کوئی عشق وقت غروب سا : فرزانہ کھرل
’’میں اس گھر میں دو دن بھی فیملی کی طرح نہیں رہ سکتی کیا؟‘‘ نمی اس کی آنکھوں میں ہی نہیں لہجے میں بھی تھی۔
کھانے کی میز پہ مختلف ڈشنر دیکھ کر وہ شرمندہ ہو رہی تھی ۔ کل شام سے اس کے ساتھ ایک مہمان کی طرح کا برتاؤ کیا جا رہا تھا ۔ اس سے پہلے جب وہ آتی تو ہزاروں نخرے اٹھواتی تھی ۔ اس مرتبہ اس کی بدلی ہوئی کایا سب ہی محسوس کر رہے تھے۔
’’میشان ! شادی کا کارڈلائی ہے ۔‘‘ بہن کی بات پہ اس نے جھینپ کے ابا کی طرف دیکھا ۔ اچانک ہی محمد باقر کی نگاہ بھی اس کی طرف اٹھی ‘گو کہ وہ قصوروار نہیں تھا یا اس کا قصور باقیوں سے زیادہ نہیں تھا پھر وقت اور حالات نے اسے کڑی اور دہری سزا کیوں دی تھی ۔ کسی کی ایک شام بے سکون ہوئی تھی ‘اس ایک شام کے بدلے اس کا زندگی بھر کا سکون غارت ہوا تھا۔
اس تھپڑ سے آج بھی رخسار جلتا تھا ۔ قریبی مسجد سے اذان کی صدا بلند ہوئی ۔میشان نے باپ کے چہرے سے نگاہ نہیںہٹائی ۔ ایسا کیا کیا تھا ابا نے کہ وہ مصطفیٰ کی بیٹی بن کر بھی اس کی شفقت سے محروم ہی رہی ۔ وہ عشا کی نماز کے لیے اٹھے ۔ انہوں نے پھٹی پرانی چپل پہنی ہوئی تھی‘ وہ پہلے سے زیادہ کمزور ہوچکےتھے۔
’’باقی سب کا کیا حال ہے؟‘‘ کچن سمیٹ کر اور عشاء کی نماز پڑھ کر اسنا اور اس کی ماں حبیبہ ‘ میشان سے ادھر ادھرکی باتیں کررہی تھی۔ جب اچانک حبیبہ نے پوچھا تھا۔
’’انہیں کیا ہونا ہے۔‘‘ اس نے اپنا سیل فون تکیے کے اوپر رکھا اور عجیب سے لہجے میں بولی ۔ حبیبہ نے نوٹ کیا تھا کہ جب سے وہ آئی تھی ۔ اس کی گفتگو میں گھر کے کسی فرد کا نام نہیں آیا تھا۔ اسنا نے ناسمجھی کے عالم میں اسے دیکھا۔
’’یہ کیا بات ہوئی کیا وہ انسان نہیں ؟‘‘ اسنا دھیرے سے ہنسی تھی۔
’’جہاں خواہشیں حسرت کا روپ نہیں دھارتیں‘ وہاں کسی کو کچھ نہیں ہوتا۔‘‘ اس کالہجہ خشک مٹی سے اٹا ہوا تھا ۔ اور آنکھیں اپنے کمزور مزدور باپ پہ ٹکیں ‘ جو عشاء کی نماز پڑھ کے گھر آیا تھا اورصحن میں پڑی کھردری چارپائی پہ لیٹ گیا تھا۔ وہ تینوں چھت پہ بیٹھی تھیں۔
’’یہ غلط سوچ ہے میشان!‘‘ حبیبہ کا لہجہ از حد سنجیدہ تھا۔
’’دولت تقدیر سے نہیں لڑ سکتی‘ کچھ مسائل پیسے سے بھی حل نہیں ہوتے‘ وقت کے ساتھ یہ بات سمجھ جائوگی ۔ ‘‘ اس نے تیزی سے جھکا سر اٹھایا اور ماں کی طرف دیکھا۔
’’مسائل وہاں ہیں ہی نہیں ۔ ‘‘ وہ ایک دم چپ ہوئی پھر اس کے ہونٹوں پہ خشک مٹی اڑی۔
’’موت یا زندگی‘ ماں! درمیان میں سب ٹھیک ہے۔‘‘ حبیبہ کو جیسے کسی نے کھنڈر میں دھکا دیاتھا ۔ وہ ہمیشہ میشان سے بات کر کے نہیں پھنستی تھی ۔ اس کی گفتگو میں زندگی ہوتی تھی ‘ بے فکری ہوتی ‘ وہ بمشکل دودن رہتی تھی اور سارا دن لاہور کی باتیں کرتی تھی ۔ اس دفعہ ایسا کیا ہوا تھا کہ وہ اتنی الجھی ہوئی گفتگو کر رہی تھی اور اگر وہ گفتگو کسی اور ہی رخ سے ہے تو حبیبہ اندر تک کانپی تھی ۔ اس نے خوف زدہ نظروں سے میشان کی طرف دیکھا ۔ اس کے سیل پر کال آ رہی تھی۔ اسکرین پہ لفظ آئمہ جگمگا رہا تھا۔
میشان نے کال کاٹ دی تھی۔ حبیبہ کا دل دھڑک کر رہ گیا ‘ وہ ایسا کیوں کر رہی ہے؟
٭…٭
یتیم کا مال کھانے والے خونی رشتوں کو حشر تک بھلا دیتے ہیں ‘ وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اس بچے کو بے شناخت کر کے وہ اس پہ زندگی کے‘ خوشیوں کے دروازے بند کر رہے ہیں ۔
ایک لمبا سفر کرنے کے بعد آج پہلی بار اس نے پیچھے مڑ کے دیکھا تھا، پیچھے کوئی راستہ نہیں تھا‘ صرف تاریکی تھی ۔ ماں کہتی تھی۔
’’میں بھائی کے بعد باپ کو نہیں کھو سکتی تھی‘ میں تمہیں نہیں کھونا چاہتی تھی‘ سو میں تمہارے سر سے وار کر تمہاری وراثت ان کے قدموں میں پھینک آئی۔‘‘
’’کاش ماں! آپ مجھے بھی وہیں پھینک آتیں یا میرے باپ کے ساتھ مجھے دفن کر دیتیں ۔ ‘‘ اس کے آنسوؤں سے تکیہ بھیگ گیا تھا ۔
’’کبھی تایا ‘چچا میں سے کوئی سالوں بعد ہی مجھ سے ملنے چلا آتا ۔ میری بھی پہچان ہوتی ‘میرا ایک خاندان ہوتا تو یوں آج بے شناخت ہو کر میں ٹھکرایا نہ جاتا، مجھے یہ قلق نہ ہوتا کہ میں کوشش بھی نہیں کر سکا ‘ میں اپنی جنگ آخری لمحوں تک لڑتا ‘ میں اب صرف فہیم عاقل ہوں ‘ ایک بیوہ طرح دار کا بیٹا ۔ مجھ سے سب کچھ لے لیتے بدلے میں میرے باپ کا گھر ‘میرا علاقہ بطور شناخت ہی مجھے دے دیتے ۔ کیا انہیں میری یاد نہیں آتی ہوگی ‘وہ سوچتے نہیں ہوں گے ‘کہ چھ ماہ کا بھتیجا زندہ بھی ہے یا نہیں؟ وہ روز محشر اپنے بھائی کو کیا منہ دکھا ئیں گے؟ یہ حویلی ‘ یہ جاگیر میرے کام نہیں آسکی ۔ تو میرے حصے کی حویلی اور جاگیر بھی ان کے لیے بھی بے معنی ضرور ہو گی۔‘‘ اس نے انہیں بد دعا دی تھی۔
یتیم کی بد دعا ساتوں آسمان ہلادیتی ہے۔
٭…٭
تین روز قبل ہونے والی منگنی رہائش گاہ میں ابھی تک زیر بحث تھی۔ تمام خواتین اکٹھی ہوتے ہی کسی نہ کسی بات کا سرا خان حویلی سے جوڑ دیتیں۔
’’میم صاحب کے تو ساس سسر بھی بڑے ہی خوب صورت ہیں۔ ‘‘ شازیہ نے لفظ بڑے پہ کچھ زیادہ ہی زور ڈالا۔
’’باجی! آپ سب بھی دیکھتیں تو حیران رہ جاتیں۔‘‘ گھر کی تینوں لڑکیاں رسم میں شامل نہیںتھیں اور اب شازیہ کی زبانی بصد شوق سن رہی تھیں۔
’’اور تابندہ بتا رہی تھی (کام والی) کہ لڑکی کے حسن کا تو نہ ہی پوچھیں۔‘‘
’’چلو نہیں، پوچھتے اب جا کر کام ختم کرو۔ ‘‘ انیقہ بیگم کی انٹری نے رنگ میں بھنگ ڈالا۔شازیہ کا منہ لٹک کر گردن سے لگا ‘ اس کا ارادہ ابھی گھنٹہ بھر اور منگنی نامہ جاری رکھنے کا تھا۔
’’ تم نے دیکھا نفیسہ! لڑکی کا ابا ذرا بھی خوش نہیں لگ رہا تھا ‘ تمام وقت منہ بنا کر ہی بیٹھا رہا۔‘‘ انیقہ نے دیورانی سے تائید چاہی۔
’’لو آپ بھی ناں ‘ ارے بھا بھی کیسے خوش ہوتا ۔ رسم کے موقع پر بھی نہ تایا ‘ نہ چچا نہ کوئی پھوپھی وغیرہ‘ سوچنے والی بات ہے طرح دار کے شوہر کے ساتھ کیا باقی سسرالی رشتے بھی ختم ہو گئے ۔‘‘ نفیسہ نے کن اکھیوں سے نند کی طرف دیکھا کیونکہ طرح دار کی سیما سے خوب بنتی تھی۔
’’شوہر کے بعد ایک بیوہ تنکے جیسی ہلکی ہو جاتی ہے ‘ اتنی کہ ہوا کی زد میں رہتی ہے ۔‘‘ سیما کو چپ کا روزہ توڑنا پڑا۔
’’بیوہ اور یتیم کا حق کھانے والے اژدھے کی طرح منہ کھولے ہوتے ہیں ۔ یتیموں کا مال کھانے والے حشر تک خونی رشتوں کو بھلا دیتے ہیں ۔ ایسی صورت میں طرح دار شوہر کے بعد ‘ بیٹا نہیں کھونا چاہتی تھی اور جب اس کا دل راضی نہیں تھا تو وہ دیور یا جیٹھ سے کیوں نکاح کرتی ۔ اسلام میں بیوہ کے جو درجات ہیں وہ لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں۔‘‘
’’جائی بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں۔‘‘ حاشر نے آتے ہی ماں اور چچی کے چہروں پہ ناگواری بھانپ لی تھی۔
’’دنیا کی تمام عورتوں نے کسی بھی جو ان بیوہ کا صبر اور شکر پتا نہیں کون سے کھاتے میں ڈال دیا ہے۔ بس ان کے کردار پہ نظر رکھتی ہیں۔ ‘‘ حاشر کو جائی کابات کرنا اچھا لگا تھا۔
’’واہ … جی واہ۔ ‘‘ چچی نے لٹو کی طرح ہاتھ گھمایا۔
’’کہاں کا صبر اور شکر ‘ دوسرا شوہر کر کے ہی طرح دار نے شکرانے کے نفل پڑھے ہوں گے۔‘‘وہ منہ ٹیڑھا کر کے بولیں ‘ ان کے تنفر کا پارہ ہائی درجے پر تھا۔ان کی بات پہ شازیہ کی کھی کھی سب سے اونچی تھی ۔ حاشر کی ایک گھوری نے ہی ماحول ساکت کر دیا ۔
’’جائی نے تو دوسری شادی نہیں کی تھی‘ پھر کبھی ان کے دیور یا جیٹھ نے خیر خبرلی؟‘‘ حاشر کے سوال نے ان کی گردنوں پہ ہاتھ ڈالا تھا۔
’’نہیں ناں ‘ صرف اس لیے کہ جو بوجھ گلے سے اتر گیا ‘ کہیں دوبارہ گلے نہ پڑ جائے ۔ جب کسی عورت کا شوہر مر جاتا ہے ‘ تو ہم سب اپنے تئیں یہ سوچ لیتے ہیں کہ اس کی تمام ضرورتیں بھی ساتھ ہی دفن ہو گئیں ۔ بس اسے اب تین وقت کی روٹی ‘ وہ بھی کسی فقیر کی طرح اور تین موسموں کے کچھ کپڑے چاہئیں ۔ اس کو اتنا خرچا بھی نہیں دیا جاتا کہ وہ اپنا کوئی شوق پورا کر سکے ۔ اس کی سہیلیاں ‘ اس کے بھانجے ‘بھتیجے یا دیگر عزیز و اقارب ۔ وہ کسی کو تحفے تحائف دینے کا حق بھی کھو دیتی ہے ۔ وہ بس اللہ ‘ اللہ کرے اور صبر شکر کا سارا ثواب بیوہ ہی لوٹے ‘ اور اس کے حق پہ میکے اور سسرال والے عیش کریں۔‘‘ وہ تلخی سے ہنسا۔
’’ کہا تھا تیرے دادا سے کہ حکیم عبد الباسط سے گھٹی نہ دلوانا۔‘‘ ایسی بے تکی بات پہ حاشر نے بھنویں چڑھا ماں کو دیکھا۔
’’حکمت اس پہ ختم ‘ سارے قصور میں سب سے بیبا اور سیانا بندہ ۔ پرناں جی ! ہماری ایک نہ سنی سسر صاحب نے اور اس سے گٹھی ڈلوائی اب بھگت تو ہم رہے ہیں۔‘‘ایک بار پھر سب کی کھی کھی شروع ہوئی ۔ جائی بھی مسکراہٹ دباتی وہاں سے اٹھ گئیں ۔ اس نے ماں کو دیکھ کر نفی میں سر ہلایا کہ کچھ نہیں ہو سکتا۔
’’اور ہاں !‘‘ وہ اٹھنے کو تھا کہ اسے کچھ یاد آیا۔
’’جائی نے شادی پہ کچھ دینا دلانا ہو گا ابا اور چچا سے کہیں کہ انہیں بھی حقیر رقم سے نواز دیں۔ مہربانی ہو گی ان کی۔‘‘ اس نے عجب سے ملال میں گھر کر سر کو جھٹکا دیا۔
’’ہائے ‘ہائے پتر !پیسے کبھی حقیر نہیں ہوتے ‘ ایسا کہنا ‘ وہ بھی رزق کو گناہ ہے‘گناہ۔‘‘چچی نے کانوں کو ہاتھ بھی لگا لیے ۔
’’او ہو اماں …‘‘
’’حقیر ۔مطلب تھوڑی سی۔‘‘ حسن آرا ماں کی جہالت پر‘ وہ بھی حاشر کے سامنے سخت شرمندہ ہوئی۔
وہ ایک گہری سانس بھر کرسست قدموں سے چلتا بیرونی گیٹ پار کر گیا ۔ آج کل اس کا دل لاہور جانے کو بھی نہیں چاہتا تھا ۔ اس نے ایک تھکی ‘تھکی سی نظر مغرب کی طرف اڑتے پرندوں پہ ڈالی ‘ وہ نارنجی تھے ‘زرد یا سفید ۔ مٹی مٹی سی دھوپ میں ان کا کوئی رنگ بھی واضح نہیں تھا ۔ اس کے دھیان نے دھیرے دھیرے کسی چہرے کو چھوا ‘ اس کے دل نے بے قرار سا ہو کر ان سیاہ پلکوں کو‘ سدا خشک رہنے کی دعادی ۔بے خواہش ہی کسی کی یاد کا چاند اس کے بام و در پہ ٹھہر گیا تھا۔
٭…٭
حبیبہ تہجد کے لیے اٹھی تو بیٹی کو جا گتا دیکھ کربے چین سی ہوئی ۔ اس کی چارپائی بھی پنکھے کے سامنے تھی۔ مارچ کے دوسرے ہفتے میں راتیں بھی اتنی گرم نہیں ہوتی تھیں ۔ وہ بے چینی کے عالم میں ہی اس کی طرف آئی۔
’’نیند نہیں آرہی؟‘‘ وہ اس کے پہلو میں ٹک گئی۔
’’تم اس طرح کھلے آسمان تلے سونے کی عادی نہیں ہونا ۔‘‘ انہوں نے جواز بھی خودہی ڈھونڈا۔میشان نے بیٹھ کر ماں کا ہاتھ پکڑ لیا ۔ اس کے گیلے ہاتھ میں کچھ خشک سا بھید کسمسا رہا تھا۔
’’امی !‘‘ وہ جیسے نیند میں بولی تھی۔
’’پاپا کہتے ہیں ‘ میں اپنی پراپرٹی میں سے کچھ بھی میشان کے نام نہیں کروں گا ۔ میں اپنی بیٹی کا حق بد نیت کریم کی نواسی کے لیے نہیں مار سکتا ۔ ‘‘ حبیبہ کو جیسے کسی نے کوڑا مارا تھا۔
’’جب ماما نے کہا کہ جو پراپرٹی میرے نام ہے۔ میں اس میں سے میشان کو دے دوں گی تو آپ کو پتا ہے پاپا نے کیا جواب دیا؟‘‘ اس نے زرد بلب سے نظر ہٹا کرماں کا چہرہ دیکھا ۔حبیبہ تو جیسے وہاں تھی ہی نہیں۔
’’پاپانے کہا اگر تم نے ایسا کیا تو میں اس لڑکی کو امی !پاپا نے مجھے اس لڑکی کو کہا۔‘‘ اس کا لہجہ کانپا تھا ۔
’’میں اس لڑکی کو دھکے دے کر گھر سے نکال دوں گا ۔‘‘ حبیبہ کو کسی نے دوسرا کوڑا مارا تھا۔
’’پاپا نے کہا اگر میں میشان کے ساتھ مصطفیٰ ہٹا دوں تو میں دیکھوں گا کہ ایک فیکٹری مزدور ‘ محمد باقر کی بیٹی اتنے اعلیٰ حسب نسب کے خاندان میں کیسے شادی کر سکتی ہے۔‘‘ حبیبہ کواپنی بیٹی دکھ کی امر بیل میں جکڑی نظر آرہی تھی۔
’’پاپانے کہا… ‘‘
’’اف! کیا ابھی اور بھی کچھ ہے۔ ‘‘حبیبہ نے اپنی آنکھیں زور سے بھینچی تھیں۔
’’انہوں نے کہا محمد باقر کی سات نسلوں میں اتنا جہیز کسی کو نہیں ملا ہو گا ‘ جتنا میں تمہار ا صدقہ اتار کر اسے دوں گا ۔ ‘‘ بیٹی کے جسم سے لپٹی دکھ کی امر بیل حبیبہ کے گرد بھی حصار باندھ چکی تھی۔
’’انہوں نے کہا۔ میں نے بائیس سال ایک شام کا صدقہ محمد باقرکی بیٹی کو کھلایا ‘ پہنایا ہے۔‘‘ وہ اپنی ہچکیوں کو بمشکل روک رہی تھی۔
’’مجھے بتائیں امی! محمد باقر کی بیٹی نے بائیس سال اس گھر میں کس شام کا صدقہ کھایا اور اوڑھا ہے ۔ ‘‘ میشان نے امر بیل کو بیدردی سے اپنے جسم سے نوچ کر ماں کے منہ پر دے مارا تھا ‘ جو کسی کوڑے سے بھی زیادہ تکلیف تھی۔
’’میں نے کب ان کا حکم نہیں مانا۔ کب ان کی نافرمانی کی۔‘‘
’’ہم نے ان کا حکم نہیں مانا تھا ۔ ہم نے نافرمانی کی تھی میشان۔‘‘ حبیبہ بے آواز چیخی تھی۔
’’میں پڑھنا چاہتی تھی‘ انہوں نے میری شادی طے کر دی۔ میں نے بنا کسی اعتراض کے سرجھکا دیا۔‘‘
’’کریم نے سر نہیں جھکایا تھا ‘کریم نے بد دیانتی کی تھی۔‘‘ حبیبہ کی آواز اس کے حلق سے باہر نہیں آ پارہی تھی۔
’’محمد باقرکی بیٹی کو آئندہ زندگی بھی اور اچھا شوہر بھی ‘نام ‘سکھ ‘تمام آسائشیں امینہ مصطفیٰ کے صدقے میں مل رہی ہیں ۔ یہ پاپا نے کیوں کہا ‘کیوں امی؟‘‘ اس نے ماں کا بازو جھنجھوڑا۔
وہ مصطفی کے الفاظ نہیں تھے۔ ایک زہریلا ناگ تھا جس نے تاحیات حبیبہ کو ڈسنا تھا ‘ اس نے وقت تہجد کسی نادیدہ ہستی سے ذرا سا تریاق مانگا تھا اور اس کی یہ خواہش رد نہیں ہوئی تھی ۔ اس نے گہرے گہرے سانس لیے اس نے روتی ہوئی بیٹی کو اپنے سینے میں بھر لیا وہ اسے تسلی نہیں دے سکتی تھی۔
٭…٭
’’اس شرٹ کے ساتھ یہ ٹائی سوٹ کر رہی ہے۔‘‘ مصطفیٰ نے مڑکر امینہ کے خفا ‘خفا سے انداز کو دلچسپی سے دیکھا۔ ان کا مقصد صرف اس سے بات کرنا تھا۔
’’ہاں!‘‘ امینہ نے اڑتی‘ پڑتی سی نظر ڈالی اور اس رخ اس کی جانب سے پھیر کر تکیے درست کرنے لگی۔
’’او ہو بھئی ‘ اتنی دور سے تمہیں ٹھیک طرح سے دکھ نہیں رہی، میرے خیال سے ذرا سوٹ نہیں کر رہی ۔‘‘ وہ نچلا لب دانتوں تلے دبا کر شرارت سے بولے۔
’’میری دور کی نظر بھی ٹھیک ہے ۔‘‘ وہ ان سے کنی کترا کے نکلنا چاہتی تھیں۔
’’مگر میری دور کی نظر کچھ ٹھیک نہیں ۔‘‘ انہوں نے اپنے قریب سے کھسکتی ہوئی امینہ کی کلائی تھام کر اسے اپنی طرف کھینچا ۔
’’ میں صرف تمہیں قریب تر دیکھنا پسند کرتا ہوں۔‘‘ اس کی سوجی گلابی آنکھیں مصطفیٰ کے دل کی حالت ابتر کر گئیں۔
’’سوٹ تو کر رہی ہے۔ ‘‘ امینہ خود پر گڑی ان کی آنکھوں سے نظر چرا کر بولی۔
’’ویسے بھی آپ پہ سوٹ کرتا ہے ‘جو بھی پہن لیں‘ جو بھی کہہ لیں۔‘‘ شکوہ زبان سے پھل ہی گیا۔ ان کی کلائی پہ مصطفیٰ کی گرفت ڈھیلی ہوئی۔
’’مجھے صرف تم سوٹ کرتی ہو۔‘‘ وہ اس کی پلکوں کی نوک پہ دل رکھ کے بولے تھے ۔ اس کے اظہار پہ ہمیشہ کی طرح امینہ کے سنہرے رخساروں پہ سرخی نہیں دوڑی تھی‘ ان کا سفید رنگ سفید ترین ہوا۔