کوئی عشق وقت غروب سا : فرزانہ کھرل
وہ تین چار چکر حویلی کے لگا چکا تھا ‘ مگروہ دانستہ ادھر ادھر ہو جاتی تھی ۔ حاشر ا سے دیکھ نہیں پا رہا تھا مگر معاملہ ایسا تھا کہ فہیم کی بہنوں اور میشان کو تمام تفصیلات سے آگاہ کرنا ضروری تھا ۔ اب وہ بالکل سپاٹ چہرہ لیے اس کے مقابل بیٹھی تھی ۔ وہ جب کمرے میں آئی تھی تو حاشر نے بے تحاشہ دھڑکتے دل کے ساتھ بے اختیار سا ہو کے اسے دیکھا اور میشان اس کی آنکھوں میں پل بھر کو بھی نہیں دیکھ پائی تھی ۔
وہ مناسب الفاظ کا چناؤ کر کے دھیرے دھیرے انہیں سب بتاتا جارہا تھا ۔ فہیم کی بہنوں نے ایک دوسرے کی طرف کچھ جتاتی نظروں سے دیکھا تھا ۔
’’اس کی خطرناک قسم یہ ہے کہ اس میں مریض کی یادداشت کسی ایک شخص کے لیے مکمل طور پر غائب ہو جاتی ہے ۔ ‘‘اس نے وہاں موجود تینوں خواتین کے حواسوں پر بجلی گرائی تھی ۔ وہ آنکھوں میں ہر اس لیے اسے تک رہی تھیں۔
’’کوئی ایک چہرہ اس کی میموری سے مٹ جاتا ہے ۔ ‘‘ حاشر کو اپنے الفاظ کی سنگینی کا احساس تھا۔ اس نے میشان کے تاریک ہوتے چہرے کو دکھ کی انتہا سے دیکھا۔ وہ تینوں نہیں جانتی تھیں کہ فہیم عاقل کس چہرے کی طرف اجنبیت بھری نظریں اٹھائے گا۔
سنو ! تم اے محبت
انہیں کہنا کہ ان سے
فاصلوں کے پتھروں پہ
کندہ کر دیا ہے
کہ وہ آنکھیں جنہیں میں
رات میں بھی صبح سمجھتا تھا
میری تاریکیوں میں
سورجوں کو مات دیتی تھیں
انہیں دیکھے ہوئے
جب سے زمانہ ہو گیا ہے
تو سن لواے محبت
اسی کندہ پتھر کو
کبھی اس راہ پہ رکھنا
جہاں اس کا بسیرا ہو
جہاں سے صبح گزرتی ہو
کہ میری روشنی کے سارے موسم
کسی خواب سیاہ کا ساتھ دیتے تھے
٭…٭
مددگار اپناخنک مسکن اداس پرندوں کو سونپ کر اپنے حصے کی زندگی جی کر دنیا جیسا عارضی ٹھکانہ چھوڑ کر چلا گیا تھا ۔ وہ ہمیشہ دینے کی بات کرتا تھا کیونکہ وہ ہوش و خردسے بیگانہ تھا ۔ اللہ لوگ تھا لفظ میرا کبھی اس کی زبان پر نہیں آتا تھا۔
’’رہنے دو‘چھوڑ دو اور لے لو۔‘‘ یہ تین لفظ اس کا تکیہ کلا م تھے ۔ وہ بے خبری میں بھی پتے کی باتیں کرتا تھا ‘ اس کے بے طلب وجود اور بے غرض دل میں چنبے دی بوٹی مہکتی تھی یا پھر جبیں زہرہ تھی ‘ جو طویل دوپہرں میں اس کے سامنے کچی مٹی پہ دوازنوں بیٹھ کر التجا کرتی تھی۔
’’میرے لیے دعا کرو۔‘‘ اس کے ننگے پائوں سے لپٹی گرم مسافت مددگار کی انگلیوں سے مٹتے اور بنتے دعا کے دائروں میں نہیں ہوتی تھی۔وہ خشک آنکھوں سے اس کے لبوں پہ دھرا مٹی کا ہاتھ تکتا رہتا تھا۔
’’رہنے دو‘ رہنے دو ۔‘‘ مددگار کی انگلیاں کافور جیسی خنکی کھونے لگتیں۔
’’ناقص کانچ میں اتھری لو جلا کر اسے اتنا بھڑکائے گی تو سب تڑخ ہوجائے گا ۔ تو بھی … وہ بھی‘ سب ٹوٹ جائے گا ۔ چھوڑ دو‘ آندھی آنے والی ہے۔‘‘ وہ اس کی گرفت سے ہاتھ چھڑا لیتا‘ وہ جبیں کی آنکھوں سے آنسوئوں کو دیکھ کر ہنستا ہی جاتا تھا۔
’’سب زوال ہے‘ سب زوال ہے بس عروج وہی …‘‘ مگر پیپل اوربوڑھ کے درختوں نے اسے روتے ہوئے دیکھا تھا۔
جن دن اس گھر جبیں کی ڈولی اٹھی تھی ۔ اس نے اس واحد شادی کے میٹھے کے چاول نہیں کھائے تھے ۔ وہ وقت رخصت اس کے پاس آئی تھی مگر اس نے اس کو دعا کے لیے نہیں کہا تھا ۔ وہ اپنے اندر کی ساری بے خودی‘ مستی اور بے حالی اس تکون کے مالک کے قدموں میں رکھ کر چلی گئی تھی۔
وہ اتھری لو‘ کو ناقص کانچ سے نکال کر بوڑھ اور پیپل کے تنوں پہ جلتا چھوڑ گئی تھی ۔ مددگار نے اس دن سرِ شام ہی ایک اگر بتی بوڑھ کے موٹے تنے سے اٹکا کر جلائی تھی ۔ اس مہک کو بھی ہوا نے اپنے اندر سینچا تھا، مگر اس کا رخ آج بلھے شاہ کی درگاہ کی طرف نہیں ایک حویلی کی طرف تھا۔
تمام رات جائی نے سوچا تھا کہ مددگار نے اگر بتی کیسے جلائی تھی ۔ اس رات چنبے دی بوٹی اور اگربتی کی مہک جائی کو ایک جیسی محسوس ہوئی تھی اور ان کے ہاتھ میں رواں تسبیح کے دانوں سے بھی وہی مہک پھوٹتی رہی تھی ‘ تمام شب ایک بھید جائی کی چوکھٹ کے پاس بے آواز سرگوشیاں کرتا رہا کہ ان پرانے درختوں کے تنوں پہ دھری ‘ اتھری لونے اگر بتی کو آنچ دی تھی۔
٭…٭
مددگار کے نام دھن دولت نہیں تھی ۔ اس کے حصے کی جاگیر بھی کبھی اس کا نام نہیں سُن سکی تھی ۔ اس کی زندگی کے آخری دنوں اور آخری لمحات میں اس کے ہلتے لبوں کی طرف دیکھنے والے صرف دو افراد تھے مگر فہیم عاقل ‘ جلال خان کی جاگیر کے آدھے حصے کا مالک تھا ۔ وہ اس شاندار حویلی کا وارث تھا ۔ اس کے گرد ہمہ وقت تمام رشتے یا حصے دار منڈلاتے تھے ۔ اس کے ہلتے لبوں کو غور سے دیکھتے تھے کہ وہ اب کوئی وصیت تو نہیں کر رہے ۔ وہ ہوش مندی کے لمحوں میں سب کو پہچانتا تھا ۔ ناموں سے بھی پکار لیتا تھا، مگر لفظ میشان اور اس کا خوب صورت چہرہ اس کے دماغ کے ہر خانے سے مٹ چکا تھا۔
باقی آدھے حصے کی مالک اس کی بہنیں اس خوشی میں پاگل ہوتی جارہی تھیں کہ وہ اب پوری حویلی کی وارث بننے والی تھیں ۔ زندگی انسان کو شیطان کے ساتھ مل کر یوں الجھاتی ہے کہ خود کو مالک و مختار سمجھنے والا انسان آخری سانس تک سمجھ نہیں پاتا کہ وہ تو محض ایک قبر کا مالک ہے۔
مختار کل کے خاندان کے لیے ہمیشہ نامحرم رہنے والے فہیم عاقل کے تابوت کے ورثا اب وہی تھے اور انہیں کے کندھوں پہ سوار ہو کر وہ اپنی زندگی کا آخری سفر طے کر رہا تھا۔
وہ جب تابوت اٹھانے آیا تھا تو روتی ‘بلکتی ‘ تڑپتی میشان جو کسی سے سنبھل ہی نہیں رہی تھی ۔ حاشر نے ہی اس کے ہاتھوں کی گرفت سے تابوت چھڑوایا تھا ۔ میشان نے اسے ایسی زخمی نظروں سے دیکھا کہ وہ خود زخم زخم ہو گیا ۔ میشان کی حالت دیکھ کر اس کا دل کٹ کٹ کر تڑپاتھا ۔ برسوں پہلے کی گئی مرہم پٹی اس کے زخموں سے کھل گئی تھی ۔ اس بار وہ ننگے زخموں کے ساتھ کانچ کی دلدل میں اترا تھا اور اس نے سی تک نہیں کی تھی۔
٭…٭
وہ جانتی تھی کہ اس کی وجہ سے بہنے والے ماما کے آنسوئوں پر پاپا ایک طوفان کھڑا کر دیتے تھے۔
وہ جب آخری بار جہلم گئی تھی تو تمام باتوں کے باوجود امی کی زبان بند رہی تھی۔ اس کا ان سب سے بھی کوئی خاص رابطہ نہیں تھا ۔ ایک سال پہلے اسے اسنانے بتایا تھا کہ میں امی اور ابا کو اپنے ساتھ دبئی لے کر جارہی ہوں ۔ وہ شادی کے بعد شوہر کے ساتھ جارہی تھی ۔ وہاں جانے کے بعد بھی کبھی کبھار اسنا ہی اس سے رابطہ کرتی تھی اور میشان ہر بار ماں سے بات کرنے سے انکار کر دیتی ۔ اگر اسے کوئی کچھ نہیں بتانا چاہتا تھا تو اس کا دل بھی کوئی کہانی سننے کا اصرار ترک کر چکا تھا ‘ اگر اتنے سال زندگی میں ہلچل نہیں تھی تو بے سکونی بھی کسی ہلکی سی درز تو کبھی رہ گزر پہ مڑ کر جھانک لیتی تھی۔
اس کے لیے اس کی زندگی ایک معمہ تھی ۔
شادی سے پہلے بھی اور بعد میں بھی فہیم عاقل سمیت معمہ ہی رہی ۔مگر اصل مسائل تو اب شروع ہوئے تھے ‘ جب عدت کے بعد اس کی دونوں نندوں نے اسے خان حویلی چھوڑنے کے لیے کہا ۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے انہیں دیکھے جارہی تھی۔
’’تمہاری عدت پوری ہو چکی ہے اب تم واپس جاسکتی ہو۔‘‘
’’مگر کیوں؟‘‘ وہ دبا دبا سا چیخی ۔
’’یہ میرے شوہر کا گھر ہے اور میں فہیم کی بیوہ ہوں۔‘‘
’’بیوہ ہو … اس لیے ہی کہا ہے۔ جوان ہو‘ خوب صورت ہو اور ہمارے شوہر تمہارے لیے نامحرم ہیں۔ کل کلاں کو کوئی بات ہو گئی تو۔ ‘‘ چھوٹی نند نے کسی سیانی کی طرح اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’آپ اور آپ کے شوہر یہاں کیوں رہیں گے ‘ جب کہ یہ حویلی میرے شوہر کے نام ہے۔‘‘ وہ اتنی جلدی پسپائی اختیار کرنے والوں میں سے نہیں تھی ۔
’’ہونہہ شوہر ‘ وہ شوہر جو زندہ ہی تمہیں چھوڑ چکا تھا‘ بھول چکا تھا۔‘‘ ان کی نظریں اس کا تمسخر اڑا رہی تھیں۔
’’دیکھو۔ میشان اگر تمہارے بچے ہوتے تو آدھی حویلی ہم تمہیں دے سکتے تھے۔ اب تم خود سوچو اتنی بڑی حویلی میں تم اکیلی کیسے رہ سکتی ہو۔ ‘‘
’’مگر میں کہاں جاؤں گی میرے ماما پاپا بھی انگلینڈ شفٹ ہو چکے ہیں۔‘‘ اب کے وہ پسپا سے لہجے میں بولی۔
’’ان سے کہو وہ تمہیں بھی انگلینڈ بلوالیں گے۔‘‘ بڑی نند نے ہاتھ جھاڑ کر اس کا مسئلہ فوراََ حل کیا۔
’’آپ پلیز مجھے حویلی کا کچھ حصہ رہنے کے لیے دے دیں۔‘‘ پسپا ہوتے لہجے نے مزید التجا کی تھی۔
’’ایسے کیسے دے سکتے ہیں ۔ تم ہماری بات کو سمجھ کیوں نہیں رہیں ۔ ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے۔ کیا زندگی حویلی کے کچھ حصے کے ساتھ گزارو گی۔‘‘ ان دونوں بہنوں کو اب اس کی دماغی حالت پہ بھی شبہ ہو رہا تھا۔
’’ہاں گزار لوں گی۔‘‘ وہ مضبوط اور فیصلہ کن لب و لہجے میں بولی۔
’’مگر لوگ نہیں گزارنے دیں گے بی بی !بہتر یہی ہے اپنا سامان سمیٹو جو کچھ لے جانا چاہتی ‘ ہو لے جاؤ۔‘‘ وہ بھی دو ٹوک ہوکر بولیں۔
’’ہم کسی پھڈے میں نہیں پڑیں گے۔ تمہارے حصے کی فصل کے پیسے ہر چھ ماہ بعد تمہارے اکائونٹ میں آجایا کریں گے ۔ ‘‘ اندر آتے ہی بڑی نند کا شوہر ان کے معاملے میں زبردستی گھسا تھا۔
’’کون سا حصہ؟ کیسی فصل؟ فہیم تو میشان کو جانتا ہی نہیں تھا ۔ ایک دن وکیل کو بلوایا اور اپنا حصہ بھی میرے اور زیبا کے نام لکھ دیا ۔ ‘‘ پوری حویلی میشان کے سر پہ گری تھی۔ اس نے بدحواس ہوکر نندوں کو دیکھا تھا۔
’’دیبا! جائو اسے جائیداد کے کاغذات دکھائو ۔ ‘‘ زیبا نے چھوٹی کو حکم دیا‘ مگر وہ اپنے حواسوں میں کہاں تھی‘ بس آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ان کے چہرے دیکھ رہی تھی۔
’’جب پہچان مٹ جاتی ہے تو حصے بھی ختم ہوجاتے ہیں‘ رشتے بھی گم ہوجاتے ہیں جیسا فہیم کے ساتھ ہوا تھا ۔ اسے بے شناخت اور پہچان سے عاری کرنے والے اس کے سگے چچا ‘تایا تھے ۔ پھر میں کون ہوں کی نظروں میں ‘ سوتیلی بیوہ بھاوج … مرنے سے قبل جس کا شوہر بھی پہچان کے رشتے ختم کرچکا تھا۔‘‘
’’موت اور زندگی کے درمیان بھی بہت کچھ ہوتا ہے ۔ ‘‘ اب اس کے قدموں کے نیچے سے زمین کھسک رہی تھی تو اسے ماں کی بات من وعن کے ساتھ یاد آئی تھی۔جب زمین کھسک رہی ہو تو پائوں جمانے کے لیے آسمان کو نہیں پکڑاجاسکتا‘ وہ پہنچ سے دور ہوتا ہے۔
’’جو تم نے میرے ساتھ زندگی میں کیا‘ تمہاری موت کے بعد زندگی میں میرے ساتھ اس سے بھی برا کرنے والی ہے۔‘‘ وہ مرے ہوئے شخض سے شکوہ کررہی تھی۔
٭…٭
اس کی گفتگو ختم ہونے کے بعد بھی جائی کے چہرے پہ ویسا ہی سکون تھا جیسے ہر فکر سے آذاد کوئی شخص آپ کو ایک دلچسپ قصہ سنا رہا ہو۔ وہ خود پہ اٹھتی میشان کی نظروں سے بھانپ گئی تھی کہ اسے کیا چیز چونکا رہی ہے۔ جائی کے سامنے بیٹھی میشان’’اب میں کیا کروں؟‘‘ کی تصویر نظر آرہی تھی۔
’’اللہ نے دو باتوں کے لیے بہت جلدی کی تاکید کی ہے ۔ ایک میت دفنانے میں اور دوسرا ایک بیوہ کا عدت کے بعد فوری نکاح کرنے میں ۔‘‘ جائی نے بات کے اختتام پر اس کے چہرے پہ ناگواری کے تاثرات ابھرتے دیکھے تھے۔
’’مگر…‘‘ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی۔
’’میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔‘‘ جائی نے ہاتھ اٹھا کر اسے خاموش رہنے کی تاکید کی۔
’’جب عورت بیوہ ہوتی ہے تو اس کا ٹھکانا اس کا میکہ ہی ہوتا ہے۔ وہ اکیلی ہو یا بال بچوں والی‘ وہ ساس سسر کے حیات ہوتے بھی سسرال چھوڑ دیتی ہے‘ کیونکہ اس کا وجود اس کی دیوارنی یا جٹھانی کو سب سے پہلے کھٹکتا ہے ۔ ایک جوان اور خوب صورت بیوہ عورت انہیں بچھو کی طرح دکھتی ہے‘ یہ بوجھ بہت بھاری ہوتا ہے میشان! کھاتے پیتے گھرانوں میں لوٹ کر آنے والی بیٹی بھی بس اچھا کھانا ہی کھا سکتی ہے اور جہاں غربت ہوتی ہے وہاں تین وقت کے کھانے کا فساد بھی کھڑا ہوتا ہے ۔ اس کا شوہر مرجاتا ہے‘ اس کا دکھ تازہ ہوتا ہے۔ ایک دم اپنی اور بال بچوں کی ذمہ داری اس کے ناتواں کندھوں پہ آجاتی ہے تو سوچو کیا وہ کرتی ہوگی ۔ تم تو اکیلی ہو۔‘‘ وہ جائی کی گفتگو سے امید کی کوئی کرن بھی ڈھونڈ نہیں پارہی تھی۔
’’بجائے میکے آکر بیٹھنے کے سسرال کو اس کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے کیونکہ ان کے مکان اور جائیداد میں اس عورت کاحصہ بھی ہوتا ہے‘ اس کی بچیاں تایا یا چچا کے لیے محرم ہوتی ہیں ۔ اس گھر میں ان کی عزتیںمحفوظ ہوتی ہیں اور گھر کی خواتین اس بیوہ دیورانی یا جٹھانی کو خوف کی علامت نہ سمجھیں تو بہت سے مسائل پیدا ہی نہ ہوں گے ۔ جب وہ وہاں سے نکل جاتی ہے تو اس کے بچوں کے حقوق گھٹتے گھٹتے ختم ہوجاتے ہیں۔‘‘ جائی خاموش ہوچکی تھیں۔
’’اورجو گھر سے زبردستی نکال دی جاتی ہیں ۔ وہ کیا کریں۔‘‘ اس کا زہر خند لہجہ تلخی کی حد کو چھو رہا تھا۔
’’اتنی بے صبری نہ بنو‘ خود کو کچھ وقت دو ‘ پھر خود تمہارے ذہن کی گرہیں کھلیں گی کہ تمہیں کیا کرنا چاہیے۔‘‘ ایک بار پھر وہی سکون ان کے چہرے پہ تھا۔ میشان ان کے چہرے سے نظر نہیں بنا پائی۔
’’ جب کسی کا شوہر مرتا ہے تو اللہ کے خاص فرشتے اسے اپنی پناہ میں لیتے ہیں ۔ اسے سائبان فراہم کرتے ہیں‘ اس کے لیے دعا کرتے ہیں اور جب کسی کا شوہر مرجاتا ہے تو اللہ کے ناپسندیدہ بندے اسے بے سائبان کر دیتے ہیں‘ پھر وہ زمانے کی ٹھوکروں پہ آجاتی ہے اگر اکیلی عورت ہو تو اسے اللہ کا حکم مانتے ہوئے جلد نکاح کر لینا چاہیے۔ ‘‘ جائی کی بات نے اس کا دماغ بھک سے اڑایا تھا۔
’’اگر بال بچوں والی ہو ‘ ان کی کفالت کر سکتی ہو تو پھر اپنے نفس کو قابو کر کے حیا اور ایمان کو عروج دے کر ان عورتوں میں شامل ہو جائے جو جنت میں جائیںگی۔‘‘
’’جب بچوں والی عورت دوسری شادی کرتی ہے تو وہ دو کشتیوں کی سوار ہو کر ڈوب جاتی ہے اور اس کے بچوں کا حال فہیم عاقل جیسا ہوتا ہے اور اس کے سوتیلے بہن بھائی زیبا اور دیبا کی طرح ہوتے ہیں۔‘‘ جائی نے تسبیح اٹھائی تھی‘ گویا ان کی بات ختم ہو چکی تھی۔
میشان کے چہرے پہ ٹپکتی مایوسی کو انہوں نے مسکرا کر دیکھا تھا۔ کیونکہ انہوں نے آج حاشر کو فون کر کے آنے کے لیے کہا تھا اور وہ جانتی تھیں کہ شام تک وہ اس کے سامنے ہو گا اور اس کے بعد جو ہوگا‘ وہ اللہ جانتا تھا۔
٭…٭