کوئی عشق وقت غروب سا : فرزانہ کھرل
انہوں نے اسے کندھوں سے تھام کر نرمی سے بیڈ پہ بٹھایا پھر اس کے سامنے قالین پہ اکڑوں بیٹھ گئے۔
’’ کوئی دن میں سو بار قرآن پہ ہاتھ رکھ کر بھی محبت کا یقین دلائے تو پھر بھی وہ محبوب کے اتنے سفاک فیصلے پہ سر نہیں جھکا سکتا ‘جس طرح میں نے جھکایا تھا، صرف تمہیں اندر تک خوش دیکھنے کی خاطر۔‘‘ انہوں نے امینہ کے ٹھنڈے ہوتے سنہری ہاتھ تھا مے۔
’’ پھر تمہاری آنکھوں میں نمی کیوں؟‘‘ ان آنکھوں کی لو عروج پرتھی۔
’’اب اور نہیں۔‘‘ انہوں نے اپنے لب بیدردی سے کچلے۔
’’مجھ پہ ذرا سا رحم کرو پلیز۔ ‘‘ مد ھم سی التجاپہ امینہ کے دل پہ گہری ضرب پڑی۔
’’اس ماہ کے آخر میں ‘ میں انگلینڈ میں اپنا آفس جوائن کر رہا ہوں۔‘‘ ان ہاتھوں کی حدت نے امینہ کی ہتھیلیاں نم کردی تھیں۔ ان دھواں دیتی آنکھوں کے مرغولوں میں وہ پھر گم ہو چکی تھی۔
٭…٭
دولہا‘ دولہن کی گاڑی خان حویلی سے کچھ ہی دور تھی ۔ رخصتی سے قبل میرج ہال سے ملحقہ ڈریسنگ روم میں ماما اس کے پاس آئی تھیں ۔ دلہن بنی میشان کسی حور کے حسن کو بھی مات دے رہی تھی ۔ ماما اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتی رہی تھیں ‘پھر ان کے لب کتنی ہی دیر بعد بولنے کی ہمت کر سکے تھے۔
’’میشان ! ز ندگی کبھی بھی کسی بھی انسان کے لیے تمام دروازے بند نہیں کرتی ۔ کوئی ناہموارسی پگڈنڈی بھی‘ کسی بڑے راستے تک لے جاتی ہے اگر زندگی میں کبھی کوئی راہ سجھائی نہ دے تو پھر یہ ڈائری پڑھنا اس میں صرف محبت نہیں ‘ اس میں صرف نفرت بھی نہیں ‘اس میں روشنی بھی ہے ‘ اندھیرے کو جھٹکتی ہوئی روشنی ‘اب یہ تمہارا کام ہے کہ کون سے لفظ روشنی بن کر تمہاری آنکھوں کو خیرہ کریں گے۔‘‘
’’امینہ ہمیشہ سے امینہ مصطفیٰ نہیں تھی ‘ کبھی حبیبہ سے ملو تو کہنا ۔ امینہ ہاتھ جوڑ کر تم سے معافی کی خواستگار تھی اور رہے گی۔‘‘ آنسوان کی آنکھوں سے ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے تھے۔
’’ماماپلیز!آپ جانتی ہیں ناں ‘ پاپا کو آپ کی روئی آنکھیں ہرٹ کرتی ہیں ۔‘‘ میشان نے ان کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر چوما تھا ۔ امینہ نے ڈائری اس کے شولڈر بیگ میں رکھ دی ۔ ان کی گاڑی خان حویلی کا بلند و بالا گیٹ عبور کرتی گھر کے اندرونی حصے کی طرف آتی روش کے آخری سرے پہ رک گئی۔
طرح دار کو یقین تھا کہ وہ بہو ایسی لائی ہے ‘ جس کی خاموشی پہ ماحول اس کے کسی بھی حکم کا منتظر ہو گا اور جب بولے گی تو درو دیوار بھی حکم کی بجا آوری کے لیے اپنی جگہ چھوڑنے کو تیار ہوں گے۔ رات کو بد پرہیزی کی وجہ مددگار کی طبیعت کافی خراب ہو گئی تھی ۔ اس لیے حاشر اور جائی بارات کے ساتھ نہیں جا سکے تھے ‘مگر اب دلہن کے استقبال کے لیے وہ دونوں وہاں موجود تھے ۔ سیما نے گاڑی کا دروازہ کھول کر دلہن کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
’’آئے ہائے پیچھے ہٹو‘ ایک بیوہ عورت دلہن کا استقبال نہیں کرتی۔‘‘
’’یہ سنی سنائی باتیں ہیں جو ہندوانہ رسم و رواج کی حامل ہیں ۔‘‘ طرح دار سیما کے پھیکے پڑتے چہرے کو دیکھ کر آگے بڑھی ۔ میشان کسی کا بھی ہاتھ پکڑے بنا گاڑی سے اترچکی تھی۔
’’ارے کوئی دلہن کا گھونگھٹ تو اٹھاؤ۔‘‘ پھولوں سے سجی رہ گزر پہ وہ فہیم جیسے شاندار مرد کے ہمراہ سہج سہج کر قدم اٹھاتی چلی آرہی تھی۔ طرح دار نے سامنے آکر گھونگھٹ الٹ دیا۔ چاند نے خود ماشاء اللہ کہا تھا۔میراثن نے گانا شروع کیا تھا۔
’’ یا روسب دعا کرو ‘مل کے فریاد کرو۔ ‘‘
’’دل جو چلا گیا ہے ‘ اسے آباد کرو۔‘‘
اور بت بنے حاشر و قار کو ایک بار پھر اعتراف کرنا پڑا کہ اس نے سفید ‘ سیاہ اور سرخ رنگ کا اس قدر حسین امتزاج بھی زندگی میں پہلی بار دیکھا ہے۔
’’یا رو سب دعا کرو۔‘‘
اس نے چہرہ موڑ کر اس گانے والی عورت کو دیکھا۔ اس وقت وہ اسے کوئی ولی لگ رہی تھی جو اس کے لیے دعا کروا رہی تھی‘ فریاد کر رہی تھی۔ وہ بھیڑ میں قدم بہ قدم پیچھے ہٹتا اس کے پاس پہنچ گیا۔وہ بھول جانا چاہتا تھا کہ وہ حاشر وقار ہے ‘وہ اس کی آواز میں آواز ملا کر روئے زمین پر اور آسمان تک اپنی آواز سنانا چاہتا تھا۔
’’یا روسب دعا کرو۔ ‘‘ اس نے لہرا کر ڈفلی پہ ہاتھ مارا۔
’’دل گیا… گیا لے گیا صنم …‘‘
وہ خود کو حرکت نہیں دے پا رہا تھا۔ وہ ساکت آنکھوں سے اس اللہ والی کو دیکھ رہا تھا۔
٭…٭
وقت ہاتھ میں مرہم لیے لمحہ بہ لمحہ اسے دیکھتا تھا ‘مگر وہ کانچ کی دلدل میں اندر تک دھنس چکا تھا ۔ اسے میشان سے دھواں دھار قسم کا عشق نہیں بھی تھا مگر اس نے محبت جیسی بے چینی کو اپنے دل کے ہر حصے میں محسوس کیا تھا۔
جس لاہور ہے وہ بھاگ رہا تھا ۔ اب وہی اس کے لیے گوشہ عافیت تھا ‘ اسے اپنے جذبوں کو خود سے بھی چھپانا تھا ۔ وہ اس کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ سو اسپیشلائزیشن کے بہانے وہ وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا ۔ پاکستان چھوڑنے سے ایک دن قبل وہ خان حویلی گیا تھا۔
’’یہ میرا بہت اچھا دوست اور ایک بہترین انسان ‘ ڈاکٹر حاشر و قار جو مختار کل کا ولی عہد بھی ہے ۔ ‘‘ فہیم عاقل نے یوں اس کا تعارف میشان سے کروایا تھا ۔ دونوں نے ہی بمشکل نگاہ اٹھائی اور دونوں ہی کو نگاہوں کے تصادم پہ اجنبیت کی دیوار گرانا پڑی تھی ۔ لا تعلقی کی حد کرتے ‘کرتے بھی حاشر کی آنکھوں نے ایک بے قرار سا تعلق اوڑھ کے اسے دیکھا تھا۔
’’یوں سمجھو کہ تم کسی امیر شہر سے مل رہی ہو ۔ ‘‘ اور فہیم عاقل کے ساتھ ان دونوں کو بھی مسکرانا پڑا تھا ۔ ہاں وہ امیر شہر تھا‘ وہ حکم عشق پہ وطن بدر ہو رہا تھا ۔ وہ اپنے شہر کی گلیوں کوچوں میں صدائیں لگا کر اسے اور خود کو رسوا نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ وہ لا تعلقی کی حد سے باہر آکر ان در بدر کرنے والی سیاہ آنکھوں کو اپنی بے چینیوں کے قصے نہیں سنانا چاہتا تھا ۔ وہ جانتا تھا کہ جس نگر کا بھی رخ کر لیتا کسی یا رنامہ بر کا پیغام اس کے نام نہیں آنا تھا۔
٭…٭
وقت کے ساتھ میشان کو بہت سی باتیں سمجھ میں آ رہی تھیں ۔ جس دن وہ مددگار سے ملی اس کی ماں کا ایک جملہ اس کے ارد گرد گردش کرتا رہا تھا۔
’’کچھ مسائل پیسے سے بھی حل نہیں ہوتے۔‘‘ وہ کچی زمین پہ بیٹھا شاخوں پہ پرندوں کی بولیاں سن رہا تھا۔ کبھی ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر انہیں چپ کرواتا ‘ کبھی خود ہی ہنسنے لگتا۔
’’یہ سب آپ نے ان کے لیے خود ار ینج کیا ہوا ہے۔‘‘ اس نے اس درختوں سے ڈھکی تکون کی طرف اشارہ کر کے جائی سے پوچھا تھا ۔ جائی کو اس کا من ہر بھید‘ رمز سے خالی ایک پکے گھڑے کی طرح لگا تھا جس گھڑے کا پانی کسی فقیر یا درویش نے کبھی نہیں پیا ہوتا۔
’’اللہ والے اپنا مسکن خود نہیں بناتے اور نہ ہی ان کے لیے کوئی بناتا ہے ‘ ان کا ٹھکانا انہیں خود کو آباد رکھنے کے لیے بلاتا ہے ۔ ‘‘ جائی کے ہونٹوں پہ نافہم سی مسکراہٹ ابھری۔
میشان نے چھدرے پتوں سے جبیں زہرہ کو دیکھا ‘جو تنوں سے بندھے کٹوروں میں پانی ڈال رہی تھی۔
’’وہاں کوئی اور بھی جاسکتا ہے ۔ ‘‘ اس نے پھر ایک بے تکا سوال کیا ۔ فہیم عاقل کے دل نے مڑ کے دیکھنے کی شدت پکڑی۔
’’بس جبیں زہرہ۔‘‘ فہیم کا دل اور جائی کے لب ایک ساتھ بولے۔
’’اسے اس آسیب زدہ تکون سے رات کو بھی ڈر نہیں لگتا ۔‘‘ ثوبیہ کے انکشاف پہ میشان کا منہ حیرت کھلا۔
’’اسے کیوں ڈر نہیں لگتا؟‘‘ حیرت کے ساتھ اس کا لہجہ خوف زدہ سا ہوا۔
’’اس نے کسی جوگی کے ہاتھ سے پانی پی لیا تھا اور اب اسے فقیروں کے آستانوں سے ڈر نہیں لگتا ۔‘‘ جائی نے کسی کی بے مراد آنکھوں کو دیکھا۔
جبیں نے دل کو سمجھا لیا تھا ‘منا بھی لیا تھا پھر بھی سامنے بیٹھے شخص کو دیکھ کر ایک مد ہم سی بے قراری وجود سے لپٹنے لگی تھی۔ اس کے علاوہ یہ بس خدا جانتا تھا کہ اس کا عشق یک طرفہ نہیں تھا ۔ فہیم عاقل کی نگاہیں بھی اسی چہرے کو قبلہ جان کر طواف کرتی تھیں ‘مگر فہیم عاقل نے کبھی محبت کا ہاتھ خوشبو کے سپرد نہیں کیا تھا۔ اس نے جبیں کی محبت کو کسی اللہ والے کی عبادت کی طرح چھپا کر رکھا تھا۔
مددگار پیشان کا چہرہ تکے جا رہا تھا ۔ اس لمحے فہیم عاقل کو ہوش و خرد سے بیگانہ ہونا کسی نعمت سے کم نہیں لگا تھا ۔ اسے مددگار کی خوش قسمتی پہ رشک آ رہاتھا ۔ اس نے میشان کے پہلو میں بیٹھی جبیں زہرہ کو بس اک نظر دیکھا تھا ۔ وہ جبیں کی پلکوں سے لپٹی خزاں کی خوشبو کو پھونک مار کے اڑانا چاہتا تھا مگر ان کے درمیان صدیوں کا فاصلہ تھا‘ نگاہ نے ایک بار ہی مل کر ان دونوں کو فقیر سا کردیا تھا ۔ وقت ٹھہر جانے کی بھیک انہوں گڑگڑا کے مانگی تھی۔
٭…٭
تری چشم ترکے سوال نے میرا حال کیا سے کیا کردیا
کوئی دوسرا بھی سوال کر کہ یہ روح تن سے جڑی رہے
آئر لینڈ کی سڑکیں ناپتے ہوئے اس عشق بدر مسافر کو ایک یخ بستہ سی شام جائی نے لوٹ آنے کی منت کی تھی اور ساتھ ہی حقیقت کا رخ دکھایا تھا۔
’’کس سے بھاگ رہے ہو‘ بات زندگی بھر کی ہے ؟ زندگی کے ان بچے کچھے دونوں میں ہرروز تمہیں دیکھنے کو دل کرتا ہے۔‘‘
’’ماں کی موت کے بعد فہیم عاقل کی طبیعت خراب رہنے لگی ہے اور اسے اپنے علاج سے کوئی دلچسپی نہیں‘ آجاؤ حاشر کچھ ماہ کے لیے ہی سہی ۔ ‘‘ فہیم عاقل کی خراب طبیعت کا سن کر اس کادل بری طرح دھڑ کا تھا۔
’’مددگار بھی اب مہمان ہی لگتا ہے ۔ ‘‘ جائی کی دھیمی پسپا سی آواز میں بتائی جانے والی یہ خبر پہلی سے زیادہ تکلیف دہ تھی۔اسی رات اس نے رخت سفر باندھ لیا تھا۔ اس رات بار بار جائی کا ستارہ ٹوٹنے جیسا لہجہ اس کے کانوں میں سرگوشی کرتا رہا تھا۔
’’کیا تم میشان کو پہلے سے جانتے تھے؟‘‘ جائی کی گود میں سر رکھ کر لیٹا ہوا حاشر تڑپ کر سیدھا ہوا تھا۔
’’تو کیا اسے جاننے کا کوئی لمحہ میرے چہرے پہ ٹھہرا ہوا ہے۔‘‘ اس نے اپنا چہرہ چھوا ‘ جائی کے امکان سے کانپتا دل یقین کی منزل طے کر کے ٹھٹھرا تھا۔ انہوں نے حاشر کا بد حواس چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھر لیا۔
’’ سمندر میں جتنے رنگ بھر دو ‘ نظر نہیں آتے سمندر بن جاؤ ۔ ‘‘ ان کے خنک لہجے سے الفاظ بھی ٹھٹھرے ہوئے تھے ۔ تین سال گزر گئے ‘ ابھی کل کی بات لگ رہی تھی ۔ اسے لگتا تھا کہ اس کی آنکھیں شناسائی کے رنگ کھو کر وہ چہرہ دیکھیں گی ۔ یہ صرف گمان تھا یا خواہش ‘ گھر کی دہلیز پار کرتے ہوئے بھی وہ خود کو سمجھنا نہیں چاہتا تھا۔
٭…٭
وہ کبھی بھی بہت باتونی نہیں تھا مگر وہ خوش مزاج اور کسی حد تک خوش گفتار ضرور تھا ۔ اس کی واپسی کے بعد سب کا خیال تھا کہ اجنبی دیس کے موسم جھیل کر اس کی شخصیت میں ٹھہراؤ اور سنجیدگی جھلکتی تھی ۔ صرف وہ جانتا تھا اسے اندر تک بدلنے والے سارے موسم اپنے تھے ‘ شروع کے چند دنوں میں اس کے گریز کو تھکاوٹ سمجھا گیا ‘ جب ہفتہ بھر کے بعد بھی وہی لیا ‘ دیا سا انداز برقرار رہا تو باقی گھر والوں کے ساتھ ماں کا ماتھا بھی ٹھنکا۔
’’یا لاہور چلے جاتے ہو یا پھر گونگے کا گڑ کھا کے بیٹھے رہتے ہو ۔ نہ کچھ پوچھا ‘ نہ کچھ بتایا۔‘‘ ماں کے صبر کا پیمانہ خوب چھلکا۔
’’تو یہاں کون سے مزاحیہ مشاعرے ہو رہے ہیں کہ میں قہقہے لگاؤں ۔ آپ نے مدد گار چچاکی حالت دیکھی ہے۔‘‘ وہ رو نکھا ہو کر بولا۔
’’اور فہیم کا اس سے بھی برا حال ہے۔‘‘ وہی تلخ سابقہ لہجہ۔
’’ان دونوں کی بیماری کے ذمہ دار ہم تو نہیں ۔ ‘‘ اس کے باپ نے بھی اندر آتے ہوئے اس کی گفتگو سنی تھی۔
’’ فہیم کو تو چھوڑیں، مگر چچا کی اس حالت کے ذمہ دار آپ سب ہیں۔‘‘ اس نے بھی حاضر جوابی سے کام لیا ۔
’’ میں جب یہاں تھا تو ان کا علاج ہوتا رہتا تھا ۔ جائی کے ساتھ مل کر انہیں سنبھال بھی لیتا تھا ۔ میرے بعد جائی اکیلی اس کی دیکھ بھال میں خود بھی کمزور ہو چکی ہیں ۔ ‘‘ وہ کاٹ دار لہجے میں لب کاٹ کر بولا تھا۔
’’آپ ‘ چچی یا پھر لڑکیوں میں سے ہی کبھی کوئی ان کے کمرے میں جا کر جھانکتا نہیں ۔ کم از کم ایک کل وقتی ملازم کاتو انتظام آپ لوگ کرسکتے تھے ۔ ہم سب ان دونوں کا بھی حصہ کھا رہے ہیں ۔ اللہ کی حکمت کی کاملیت پہ میرا ایمان پختہ تر ہو چکا ہے ‘ اگر جائی اس گھر میں لوٹ کے نہ آتی تو چچا کا کیا بنتا۔‘‘اس کے صاف کھرے اور قطعی لہجے میں آنچ دیتی سچائی تھی۔
٭…٭
’’اس بیماری کی ابتدا اچانک پہنچنے والے صدمے اور اس کے نتیجے میں شدید ذہنی دباؤ کی وجہ سے ہوئی ہے اسے ایمنیزیا (amnezia) کہتے ہیں ‘ اس میں مریض کی یادداشت آتی جاتی رہتی ہے ‘ پھر آہستہ آہستہ بھوک ختم ہونے کی صورت میں مریض پر کمزوری غلبہ پا جاتی ہے اگر خدانخواستہ جلد ہی دوبارہ کوئی صدمہ پہنچے تو برین اسٹروک ہونے کی وجہ سے فوری موت بھی ہو جاتی ہے۔‘‘
گزشتہ ہفتے حاشر نے فہیم عاقل کے تمام ٹیسٹ کروائے تھے۔ وہ خود نیورو سرجن تھا ۔ اس وقت ڈاکٹرز کے پورے پینل کے ساتھ ان پہ گفتگو ہو رہی تھی۔
’’ایسا کون سا ذہنی دباؤ تھا جس نے اُس کے اعصاب توڑ ڈالے۔‘‘ وہ اپنے دائیں ہاتھ کی پہلی انگلی سے کنپٹی کی رگ دبا رہا تھا۔
’’ ایمنیزیا کی چار پانچ قسمیں ہوتی ہیں۔ ‘‘ اس کا دھیان دوبارہ ڈاکٹر کی بات یہ اٹکا۔
’’ اس کی ایک سب سے خطر ناک قسم یہ ہے کہ …‘‘ ڈاکٹر نے اس کے کندھے پہ تسلی آمیز ہا تھ رکھا۔ ڈاکٹر کادھماکہ خیز انکشاف سن کر اس کی تسلی و تشفی کی دھجیاں اڑی تھیں۔
٭…٭