سلسلہ وار ناول

کسی اجنبی سے دیار میں: آخری قسط

’’میرے گھر میں داخل ہونے کی تمہاری ہمت کیسے ہوئی؟‘‘ یاسر اس کی شخصیت اور حیرت سے نکل آیا۔
’’یاسر خیر تے ہے، سرکاری گڈیاں کیوں آیاں؟‘‘ (یاسر سب خیریت ہے، سرکاری گاڑیاں کیوں آئی ہیں؟) چاچا ناصر بیرونی دروازے کی دہلیز میں کھڑا پوچھ رہا تھا۔
زیبی بھاگ کر دروازے پر پہنچی۔
’’چاچا سالم بھائی آئے ہیں، بدر آپی کے میاں۔ اس لیے گاڑیاں آئی ہیں۔‘‘
’’میری حرمہ میرا مطلب ہے میری بیوی نے فون کر کے بلایا ہے۔ اسے لینے آیا ہوں۔‘‘ مضبوط، بارعب اور دو ٹوک انداز۔
’’جب اکیلی یہاں آئی تب بیوی نہیں تھی؟‘‘ یاسر نے اسے جیکٹ کے گریبان سے پکڑا۔
بدر اور مہرو کی چیخیں نکل گئیں۔ سالم نے نرمی سے یاسر کے ہاتھ اپنی جیکٹ سے ہٹائے۔
’’اس میں غلطی بدر کی ہے۔ مجھے بتائے بنا آئی تھی۔‘‘
’’تم لوگوں نے نکاح کو کھیل بنا رکھا ہے۔ غریبوں کی بہن بیٹیاں خریدتے ہوئے شرم نہیں آتی۔‘‘ یاسر کو شیخ طبوق کا بھی خیال آ گیا۔ اس نے ایک بار پھر اپنے مخصوص ٹھیلے والے مزاج کے مطابق شیخ سالم حداد کے گریبان پر ہاتھ ڈال دیا۔
’’جب بیچنے والوں کو نہیں آتی تو خریدنے والوں کو کیوں آئے گی؟‘‘ اب سالم نے بھی جارحانہ انداز میں جیکٹ کھینچی۔ اس کی جیب سے سیاہ چمکیلا پستول بھیگے فرش پر گر گیا۔
یاسر ایک دم پیچھے ہٹا تھا۔ سالم نے جھک کر پستول اٹھایا اور جینز کی جیب میں اڑس لیا۔
’’مسٹر اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں۔ جیسے سارے پاکستانی برے نہیں، اسی طرح سارے عربی بھی برے نہیں ہیں بلکہ زیادہ تر ہم اچھے لوگ ہی ہیں۔ میرے پاس واپسی کی فلائٹ میں وقت کم ہے، اس لیے لاہور جلد از جلد پہنچنا ہے۔ آپ مہربانی کریں اور میری بیوی کو میرے ساتھ بھیج دیں۔ میں زبان دیتا ہوں آئندہ وہ اکیلی پاکستان نہیں آئے گی۔‘‘
دنگ کھڑی سیما نے یاسر کو اشارہ کیا۔
’’سالم بھائی آپ اندر آ جائیں نا۔‘‘
مہرو کے پیچھے وہ چھوٹا سا برآمدہ عبور کر کے ان کے کمرے میں داخل ہو گیا۔ مہرو نے رضائی ہٹا کر، دوپٹے سے بستر کی چادر صاف کر کے اس کے بیٹھنے کی جگہ بنائی۔
’’ہمارا گھر آپ کے شان شایان نہیں ہے بھائی۔‘‘ مہرو کے آنسو بھل بھل بہنے لگے۔
اس نے دوبارہ سے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی۔
جلد ہی مہرو نے خود پر قابو پا لیا۔
’’میں شرمندہ ہوں۔ اپنی غرض کے لیے مجھے آپ کو کال کرنی پڑی۔‘‘ بدر اس کے سامنے والی چارپائی پر ذرا سا ٹک گئی۔
’’سالم بھائی چائے یا کھانا؟‘‘
’’میں فلائٹ میں پراپر ڈنر کر کے آیا ہوں، اس لیے کچھ نہیں۔‘‘
مہرو نے ان کو پرائیویسی دینے کے لیے تاج کا ہاتھ پکڑا اور کمرے سے نکل آئی۔ وہ یاسر اور سیما کے پاس جا کر کہنا چاہتی تھی کہ یاسر کوئی بات نہ کرے، بس بدر کو سالم کے ساتھ بھیج دے۔
’’میں شاید کبھی آپ کو ڈسٹرب نہ کرتی لیکن حالات ہی کچھ ایسے بن گئے۔ دراصل اماں کی ڈیتھ۔‘‘
’’کچھ نہ کہو مجھے سب معلوم ہے۔ تم بس تیاری کرو جلدی۔‘‘ سالم نے اسے ٹوک دیا۔
’’سب معلوم ہے۔ مطلب آپ ہمارے گھر کی جاسوسی کراتے تھے؟‘‘
’’مجبوری تھی۔ تم میری اجازت کے بغیر اکیلی یہاں چلی آئی تھیں، خبر رکھنا میری ذمہ داری تھی۔ اب بتاؤ ساتھ چلو گی؟‘‘
’’میں آپ کے پیچھے پیچھے چلوں گی۔‘‘ بدر نے آنکھوں میں آتی نمی اندر دھکیلنی چاہی۔ وہ اس کی آنکھوں میں ہی دیکھ رہا تھا۔
’’یہ آنکھیں مجھے دے دو۔‘‘
’’کب کی دے دیں۔‘‘ وہ بلا توقف بولی۔
’’آئی ایم آنرڈ…!‘‘ اس نے سینے پر ہاتھ رکھ کر سر ذرا سا خم کیا۔
’’تمہارا بھائی تمہیں ساتھ بھیج دے گا یا باہر موجود سرکاری لوگوں سے رابطہ کروں؟‘‘
’’میں خود جا رہی ہوں آپ کے ساتھ لیکن اپنی بہنوں کے راستے محفوظ کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
سالم نے اس کا چہرہ دیکھا اور جینز کی جیب سے پہلے پستول نکال کر جیکٹ میں واپس ڈالی۔ پھر جیب میں سے پرس نکال کر بدر کی طرف بڑھا دیا۔
بدر نے فوراً تھام لیا۔ خدا جانے ان کے بیچ یہ کیسی دوری آئی تھی جس نے سارے تکلف اور دوری ہی ختم کر ڈالی تھی۔ بدر کو لگا جیسے وہ صدیوں سے میاں بیوی ہیں۔ اسے عمانی کرنسی کی ورتھ معلوم تھی، اس نے چند بڑے نوٹ گھسیٹ کر نکالنا چاہے تاکہ یاسر اور مہرو کو دے سکے لیکن سالم بیچ میں بول پڑا۔
’’یہ سارا پرس تمہارا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال کا تمہارا خرچ اسی رکھتا رہا ہوں۔ میرے فلوس میرے پاس موجود ہیں۔ مجھے جوتے صاف کرنے کا کپڑا دے جاؤ اور انہیں جا کر اپنا فیصلہ سنا آؤ۔ تم اپنی بہنوں کے لیے جو کرنا چاہتی ہو، وہ بھی بتا دو۔ تمہارے کہے پر عمل ہونا چاہیئے، نہ ہوا تو میجر طلال کو کروانا آتا ہے۔ دوسری آپشن یہ ہے کہ تم ان کو اپنے گھر بلا سکتی ہو۔ جب تک ان کی مناسب جگہ پر شادیاں نہیں ہو جاتیں۔‘‘
محبت اگر مجسم ہوتی تو بالکل شیخ حداد جیسی ہوتی۔
بدر کا دل کیا اس دیوانے کے چرنوں میں بیٹھ جائے اور ساری عمر نہ اٹھے۔ لیکن وقت کم اور مقابلہ سخت تھا اس نے جذبات دل میں اتار کر ہتھیلی سے برستی آنکھیں صاف کیں۔
’’میجر طلال ساتھ آئے ہیں؟‘‘
’’جی تمہارا سالم پورے سیاسی پروٹوکول کے ساتھ آیا ہے۔‘‘
’’میں یاسر بھائی سے بات کر کے آپ کے جوتے صاف کرتی ہوں۔ پاکستانی مٹی بڑی ڈھیٹ اور سخت جان ہے، آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑتی۔ اس لیے آپ سے صاف نہ ہو گی۔‘‘
وہ سب یاسر کے کمرے سے نکلے تو سالم اپنے صاف جوتوں کے لیسز اپنے مخصوص انداز میں باندھ رہا تھا۔
’’ہمیں اجازت ہے؟ باہر لوگ انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ اس نے کھڑے ہو کر پورے اعتماد سے یاسر سے پوچھا۔
یاسر نے آنکھوں کی نمی پیچھے دھکیل کر اثبات میں سر ہلایا۔ تینوں بہنیں خوشی کے آنسو بہانے میں مصروف تھیں۔ بدر منہ پر پانی کے چھینٹے مار کر عمانی عبایا پہن کر آئی۔ مہرو سرگوشیوں میں سالم کو دعائیں دے رہی تھی۔
’’سالم بھائی دو سے تین سالوں کے درمیان میں آپ کا دیا قرض حسنہ لوٹانے کی قابل ہو جاؤں گی۔ ہم بہنوں کی دعائیں ہر وقت آپ کے اردگرد رہیں گی۔ میری بہن بہت شفاف دل کی مالک ہے۔ اس کی کوئی بات بری بھی لگے تو درگزر کریے گا۔‘‘
بدر کا دل بھر آیا۔ مہرو بہت سیانی تھی پر اتنی بوڑھی بھی ہو چکی تھی، یہ بدر کو اب پتہ چل رہا تھا۔ اس دفعہ باہر کے ملک جانے کے لیے وہ ان سب سے رو کر جدا ہو رہی تھی، اسے یقین تھا واپس جب بھی آئی ہنستے ہوئے آئے گی۔ جب ہنس کر جدا ہوئی تھی تو روتے ہوئے واپس آنا پڑا تھا۔
’’یاسر بھائی مہرو کا لاہور میں کسی اچھی یونیورسٹی اور ہوسٹل میں داخلہ کرا دیں جلد از جلد۔ سارا خرچہ میں بھیجوں گی۔ مہرو کے بعد زیبی اور تاج کو بھی لاہور ہوسٹل میں ڈالنا ہے، ٹھیک ہے؟ ہم نے ان کو پیروں پر کھڑا کرنا ہے۔ ان کی شادیوں کی فکر نہیں کرنی۔ وقت آنے پر ہم مل کر بہترین جگہ پر کریں گے۔ ابھی کے لیے صرف ان کا سرپرست بننا ہے۔ باقی ساری توجہ آپ اپنی بیوی بچے کو دیں۔ دکان بنا لیں، جو بھی کرنا ہے کریں لیکن ان تینوں کی شادیوں والی بات فخر اور مجھ پر چھوڑ دیں۔‘‘ اندر دیا ہوا لیکچر اور طے ہوئی باتیں وہ پھر سے دہرا کر یاسر کو سمجھا رہی تھی۔
’’عمانی کرنسی لاہور سے تبدیل کروانا، ادھر ریٹ اچھا نہیں ملے گا۔‘‘ یاسر کے گلے لگتے وہ پھر سے آخری ہدایت دہرا گئی۔
جانے کون سی بات یاسر کے دل پر لگی تھی اب وہ بھی رو رہا تھا۔
٭…٭…٭
ٹیک آف کے بعد سالم نے اپنی اور اس کی بھی سیٹ بیلٹ لوز کر دی۔
’’ہم قطر کیوں جا رہے ہیں، عمان کیوں نہیں جا رہے؟‘‘
’’عمان میں فی الحال ہماری جگہ نہیں ہے اس لیے نہیں جا رہے۔‘‘
بدر کا دل مٹھی میں آ گیا۔ وہ سمجھی تھی اس کے عمان چھوڑنے کے بعد شیخ سالم حداد اپنے مقام پر ٹک گیا ہو گا۔ لیکن صورت حال وہیں کی وہیں تھی۔
’’ہماری جگہ بن جائے گی نا؟‘‘
’’ان شاء اللہ جب چھوٹے حدادی ہوں گے تو اپنی جگہ خود بنا لیں گے۔‘‘
’’میں سمجھتی تھی طوبٰی حداد نے آپ کی شادی کر دی ہو گی اور کوئی بے بی شیخ، شیخانی دنیا میں آ چکا ہو گا۔‘‘
’’شادی تو ڈیڑھ سال پہلے ہو گئی تھی لیکن حسین المعشنی کی بد دعا کی بدولت حرمہ کی خوشبو کو بھی نہیں چھو سکا۔ چیکو کہاں سے آتے۔‘‘
’’آپ نے میری وجہ سے بیت حداد چھوڑ دیا تھا تو پاکستان کیوں نہیں آئے؟‘‘
’’تم نے بلایا تو آ گیا ہوں۔‘‘
’’پہلے کیوں نہیں آئے؟‘‘
’’زوجہ کچھ خیال کر لو، تم نے خود لکھ کر دیا تھا کہ پیچھے نہ آنا۔‘‘
’’وہ مجھ سے لکھوایا گیا تھا۔‘‘
’’تمہیں گاڑی میں بیٹھنا نہیں چاہیئے تھا۔ سیدھی مجلس میں میرے پاس آ جاتیں تو حدادیوں میں میرا بھرم رہ جاتا۔ تمہیں اندازہ ہے میں کس قدر مینٹل ٹارچر سے گزرا ہوں۔ جس کے لیے میں جنگ کر رہا تھا، وہی مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔ کس کس کے طعنے نہیں سنے۔‘‘
’’میں شرمندہ ہوں لیکن چھوڑنے کا فیصلہ آپ کو اپنی فیملی سے جوڑے رکھنے کے لیے کیا تھا۔ طوبٰی حداد نے مجھے بتایا تھا کہ سب جائیداد وغیرہ آپ سے چھن جائے گی۔ آپ شیخ نہیں رہیں گے۔‘‘
’’تمہیں مسکین سالم قبول نہیں تھا؟‘‘ اس نے آنکھیں موندیں۔
بدر نے تڑپ کر ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا۔
’’میں نے غربت اور اس کی آزمائش بچپن سے دیکھ رکھی ہے۔ اس لیے آپ کو کم حیثیتی سے بچانا چاہتی تھی۔‘‘
’’دولت کا کیا ہے حدادیوں نے کچھ نہیں بھی دیا تب بھی شیخ طبوق کے سارے فلوس خود ادا کیے ہیں۔‘‘
’’شیخ طبوق کے کون سے فلوس تھے؟ جو اس نے مجھ پر خرچ کیے تھے وہی والے؟‘‘
بدر کی آنکھ سے آنسو ٹپک کر سالم کے ہاتھ پر گرا۔
’’کوئی کسی سے اتنی محبت کیسے کر سکتا ہے؟‘‘
’’خدا کے لیے اب مت رونا، اتنی تھکن کے ساتھ روتا چہرہ دیکھ کر سونا بھی امتحان ہے۔‘‘
’’تھکاوٹ میں آپ کو نیند کیسے آ جاتی ہے؟ مجھے تو نہیں آتی۔‘‘
’’میرا سارا سسٹم تم سے الگ ہے۔‘‘
’’اچھا آپ نے سونا نہیں پلیز۔۔۔ مجھ سے باتیں کریں، میں آپ کو سننا چاہتی ہوں۔ آپ نہیں جانتے کل سے میں کس ٹروما سے گزر رہی ہوں۔‘‘
’’تم نہیں جانتی، ڈیڑھ سال سے میں کس تکلیف سے گزرا ہوں۔ پورا ڈیڑھ سال سوتے جاگتے تمہارے فون کے انتظار میں گزارا ہے کہ جانے کب مجھے بلا لو۔ فون ہمیشہ چارج رکھتا تھا تاکہ تمہارا پیغام فوری مل سکے۔ ابھی سونے دو آئندہ کے لیے سالم حداد کا وعدہ ہے تمہاری اجازت سے سوئے جاگے گا۔ تاریخ گواہ ہے میں اپنی زبان سے نہیں پھرا۔‘‘
’’اتنا بے چین تھے تو میرے بلائے بنا آ جاتے۔‘‘ بدر نے نخرہ دکھایا۔
’’تمہیں سزا بھی تو دینی تھی، خود کیوں آتا۔ ہر دفعہ سزا مجھے ملے ایسا کیوں بھئی؟‘‘
’’اگر میں نہ بلاتی تو؟‘‘
’’جب تمہارا بطاقہ (عمانی ریزیڈنٹ) ختم ہوتا تب تم سے رابطہ کرنا تھا۔‘‘
’’اگر میں بھی کال نہ اٹھاتی تو؟‘‘
’’پھر ڈائیوورس پیپر سینڈ کرنا ہی بنتا تھا۔ ‘‘
’’کیا؟‘‘ بدر نے اپنے ہاتھ کے نیچے پڑے اس کے ہاتھ کی انگلیاں مروڑنا چاہیں۔ اس نے بدستور آنکھیں بند کیے رکھیں۔
’’ہم قطر میں کیا کریں گے سالم؟‘‘ بدر نئی منزل اور نئے ملک کا سوچ کر بے چین ہو چکی تھی۔
’’بچے پیدا کریں گے، تم ان کو پالنا۔‘‘
وہ سٹپٹائی۔ ’’میرا مطلب تھا آپ ٹورنامنٹ کھیلنے جایا کریں گے تو واپسی میں ہفتے بھی لگ جاتے ہیں۔ تب میں اکیلے کیسے رہوں گی؟‘‘
’’عمان نہیں تو کرہ بھی نہیں، میں مہندس (انجنئیر) ہوں حبیبی۔‘‘
’’اس شخص نے محبت میں کیا کچھ کھو دیا ہے۔‘‘ بدر کا دل بھر آیا۔ اس نے سنہری گندم جیسی رنگت والا ہاتھ اٹھا کر لبوں سے لگا لیا۔ وہ سو چکا تھا۔
٭…٭…٭
پورے دو سال بعد آج وہ بابرکت اور خوشیوں بھرا جمعہ تھا جب بدر پاکستان جا رہی تھی۔ اس نے پیک کیا گیا سامان ایک بار پھر سے دیکھ کر تسلی کی کچھ رہ تو نہیں گیا۔ مطمئن ہو کر وہ بیڈ روم میں آئی۔ باپ بیٹا اب بھی بے خبر و بے سدھ سو رہے تھے۔
’’فلائٹ میں ابھی بہت وقت ہے، سو لو آپ باپ بیٹا۔ کیا یاد کرو گے کس سخی سے پالا پڑا ہے۔‘‘ وہ سائیڈ ٹیبل سے اپنا اور سالم کا فون اٹھا کر لاؤنج میں آ گئی تاکہ دونوں فون سے ڈسٹرب نہ ہوں۔
پاکستان کال کے ارادے سے ابھی اپنے فون کا لاک بھی نہ کھولا تھا کہ فخر کی ویڈیو کال آ گئی۔ وہ سب اس کے آنے کی خوشی میں یاسر کے گھر میں ہی اکٹھی ہوئی تھیں۔
’’سالم کے انسٹا اکاؤنٹ پر نواف کی سالگرہ اور فٹ بال کھیلنے والی ویڈیوز دیکھ کر ہم سب پاگل ہو چکی ہیں۔ صبر نہیں ہوا تو ویڈیو کال کر لی۔‘‘
’’لیکن سالم نواف کی پکس اور ویڈیوز انسٹا پر نہیں لگاتے۔ سالگرہ کل کی تھی، ویڈیوز بھی کافی بنائی تھیں لیکن انسٹا پر کیسے لگا دیں؟‘‘
’’رات لگائی ہیں، تم خود دیکھ لو۔‘‘
’’اچھاااا…!‘‘ وہ سوچ میں پڑ گئی، پھر سالم سے پوچھنے کا سوچ کر بہنوں کی طرف متوجہ ہو گئی۔
’’سوموار کو تمہارا پہلا لیکچر ہے نا؟‘‘
’’ہاں، میں بہت ایکسائٹڈ ہوں۔ جس یونی میں پڑھا، اسی میں پڑھانا بہت اعزاز کی بات ہے۔ یہ سب تمہاری اور خاص کر سالم بھائی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ اب تاج اور زیبی کا خرچ میں خود اٹھاؤں گی۔ تاج ان شاء اللہ ڈاکٹر ہی بنے گی۔‘‘
’’ان شاء اللہ۔‘‘
’’بدر سالم بھائی کے پیسے واپس کرنے کے لیے میں نے پہلی سیلری سے جوڑ توڑ کرنا ہے۔ آخر کو تمہاری بھی عزت کا معاملہ ہے۔‘‘
’’ارے نہیں ہمارا اور سالم کا کلچر بالکل الگ ہے۔ یہاں بیوی کو جو خرچہ ملتا ہے، وہ شوہر کی حیثیت کے مطابق ملتا ہے۔ اس کے بعد بیوی جہاں مرضی خرچ کرے، کوئی پوچھ گچھ یا بے عزتی نہیں۔ میں تم لوگوں پر خرچ کر دیتی ہوں بس اتنی سی بات ہے۔‘‘ بدر نے مہرو کو مطمئن کرنا چاہا۔
’’بدر میرے دل سے سالم کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔ اللہ اس کے گھر والوں کا دل اس کے حق میں موم کر دے۔ بے چارے کو خیال آتا ہی ہو گا۔‘‘
’’ٹھیک کہہ رہی ہو فخر۔ میں بھی رات دن یہی دعا کرتی ہوں۔‘‘ سالم کے فون کی گھنٹی پر اس کی بات ادھوری رہ گئی۔
طوبٰی حداد ویڈیو کال کر رہی تھیں۔ بدر کے بدن پر چیونٹیاں رینگنے لگیں۔ اس نے اپنی کال بند کی اور بیڈ روم کی طرف دوڑ لگا دی۔
وہ نیند کی زیادتی سے سرخ آنکھیں لیے طوبٰی حداد کی کال کا سن کر مسکرایا تھا۔
’’مجھے یقین تھا اب رابطہ ہو کر رہے گا۔ دیکھ لو بدر جہاں میرا دل کتنا سچا نکلا۔‘‘
بدر نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔ نواف بھی اٹھ کر بیٹھ چکا تھا۔ سالم نے کال اٹینڈ کر لی۔
’’ہم نے تمہارے لیے نہیں، نواف حداد کے لیے فون کیا ہے۔‘‘
بدر نے طوبٰی حداد کی مصنوعی ناراضی بھری آواز سنی۔ وہ کیمرے سے دور ہٹ گئی تاکہ ان کو نظر نہ آ سکے۔
’’میرا چھوٹا شیخ کون سی زبان بولتا ہے، ہندی؟‘‘
بدر کو شور سے اندازہ ہوا وہ سب ویڈیو کال پر موجود تھے لیکن بولنے کا فریضہ طوبٰی ادا کر رہی تھیں۔
’’وہ ابھی اپنی ہی ایجاد کردہ زبان بولتا ہے لیکن جب بولے گا تو باپ کی زبان بولے گا۔ اس کا باپ عرب ہے۔‘‘
’’سالم ہم نے اس کی انسٹا والی ویڈیو دیکھی ہے۔ وہ بالکل تمہارے جیسا ہے۔‘‘ بدر کے لیے یہ آواز اجنبی تھی۔
’’تو شیخ صاحب نے رات یہ سیاست کھیلی ہے۔‘‘
سالم فون نواف کے ہاتھ میں دے کر بیڈ سے اتر آیا۔
بدر سارا کھیل سمجھ کر مسکرا رہی تھی۔
’’کیسا رہا زوجہ؟‘‘ وہ آنکھ مار کر پوچھ رہا تھا۔
’’بہترین ہے۔‘‘ وہ کھل کے مسکرا دی۔
اسے یقین آ گیا سالم کے حق میں کی جانے والی دعائیں رنگ لا چکی ہیں۔ رت بدل رہی ہے۔ اتنی بدل رہی ہے کہ سالم حداد اور نواف حداد بیت حداد کا حصہ بن کر اپنے اصل گھر سلطنت آف عمان لوٹنے والے ہیں۔ اس لمحے خوشی کو کوئی دیکھنا چاہے تو بدر سالم حداد کے چہرے پر مجسم دیکھ سکتا ہے۔

ختم شد

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5

Related Articles

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے