عورت کی تیمارداری کرنے کے علاوہ ‘ گھر کا دیگر کام بھی کرنا ہو گا ۔ تنخواہ بھی اچھی ہوگی۔ دو وقت کی روٹی بھی ماں بیٹی عزت سے کھا سکیں گی۔‘‘
خدیجہ شوہر کو بتا کر وہاں رکی نہیں تھی ‘ وہ جانتی تھی کہ کریم انہیں گھر سے نہیں نکال سکتا ۔ کیوں یہ خدیجہ کے باپ نے بنوا کر دیا تھا اور خدیجہ کے ہی نام تھا مگر وہ کریم کی طرف سے ہوشیار ہو چکی تھی کیونکہ وہ پیسے کمانے کی لت سے مجبور تھا۔
٭…٭