کوئی عشق وقت غروب سا : فرزانہ کھرل
’’دنیا میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہو گا جو مجھے دیکھے اور پھر دیکھتا ہی نہ رہ جائے ۔‘‘
اس آواز پر حاشر نے پلٹ کر دیکھنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ وہ اس وقت شہر کے مہنگے ترین ریسٹورنٹ میں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ ڈنر کر رہا تھا ۔ اپنے ساتھ بیٹھے ان مردوں کا اسے یوں دیکھنا حاشر کو ناگوار گزر رہا تھا ۔ وہ جانتا تھا کہ پوری دنیا میں اتنا حسین چہرہ صرف ایک ہی ہے ۔
حاشر نے پہلی دفعہ اسے ایک شاپنگ مال میںدیکھا تھا۔ وہ شاپنگ مال اس کے بیسٹ فرینڈ احد کا تھا اوروہ اسے دیکھتا ہی رہ گیا تھا۔یہ ان دنوں کی بات تھی جب اس کی ہائوس جاب نئی نئی شروع ہوئی تھی۔
’’سنا ہے اس کی سیاہ چشمگی قیامت ہے اور سنا ہے سرمہ فروش اسے آہ بھر کے دیکھتے ہیں۔‘‘وہ سرمہ فروش نہیں تھا مگر وہ آہیں بھر بھر کے اسے دیکھ رہا تھا ۔ اس موسم میں وہ ہاسٹل کے کمرے میں ٹہل‘ ٹہل کر احمدفراز کا رٹا لگایا کرتا تھا۔
اس نے اپنی بے قراریوں کی داستان احد کو سنا کر اس کے ذمے لگایا تھا کہ آئند وہ اس کے شاپنگ مال پہ آئے تو احد نے کیسے اس کے بیگ سے موبائل چوری کرنا تھا ۔ وہ کسی کالج بوائے کی طرح اس لڑکی کے پیچھے پڑ گیا تھا ۔ پتا نہیں کس طرح مگر احد نے اس کے بیگ سے موبائل اڑا لیا تھا ۔ کافی دن اسے تنگ کرنے کے بعد اور جواباََ گالیاں سننے کے بعد ایک دن اس کی خاندانی عزت و حمیت جاگی اور وہ اس کا سیل فون واپس کرنے یونیورسٹی اس کے ڈیپارٹمنٹ پہنچ گیا تھا ۔وہ محبت جیسے جذبے پہ ہنستی تھی ۔ اس کا خیال تھا کہ خوب صورت چہروں سے محبت ہو ہی جاتی ہے۔ جب حاشر نے اپنی خواہش پہ ڈٹ کر عین اس کی آنکھوں میں جھانک کر کہا تھا۔
’’محبت چہروں سے نہیں اس سے ہوتی ہے‘ جس کے لیے دل دھڑکتا ہے ‘جسے اپنے اندر ہر طرف محسوس کرتا ہے۔ اور ہائوس جاب کرنے کے باوجود کسی کالج برائے کی طرح اس کی یونیورسٹی کے اطراف چکر لگاتاہے۔‘‘ان سب باتوں کے باوجود اس کی سیاہ حسین آنکھوں میں اک تمسخراڑا تا احساس تھا۔
’’پھر تمہیں آئمہ سے محبت کیوں نہیں ہوئی۔ وہ بھی تو ہمیشہ میرے ساتھ ہوتی تھی۔‘‘ اس کے ہونٹوں پہ زچ کردینے والی مسکراہٹ تھی۔
’’کیونکہ میرا دل تمہاری طرف کھنچا تھا ۔ میری آنکھیں تمہیں دیکھ کر خیرہ ہوئی تھیں۔ ‘‘ عاشر نے اپنی محبت کی آخری دلیل دی تھی۔
’’کیونکہ میرا چہرہ حسین تھا ۔‘‘ وہ استہزا سے ہنسی تھی اور پھر ہنستی چلی گئی تھی۔
’’میں تمہارے حسین چہرے پہ تیزاب پھینک دوں گا اور پھر بھی کہوں گا کہ مجھے تم سے محبت ہے۔‘‘ اس کی ہنسی پہ جیسے کسی نے پاؤں رکھ دیا تھا۔ پھر وہ تنفر بھرے لہجے میں اپنے حواس سمیٹ کر بولی تھی۔
’’ہر ماہ میرے گھر ایک سے بڑھ کر ایک پروپوزلز کی لائن لگی ہوتی ہے ‘مگر تم اس لائن میں بھی نہیں لگ سکوگے ۔‘‘ وہ پائوںپٹختی اس کی محبت پہ فاتحہ پڑھ کر چلی گئی تھی۔آج دو سال بعد حاشر نے اس کا وہی پر غرور لہجہ سنا تھا ۔ اس کا دل ہر چیز سے اچاٹ ہو رہا تھا ۔ وہ صرف اس سے ایک بات کرنا چاہتا تھا ۔ وہ وہاں سے اٹھ کر گھوم کر اس کی میز کی طرف آیا۔ اسے دیکھ کر اس کی گھنگھور سیاہ آنکھوں میں تحیر سا اترا ۔ اس کے ساتھ آج بھی وہی لڑکی تھی، جسے اس نے آئمہ کہا تھا ‘حاشر اس کے مقابل بیٹھ چکا تھا۔
’’پلیز آپ تھوڑی دیر کہیں اور بیٹھ سکتی ہیں؟‘‘ آئمہ ان دونوں پر خاموش نظر ڈالتی وہاں سے اٹھ گئی۔ وہ اسے کتنی ہی دیر تک دیکھتا رہا تھا۔
’’سٹاپ اٹ پلیز!‘‘ وہ میز یہ ہاتھ مار کر دبی آواز سے چیخی تھی۔
’’میں کوئی منظر نہیں جسے تم گھور رہے ہو۔‘‘
’’ ہم تو آپ کے حکم کی تعمیل کر رہے ہیں۔‘‘ وہ ہونٹوں کو ذرا سا گول کر کے انتہائی دلکشی سے مسکرایا۔ اس نے ابرو چڑھا کر اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’ابھی آپ فرما رہی تھیں کہ دنیا میں کوئی ایسا الو کا پٹھا نہیں جو مجھے دیکھے اور پھر دیکھتا ہی نہ رہ جائے ۔‘‘ حاشر کی نگاہیں جیسے تمسخر اڑاتی ہوئی تھیں۔ وہ اس کے چہرے سے کچھ بھی اخذ نہیں کر پا رہا تھا۔ حیرت ‘غصہ یا نفرت…
’’میں ایسا نہیں تھا میشان !لڑکیوں پر مرمٹنے والا ‘ان کے پیچھے بھاگنے والا۔‘‘ اس کا گہرا‘ بھاری ہوتا لہجہ ماحول کو گھمبیر بنا رہا تھا۔
’’میں صرف تمہارے پیچھے پہلی اور آخری بار خوا ر ہوا ہوں اور میں ابھی تک اپنی بات پر قائم ہوں۔‘‘ وہ خاموش ہوگیاتھا۔میشان نے اس پہ ایک تیز نگاہ ڈالی۔
’’تم اپنا چہرہ بدل ڈالو یا بگاڑ لو میں پھر بھی تم سے محبت کرتا رہوں گا۔‘‘ دھیمی آواز میں اس کا لہجہ قطعی تھا۔
’’محبت کے سامنے حسن بے معنی ہوتا ہے اگر یہ بات کبھی سمجھ آجائے یا وقت تمہیں سمجھا دے تو حاشر وقار سے ضرور شئیرکرنا ۔ ‘‘اس پہ ایک بھرپور نظر ڈالتا کرسی پیچھے گھسیٹ کر پورے قد کے ساتھ ایک مغرور سی چال چلتا نظروں سے اوجھل ہوگیا تھا۔
کچھ لمحے‘کچھ پل‘ کچھ موسم یا لوگ جب نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں تب دل انہیں ڈھونڈتا ہے ۔ میشان نہیں جانتی تھی کہ اس کا دل اسے کب ڈھونڈنے کی سعی کرنے لگا تھا۔ اس نے مڑ کرنہیں دیکھا تھا اگر مڑ کر دیکھ لیتا تو یہ بھی دیکھ لیتا کہ جس کے شہر میں بقول احمد فراز لوگ ٹھہرنے کی تمنا کرتے ہیں۔ اس کی سیاہ آنکھیں اسے ٹھہر جانے کا حکم دے رہی تھی۔
٭…٭
بابا بلھے شاہ کے دربار سے کچھ فاصلے پر ریلوے روڈ کے دوسری جانب کئی مربعوں پہ پھیلی اراضی باغات اور کئی ایکڑ زمین پہ گلابوں کے وسط میں بلند وبالا رہائش گاہ ’’مختار کل‘‘ کی چوڑی پیشانی پہ لفظ ’’مختار کل‘‘ سونے سے کندہ تھا ۔ یہ رہائش گاہ نہ صرف آس پڑوس کے علاقوں میں مشہور تھی بلکہ عین سامنے سے گزرتی ٹرین کے مسافروں کی آنکھیں بھی سونے سے کندہ مختار کل میں الجھ جاتی تھیں۔
ان میں جو دین دار قسم کے ہوتے وہ کانوں کا ہاتھ لگا کر استغفار پڑھتے کہ مختار کل تو خدائے واحد ہے‘ اور شہرت اور دولت کے دلدادہ پڑھ کر اش اش کر اٹھتے کہ واہ کیا دبنگ نام ہے ‘ نام والا خود کیسا ہوگا یا ہے۔
نام والاحسب‘ نسب‘ ذات پات‘ اخلاق و کردار‘ نرم خو ‘نرم گفتارّ مئودب سب کچھ تھا ۔ ہاں البتہ یہ فیصلہ مشکل تھا کہ وہ امیر زیادہ تھا کہ حسین … زبان ایسی میٹھی کہ دنیا میں کوئی دشمن نہیں تھا‘ زیرک نظر اور بلا کا ‘کائیاں انسان کہ دنیا میں اس کا کوئی گہرا دوست بھی نہیں تھا ۔ اس قدر خوبیوں کے مالک انسان کی کمزوری حسین سے حسین عورت بھی نہیں تھی ۔ شراب اور شباب جیسی لت پہ وہ لعنت بھیجتا تھا۔ دنیا میں اس کے لیے زمین سے بڑھ کر کوئی چیز اہمیت نہیں رکھتی تھی‘ اسے جاگیر بڑھانے سے عشق تھا۔
تہمینہ مراد اس کے تایا کی اکلوتی بیٹی جو عمر میںاس سے بیس سال بڑی تھی ۔ وہ بمشکل اٹھارہ سال کا ہوا تھا بہ راضی و رضا باپ کے فیصلے پر سر جھکا دیا اور مزید چار مربعوں کا مالک بن گیا ۔ کون کہتا ہے کہ صرف لسی ہی پانی ملانے سے بڑھتی ہے ۔ زمین کے ساتھ زمین ملاتے جائو بڑھتی جاتی ہے ۔ بظاہر پرسکون مختار کل کی بے کلی جلال خان کی ہری بھری فصلوں کو دیکھ کر بڑھ جاتی کہ وہ اس کی زمین سے سر جوڑے ہوئے تھی۔
خاں صاحب کا جواں سالہ بیٹا چند سال قبل قبیلے کی لڑائیوں میں قتل ہوگیا تو وہ بیوہ بیٹی کو لے کر پنجاب کے چھوٹے سے شہر قصور کے پہلو میں مستقل مقیم ہوگئے ۔ کافی جاگیر خرید کراسی کے وسط میں جدید طرز تعمیر کی حویلی ان کی امارت کا منہ بولتا ثبوت تھی ۔ ایک دن اتفاقاََ ہی گاڑی میں بنت خان کو دیکھ لیا ۔ کمال ہے اس سے پہلے کیوں نہیں دیکھا۔زندگی میں پہلی دفعہ دل کسی اور ہی طرح سے دھڑکا تھا ۔
جلال خان کو اپنی رہائش گاہ میں دعوت دی اور بنت خان پہ اپنی محبت اور حسن کا ایسا جادو چلایا کہ چند ماہ بعد ہی بنت خان طرح دارنے چار جوان بچوں کے ابا کی زندگی میں آکر اس کے دل کی سونی سلطنت پہ پورا قبضہ جمالیا ۔
وہ اکیلی نہیں آئی تھی اس کے ساتھ اس کا دو سالہ بیٹا فہیم عاقل بھی آیا تھا ۔ بنت خان اس قدر نفیس‘ طرح دار ‘پر کشش، پڑھی لکھی اور وضع دار تھیں کہ مختار کل نے اپنی باقی ماندہ زندگی اس ساحرہ کے سحر میں ہی بتائی۔
تہمینہ مراد اس سے پہلے دنیا میں آئی تھی اور دنیا چھوڑنے میں بھی اس نے پہل کی ۔ ایک سال اس نے سوکن کا دکھ جی کڑا کر کے سہا تھا ۔ اگلے تین چار برسوں میں طرح دار نے ان کی برادری میں ہی تینوں بچوں کو پوری شان و شوکت اور دھوم دھام کے ساتھ بیاہ دیا ۔ سب سے چھوٹا مددگار (مجذوب) یعنی اللہ لوک قسم کا تھا ۔ وہ بولتا بھی تھا‘ ہنستا رو تا بھی تھا مگر یہ سارے کام اپنی مرضی سے کرتا تھا ۔ اس دوران طرح دار دو بیٹیوں کی ماں بن چکی تھی۔ مختار کل کی حسرت تھی کہ وہ اس کے بیٹے کی ماں بنے مگر اللہ کو یہ منظور نہیں تھا۔
شادی کے پانچ سال بعد اس کی بڑی بیٹی سیما بیوہ ہو کر واپس آچکی تھی ۔ تب اس کے بڑے بیٹے وقار کے دو بچے حاشر وقار اور ثوبیہ وقار اسکول جانے لگے تھے ۔ اس سے چھوٹے اعتبار کی دو بیٹیاں جبیں زہرہ اور حسن آرا کی عمریں ابھی اسکول جانے کی نہیں تھیں ۔ جلال خان کی وفات کے بعد طرح دار خان حویلی میں قیام پذیر تھی کیونکہ اس کا بیٹا فہیم عاقل ‘ مختار کل کے خاندان کے لیے نامحرم تھا ۔
مختار کل نے اپنے بیٹوں کو زیادہ تعلیم نہیں دلوائی تھی ۔ پھر بھی وہ حساب کتاب میں ماہر تھے۔ اسے ڈر تھا کہ وہ افسر بن کر شہروں کی طرف نکل گئے تو اس کی جاگیر کون سنبھالے گا ۔ ان دونوں بھائیوں کی بیویاں بھی بس پانچ جماعتوں تک پڑھی تھیں ۔ طرح دار نے اپنے بیٹے کو قصور کے سب سے مہنگے پرائیوٹ اسکول میں ڈالا تو وقار اور اعتبار نے بھی اپنی بچیوں کا داخلہ اسی اسکول میں کروایا ‘ اس کا اکلوتا بیٹا فہیم لاہور میں ایچی سن کالج میں پڑھ رہا تھا ‘ وہ ہاسٹل میں رہتا تھا مگر طرح دار اپنے بیٹے کو نظروں سے دور نہیں کر سکتی تھی ‘ پتا نہیں کن خدشات کا شکار تھی۔ وہ ہمیشہ شوہر کو مختار ہی کہتی تھیں‘ کبھی آگے کل نہ لگائے۔
بیوی کی سنگت کا ہی اثر تھا کہ دنیا سے جاتے وقت اس کے لبوں پہ کلمہ جاری تھا ۔ جاگیر و جائیداد سے عشق کرنے والا ساتھ کچھ بھی نہیں لے جا سکتا تھا ۔ اسے قبر جتنی زمین درکار تھی ‘اتنی سی ‘ تھوڑی سی حالانکہ جھلا مددگار اس کے سرہانے کھڑا ہو کر چلا رہا تھا ۔ لے جاؤ‘ لے جاؤ۔
آخری لمحے اسے یہ قلق بھی تھا کہ اس نے ور ثا کو صرف جاگیر و دولت اور جاہ و حشمت سے محبت کی تعلیم دی تھی ۔ اس نے یہ بھی جان لیا تھا کہ انسان جتنا بھی جمع کرئے اربوں کا مالک بھی بن جائے ‘ اس کے ساتھ قبر میں کفن جاتا ہے ‘ پھر جیتے ہوئے وہ کفن اور کلمے کے کاف کو کیوں بھول جاتا ہے ۔اگر زندگی میں ایک غریب یا حکمران اللہ کی آخری کتاب کلمہ ‘ کفن فراموش کر دے تو صرف کاش کا کاف اس کے لبوں پر تڑپتا ہے آخری لمحوں میں۔
٭…٭
کمرے میں آتے ہی میشان نے دوپٹہ گلے سے اتار کر بیڈ پہ پھینکا۔
’’اف پتا نہیں گرمی ہے یا مجھے ہی زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ آئمہ ! پلیز ذرا اے سی کی اسپیڈ بڑھانا۔‘‘ اندر آتی آئمہ نے اسے گھور کے دیکھا۔
’’دیکھ تو رہی ہو۔ میرے ہاتھ میں ٹرے ہے ‘جس میں دو کپ ہیں کیونکہ میشان مصطفیٰ کو نیند نہیں آتی جب تک آئمہ کے ہاتھ کی بنی چائے نہ پی لے ‘ویسے بھی کمرے میں ٹھیک ٹھاک کولنگ ہے ۔‘‘ آئمہ نے ٹرے میز پہ رکھی اور کن اکھیوں سے اسے دیکھا۔
وہ جانتی تھی کہ اس کا موڈ خراب ہے ۔ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ کیوں ہے ۔ ایک گھنٹہ قبل ممی نے انہیں بتایا تھا کہ انہوں نے میشان کا رشتہ طے کر دیا ہے ۔ کل یا پرسوں تک شادی کی ڈیٹ بھی فائنل ہو جائے گی ۔ میشان کی نظریں کپ میں موجود ہلکی سنہری چائے پہ مرکوز تھیں اور وہ بھی جانتی تھی کہ کل رات ڈنر کے بعد جو کچھ ہوا ۔ آئمہ اس کی تفصیل جاننے کے لیے بے تاب تھی۔
’’میشان بتا دو یار!‘‘ وہ خالی کپ ٹرے میں رکھ کر دھپ سے اس کے سامنے بیٹھی۔
میشان نے چائے سے نظریں ہٹا کر اس کا معصوم چہرہ دیکھا۔ اس نے کہا۔
’’محبت ایسے جنگلوں میں اگنے والا پیڑ ہے ‘ جس جنگل کے چہار اطراف برف کے نوکیلے پہاڑ ہیں اور آج تک اس پیٹر تک کوئی سیاح بھی نہیں جاسکا تو پھر میں اور تم کیسے جاسکتے ہیں۔‘‘ اس کی آنکھوں میں شریر سی چمک تھی۔
’’شٹ اپ میشان!‘‘ اس نے خفا ہو کر اس کے منہ پہ کشن کھینچ کے مارا۔
’’اس کو چھوڑو یار۔ اب مجھ سے میرے فیانسی کی باتیں کرو۔‘‘ مگر آئمہ نے اس کی آنکھوں کا گیلا پن محسوس کر لیا تھا۔
’’وہ تم سے محبت کرتا تھا۔‘‘ آئمہ اداسی سے بولی۔
’’سب کو مجھ سے محبت ہو جاتی ہے۔‘‘ وہ سر جھٹک کر مغرورسی ہو کر بولی ۔
’’اچھا جاؤ مجھے نیند آرہی ہے ۔‘‘ اتنا کہہ کروہ اوندھی لیٹ گئی۔
’’او ہو‘ ایسے مت لیٹا کرو ۔ بواجی کہتی ہیں اوندھا لیٹنے والوں کے نصیب سیدھے نہیں ہوتے ۔ ‘‘ ہر شب کی طرح آئمہ اسے ٹو کے بنا نہیں رہ سکی ۔ آئمہ دروازہ کھول چکی تھی جب اس نے عقب سے میشان کی آواز سنی۔
’’ماما سے کہنا ڈرائیور کو صبح ہی بتادیں کل مجھے جہلم جانا ہے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ اس کے منہ سے بے ساختہ پھسلا۔
’’ وہاں میرے ہاتھ کی بنی چائے پیے بغیر تمہیں نیند کیسے آئے گی۔‘‘اس نے اے سی کا ریموٹ اس کی طرف اچھالا۔ وہ کہنا چاہتی تھی کہ وہاں گرمی ہوگی ۔ پھر کچھ جھجک کر چپ ہوگئی اور کچھ بھی کہے بنا دروازہ آہستہ سے بند کردیا۔
٭…٭
آج وہ معمول سے ہٹ کر صبح ہی گھر چلا آیا‘ جہاں ابھی تک ناشتہ چل رہا تھا ۔ اس کے آنے سے ایک ہلکی سی ہلچل مچی ہوئی تھی ۔ ناشتے کی میز پہ ڈھیروں لوازمات بھی اس کی طبیعت میں رغبت نہیں لاسکتے تھے۔
’’ جائی اور چچا نے ناشتہ کر لیا ہے ؟‘‘ اس نے اپنے سامنے چائے رکھتی شازیہ سے پوچھا۔
’’بس جی میں ابھی لے کے جانے ہی والی تھے۔‘‘ شازیہ نے منمنا کر جواب دیا۔ وہ آتے ہی کسی بد مزگی کا متحمل نہیں ہونا چاہتا تھا۔ بس لب بھینچ کر رہ گیا۔
وقار اور اعتبار کے پورشن ساتھ ساتھ تھے۔ بیچ میں ایک پتلی سی گلی تھی جس میں دونوں گھروں کے لاؤنج کے دروازے ایک دوسرے کی طرف آنے جانے کے لیے تھے ۔ گھر کے پچھواڑے حصے الگ تھے ، دونوں پورشنز کے سامنے برآمدوں کے آگے بہت بڑا باغ نما مشتر کہ لان تھا ۔ فرصت کے اوقات میں (جو انہیں میسرہی رہتی) دونوں گھروں کی خواتین پیچھے بنے صحن میں ہی ڈیرے جمالیا کرتی تھیں۔
جائی اور مددگار کے مشترکہ کمرے کا دروازہ پچھلے صحن کے برآمدے میں بھی کھلتا تھا‘ اس کمرے کا اندرونی دروازہ جو لاؤنج سے ملحقہ تھا ۔ پچھلے کئی سالوں سے انیقہ بیگم نے مددگار کی وجہ سے مقفل کر رکھا تھا ۔ گھر کے پچھواڑے کا صحن بھی دو تین کنال پر مشتمل تھا۔ ناشتے سے فارغ ہو کر وہ چائے کا کپ لیے جائی کے کمرے کی طرف جا رہا تھا کہ اس کی لاڈلی بہن ثوبیہ نے کالی بلی کی طرح اس کا راستہ کاٹا۔