مکمل ناول

کوئی عشق وقت غروب سا : فرزانہ کھرل

ثوبیہ بھائی سے ملنے آئی ہوئی تھی ۔ نصیرہ بھی اس کے سامنے ماضی کے قصے لے کے بیٹھ گئی ۔ ثوبیہ کو جبیں کا تذکرہ اچھا لگ رہا تھا ۔
اس نے شہر نا مراد سے اڑنے والے پرندوں کی طرح ہجرت کی تھی ۔ جو واپسی کا راستہ بھول جاتے ہیں ۔
’’خواہش آباد کو اجاڑ کر دیوار دل پہ نئی بیلیں چڑھانا اتنا آسان نہیں ہوتا ‘ اب میں اس شہرکی ہوا کا سامنا کیسے کروں گی ‘ جس میں اس کی سانس کی خوشبو تک نہیں ہوگی ‘ گلاب کے کھیتوں سے وہ آہٹیں مفقود ہو چکی ہیں ‘ جن کی آواز میرے دل سے آتی تھی ‘ مجھے کبھی دوبارہ یہاں آنے کے لیے مت کہنا ۔ ‘‘ جائی کی موت پہ جب ثوبیہ نے اصرار کیا تھا ‘ تو مسقط میں مقیم جبین زہرہ نے ثوبیہ کو مزید بولنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔
’’اب پاکستان میری میت ہی آئے گی۔‘‘ ثوبیہ پر لرزا سا طاری ہوا۔
تب ہی شازیہ ‘ حسن آرا کا ایک سالہ بیٹا اٹھائے چلی آئی ۔ انیقہ کے دل سے ہوک سی اٹھی تھی ۔
حاشر کے جانے کے بعد نفیسہ بیگم نے ایک ماہ کے اندر بیٹی کی شادی کر دی تھی ۔ شازیہ نے اسے ہوا میں اچھالا۔
’’ارے کم بخت گر جائے گا۔‘‘ نصیرہ نے ہول کر دیکھا۔
’’جان بوجھ کر حسن آرا ‘ اپنا بیٹا ادھر بھیجتی ہے کہ دیکھ میں تو شادو آباد ہوں ‘ تیرا بیٹا ہی پتا نہیں کس کا سیاپا ڈال کے بیٹھا ہے۔‘‘ انیقہ بیگم کے دل میں جمع غبار ‘ زبان کی چمنی سے خوب نکلتا تھا۔
’’اپنے حاشر میاں ایسا کچھ غلط بھی نہیں کہتے ۔ اس کا دل خوش کر دیں ۔ ایک دو سالوں میں وہ بھی بال بچوں والا ہو جائے گا۔‘‘نصیرہ نے ہمت دکھا کر دل کی بات کہہ ڈالی تھی۔
’’دنیا کو کیا منہ دکھاؤں گی نصیرہ! کہ بیٹے نے طرح دار کی بہو سے شادی کرلی۔‘‘ وہ لٹی پٹی سی آواز میں بولیں۔
’’وہ طرح دار کا پو تا یا پوتی ساتھ لے کر نہیں آئے گی ۔ ‘‘ نصیر آج مالکن سے دو دو ہاتھ کر لینے کے موڈ میں تھی۔
انیقہ نے تھکے تھکے انداز سے نصیرہ کو دیکھا۔
’’میں کہے دیتی ہوں نصیرہ! چپ کر جا ‘ مجھے چاروں طرف سے گھیرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ بیٹی بھی بھائی کی حمایت میں بولتی ہے اور شوہر تو پہلے ہی کہہ چکا ہے ‘ بیٹے کی ضد کے آگے ہار مان لو ۔ میں اسے بے وارث نہیں رہنے دوں گا۔‘‘ وہ شوہر کو سوچ کے رہ گئیں۔
٭…٭
ڈائری…
ماں کے بعد امینہ کے لیے دنیا جیسے خالی ہو کر رہ گئی تھی ۔ اس موقع پر خدیجہ نے اسے جذباتی سہارا دیا تھا ۔ وہ پہلے سے بڑھ کر اس کا دھیان رکھتی تھی۔ جاثیہ کے کہنے پر خدیجہ نے اس کا کام بھی نہیں چھڑوایا تھا ۔
سال بعد مصطفیٰ آیا تو مضمحل اور اداس امینہ اسے بے حد کمزور لگی تھی ۔ اسے اندازہ تھا کہ وہ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہی ہے ۔ سولہ سالا ‘ نواسے کا امینہ کے آگے پیچھے پھرنا ‘ کام میں اس کا ہا تھ بٹانا‘ اس کی دلجوئی کرنا … اس کی نانو کو کوئی انوکھی کہانی نہیں لگ رہی تھی بلکہ ان دونوں کو ساتھ دیکھ کر ان کی آنکھیں چمک اٹھتی تھیں۔
وہ امینہ کو پچھلے آٹھ سال سے کسی پرائیویٹ سکول کا کورس پڑھا تا آرہا تھا ۔ امینہ کا لب و لہجہ ہے حد خوب صورت تھا اور مصطفیٰ اسے بولنے پہ اکساتا رہتا تھا ۔ اس کی چھٹیوں کے دو ماہ پر لگا کر اڑتے تھے ‘ اس کے جانے کے بعد امینہ اداس رہتی تھی۔
جاثیہ بہت کمزور ہو گئی تھیں امینہ اب رات کو بھی وہیں رکتی تھی ۔ ہر ماہ جاثیہ کریم کو خاصی بھاری رقم دیتی تھیں ‘ اس سال مصطفیٰ چھٹیوں میں نہیں آیا تھا ۔ اس کے پاپا کی طبیعت خراب تھی ‘ وہ جب نانی کو فون کرتا تو امینہ سے بھی بات ہو جاتی تھی ۔ اس سے اگلے سال مصطفیٰ کو ٹائیفائیڈ ہو گیا تھا ۔ اس کے پاپا نے اسے پاکستان نہیں آنے دیا تھا ۔ امینہ کی زندگی میں مصطفیٰ کی دوستی خوشیوں کی طرف کھلنے والا جھروکا تھی ۔ جو اسے لگتا تھا کہ اب بند ہو چکا ہے ‘ مگر نانو اب بھی دن گن گن کے اس کا انتظار کر رہی تھیں ۔
چھٹیوں سے قبل ہی تمام گھر نئے سرے سے پینٹ کروایا گیا ۔ فرنیچر سے لے کر ہر چیز کی ترتیب بدل دی گئی۔ چھٹیاں ہوئے بھی تین دن ہو گئے مگر وہ نہیں آیا تھا۔
وہ نانو کے کمرے میں سو رہی تھی ۔ لاؤنج کے بھاری دروازے پہ ہلکے ہاتھ سے دستک ہوئی تھی ۔ اس وقت امینہ بغیر دوپٹے کے ننگے پاؤں باہر آئی۔ جو بھی ہے ‘ چوکیدار نے دیکھ بھال کر بھیجا ہو گا ‘پھر بھی احتیاطاََ کون؟ کہہ دیا ۔ دوازے کے پار صرف ہاتھ نہیں دھڑکنیں بھی رکی تھیں۔
’’میں۔‘‘ جواب بھی ایک لفظی تھا ‘ دوسرے ہی پل دروازہ کھل گیا تھا‘ سوئی جاگی امینہ کے لمبے شہد رنگ بال پشت پر اور سامنے بکھرے ہوئے تھے ۔ مصطفیٰ اس پر سے نظر ہٹانا بھول چکا تھا ۔ اس کی نگاہوں کے بدلے بدلے رنگ محسوس کر کے وہ اندر کی جانب بھاگنے کو تھی کہ مصطفیٰ نے اس کا ارادہ بھانپ کر اس کی کلائی تھام لی۔
’’کہاں تو میرے نہ آنے پہ ناراضی کا یہ عالم تھا کہ فون پہ بات بھی نہیں کرتی تھیں‘ اب سامنے آگیا ہوں تو بھی بھاگنے کی تیاری۔‘‘ وہ شریر سا ہو کر بولا۔
’’وہ میں… میرا دوپٹہ پتا نہیں۔‘‘ اس بار وہ اس کی آنکھوں سے کنفیوژ ہو رہی تھی۔ اس نے فوراََ کلائی چھوڑ دی مگر اس کے پیچھے ہی چلا آیا ۔
’’ اب میرے لیے اچھی سی چائے بنا کر لاؤ۔‘‘
’’ اتنی رات کو۔‘‘ وہ اس کی فرمائش پہ حیران ہوئی۔
’’ آرام سے نانو کے جاگنے تک باتیں کریں گے۔صبح تو باقی لوگ بھی ہوں گے۔‘‘
’’تو ہماری کون سی خفیہ باتیں ہیں ‘ جو سب کے سامنے نہیں ہو سکتیں۔‘‘ وہ دوپٹہ درست کرتے ہوئے کچن کی طرف آئی۔
’’خفیہ ہوں نہ ہوں ‘مگر…‘‘ وہ ہنسا تھا پھر چند لمحوں کا وقفہ دے کر بولا
’’سب کے سامنے نہیں ہوسکتیں ۔‘‘ اس کے لہجے میں کچھ ایسا تھا کہ وہ پلٹ کر دیکھ نہیں پائی۔
’’مثلاََ ۔ ‘‘ اس نے کچھ نہ کچھ تو کہنا تھا۔
’’ میں نے تمہیں بہت یاد کیا ۔‘‘ وہ ذرا سا رخ موڑ کر اسے دیکھنے لگا۔
’’میں یہ جانتی ہوں۔‘‘ وہ ذرا سا پرے سر کی اور کپ اٹھا کر چولہے کے پاس رکھا۔
’’اور مجھے لگتا کہ اب ہماری دوستی اور نہیں چل سکے گی۔‘‘ امینہ نے سرعت سے چہرہ گھما کر اسے دیکھا، اس کی ہرنی جیسی آنکھیں نمکین پانی سے بھر گئی تھیں ‘وہ چائے چھاننا بھول کر اس کے خوب صورت ترین نقوش دیکھنے لگی۔
’’مجھے لگتا ہے۔‘‘ اس نے اس کا رخ اپنی طرف کیا ۔
’’میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ ‘‘ ان الفاظ نے اسے فرش سے اٹھا کر اس دنیا کے سب سے شان دار ‘ سب سے قیمتی بلند و بالا محل کی سب سے اونچی بالکونی میں کھڑا کیا تھا۔ نمکین پانی آنکھوں کے کناروں تک پھیل گیا تھا۔
وہ بھاگتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ گئی اور خود کو کمرے میں بند کر لیا۔ وہ سب سے نچلی سیڑھی پہ سر تھام کے بیٹھ گیا۔
٭…٭
اس کے دروازے پہ ہلکی سی دستک ہوئی ‘ رات کے ڈھائی بج رہے تھے ۔ سردیوں کی گہری تاریک راتیں‘ ابھی تو وہ پاپا کا اظہار محبت انجوائے کر رہی تھی مگر اس وقت کون ہو سکتا ہے؟ اگر چہ وہ اندر سے ڈر گئی تھی مگر مضبوط لہجے میں پوچھا۔
’’کون ہے؟ ‘‘
’’آپ کا ہمسایہ ارقم زیدی … گھر میں پانی ختم ہو گیا ہے تھوڑا سا دے دیں تو۔‘‘ اس کی سانس سینے میں اٹکی‘ ایک ہی گھر کو بیچ میں دیوار ڈال کر دو حصوں تقسیم کر دیا گیا تھا ۔ صحن کی باڑھ بہ آسانی پھلانگی جا سکتی تھی ۔ وہ دروازہ کھول کر اسے پانی دے ہی دیتی ‘ اگر اس نے رات کو اس کی بیوی کو کہیں جاتے نہ دیکھا ہوتا۔
’’پانی تو ہمارے گھر میں بھی ختم ہو چکا ہے۔‘‘ وہ ہونٹوں پہ زبان پھیر کر بولی ۔ باہر سے آواز نہیں آئی۔ وہ ساکن سی کھڑی تھی ‘ پانچ منٹ بعد پھر لاک گھمایا گیا ۔ یہ اس کی نیت تھی ‘ جو میشان پر عیاں ہوئی تھی ۔ وہ دبے قدموں بیڈ روم کی طرف آئی ‘ پھر پتا نہیں اسے کیا ہوا ۔ وہ پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی ۔
’’ امامہ کو جنت مل گئی ‘ جائی کو جنت مل گئی مجھے کیوں نہیں مل سکتی، کیوں؟‘‘
وہ خود سے سوال کر رہی تھی ۔
وہ اس معاشرے سے سوال کر رہی تھی۔ اس کے سوال کا کسی کے پاس جواب نہیں تھا۔
٭…٭
’’حاشر! یاد کرو آج سے ڈھائی سال پہلے جب تم واپس جا رہے تھے اور تم نے میشان سے شادی کی فرمائش کی تھی ‘ تو تم نے کہا تھا آپ میشان کو نہیں جانتیں ۔ وہ نفرت بھی چھپ کے نہیں کر سکتی ‘ تم تو اس کی شادی کے فوراََ بعد باہر چلے گئے تھے ‘ پھر تم اسے کیسے جانتے ہو ۔‘‘
آج انیقہ بیگم نے ماں بن کر اس سے سوال کیا تھا ۔ ان سے اب بیٹے کی اداس حالت نہیں دیکھی جارہی تھی ۔ حاشر کبھی جائی کی گود میں اسی طرح سر رکھ کر لیٹا کرتا تھا اور جب جائی نے میشان کے بارے میں پوچھا تو اس نے ایسے ہی تڑپ کر سر اٹھایا تھا ۔ تب وہ اسے کھو چکا تھا اور اب وہ اسے ڈھونڈ رہا تھا ۔
’’میں اسے بہت پہلے سے جانتا تھا ۔ ‘‘ ماں کے سامنے اعتراف کرتے ہوئے اس کا لہجہ ہی نہیں آنکھیں بھی بھیگی تھیں ۔
’’ ٹھیک ہے ‘اسے بتادو کہ ہم اسی ماہ میں شادی کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ اس کے رضامند ہونے پر بھی حاشر کے چہرے پہ خوشی کے رنگ نہ اترتے دیکھ کر وہ چونکیں۔
’’پتا نہیں وہ کہاں ہے؟ کس حال میں ہے ‘ اس نے کبھی مجھ سے کوئی رابطہ نہیں رکھا۔‘‘ وہ اپنے ٹوٹے لہجے کو جوڑنے کی کوششوں میں ناکام ہو رہا تھا اور انیقہ اپنے خوبرو جوان بیٹے کا چہر ہ دل گرفتی سے دیکھنے لگیں۔
٭…٭
دوسرے دن اس نے حمنہ کے سامنے تمام باتیں کھول کے رکھ دیں۔
’’جب تک اس کی بیوی واپس گھر نہیں آجاتی‘ پلیز تب تک مجھے یہیں رہنے دو۔‘‘ اس کی حالت کے پیش نظر حمنہ نے اثبات میں سرہلایا۔
’’لیکن صرف چند روز کیونکہ پھر میرا شوہر آجائے گا۔ مگر میشان ایسا کب تک چلے گا۔ اس لیے کہتی ہوں میری بات مان لو۔ ایک دو رشتے میری نظر میں ہیں۔‘‘
’’نہیں حمنہ! ایسا نہیں ہو سکتا ۔ اگر قدرت نے میری قسمت میں مرد کا ساتھ ایک بار نہیں رکھا تو دوسری بار بھی نہیں ۔ ‘‘ حمنہ اس پہ ایک سپاٹ نظر ڈال کر وہاں سے اٹھ گئی ۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی سہیلی ناراض ہو کر اٹھی ہے مگر اب اس کا دل یہ بندھن، کسی سے بھی باندھنے کو نہیں کرتا تھا ۔ وہ صبح اٹھی تو گھر میں معمول سے ہٹ کر چہل پہل تھی۔ حمنہ کے بچے بھی خوب چہک رہے تھے ۔ ایک مرد کو بے تکلفی سے ناشتہ کرتے دیکھ کر وہ سمجھ گئی تھی کہ حمنہ کا شوہر واپس آچکا ہے ۔ اسے کچن کے دروازے میں ایستادہ دیکھ کر حمنہ نے اُس کا تعارف کروایا۔
’’آذر! یہ میری بہترین دوست میشان۔‘‘ وہ مبہوت سا اسے تک رہا تھا‘ ایک دم کھل کر ہنسا۔
’’ارے بھئی حمنہ ! رک کیوں گئیں ۔ سارا مضمون سناؤ ‘ میری بیسٹ فرینڈ اور آگے شروع ہو جاؤ۔‘‘
اس کی بات پہ وہ دونوں بھی جھینپ کر ہنس دیں ۔ میشان کو آذر کچھ اچھا نہیں لگا تھا ‘جتنی دیر میشان وہاں رکی، وہ بس اسے ہی بہانے بہانے سے دیکھتا رہا ۔ وہ اسکول سے سیدھی اپنے گھر چلی گئی ‘ جب تنہا زندگی گزارنے کی ہمت کرنی ہے تو ہمت کا مظاہرہ دکھانا پڑے گا ۔ وہ جلد از جلد ڈائری پڑھنا چاہتی تھی ۔ گھر کے باتی کاموں سے فارغ ہو کر وہ چھت پہ چلی آئی ۔ شکر ہے ارقم زیدی کی بیوی واپس آچکی تھی ۔ سردیوں کا مختصر دن اختتام پذیر ہوا ۔ وہ عشا کی نماز پڑھ کر بستر میں دبکی اور سائیڈ میں سے ڈائری اٹھائی۔ اسے جاننا تھا پاپا کے اظہار کے بعد کیا ہوا تھا۔
٭…٭
ڈائری …
صبح جاثیہ کی آنکھ کھلی تو وہ مصطفیٰ کو اپنے پہلو میں لیٹا دیکھ کر فرط ِمسرت سے کانپ اٹھیں ۔وہ بے سدھ سو رہا تھا ۔ کچھ دیر بعد امینہ نے ان کے کمرے میں جھانک کر دیکھا ‘ پھر دبے پاؤں چلتی ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں لاؤنج میں لے آئی ۔
’’کافی لیٹ آیا تھا۔‘‘ ان کے پوچھے بنا ہی امینہ نے بتا دیا ۔ وہ دونوں ناشتہ کر چکی تھیں اور دوپہر کے کھانے کے پکانے کا سوچ رہی تھیں ‘ جب وہ آنکھیں ملتا نانی کے ساتھ بیٹھ گیا‘ پھر ان کے نحیف سے وجود کو اپنی بانہوں میں بھر لیا۔
’’ہٹو پر ے‘ مجھ سے بات مت کرو۔” وہ مصنوعی خفگی جتا کر تو لیں۔
’’سامان تو ابھی باہر ہی پڑا ہوگا، مجھے واپس جانا چاہیے ‘ یہاں تو ہر کوئی مجھ سے ناراض ہے۔‘‘ وہ ان کے پہلو سے اٹھا۔ نانی نے فوراََ ہاتھ پکڑ کے اپنے ساتھ لگا لیا۔
’’امینہ؟ کیوں بھئی آتے ہی میرے لاڈلے کو ناراض کر دیا۔‘‘
’’نہیں نانو میں تو ۔‘‘ وہ اسے گھور کر رہ گئی۔
’’نانی! یہ کتنی لمبی ہو گئی ہے اور یہ تمام مینرز بھی بھول چکی ہے کہ مہمانوں کو کس طرح ڈیل کیا جاتا ہے ۔ بس ذراسی چائے کی فرمائش کیا کر دی ناراض ہو کر کمرے میں بند ہو گئی۔‘‘ امینہ نے اس کے صاف جھوٹ پہ تیزی سے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔
’’نہیں نانو ! اس نے چائے کی فرمائش نہیں کی تھی ۔ ‘‘ مصطفیٰ کے مجسم چہرے کے ساتھ آنکھیں بھی شرارت کے رنگ بھر کر اسے دیکھ رہی تھیں اور وہ پلکیں جھکا کر رہ گئی۔
’’ہاں ہاں بتاؤ۔‘‘
’’صاحب جی ! آپ کا سامان برآمدے میں پڑا تھا ۔‘‘ چوکیدار کی مداخلت سے امینہ کی جان میں جان آئی ۔یونہی لڑتے جھگڑتے ہنستے مسکراتے اس کی چھٹیاں ختم ہو گئی تھیں ‘ ایک بار وہ پھر انہیں اداس کر کے جاچکا تھا۔
٭…٭
سردیاں عروج پر تھیں ۔ جاثیہ کا بخار کبھی اتر جاتا ‘کبھی دوبارہ ہو جاتا ۔ امینہ رات کو ان کے پاؤں دبا رہی تھی اور جاثیہ اس کا چمکتا چہرہ غور سے دیکھ رہی تھیں۔
’’ امینہ تمہیں پتا ہے تم امامہ سے زیادہ پرکشش اور خوب صورت ہو ‘ تمہاری آواز جادوئی اثر رکھتی ہے ۔ تمہیں اس بات کی خبر ہونی چاہیے ۔ تمہاری ماں نے اچھا کیا دوسری شادی نہیں کی۔‘‘ وہ رکیں پھر قدرے توقف کے بعد بولیں۔
’’امینہ اب تم اٹھارہ سال کی ہو چکی ہو۔ میری باتیں تمہاری سمجھ میں آسکتی ہیں۔ میری بات توجہ سے سنو ۔ خدا نہ کرے کہ تمہارا نصیب ماں جیسا ہو، خدا کرے ماں کی تمام دعائیں تمہارا مقدر سنوار دیں مگر ایک بات یادرکھنا۔ اگر تم پر ماں جیسا وقت آئے ‘ تو زندگی تنہا مت گزارنا، کسی کو اپنی زندگی میں شامل کر لینا۔ میکہ یا سسرال مضبوط ہو تو عورت شوہر کے بعد بھی عزت سے زندگی گزار سکتی ہے۔ اوراگر یہ دونوں نہ ہو تو ایک ہی راستہ بچتا ہے عورت کے پاس ۔‘‘ امینہ بت بنی گنگ سی بیٹھی ان کی گفتگو دھیان سے سن رہی تھی۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے