مکمل ناول

کوئی عشق وقت غروب سا : فرزانہ کھرل

’’میں تمہیں بتاؤں وہ راستہ کیا ہے۔‘‘ اس پل جاثیہ کی آنکھیں چمکی تھیں۔
’’ وہ ہمارے نبی کریم کی شریعت کا راستہ ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ان کا لہجہ دھیما ہوا تھا۔
’’ جس میں بیوہ کے جلد نکاح کا حکم ہے ۔ اور میں تمہیں بتاؤں امینہ‘ یہ راستہ میں نے چنا تھا میرے دیور نے بھی مجھے گھر سے نکال دیا تھا ۔ میری تو اولاد بھی نہیں تھی ‘ پھر میں نے ماموں کے گھر پناہ لی اور میرے ماموں نے ہی میرے لیے رشتہ تلاش کیا ۔ میں نے اپنے اللہ کے حکم پر سرجھکا دیا اور میرا بھرو سا ٹوٹا نہیں تھا ۔ یہ سب دولت ‘ جائیداد‘ کوٹھی‘ عیش و آرام مجھے دوسرا نکاح کرنے کے بعد ملا۔ اللہ نے بیٹی بھی دی اور نواسے کی نعمت سے بھی نوازا ۔ اللہ کی شریعت پہ چلنے والے کبھی گھاٹے میں نہیں رہتے ۔ جہاں تک کریم کی شہرت میں نے سنی ہے ‘ وہ اتنا اچھا آدمی نہیں ہے۔ پتا نہیں میری زندگی کتنی ہے ‘ مگر اس پہ کبھی بھر و سامت کرنا ۔ اب تم سو جاؤ ‘ نیند تمہاری آنکھوں میں بھری ہوئی ہے۔‘‘ انہوں نے گفتگو سمیٹ کر اپنے پیچھے سے تکیہ کھسکا دیا ۔
امینہ نے لحاف ان کی گردن تک پھیلایا کمرے میں ہیٹر بھی چل رہا تھا ۔ تمام رات وہ نانو کی باتوں کو ٹوٹتی نیند میں بھی سوچتی رہی تھی۔
ٹھیک ایک ماہ بعد انہیں نمونیہ ہوا جو جان لیوا ثابت ہوا ۔ اسی شام مصطفیٰ آگیا اور وہ ٹھیک طرح سے اس کا غم بھی نہیں بانٹ سکی تھی۔ دودن بعد وہ چلا بھی گیا۔ وہ امینہ سے شکوہ بھی نہیں کر سکتا تھا‘ وہ اکیلے گھر میں اب اس کے ساتھ ایک دن بھی نہیں گزار سکتی تھی ۔ وہ ساڑھے اٹھارہ سال کی عمر میں خدیجہ کریم کے گھر واپس آگئی۔
اسے دیکھ کر کریم کی آنکھیں خیرہ ہوئی تھیں ۔ امینہ کالج میں پڑھتی تھی‘ اس کا ماہانہ خرچ مصطفیٰ بھیجتا تھا ۔ اسی عمر میں اس کے رشتے دور و نزدیک سے آنے شروع ہو چکے تھے مگر کریم ان میں کوئی نہ کوئی عیب نکال کر رد کر دیتا ۔ امینہ کو وہ کسی سیٹھ کے ہاتھ بیچنا چاہتا تھا ‘ اور اس کے لائے ہوئے رشتے خدیجہ رد کر دیتی تھی۔ اسے خدشات ستاتے تھے کہ امینہ کی اچھی شکل و صورت کو لوگ کمائی کا ذریعہ نہ بنائیں۔
ان گرمیوں کی چھٹیوں میں مصطفیٰ نہیں آیا تھا‘ وہ اگلے سال پاکستان میں بھی اپنا کاروبار شروع کرنا چاہتا تھا ۔ حبیبہ اور امینہ کی آپس میں خوب بنتی تھی ۔ آج کل گھر میں کریم اور خدیجہ کی لڑائیاں آئے دن امینہ کی وجہ سے ہی ہورہی تھیں ۔ ایک دن وہ کالج سے نکلی تو اس پہ شادی مرگ جیسی کیفیت طاری تھی ۔ باہر مصطفیٰ گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔
’’میں تو ڈر گئی تھی کہ پتا نہیں تم آؤ گے بھی یا مجھے انتظار ہی کرواتے رہو گے۔‘‘ وہ اس کی نظروں میں لحظہ بھر کو بھی نہیں دیکھ سکی۔ اس دن امینہ کو احساس ہوا تھا کہ اس کی آنکھیں دھواں دیتی تھیں ‘ کم از کم وہ اب ان میں نہیں جھانک سکتی تھی۔
’’شکر ہے تم نے کہا انتظار کرواتے رہو گے ۔‘‘ وہ ایک طویل سانس لے کر بولا ۔
’’اگر کہہ دیتیں ۔ چھوڑ دو گے تو میں نے تمہاری بے اعتباری پہ گاڑی کسی دیوار پر دے مارنی تھی۔‘‘ اوروہ بس سکراتی رہی۔
’’میں تمہارے لیے کافی کچھ لایا ہوں۔ کل آنا۔‘‘ وہ سامنے دیکھتے ہوئے بولا۔
’’ میں کس طرح آسکتی ہوں ‘ خالو باقاعدہ میری نگرانی کرتے ہیں۔‘‘ مصطفی کی کشادہ پیشانی پہ کئی بل پڑے۔
’’وہ کون سا سارا دن گھر ہوتا ہے ‘ حبیبہ کے ساتھ آجانا۔‘‘
’’اور خالہ کو کیا کہوں گی ؟ ‘‘ اس نے یکدم بریک لگائے تھے پھر اس کی طرف گھوما۔ وہ اسے ہمیشہ استحقاق بھری نظروں سے دیکھتا تھا۔
’’کبھی میری غیر موجودگی میں یہ بھی سوچا ہے کہ مصطفیٰ کو کیا کہوں گی۔ ‘‘ چبھتا ہوا ‘ مگر گہرا دھیما لہجہ۔ وہ ہونقوں کی طرح اسے دیکھنے لگی۔
’’اگر تم کل نہ آئیں تو دو سال بعد آؤں گا۔ ” مغرور ہو کر کہا گیا۔
’’مت آنا۔ مجھے پتا ہے وہاں لڑکیوں کی کمی نہیںہے۔‘‘ مصطفیٰ کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔
’’خوب صورت لڑکیاں دیکھتا ہوں ۔ اچھی بھی لگتی ہیں مگر محبت کسی سے نہیں کرتا۔‘‘ وہ اسے نظروں کی زد میں لے کر بولا۔
’’اچھا بابا۔ مت آنا ‘ ناراض مت ہوا کرو۔ میں کاروبار پاکستان میں بھی شفٹ کر رہا ہوں ‘ مطلب ایک آفس یہاں بھی ہو گا ۔ آتا جاتا رہوں گا ‘ تب تک تمہاری ایجو کیشن بھی مکمل ہو جائے گی پھر میں تمہاری پسند سے گھر بنواؤں گا ۔ ‘‘ بے گھر‘ بے ٹھکانہ امامہ کی بیٹی کسی کے لیے اتنی خاص ہو سکتی تھی ۔ کوئی اسے اس قدر خاص سمجھتا تھا تو گویا اللہ امامہ پہ مہربان تھا۔ وہ گھر آئی تو کریم جیسے اس کا منتظر تھا۔
’’پوچھو اس سے کہ یہ اس بڑھیا کے نواسے کے ساتھ گاڑی میں کیوں گھوم رہی تھی۔ ‘‘ امینہ کے پیروں تلے زمین کی تھی۔
’’امینہ! تم اندر جاؤ۔‘‘ خدیجہ نے کریم کی بات ان سنی کر کے کہا۔
’’اب اس کی شادی کر دو اور اپنی بیٹی کا بھی سوچو، کبھی حساب کتاب رکھا ہے کہ مہینے میں اس کے کتنے رشتے آتے ہیں اور حبیبہ کے۔‘‘
’’ابھی وہ بچی ہے۔ ‘‘ خدیجہ نے نظر چرائی تھی ۔
’’اس کے ہوتے ہوئے کوئی تیری بیٹی کی طرف نہیں دیکھے گا۔‘‘ وہ آج جیسے پھٹ پڑا تھا۔ اور امینہ اپنے کپکپاتے ہاتھوں کو دیکھے جا رہی تھی۔
’’اپنی بیٹی کے کپڑوں جوتوں پر بھی دھیان دیا کرو اور اپنی چہیتی سے پوچھنا ‘ یہ اتنے اچھے کپڑے جوتے کہاں سے لیتی ہے ‘ بس میں نے کہہ دیا ہے اب جو رشتہ میں لے کر آئوں گا ‘ وہیں اس کی شادی ہو گی ۔ تجھے تو سارے ہی چور‘ اچکے‘ ڈا کو لگتے ہیں جو اسے بیچ کھائیں گے ۔ ایسا کر اسے دیوار میں چنوا دے اور ہاں اسے اچھی طرح سمجھا دینا۔ آئندہ میں اسے اس لڑکے کے ساتھ نہ دیکھوں۔‘‘
وہ پیر پٹختا باہر چلا گیا ۔ امینہ نے اپنے سینے میں کب کی رکی سانس بحال کی تھی۔
چھ ماہ بعد پھر مصطفیٰ اس کے کالج کے سامنے کھڑا تھا ‘ اور وہ خود کو اس کی گاڑی میں بیٹھنے سے روک نہیں سکی تھی ۔ وہ بیٹھ تو گئی تھی مگر بے حد پریشان تھی۔ مصطفیٰ نے اس کی یہ حالت بھانپ لی تھی۔
’’امینہ !تمہارا رنگ اتنا زرد کیوں ہو رہا ہے۔‘‘ وہ از حد پریشان ہوا۔
’’ک … کچھ نہیں بس خالو نے منع کیا تھا۔‘‘
’’ اس نے کیوں منع کیا ہے؟‘‘ مصطفیٰ نے اسٹیئرنگ پہ زور سے مکا مارا۔
’’کیا مطلب کیوں۔‘‘ وہ تپ کر بولی۔
’’اس کے گھر میں رہتی ہوں۔ اس کی ذمہ داری ہوں۔‘‘
’’اب زیادہ عرصہ تمہیں وہاں نہیں رہنا پڑے گا۔‘‘
’’اسی سال کے اندر میرا آفس سیٹ ہو جائے گا ‘ پھر ہم شادی کرلیں گے۔‘‘ امینہ کے رخساروں پہ سرخی دوڑگئی ‘ مصطفیٰ کو یہ منظر، ہمیشہ بھاتا تھا ‘ جیسے سفید کاغذ پہ کسی نے رنگ گرا دیا ہو۔
’’کتنے دن رہو گے؟‘‘ وہ اس کے دیکھنے کے انداز سے جزبز ہو کر بولی۔
’’جب تک تم کہوگی۔‘‘ وہ بھی بر جستگی سے بولا۔
’’پھر مت جاؤ۔‘‘ اس نے حکم دے دیا۔
’’نہیں جاؤں گا۔‘‘ اس نے سر جھکا دیا ‘ پھر ایک دم ہی وہ دنوں ہنسنے لگے۔
اور دوسرے پل ہی ان کی ہنسی کو بریک لگے تھے ۔ ان کی گاڑی کے عین سامنے کریم کھڑا تھا ‘ وہ اسے چوک پر اتارنے آیا تھا ۔ مصطفیٰ نے دیکھا امینہ کا سفید چہرہ کل پھیکا پڑ رہا تھا ۔ وہ دروازہ کھول کرباہر آیا۔
’’کیوں صاحب کیا ارادے ہیں؟‘‘ کریم کا انداز بالکل عجیب لوفرانہ تھا۔
’’کیا مطلب؟ ‘‘مصطفیٰ کا دماغ گھوما۔
’’مطلب مفت کا مال ہاتھ لگ گیا ہے ۔ ‘‘ اس نے ایک الٹے ہاتھ کا جھانپڑ رسید کیا ۔ کریم سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ اسے مار سکتا ہے۔
’’ تم امینہ کے لیے اتنی گندی زبان کیسے بول سکتے ہو۔ تم اس کے باپ برابر ہو۔‘‘ وہ آواز نیچی رکھ کے دھاڑا تھا۔
’’اس لیے کہہ رہا ہوں لڑکی سے دور رہو ۔ میرے گھر میں رہتی ہے ‘ میری ذمہ داری ہے ۔ یوں اسے کوئی سڑکوں پہ لیے گھومتا رہے ‘ یہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔‘‘
’’کوئی اور کیوں ‘ صرف میں ۔‘‘ وہ کریم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بول رہا تھا۔
’’امینہ ‘ مصطفیٰ کے سوا ایک پل کو بھی کسی کی ہم سفر نہیں بن سکتی۔‘‘ اس کے پتھریلے لہجے میں کچھ ایسا تھا کہ کریم کو ریڑھ کی ہڈی میں ٹھنڈک دوڑتی محسوس ہوئی۔
’’تم کون ہوتے ہو یہ فیصلہ کرنے والے ۔ ‘‘ دل میں کریم نے اسے ایک بڑی سی گالی سے نوازا ۔ پھر وہ گھوم کے انگلی نشست کی طرف آیا ۔ امینہ برف کے تو دے میں ڈھل چکی تھی ‘ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں ‘کے مترادف اس نے دروازہ کھولا۔
’’پریشان مت ہونا۔ میں شام کو آکر تمہاری خالہ سے بات کروں گا ۔ ‘‘ مصطفیٰ نے اس کے یخ ٹھنڈے ہاتھ کو ذرا سا چھوا ‘ امینہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی گھر کی طرف چل دی۔
وعدے کے مطابق وہ شام کو آیا تھا اور اس نے دونوں میاں بیوی سے امینہ کا ہاتھ مانگا۔ خدیجہ تو چہرے سے ہی نیم رضامند لگ رہی تھی۔
’’ ہم کل تک سوچ کر بتائیں گے ۔‘‘کریم نے جھٹ سے جواب دیا۔
’’آپ جتنا مرضی سوچ لیں انکار کی کوئی گنجائش نہیں ۔ ‘‘ اس کے چہرے پہ ناگواری کی لکیریں ابھریں۔ اس نے صحن میں چہار سو نظر دوڑائی مگروہ نہیں تھی۔ وہ سست مگر مضبوط قدموں سے چلتا گھر سے باہر جا چکاتھا۔
’’یہ لڑکا اس طرح بات کرتا ہے جیسے لڑکی اس کے باپ کی جاگیر ہے ۔ ‘‘ کریم نے اسٹیل کے جنگ کو زور دار ٹھوکر سے اڑایا۔ خدیجہ اس کے اس شدید رد عمل کو سمجھ نہیں سکی۔ دوسرے دن کریم ان کے گھر پہنچ گیا۔ مصطفیٰ نے اسے باعزت طریقے سے بٹھایا۔ اس کی خاطر مدارات میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
’’مجھے یہ رشتہ منظور ہے مگر‘ میں جہاں اس کا رشتہ پہلے کرنا چاہتا تھاوہ لوگ مجھے جہیز اور دیگر اخراجات کے لیے پچیس لاکھ دے رہے تھے ۔ اب بچی خالی ہاتھ تو نہیں بیاہی جاسکتی۔‘‘ وہ کان کھجا کر بولا ‘ مصطفیٰ نے اس کی بات تحمل ہے سنی۔
’’چیک یا کیش…‘‘ بس تین لفظ بولے۔
’’کیش صاحب ‘ میں ان پڑھ بندہ چیک کہاں لیے پھروں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے دو ‘ تین ماہ کے اندر رقم تمہیں مل جائے گی ۔ ‘‘ اتنا کہہ کر وہ بنا اسے دیکھے کمرے میں چلا گیا تھا۔ کریم کی سچ مچ لاٹری نکل آئی تھی۔ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک بے سہارا بچی اسے لکھ پتی بنا سکتی ہے۔
٭…٭
’’مصطفیٰ! قریبی فیکٹری میں کام کرنے والا ایک لڑکا روز میرا پیچھا کرتا ہے ۔ اسے ذرا با عزت طریقے سے سمجھا دینا ۔ ‘‘ کالج جانے سے پہلے امینہ آج حبیبہ کے ساتھ گھر آئی ہوئی تھی ۔ مصطفیٰ کل واپس جا رہا تھا۔
’’میں اس کی جان نکال لوں گا اور تم کہہ رہی ہو با عزت طریقے سے بات کرنا۔ ‘‘ اسے امینہ پہ بھی شدید غصہ آیا۔
’’زیادہ عزرائیل بننے کی ضرورت نہیں ۔‘‘ امینہ ہلکے پھلکے لہجے میں کہہ کر ہنسنے لگی۔
’’ذرا فاصلہ رکھ کر میرے پیچھے رہنا۔‘‘
’’یہ بیچ سے ذرا فاصلہ کبھی کم نہ کرنا ۔ ‘‘ اس نے امینہ کی جانب جھک کر سر گوشی کی۔ وہ محض سر ہلا کررہ گئی ۔مصطفیٰ نے اسے دیکھ لیا اور پھر پتا نہیں کون سی زبان میں سمجھایا کہ اس کے بعد امینہ نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔
ایک سکون نے ان کے گھر بھی آنا جانا شروع کر دیا تھا کہ ایک سرد دوپہر کو خدیجہ ایکسیڈنٹ میں موقع پر ہلاک ہو گئی ۔ اس دن امینہ کو لگا تھا کہ وہ آج یتیم ہوئی ہے حبیبہ کو سہارا دینے کی خاطر اس نے اپنا دکھ چھپا لیا تھا ۔
کچھ دن گم صم رہنے کے بعد کریم پہلے کی طرح بھلا چنگا ہو گیا تھا ‘ اسے ان ہی دنوں تمام رقم کیش کی صورت مل گئی تھی اور اس کے شاطر ذہن نے کئی منصوبے بنانے شروع کر دیے ۔ اب اس کے راستے کا کا نٹا خدیجہ بھی نہیں تھی ‘ اب وہ کھل کے کھیل سکتا تھا۔ اس نے ایک نوجوان کے ساتھ مل کر کھیل رچانے کا فیصلہ کیا۔
٭…٭
وہ سردیوں کی ایک پر ہول شام تھی‘ چرند پرند انسان اپنے اپنے گھروں میں گرم لحافوں میں دبکے ہوئے تھے ۔ اس ایک ماہ کے اندر اس نے سارا انتظام کر لیا تھا ۔ دو دن بعد اس کی دبئی کی فلائٹ تھی ۔ اسے مصطفیٰ کا تھپڑ یاد تھا‘مصطفیٰ کا لہجہ بھی نہیں بھولا تھا ۔
’’ سالی فقیر کی بیٹی محلوں میں رہے گی ۔ ‘‘ اس نے امینہ کو غلیظ گالیاں دیں ۔ اسے امامہ کی اکڑ بھی نہیں بھولتی تھی ‘ وہ حسد میں مبتلا ہو چکا تھا ۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ امینہ اس قدر عیش و آرام کی زندگی گزارے ۔ اس نے اسے تباہ کرنے کا پورا منصوبہ بنالیا ۔ اس کی چھوٹی سی بیٹھک میں تین گواہ ‘ ایک قاضی اور ایک دولہا پھولوں کے ہاروں سے لدا پھندا تھا۔
’’امینہ میرے علاوہ کسی کی ہم سفر نہیں ہو سکتی ۔‘‘ ایک بیتی دوپہر کا جملہ اس کے کانوں میں گونجا ‘ پیسے بھی گئے اور لڑکی بھی گئی۔
’’خدا کی شان دیکھو ‘ برتن مانجھنے والی محلوں کی رانی بننے کے خواب دیکھ رہی ہے۔‘‘ آج مسکراہٹ اس کے ہونٹوں سے چپکی ہوئی تھی۔
’’حبیبہ‘ امینہ آجاؤ۔‘‘
ان دونوں کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ کیا ہونے والا ہے ۔ علم تو کریم کو بھی نہیں تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔وہ دونوں اندر کا منظر دیکھ کر حیران رہ گئیں ۔ نوجوان پہ نظر پڑتے ہی امینہ کا رنگ فق ہوا۔
’’بچی آگئی ہے قاضی صاحب! نکاح شروع کیجئے۔‘‘ اس نے امینہ کا بازو بوچ کر اسے گھسیٹا ‘ پھر مولوی کے پہلو میں بٹھایا ۔ وہ لب بھینچ کر نفی میں سرہلانے لگی۔
’’اگر ابھی نہیں مانے گی تو پھر اس کے بجائے تیرا نکاح مجھ سے ہو گا۔ بہتر یہی ہے کہ مان جا۔‘‘ وہ حلق پھاڑ کے چیخا۔دروازے پہ ہلکی سی دستک ہوئی۔
’’شہباز ! دروازہ کھولنا مٹھائی والا ہو گا۔ ‘‘ اس نے گواہان میں سے ایک کو مخاطب کر کے کہا۔
دروازہ کھلنے پر جو شخص اندر آیا ‘ اسے دیکھ کر کریم کا چہرہ تاریک ہوا ۔ اور اسے دیکھ کر امینہ کی سانس بحال ہوئی ‘ ایک منٹ لگا تھا اسے تمام صورت حال سمجھنے میں ۔ مولوی اور کریم کے چنگل میں بیٹھی امینہ کو دیکھ کر ایک درد اس کے سینے میں اٹھا تھا ۔ وہ خون آشام آنکھوں سے کریم کو دیکھنے لگا ۔ دوسرے پل وہ ہار پہنے لڑکے کے سامنے کھڑا تھا ۔ اس سے اگلے پل اس نے ‘ اس کے چہرے پہ پوری قوت سے تھپڑ مارا تھا۔
’’کہا تھا امینہ کا پیچھا مت کرنا اور تم یہ کیا کرنے جارہے تھے۔‘‘ دکھ سے اس کا چہرہ زرد ہو رہا تھا ۔ اس نے اچانک اپنی بھاری جیکٹ سے پسٹل نکالا۔
’’ن‘ نہیں مصطفی! تم مجھے معاف کردو۔‘‘
’’میرے پاس ریٹرن ٹکٹ بھی ہے ‘ میں ایک گھنٹے بعد واپس چلا جاؤں گا۔ مجھ پہ کوئی بھی شک نہیں کر سکتا ۔ اگر زندگی چاہتے ہو تو جیسا میں کہوں کرتے جائو ۔‘‘ اس نے پسٹل کریم کی کنپٹی پہ رکھا ۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے