کوئی عشق وقت غروب سا : فرزانہ کھرل
’’مولوی سے کہو حبیبہ کا نکاح اس لڑکے سے پڑھائے۔‘‘ یخ کمرے میں اس کا سر د سفاک لہجہ گونج کی مانند گونجا ۔ امینہ کچھ کہنا چاہتی تھی مگر اس کے لب پھڑ پھڑا کر رہ گئے۔
’’میں ایسا نہیں کر سکتا۔ ‘‘کریم منمنایا۔
’’میں صرف تین تک گنوں گا‘ اگر یہ امینہ کے قابل تھا تو تمہاری بیٹی کے کیوں نہیں۔‘‘ پسٹل کا کونا اس کی کنپٹی پہ پڑا۔
’’ ایک دو کے بعد میں وقفہ نہیں دوں گا۔‘‘ اس کے چہرے پہ پتھریلی فیصلہ کن کیفیت تھی۔
’’مولوی! نکاح پڑھاؤ۔‘‘ اگلے پانچ منٹ کے بعد حبیبہ ‘ زوجہ محمد باقربن چکی تھی۔
’’اب ہمارا نکاح پڑھائیے۔‘‘ وہ امینہ کے پہلو سے جڑ کے بیٹھا ۔ امینہ نے چہرہ موڑ کر ایک خواب کے عالم میں اسے دیکھا ‘ کتنی مشکل صورت حال میں بھی وہ ذرا سا مسکرایا ۔ پھر ان دونوں کا نکاح بھی ہو گیا۔ اس نے میز پہ ہزار ‘ ہزار کے کئی نوٹ رکھے۔
’’کل سارے محلے میں مٹھائی بانٹ دینا کہ رات میں دونوں بچیوں کے فرض سے سبکدوش ہو چکا ہوں ۔ ‘‘ وہ امینہ کا سرد ہاتھ مضبوطی سے تھام کربنا پیچھے دیکھے باہر نکل آیا تھا ۔ امینہ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ مڑ کر حبیبہ کا چہرہ د یکھتی۔ وہ اسے لاہور لے آیا تھا ۔ امینہ اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہوتی رہی ‘ وہ وقفے وقفے سے کہتا۔
’’میرا دل بہت گھبرا رہا تھا ۔ میں آنے کے بعد سیدھا کریم کے گھر گیا ۔ میں تمہارے ہاتھ کی بنی چائے پینا چاہتا تھا۔‘‘ وہ اس کے ہاتھ چوم کر کہتا ۔
’’اگر میں نہ پہنچ پاتا تو…‘‘ اس اگر میں پھنس کر وہ تمام رات آنسو بہاتا رہا ۔
’’ میں کریم کی فطرت سے واقف تھا‘ اس لیے بھاری رقم دے کر میں نے ایک بندہ اس کے پیچھے لگا رکھا تھا، مجھے ڈر تھا کہ وہ تمہیں لے کر کہیں روپوش نہ ہو جائے ۔‘‘ جو ر قم امینہ کے عوض کریم نے وصول کی تھی۔ وہ اس کا ذکر گول کر گیا۔
٭…٭
وہ اپنے محل نما گھر پہ اور شوہر کے دل پہ حکومت کرتی تھی۔ مصطفیٰ نے اسے شہزادیوں سے بڑھ کر آسائشات دے رکھی تھیں ‘مگر اس کی نگاہوں سے اٹھارہ سالہ حبیبہ کا چہرہ نہیں ہٹتا تھا جس کی آنکھوں نے ابھی ایک خواب بھی نہیں بنا تھا کہ وہ حقیقت کی تلخ بھٹی میں جھونک دی گئی ۔ وہ اس کے خواب میں آکر روتی تھی۔ اس کی نیند ٹوٹنے پر مصطفیٰ بھی تمام رات جاگتا تھا۔
ڈیڑھ سال بعد اس نے اپنی ایک دوست سے ‘ جو اسی گلی میں رہتی تھی حبیبہ کا حال احوال پوچھا تھا ۔ اس کی دوست نے دوسرے دن پیغام دیا تھا کہ حبیبہ اس سے ایک بار ملنے کی منت ہاتھ جوڑ کر کر رہی ہے ۔ اس کا پیغام سن کر امینہ تڑپ اٹھی تھی ۔ مصطفیٰ نے اسے گلی کے نکڑ پہ اتارا اور خود گاڑی میں بیٹھا رہا ۔ حبیبہ کی حالت دیکھ کر اس کا دل خون روتا رہا ۔ وہ اب دو جڑواں بچوں کی ماں تھی اور کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہی تھی۔ ان کے گھر بمشکل تین وقت کی روٹی پکتی تھی ۔ اس کا شوہر اپنی کمائی یار دوستوں پہ لٹا دیتا مگر بیوی کے ہاتھ پہ پھوٹی کوڑی نہیں رکھتا۔
’’ان بچیوں کو کہاں سے دودھ پلاؤں ‘ تمام دن بھوک سے بلکتی ہیں ۔ میں صرف ایک کو ہی دودھ پلا سکتی ہوں ۔ امینہ! میری ایک بیٹی تم لے جاؤ ‘ ورنہ وہ بھوک سے مر جائے گی ۔‘‘ وہ اچانک ہاتھ جوڑ کر بولی۔
’’ایک کا پیٹ بھرتی ہوں دوسری کو بھوکا رہنا پڑتا ہے ۔ اگر ابا یہ گھر مجھے نہ دیتے تو میرا کیا بنتا ۔‘‘حبیبہ بے چاری بے قصور ماری گئی ۔ امینہ کی آنکھیں بھل، بھل بہہ رہی تھیں ۔ اس کے پاس جتنے پیسے تھے ‘ اس نے حبیبہ کو تھمائے۔
وہ خدیجہ خالہ جیسی تھی ‘ شاید ان سے بھی خوب صورت امینہ نے بچی کو اٹھالیا۔
’’اور تمہارا شوہر؟‘‘ اس نے رک کر حبیبہ سے پوچھا۔
’’اس کا رد عمل کیا ہو گا۔‘‘
’’میں تو ایک حادثے کی صورت اس پر مسلط کردی گئی تھی ‘ اسے مجھ سے اور اپنی بیٹیوں سے کوئی سروکار نہیں۔‘‘ اسے گرمیوں کا وہ طویل دن یاد آیا ‘ جب امامہ ابرار اپنی بے سہارا یتیم بچی کو لے کر اس گھر میں آئی تھی ۔ اور خدا ترس خدیجہ ان کے لیے ایک گھنی چھائوںثابت ہوئی۔
’’حبیبہ ! میں راشدہ سے پوچھتی رہوں گی ‘ کسی چیز کی جب بھی ضرورت ہو بلا جھجک مانگ لینا ۔‘‘ بچھڑتے لمحے وہ دونوں ٹوٹ کر روئی تھیں۔ جیسے ان کی رخصتی آج ہوئی ہو۔
٭…٭
انہیں گھر واپس آئے پانچ گھنٹے ہو چکے تھے ۔ وہ خاموشی سے گاڑی چلا تا رہا ۔ تمام راستے امینہ وقفے ‘ وقفے سے بچی کو دیکھ دیکھ کر روتی رہی ۔ اور وہ لب سختی سے بھینچ کر گاڑی چلاتا رہا‘ وہ اسے گھر اتار کر کہیں چلا گیا تھا ۔ وہ بھی قریبی مارکیٹ سے بچی کی کچھ ضروری چیزیں لے آئی ۔ اس کی واپسی خاصی تاخیر سے ہوئی اور وہ لاؤنج میں رکے بنا سیدھا بیڈ روم میں چلا گیا، جب سے وہ اس کی زندگی میں آیا تھا وہ پہلی مرتبہ اسے یوں نظر انداز کر رہا تھا ۔ اس نے بچی کو مالی کی بیوی کے سپرد کیا اور کمرے میں چلی آئی ۔ وہ چت لیٹا تھا اور اس نے بازو آنکھوں پہ دھرا ہوا تھا ۔ اس کے پاؤں کا انگوٹھا اضطراری کیفیت میں ہل رہا تھا ۔ وہ دو سری طرف سے آکر بیڈ پہ نیم دراز ہوئی ۔ چند لمحے وہ اسے دیکھتی رہی ‘ پھر اس نے بات کرنے کے لیے ہمت مجتمع کی‘ کیونکہ اس کا خفا سا انداز اسے اندر سے ڈرا بھی رہا تھا ۔
’’مصطفیٰ !‘‘ اس نے اس کے بازو پہ اپنا ہاتھ رکھا ۔ کمرے میں امینہ کی مترنم آواز نے سکوت کو توڑا ۔
’’آپ پہلے میری بات تو سنیں پھر جتنی چاہے مجھے سنا لیجئے گا۔‘‘ ادھر ہنوز خاموشی کا عالم تھا۔
’’ میں نے بچی نہیں مانگی تھی ۔ بلکہ حبیبہ نے مجھے سے منت کی تھی کہ یہ بھوک سے مر جائے گی ‘ میں انکار نہیں کرسکی۔‘‘ اس نے بات کو آگے بڑھایا۔
’’مجھے اپنا وقت یاد آگیا‘ ہم خدیجہ خالہ کے احسان نہیں اتار سکتے ۔ میں انکار کر کے اپنی ماں کی روح کو شرمندہ نہیں کر سکتی تھی ۔ امامہ کی یتیم ‘ بے سہارا بیٹی کو مصطفیٰ جیسا سہارا مل گیا تو ‘ خدیجہ کی نواسی کو امینہ جیسا سہارا کیوں نہیں مل سکتا۔‘‘اس شخص کے ساکن وجود نے بے چین سی حرکت کی۔
’’امامہ اور اس کی بیٹی چار گھروں سے نکالی گئی ۔‘‘ اس نے ایک جھٹکے سے بازو آنکھوں سے ہٹایا۔
’’پانچواں گھر خدیجہ کا تھا جس کا چہرہ ہم اس بھری آنکھوں سے تک رہے تھے۔‘‘ مصطفیٰ کو کسی نے ابلتے پانی میں دھکا دیا۔
’’اس نے ہماری آس کو زندہ رکھا تھا ‘ تو بتائومجھے ‘ میں اس عورت کی بیٹی کو انکار کیسے سکتی تھی۔‘‘ وہ گھٹنے موڑ کر اس کے پہلو میں بیٹھی تھی اس کا گھٹنا مصطفیٰ کی دائیں پسلی میں چبھ رہا تھا۔
’’میں ہمیشہ دعا مانگوں گی کہ حبیبہ کی بیٹی کا نصیب بھی امامہ ابرار کی بیٹی جیسا ہو۔‘‘اتنا مان‘ اتنا یقین بھر لہجہ پسلی سے پھسل کر چبھن دل میں گڑی تھی۔ وہ امینہ کا کرب اس کے وجود سے نکال کر کہیں پھینک دینے کے لیے اٹھا ۔ اس نے وارفتی سے امینہ کے دونوں ہاتھوں کو چوما ‘ پھر ان پہ اپنی پیشانی ٹکادی ۔ عشق درِ محبوب پہ سر بسجود تھا ‘ وہ اس لمحے دنیا کے سب سے بلند و بالا خوب صورت محل کی سب سے اوپر والی بالکونی پر سراٹھا کر کھڑی تھی۔
٭…٭
ڈائری کے آخری صفحات بھیگے ہوئے تھے۔
’’ماما! آپ تو خدیجہ کو بھی مات دے گئیں۔‘‘ اس کا چہرہ آنسوؤں سے تربتر تھا۔
’’ میں میشان مصطفیٰ جب سے آنکھ کھولی ‘ زندگی کو اپنے ارد گرد پورے قد سے دیکھا ، کبھی کمی بیشی دیکھی ہی نہیں تھی ۔ زمین پر اترا کر پاؤں رکھتی تھی ‘ اپنا خوب صورت چہرہ اور دلکش سراپا مجھے مجھ سے محبت مانگنے والوں کے خالی کشکول بھی مڑکر نہیں دیکھنے دیتا تھا ‘ جب دل کسی کے کشکول میں سکے ڈالنے پہ آمادہ ہوا تو وقت میرا ہاتھ پکڑ کر اس کے پاس لے آیا ۔ جس کی آنکھوں نے مجھے ہمیشہ بے کشش ہونے کے پیغام دیے ۔ مقدر نے مجھے امینہ بنا دیاتھا ‘ جہاں ہر شے میرے حکم کی غلام تھی ۔ میرا غرور دو کوڑی کا بھی نہیں تھا ۔ پھر بھی میں میشان ہی تھی ‘ امینہ نہیں ۔ میں امینہ کیسے بن سکتی تھی کیونکہ وہ مصطفیٰ نہیں تھا ‘ جس کا وجود امینہ کے گرد طواف کرتا تھا‘ ہاں وقت نے مجھے امامہ بنا دیا ‘ یہ بھی میری بھول تھی ۔ امامہ جس امتحان میں بیٹھی تھی وہ پاس ہو گئی تھی اور میں ہر پرچے میں فیل ہو رہی تھی ‘ مجھے وہ پگڈنڈی نہیں مل رہی تھی جو مجھے بڑے راستے کی طرف لے جاتی ۔ ماما نے کیوں کہا تھا۔ اس میں صرف محبت اور نفرت نہیں‘ روشنی بھی ہے۔‘‘
اس کے ذہن میں جھما کا سا ہوا ‘ ایک گھنٹی زور سے بجی ‘ اس کا پورا وجود چندھیا گیا ۔
بیوہ عورت کے پاس ایک اور بھی راشن راستہ ہے ‘ وہ کسی روشنی کے ہالے میں اتری اور وہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ۔ بے خبری میں اُس میشان کے پاؤں زمین پر نہیں لگتے تھے ‘ جسے ایک مجبور ماں نے بھوک سے ڈر کر اپنی چھاتی سے ہٹا کر کسی کے سپرد کر دیا تھا ‘ جو مہنگے جوتے کی ٹک ‘ ٹک سے زمین پر غرور سے چلتی تھی ۔ اسے مددگار یاد آیا جسے پھٹے پرانے جوتے پسند تھے ۔ اتنے تکبر پہ میرے پیروں سے زمین سرکی نہیں ‘ نکل گئی تھی۔ میں خالی ہاتھ ‘ خالی نام رہ گئی۔
٭…٭
’’سر! ایک بیوہ خود کو ستر پردوں میں چھپا کر رکھتی ہے ‘ پھر بھی اس کے جذبات کے بارے میں لوگ مشکوک کیوں رہتے ہیں ۔ ‘‘
اس کی سماعت میں زور دار چھنا کا ہوا ‘ جیسے بہت قریب کئی من کانچ ایک ہی جھٹکے سے ٹوٹا ہو ‘ وہ اپنی کرسی دھکیل کر سرعت سے اٹھا ‘اس نے کھڑکی سے ادھ کھلے پٹ سے جھانکا ‘ بلا شبہ وہ میشان تھی۔
وہ آج ایک مشہور دینی اسکالر سے کچھ نکتے پوچھنے آئی تھی ۔ وہ قطرہ نہیں تھی جو پھسل کر رخسار تک آجاتا ‘ وہ لمحہ بھی نہیں تھی جو گزر جاتا مگر وہ اسے ایسے ہی دیکھ رہا تھا ۔ وہ اپنے اس عالم دوست سے ملنے آیا تھا۔
’’اسی لیے تو کہا گیا ہے کہ بیوہ کے نکاح میں جلدی کرو‘ بال بچوں والی کا گزارا ہو جاتا ہے ۔ وہ اس کا سہارا ہوتے ہیں مگر اکیلی عورت …‘‘ سر عبد اللہ خاموش ہوگئے۔
’’مگر لوگ انہیں اپنانے سے ہچکچاتے ہیں‘ آئی مین عورتیں اپنے بیٹوں اور بھائیوں کے لیے ایک کنواری لڑکی کا ہی انتخاب کرتی ہیں‘ اس لیے وہ اسے مشکل مرحلہ تصور کر کے میدان چھوڑ دیتی ہے ۔‘‘
’’ مگر اس دفعہ ایسا نہیں ہو گا میشان!‘‘ وہ زیر لب یقین کامل کے ساتھ بولا تھا۔
٭…٭
ابھی گھر پہنچ کر اس نے چادر ہی اتاری تھی کہ دروازے پہ ہلکی سی دستک ہوئی، اس کے دوپٹہ لینے تک گھنٹی چیخی ۔ آنے والا انگلی اٹھانا بھول گیا تھا ۔ غصے میں اس نے پوچھے بنا ہی دروازہ کھول دیا۔
جے میں ساون بھادو ہوندی تے اوناں اکھیاں وچ میں اسدی بن برساتاں
(اگر میں ساون بھادوں ہوتی تو ان آنکھوں میں بنا برسات برستی)
مقابل کھڑے شخص کی آنکھوں میں ساون بھادوں برس جانے کے بعد ایک ایسی روشنی تھی ‘ جس پہ پروانے دیوانہ وار لپک رہے تھے ۔ وہ اسے چار سال بعد دیکھ رہی تھی ۔ وہ ادھ کھلے دروازے سے یوں اندر آیا کہ میشان کے کندھے کو ہلکا سا جھٹکا لگا ۔ اس چھوٹے سے برآمدے کے سفید ستون سے ایک بل کھاتی ہری بیل لپٹی ہوئی تھی وہ اندر نہیں گیا تھا‘ وہ اس ستون کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا ۔ وہ دروازہ بھیڑ کر پلٹی اور برآمدے کی سب سے اوپر والی سیڑھی پہ بیٹھ گئی ۔ اس کے پاس کرنے کے لیے کوئی بات نہیں تھی ‘ جو بھی کہنا تھا اسے کہنا تھا جو بنا راستہ مانگے اندر آیا تھا ۔ حاشر کی نگاہ دروازے کی طرف گئی جسے اندر سے کنڈی نہیں لگائی گئی تھی۔ وہ آہستہ سے اس سے کچھ فاصلے پہ بیٹھ گیا ۔ صحن میں لگے واحد درخت پہ ٹہنیوں میں چھپی چڑیا نے چھدری شاخوں سے انہیں دیکھا ، ہلکی ہوا سے سرسراتی سی ریت اڑی ۔ چھپنے سے قبل سورج نے ‘ شام کے کان میں سرگوشی کی ‘ شام کے اداس چہرے پہ ایک لالی نے چھب دکھلا کر سورج کی آخری کرنوں کو مبہوت سا کر دیا۔
’’یہ ہے عشق کا انجام۔ ‘‘ میشان نے جتاتی نظروں سے اسے دیکھا۔
’’شاید ایسا ہو ۔‘‘ حاشر کے لبوں سے بھی ریت کی سرسراہٹ پیدا ہوئی۔
جدوں شام تے سجن دی سازش رل گئی
ادوں عابد اسی غروب ہو گئے
(جب شام اور میرے محبوب نے مل کر سازش کی ‘ اسی لمحہ میرا عشق غروب ہوا)
’’شام کے پہلو میں کھڑی ہو کر وقتِ غروب کا ساتھ دو گی ‘ تو میں اور میرا عشق الزام کی زد میں ہو گا اور اگر میرے پہلو میں کھڑی ہو کر صبح عروج کی طرف دیکھو گی تو شام اکیلا سورج غروب ہوتےنہیں دیکھو گی‘ پھر کبھی کوئی عشق وقت غروب سا نہیں ہو گا ۔ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، بے وفائی بھی دونوں طرف سے ہوتی ہے ۔ صبح کے انتظار میں تمام رات جاگنا ہی عشق ہے ۔ حالانکہ جانتے ہیں ‘ سورج اپنے وقت پر طلوع ہو گا اور مجھے یقین ہے کہ میشان مصطفیٰ تمام رات کی جاگی ہوئی ہے ۔ سورج تو وقت پہ ہی طلوع ہوا ہے ۔‘‘ اس کے ہونٹوں پر دنیا فتح کر لینے جیسی مسکراہٹ تھی اور میشان کی آنکھوں نے ہارنے والوں کی طرح اپنی پلکیں زمین کے سینے میں گاڑ دیں ۔ حاشر نے سفید ستون کے ساتھ لپٹی ہری بیل کو چہرہ موڑ کے دیکھا۔
٭…٭
شازیہ نے بچے کو ہوا میں اچھالا۔
’’ ائے ہئے گر جائے گا۔‘‘ انیقہ بیگم نے بے ساختہ سینے پہ ہاتھ رکھا ‘ نصیرہ نے نظر اٹھا کر اپنی مالکن کا چہرہ دیکھا ۔ جس پہ ہوائیاں اڑ رہی تھیں ‘ شازیہ نے بچہ ان کی گود میں ڈالا۔
’’میں قربان میں صدقے۔‘‘ انیقہ بیگم نے چٹا چٹ پوتے کا منہ چوما۔
ہٹ دھرمی کا راستہ چھوڑ کر زرخیزی کی طرف چلنے سے ہی پھل پھول آتے ہیں ۔ وقت اب سلجھ گیا تھا‘ نئی سوچ اور فکر ذہنوں کو کشادہ کر کے تمام معر کے سر کر سکتی تھی … وہ ڈرتی تھیں کہ ان کا بیٹا بیوہ بیاہ کر لائے گا تو لوگ جینا حرام کر دیں گے ‘ سو طرح کے طعنوں سے اس کا جگر چھلنی کریں گے مگر جس شان اور غرور کے ساتھ حاشر نے تمام برادری کو بلا کر شادی کی‘ کوئی کنواری لڑکی سے بھی کیا کرتا ہو گا اور وہ اس وقت حیران رہ گئیں جب تمام لوگوں نے ان کے اس فیصلے کو سرا ہا‘ سنت نبوی پر عمل کر کے تمہارے بیٹے نے باپ دادا کا نام اونچا کر دیا۔
’’شازیہ ! مددگار کا دلیہ لے کر آ… اس کو بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ میشان نے بیٹے کا نام مدگار رکھا تھا ۔ اس کی خواہش پہ کسی کو اعتراض نہیں ہوا۔
٭…٭
’’باجی! آپ کو پتا ہے زیبا باجی کا میاں عجیب و غریب بیماری میں مبتلا ہے ۔ ‘‘ وہ سب شام کی چائے پچھلے صحن میں پی رہے تھے ۔ سب کی سوالیہ نظریں شازیہ کی طرف اٹھیں۔
’’ وہ بس دروازوں کے پاس بیٹھتا ہے ۔ نہ کسی گھر کے اندر جاتا ہے نہ باہر ‘ پہلے پہل تو لوگ روٹی موٹی دے دیتے تھے مگر اب ناں جھڑک کر اٹھا دیتے ہیں۔‘‘ میشان کے ہاتھ کانپے‘ چائے چھلک کر پرچ میں گری ۔
’’تو وہ خود کون سا ٹھیک ہیں۔ دونوں بہنوں کو ہر وقت و ہم ستاتے ہیں کہ گھر کی چھت ان کے سر پہ گرنے والی ہے۔‘‘ نصیرہ نے کانوں کو ہاتھ لگائے ۔
’’گرمیاں ہوں یا سردیاں درختوں کے سائے تلے زندگی گزار رہی ہیں۔ ‘‘
’’ تیری زبان کے آگے خندق ہے شازیہ! ہر وقت الٹا سیدھا بولنا۔ خبروں پہ خبریں دیے جاتی ہے۔‘‘ انیقہ نے بھانپ لیا تھا کہ میشان کا چہرہ دکھ کی کہانی سنا رہا تھا۔
’’باجی ! مجھے مرنے سے پہلے ایک دفعہ وہ خندق ضرور دیکھنی ہے ‘جو میری زبان کے آگے ہے ۔ ‘‘ شازیہ جھنجھلا کر اٹھی ۔ سب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔
’’خدا معاف کرے سیما اور مددگار کے ساتھ اتنا اچھا ہم نے بھی نہیں کیا تھا ۔ سیما کو حج کرنے کی کتنی خواہش تھی‘ مگر میکے اور سسرال والوں کو اتنی توفیق بھی نہ ہوئی بھائیوں نے بھی ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ پیسے تو بن ہی جاتے ‘ مگر محرم کے معاملوں میں ہی پھنسی رہی۔‘‘
انیقہ نے گیلی آنکھوں سے اس کے کمرے کا دروازہ دیکھا‘ دل ایسے ہی موم نہیں ہوا تھا ۔ دو سال پہلے ثوبیہ کا شوہر مرتے مرتے بچا تھا۔
بیٹی بیوہ ہوتے ہوتے ‘ پھر سے بس گئی۔ انیقہ نے تب اس درد کو محسوس کیا ، تو بہ کے کتنے ہی نوافل ادا کیے ۔ احساس ہو جانا بھی بڑی بات ہوتی ہے حاشر نے ماں کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔
٭…٭
برف سے ڈھکی روش پہ وہ دونوں چلتے چلے جارہے تھے ۔
’’اگر یہ راستہ نہیں ختم نہ ہوا تو …‘‘ عورت نے اپنے ساتھ قدم اٹھاتے مرد سے رک کر پوچھا۔
’’یہ اتنا خوب صورت راستہ جتنا بھی طویل ہوا۔ اس کا انجام پتا ہے کہاں ہو گا؟‘‘ مرد نے روک کر عورت کے شہد رنگ بالوں سے برف جھاڑی۔
’’جن راستوں پہ بھی تمہارے قدم اٹھتے ہیں ‘ ان کا آخری سرا میرے دل تک ہوتا ہے۔‘‘ اتنے یخ بستہ موسم میں اس کی دھواں دیتی آنکھیں اسے پر حدت سا کر رہی تھیں ۔ اس عورت کے سیل فون پہ میسج ٹون بجی۔ اتنے عرصے بعد وہ نمبر دیکھ کر وہ ٹھٹکی‘ پھر بے صبری سے اس کی آنکھوں نے میسج پڑھا۔
’’ماما! میری آنکھوں نے وہ روشنی ڈھونڈلی تھی ، آپ کی دعا قبول ہوئی ۔ میشان کو بھی مصطفیٰ مل گیا ہے ۔ اب وقت نے مجھے بھی دنیا کے سب سے خوب صورت بلند و بالا محل کی سب سے اوپر والی بالکونی پر کھڑا کر دیا ہے ۔ پاپا سے کہیے گا زیادہ اترائیں نہیں ، اب دنیا میں ایک نہیں‘ دو مصطفیٰ ہیں۔‘‘ امینہ کے گداز لب خوب صورتی کی انتہا کو چھو کے مسکرائے۔
امینہ نے میسج ان کی آنکھوں کے سامنے کیا ‘ پڑھنے کے بعد ان کی آنکھوں میں چمک بڑھی تھی۔
’’ا سے جوابی میسج سینڈ کرو۔‘‘ اس کا لہجہ بھی چمکا۔
ختم شد