کوئی عشق وقت غروب سا : فرزانہ کھرل
’’اب کدھر؟‘‘ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتے ہوئے لاؤنج میں آئی۔
’’کچھ دیر ہمارے پاس بھی بیٹھیں۔‘‘ وہ ناشتے سے قبل چچا کے پورشن میں سب سے مل آیا تھا ۔ سوائے حسن آرا کے وہ غالباََ اپنے کمرے میں تھی۔ جبیں زہرہ باقی افراد کے ساتھ ناشتہ کر رہی تھی ۔ ان کے لاؤنج میں حسن آرا … حسن کے تمام ہتھیاروں سے لیس براجمان تھی۔ حاشر کے سلام کا جواب دھیمی آواز میں شرما کر دیا گیا ۔ حاشر اس کے دماغ میں بھرے خناس سے واقف تھا۔ سو حال احوال بھی سنبھل کر پوچھا۔
’’بھائی! اب جلدی سے جتائیں وہ کیسی لگ رہی ہے ۔ ‘‘ حاشر نے لاؤنج کے کونے میں کھڑی نصیرہ پر ایک توصیفی نظر ڈالی ۔ سرمے سے بھری درمیانی سی آنکھیں‘بالوں میں لگے چنبیلی کے تیل کی خوشبو یہاں تک آرہی تھی ۔ کپڑے وہ ہمیشہ صاف ہی رکھتی ‘ سفید بال بھی اس کے پوپلے چہرے پہ جچ رہے تھے۔
’’اوں ‘ں … اچھی لگ رہی ہے اگر بالوں میں کلر یا مہندی لگائے تو اور بھی اچھی لگ سکتی ہے۔‘‘
’’ ہیں… ایں ۔ ‘‘ ثو بیہ کے سرپہ دھڑام سے چھت گر ی ۔ اس نے گردن موڑ کر تعجب سے بھائی کا سنجیدہ چہرہ دیکھا۔
’’ بھئی خود ہی تو پوچھا تھا ۔ اب اس طرح صدمے کی حالت میں کیوں ہو؟ چلو میں کہہ دیتا ہوں کہ سفید بالوں کے ساتھ بھی غضب کی لگ رہی ہے اب خوش ہو جاؤ۔‘‘ وہ زیر لب مسکرا کر بولا۔ ثوبیہ کا دل اپنے بال نوچنے کو چاہ رہا تھا ۔ جب سے حاشر آیا تھا تو کمرہ بند کرکے حسن آرا کے حسن کو لشکانے میں سو فیصد اس کا بھی ہاتھ تھا۔
’’بھائی میں نے آپ کو اس طرف دیکھنے کو کہا تھا ۔‘‘ اس نے انگلی سے لاؤنج کے مشرقی کونے کی طرف اشارہ کیا۔ جہاں حسن آرا دنیا و مافیہا سے بے خبر بظا ہر اخبار پڑھ رہی تھی ۔ یہ اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا ۔ گہرا گلابی سوٹ بالوں میں بڑے بڑے کرل ڈالے ‘گلابی میک اپ کے ساتھ ۔ بے ساختہ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگی۔
’’اس نرسری کلاس کی بچی لگ رہی ہے ‘جس کے اسکول میں آج پنک ڈے منایا جا رہا ہو۔ ‘‘ اس نے بہن کے کان میں سرگوشی کی اور ہنس کر اس کے سرپہ چپت رسید کی پھر لمبے، لمبے ڈگ بھرتالائونج عبور کرگیا۔
آپ یوں فاصلوں سے گزرتے رہے
دل سے قدموں کی آواز آتی رہی
لاؤنج میں جھاڑ پونچھ کرتی شازیہ نے حسن آرا کے جذبات کی ترجمانی بہ آواز بلند کی۔
’’ہو‘ او‘ او… ہوں‘ اوں ‘ہوں۔‘‘ ثوبیہ نے بھڑک کر تو حسن آرا نے تڑپ کر شازیہ کی طرف دیکھا جبکہ گیت کے بول سن کر جبیں زہرہ کے لبوں پہ بڑی ہی خوب صورت مسکراہٹ نے ڈیرے لگائے ہوئے تھے کیونکہ اس کے دل سے ہمہ وقت قدموں کی چاپ آتی رہتی تھی۔
٭…٭
جائی نے اپنے سامنے پھیلے بیش قیمت لان کے سوٹوں پہ محبت سے ہاتھ پھیر کر ان کی نرماہٹ کو محسوس کیا۔
’’ابھی ان کی کیا ضرورت تھی ‘چند دن ان کے بغیر بھی گزارا ہو سکتا تھا۔‘‘انہوں نے تشکر سے بھر پور نرم سی نظر حاشر یہ ڈالی۔
’’اس گھر میں پہلے ہی لفظ گزارا آپ تک محدود ہے ۔ برائے مہربانی آپ اس لفظ سے پرہیز رکھا کریں۔‘‘ وہ ان کے پلنگ پر نیم دراز ہوا۔
’’ویسے بھی جب یہ سوٹ سل کر آئیں گے تو گزارے کے چند دن بھی گزر چکے ہوں گے ۔‘‘ اس نے بازو موڑ کر آنکھوں پہ رکھا ‘ اس کے پاؤں کی انگلیاں ہولے ہولے حرکت کر رہی تھیں اور ایسا تب ہوتا جب وہ کسی اندرونی اضطراب کو چھپانا چاہتا تھا ۔ وہ ان کے ہاتھوں پلا بڑھا تھا ۔ وہ اسے اندر تک پڑھ لیتی تھیں ، جائی کو کوئی اندر کا معاملہ ہی لگ رہا تھا۔ انیقہ حاشر کو بلانے کی غرض سے اندر آئی تھیں ۔ سیما کے سامنے اتنے مہنگے دیدہ زیب سوٹ دیکھ کر ان کا دل بد رنگ سا ہوا۔
’’ باہر سب تمہارا چائے پہ انتظار کر رہے ہیں۔ ‘‘ اس گھر میں رکھ رکھاؤ جیسی زحمت کوئی بھی نہیں کرتا تھا۔
’’جب سے آئے ہو پھوپھی کے گھٹنے سے جڑ کے بیٹھے ہو۔‘‘ وہ اندرونی کھپٹ چھپائے بنا تنک کر بولیں۔
اپنی بھاوج کے وزنی لہجے میں سیمانے ہمیشہ خود کو دبتے محسوس کیا تھا اور ہمیشہ خاموش ہی رہیں ۔ وہ ماں کے ان ہی رویوں سے دل برداشتہ ہو کر جاتا تھا ۔ اس کے بچپن میں پھوپھی اس کی ماں کو بھر جائی کہتی تھیں ‘لفظ بھر جائی دہراتے ‘دہراتے سمٹ کر جائی میں ڈھلا اور وہ پھوپی کو ہی جائی پکارنے لگا ۔ پھر گھر کے چھوٹے بچے بھی حاشر کے منہ سے سن کر انہیں جائی ہی کہنے لگے۔
’’آج چائے پہ تمہارے چچا کی فیملی کو بھی انوائیٹ کیا ہے ‘ مل بیٹھ کے سب گپ شپ لگائیں گے ۔ آپ بھی آجائیے گا ۔‘‘ انہوں نے لٹھ مار لہجے میں نند کو بھی دعوت دی ۔بیٹے پہ ایک خشمگیں نظر ڈالتی دھپ دھپ کرتی با ہر جانے لگیں۔
جائی نے کپڑے سمیٹتے ہوئے رخ پھیر کے انہیں کا دیکھا ‘ ان کی ستی‘ ستی آنکھوں میں سرخ ڈورے تیر رہے تھے۔
’’اب آجاؤ۔‘‘ وہ مزید کچھ بھی کہے بنا صحن میں جا رہی تھیں ۔ حاشر کے قدم بھی ان کی تقلید میں اٹھنے لگے ۔ چائے کا اہتمام پچھلے صحن میں ہی تھا ۔ دونوں گھرانوں کے تمام افراد وہاں جمع تھے ۔ حاشر کا خیال تھا کہ اعتبار چچا جائی کے استقبال کو اٹھ کے آگے آئیں گے مگر یہ محض اس کا خیال ہی رہا ۔ انہوں نے اپنی نشست چھوڑے بنا اپنے سے بڑی بیوہ بہن کا حال احوال دریافت کیا ۔ نصیرہ کی دونوں بہوئیں تازہ تازہ کباب اور پکوڑے سب کو پیش کر رہی تھیں۔ حسن آرا کے لیے ہر پل عید کی مانند تھا۔
’’اب جبکہ سب اتفاقاََ جمع ہیں تو یہ صلاح مشورہ بھی کر لیتے ہیں کہ طرح دار کے بیٹے کی منگنی میںکس‘ کس کو شرکت کرنی ہے؟‘‘ املتاس کی شاخوں پہ کچھ ڈھونڈتی جبیں زہرہ کو یک لخت ہی شاخیں شعلوں کی لپک میں نظر آئی تھیں ۔ وقار کی بات کو دونوں خواتین نے کوئی اہمیت ہی نہیں دی تھی۔
’’ایسا کریں آپ اور سیما آپاچلے جائیں پھر جب ان کی حویلی میں رسم ہو گی تو خواتین بھی شرکت کرلیں گی ۔‘‘ سب کے چہروں پہ نفی جیسے تاثرات اخذ کر کے اعتبار نے ایک معقول مشورہ دیا ۔ جو سب کو پسند بھی آیا( خصوصاََ خواتین کو )
’’میرے خیال میں امی یا چچی میں سے بھی کسی ایک کو شرکت کرنی چاہیے۔‘‘ ان کا مشورہ رد کرتے ہوئے حاشر نے اپنی رائے دی۔
’’اس لڑکے سے ہمارا کوئی رشتہ ہے نہ تعلق … جن سے ہمارا رشتہ تھا ‘ان کی ہر رسم میں پوری دنیا نے دیکھا ہم سب نے بڑھ چڑھ کے شرکت کی تھی۔‘‘ انیقہ بیگم نے بیٹے کا احمقانہ مشورہ جو انہیں ناگوار بھی گزرا تھا‘ ایک لمحے میں رد کر دیا۔
’’خدا جانے کیا قصہ تھا آج تک کوئی اگلا پچھلا آیا نہ گیا۔‘‘ نفیسہ بھی اس معاملے میں دیورانی کی حمایتی تھیں۔
لڑکیوں نے شکر کیا کہ ان کی مائوں نے شاید مردوں کا لحاظ کر کے بات اتنے مختصر قصے پہ ختم کر دی تھی ۔ ورنہ تو طرح دار کے وہ بخیے ادھڑتے تھے کہ الامان۔
’’ ہمارے سسر کی آنکھوں پہ ہی محبت کی چربی چڑھ گئی تھی۔ کبھی یہ نہ سوچا کہ خان نے بمعہ نواسا ‘ بیوہ بیٹی کے ساتھ چھپ کے عمر کیوں گزار دی اور خدا جانے یہ لڑکا بیٹی کے کن کرتوتوں کا پھل تھا اُف!‘‘ ان کی ایسی باتیں سن کر جبیں زہرہ کا دل یوں جلتا کہ آبلے پڑ جاتے۔ اب بھی موجودہ لمحے میں درد اس کے تلوئوں تک آپہنچا تھا ۔ حاشر کو پتا نہیں کیا ہوا وہ ایک جھٹکے سے اٹھا اور ان سب کو ششدر سا چھوڑ کر جیسے انداز کے ساتھ باہر گیا صاف لگ رہا تھا کہ رات گئے واپسی ممکن تھی۔ حسن آرا نے بے چینی سے پہلو بدلا۔
’’اس کی کچھ خبر لو ‘جب سے گیا ہے مزاج ہی نہیں رہے۔‘‘ انیقہ بیگم نے کبابوں سے انصاف کرتے شوہر کو آڑے ہاتھوں لیا۔
’’میں ایسا کچھ نہیں کرنے والا، اکلوتا وارث ہے۔‘‘ انہیں بیوی کی بے تکی بات پہ شدید غصہ آیا۔
’’ویسے بھی ایک دو ماہ بعد اسپیشلائزیشن کرنے ملک سے باہر جانا چاہتا ہے اور تم بھی مزاج ٹھنڈا رکھ کے اس سے بات کیا کرو۔ ‘‘ شوہر نے اٹھتے ہوئے انہیں تنبیہہ کرتی نظروں سے گھورا۔
’’ میرے پاس وہ بیٹھتا کب ہے۔ ‘‘ انیقہ بیگم نے جنہیں سنایا تھا وہ بخوبی سمجھ گئی تھیں مگر انہوں نے کچھ ظاہر نہیں کیا۔ ان کی نظریں اس تکون کی طرف تھیں جس کے سرے پہ مددگار چپ چاپ بیٹھا تھا ۔ اس کے عین سر جھولتی شاخ زرد پتوں کو اس کے قدموں میں ڈھیر کر رہی تھی۔
جبیں زہرہ کو یقین تھا کہ اس پہ نثارہوتے زرد پتے اس کے پاؤں چھو کے ہرے ہو سکتے تھے ۔ وہ بھی ان پتوں کی مانند اس کے پاؤں چھونے کو اٹھی ۔دنیا میں سب کچھ ہو سکتا تھا‘ سب کچھ ممکن تھا مگرفہیم عاقل اس کا نہیں ہو سکتا تھا ۔
ثوبیہ نے ننگے پاؤں چلتی جبیں زہرہ کو گیلی آنکھوں سے دیکھا۔ سیما کو اس کی کیفیت میں بے دھیانی کا دوسرا کنارا نظر آیا تھا ۔ جیسے کوئی سفر ختم ہی نہ کرنا چاہتا ہو ۔ اس کے پیروں سے ایک سسکتی ہوئی خوشبو لپٹ رہی تھی۔ مددگار نے ہوا میں اس سلگتی خوشبو کی باس سونگھ لی تھی۔
’’رہنے دو ‘رہنے دو۔‘‘ وہ اسے دیکھ کے کپکپا یا ۔ وہ اس کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گئی ۔ وہی خوشبو اس کی آنکھوں میں سلگنے لگی۔
بلھے شاہ اک جوگی آیا
دل ساڈے او نیں دھواں بلایا
اس خوشبو کی لپیٹ میں آکر ہر چیز جھوم رہی تھی بس دو وہاں نہیں تھی۔
٭…٭
آج سے پہلے اس شہر میں آکر اس کی کیفیت ایسی نہیں ہوتی تھی۔ آج سے پہلے وہ اپنے ساتھ لفظ کاش … لے کر بھی نہیں آتی تھی ‘بلکہ اس کی زندگی میں لفظ کاش کا کہیں عمل دخل نہیں تھا ۔ کاش وہ اسی دن آجاتی جس دن اس نے ماما سے کہا تھا ۔ اس دن مامانے اسے منگنی کا جواز پیش کر کے روک لیا تھا ۔ کاش وہ رات کو پاپا کے کمرے میں رہ جانے والا اپنا سیل فون اٹھانے نہ جاتی۔
’’بی بی جی گھر آگیا ہے۔‘‘ ڈرائیور کی آواز پہ وہ اپنے خیالوں سے چونکی ۔ گاڑی بس گلی کی نکڑ تک جاسکتی تھی ۔ دو گھر چھوڑ کر تیسرا گھر ان کا تھا ۔ وہ ڈرائیور کو سامان نکالنے کا کہہ کر آگے بڑھ گئی۔
وہ اطلاع کے بغیر آئی تھی۔ اطلاعی گھنٹی پہ انگلی رکھ کر اس نے گلی میں ایک طائرانہ نظر ڈالی۔ ہر گھر میں کچھ نہ کچھ تبدیلی آچکی تھی سوائے اس گھر کے جس کے سامنے وہ کھڑی تھی۔
اس شہر اور اس گلی سے اسے کوئی خاص جذباتی لگاؤ نہیں تھا ۔ وہ اگر اس گھر میں اپنے قیام کے تمام دن گنتی تو اس کی بائیس سالہ زندگی میں ساٹھ ستر سے زیادہ دن نہیں بنتے تھے ۔ پھر بھی اکثر اس کے دھیان کے پرندے اس شہر اور گلی کی جانب پرواز کرتے تھے ۔ ڈرائیور سامان اٹھائے اس کے عقب میں کھڑا تھا ۔
’’ آرہے ہیں بھئی صبر کرو۔ ‘‘ پہلے چپل گھسیٹنے کی آواز آئی پھر کسی نے دروازہ کھولا‘ اس کے مقابل دروازہ کھولنے والا‘ پتا نہیں اسے دیکھ کر حیران ہوا تھایا پریشان وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ وہ تین سال بعد آئی تھی یا چار یا دو اسے یاد نہیں تھا۔
٭…٭
طرح دار کی حویلی کا ماحول اس کے سسرال والوں سے بالکل میچ نہیں کرتا تھا ۔ اس نے اپنی بچیوں کی تعلیم و تربیت بھی ان کے ماحول اور رواجوں کے مطابق نہیں کی تھی ‘بلکہ اپنی سوچ کے مطابق کی تھی۔ مگر اس کو ہمیشہ محسوس ہوا کہ وہ فہیم کو ایک بھائی کی محبت اور عزت نہیں دے پاتیں ۔ وہ اس سے ایک عجیب ساکھار کھاتی تھیں ۔ پتا نہیں ایسا وہ خود کرتی تھیں یا ان کے ددھیال والے انہیں اس بات پہ اکساتے تھے۔
طرح دار نے سمجھ داری سے کام لیتے ہوئے ان دونوں کی شادیاں فہیم سے پہلے کر دی تھیں ، پھر اپنی اکلوتی بہو ڈھونڈھنے کے لیے شہر کے شہر چھان مارے اور محاور تاََ نہیں سچ مچ اس کی جوتیاں گھس گئی تھیں ۔ وہ مختار کے خاندان کے ٹکر کی بہو چاہتی تھی جو خوش مزاج، تعلیم یافتہ اور حسین ہونے کے ساتھ ایک سلجھی ہوئی ویل آف فیملی سے ہو ۔ فہیم عاقل زندگی کی بتیس بہاریں دیکھ چکا تھا جب طرح دار کو گوہر مقصود مل ہی گیا جس کی اسے تلاش تھی۔
صحیح معنوں میں اس نے لڑکی والوں کی دہلیز پکڑلی تھی اور بالآخر ہاں کروا کر ہی دم لیا ۔ منگنی کی سادہ سی تقریب میں وہ شادی کی تاریخ بھی پکی کر آئی تھی۔
٭…٭
رہائش گاہ کے پچھلے حصے میں آخری دیوار کے ساتھ گھر کا کچھ کچا حصہ تکون کی صورت تھا ۔ دیوار کے دوسری طرف بوڑھ تو ‘اس طرف پیپل کا پرانا درخت تھا جن کی شاخیں ہمہ وقت آپس میں جڑی رہتی تھیں ۔ خواتین کا خیال تھا کہ ان پرانے درختوں پہ پچھلے کئی برسوں سے جنات بسیرا کیے ہوئے ہیں ‘ تب ہی اس کچی تکون میں آکر گرم دوپہروں میں بھی خنکی محسوس ہوتی تھی۔
تمام موسموں میں مددگار کا ٹھکانہ بھی وہی تکون تھی ۔ مددگار کی محبت جائی کو وہاں کتنے ہی پھیرے لگواتی تھی یا پھر ہر خوف سے آزاد جبیں زہرہ جو ننگے پائوں چچا کے مسکن کے طواف کر کے جانے کون سی دعاؤں کو قبول کروانا چاہتی تھی ۔ اب تو کئی دنوں سے وہ طواف کرنا بھول چکی تھی ۔ اس کی غیر حاضری پر ‘ مدد گار کے ساتھ اس درختوں پہ بیٹھنے والے پرندے بھی اداس تھے۔
خان حویلی سے آنے والی مٹھائی نصیرہ نے سیما اور حاشر کے سامنے رکھی تھی ۔ مددگار بھی وہیں موجود تھا ۔ وہ مٹھائی کو دیکھتا رہا ۔ اس نے اٹھانے کی کوشش بھی نہیں کی تھی‘ حالانکہ اسے میٹھا پسند تھا ۔ پھر اس نے ایک فلک شگاف چیخ ماری تھی کہ درختوں پہ بیٹھے تمام پرندے اڑ گئے تھے وہ آسمان کی طرف منہ کر تے کرلاتا رہا۔
’’توہی ہے ‘ تو ہی ہے۔‘‘
مٹھائی ‘جائی اور حاشر نے بھی نہیں کھائی تھی کیونکہ مددگار نے اسے آنسو کہا تھا ‘ پھروہ کتنی دیر حاشر کی اداس آنکھوں گھورتا رہا تھا اور اس نے ہوا میں جبیں زہرہ کے آنسو ئوس کی خوشبو بھی سونگھی تھی۔
٭…٭