کسی اجنبی سے دیار میں: آخری قسط
’’فخر سیانی بن اور انہیں میری مجبوریاں سمجھا۔ میں ان کا دشمن نہیں ہوں۔ غریب آدمی ہوں، ان کی خواہشیں پوری کرنے کی ہمت نہیں ہے۔ یونیورسٹی داخلہ سب کرا دیتے ہیں پر چند مہینوں بعد سارا خرچہ سر پر آ پڑتا ہے۔ پھر خود بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ میں نہیں اٹھا سکتا۔ اشرف سادگی سے ایک جوڑے میں نکاح مانگ رہا ہے۔ بدر کا قصہ نمٹانے میں پیش پیش تھا پھر بھی ہماری بہنوں پر اعتبار کر رہا ہے۔ اس کا وڈا پن محسوس کرو۔ ان چاروں کی دنیا داری کی عینکیں صاف کرو تاکہ انہیں صاف نظر آنا شروع ہو۔ بدر نکاح کا کہتی ہے اس لیے چپ ہوں کہ نکاح پر نکاح نہیں ہو سکتا۔ ان خر دماغ عربیوں نے کوئی مسئلہ کھڑا دیا تو میں نہیں پورا آ سکوں گا۔ اس لیے اس کی طرف سے صبر کرنا مجبوری ہے۔ پر باقی جتنی جلدی ہو اپنے گھر کی ہو جائیں۔ میری جان چھوٹے۔
٭…٭…٭
ایک سوگ تھا جو گھر کے در و دیوار پر طاری تھا۔ فخر اس ناقابل برداشت اذیت کے ساتھ واپس اپنے سسرال جا چکی تھی کہ ان کا موڈ صحیح رکھنا بھی اس کی ڈیوٹی تھی۔ وہ چاروں حالات کے ستم سے سہمی ہوئی تھیں۔ کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔
’’بدر میں سچ مچ مر جاؤں گی، پر یہ شادی نہیں کروں گی۔ قطرہ قطرہ مرنے سے بہتر ہے ایک ہی بار مر لیا جائے۔‘‘
بخار سے پھنکتی تاج کا سر دباتے بدر نے اپنی عزیز از جان لائق اور با اعتماد سی بہن کو بری طرح ٹوٹتے دیکھا۔
’’یہ سب پیسے کے لالچ میں ہو رہا ہے۔ آج سیما اور یاسر بھائی کو کوئی اشرف کمینے سے زیادہ پیسے ادھار کے نام پر دے دے تو یہ اس کو ہمارے ہاتھ پکڑانا شروع ہو جائیں گے۔‘‘ زیبی کے اندر بھی تلخی گہرے پنجے گاڑ چکی تھی۔
بدر جانتی تھی پیسہ واحد شے ہے جو یاسر اور سیما کے ارادے بدل سکتا ہے۔ کوئی ان کا خرچہ اٹھا لیتا تو یاسر کو پروا ہی نہیں تھی ان کی شادیاں ہوں یا نہ ہوں۔ وہ شروع سے ایسا ہی تھا، اس میں نئی بات نہیں تھی۔ یاسر سے بھی زیادہ ہوس سیما کو تھی۔ اشرف دکان بنوانے کا اپنے مالکوں سے فیور کا لالچ دے کر سیما کا ذہن کسی طرف بھی موڑ دیتا تو یاسر نے آٹومیٹکلی سیما کی طرف ہی جانا ہوتا تھا۔ اب بھی یہی کچھ ہوا تھا۔
بدر کو ہیرے جڑی گھڑی یاد آئی جو کسی نے تحفہ دی تھی۔ ریالوں سے بھرا بیگ یاد آیا جو وہ خودی سر بلند کرتی کسی کے منہ پر مار کر آئی تھی۔
’’کاش کوئی ایک چیز رکھ لی ہوتی، آج اپنے پیاروں کو اتنی تکلیف میں نہ دیکھنا پڑتا۔ آہ میرے مالک کچھ کو اتنا نوازا ہے کہ فون کور بھی پلاٹینیم کے اور جوتے سونے کے، دوسری طرف ہم ہیں جو ضرورتوں کو ترس گئے ہیں۔‘‘ بدر نے گلف میں کئی انڈین تاجروں کے سونے کے جوتے اور پلاٹینم کور والے فون دیکھے تھے۔
پیسہ فساد کی جڑ اور پیسہ ہی مسائل کا حل ہے۔ بدر جہاں محبت کی مٹی سے گندھی دلفریب مورت تھی۔ خود کو تکلیف دے لیتی تھی پر اپنے پیاروں کی تکلیف اس کے لیے سوہان روح تھی۔ اسے سیما اور یاسر کی تکلیف پر بھی دکھ ہوتا تھا، بھلے بہنوں کے لیے اس کے دل میں گنجائش زیادہ تھی پر درد مشترک ہی تھا۔ ایک بار پہلے بھی عزت گروی رکھنے کا سوچا تو اسی گھر اور بہنوں کے لیے سوچا تھا۔ آج مہرو کی آنکھوں کی صدا اور فخر کا اصرار اس کی خودی اور عزت نفس تار تار کرنے والا فیصلہ کرا گیا۔
’’گڈو یہ لو سو روپے کا کالنگ کارڈ لے کر آؤ۔‘‘
’’پھوپھو جیز کا؟ گڈو نے مڑا تڑا نوٹ سیدھا کرتے پوچھا۔
’’ہاں جی۔‘‘
کارڈ لوڈ کر کے اماں کا گھسے مٹے نمبروں والا فون ہاتھ میں پکڑے وہ چھت پر آ گئی۔
دل اس زور سے دھڑک رہا تھا گویا پسلیاں توڑ ڈالے گا۔ پھر اس نے تیرہ ہندسوں کا وہ نمبر ٹائپ کیا جو ذہن و دل پر نقش تھا۔
’’سو کے کارڈ میں بمشکل دو منٹ بات ہو گی۔‘‘
’’وہ خود کال کر لے گا اور شاید اتنی لمبی کہ باتیں ختم ہو جائیں گی پر وہ فون نہیں کاٹے گا۔‘‘
اس نے نمبر ملایا۔ پوری بیل گئی پر کسی نے فون نہیں اٹھایا۔ اس نے دوسری بار پھر کال ملائی۔ اب بھی کسی نے فون نہیں اٹھایا۔ بدر نے فون پر وقت دیکھا۔
صبح کے ساڑھے نو اور دن اتوار لکھا نظر آیا۔
’’وہاں ساڑھے آٹھ ہونے والے ہوں گے۔ اتوار پہلا ورکنگ ڈے ہے۔ اس لیے اب تک سوتے رہنے کا بھی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘
’’دس پندرہ منٹ بعد پھر کال ملاتی ہوں۔‘‘
اب کی بار کال کاٹ دی گئی۔
بدر نے ڈیڑھ سال بعد خود کو اس کی آواز سننے کے لیے تیار کیا۔ عرب کے عود کی خوشبو اس کے گرد چکرانے لگی۔
’’وہ بے دھڑک بولنے والا شخص خدا جانے اب کون سی بات کر کے مجھے امتحان میں ڈالے گا۔‘‘
منٹ اور پھر گھنٹے گزرتے گئے، اس کی کال آنی تھی نہ آئی۔ وہ شدید دھند اور سردی میں برساتی میں گرم چادر اوڑھے فون ہاتھ میں لیے میلی اسکرین پر جانے کتنی بار سلطنت آف عمان کا نمبر دیکھ چکی تھی۔
آج اس کے لیے صادق اور زبیدہ ایک بار پھر سے مرے تھے۔ بھری دنیا میں وہ پھر سے بے سہارا ہوئی تھی۔ اس کے لاشعور میں پاکستان آنے کے اول روز سے ہی یہ احساس زندہ تھا کہ کوئی ایسا ہے جو اس کے لیے جان دے سکتا ہے اور لے بھی سکتا ہے۔ کوئی تھا جو اس کا مان تھا، فخر تھا۔ وہ سمجھتی تھی وہ چٹکی بجاتے اس کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ آج چاہے جانے کا احساس ایسا ٹوٹا تھا کہ بدر جہاں کو اپنا آپ زندہ لاش لگ رہا تھا۔
’’بس ایک سطر ہی لکھی تھی… خدا کے واسطے میرے پیچھے مت آنا۔ آپ واقعی نہیں آئے، میرے دل میں کتنی حسرت تھی کہ آپ میرے روکنے کے باوجود آتے۔ لیکن میں ہرگز یہ بھی نہیں چاہتی تھی آپ اپنی حیثیت و مرتبہ ہی کھو دیتے۔ سو مجھے جو بہتر لگا، میں نے وہی کیا تھا۔ سالم آپ کو مجھ سے محبت کا دعویٰ تھا۔ آپ زبان پر قائم رہنے والے انسان تھے، کیسے زبان سے پھر گئے۔ کال کے جواب میں کال کر لی ہوتی، میری عزت نفس کا بھرم تو رہ جاتا۔‘‘
اس نے رو رو کر آنکھیں سُجا لیں۔ سر میں دھماکے ہونے لگے۔ سوچیں پلٹ پلٹ کر اسی ایک شخص پر مرکوز ہو چکی تھیں۔
زیبی اس کی حالت دیکھ کر خاموشی سے پلٹ گئی۔ وہ اسے بلانے آئی تھی کہ تاج کی دوا کا وقت تھا۔
’’میرا اس کو کال کرنے کا فیصلہ ہی غلط تھا۔‘‘
عصر کی اذان کے ساتھ وہ تنگ سیڑھیوں پر سہج سہج قدم رکھتی نیچے اتر آئی۔ آج سارا گھر بکھرا ہوا تھا۔ حالانکہ اتوار کو وہ اور مہرو تفصیلی صفائی کرتی تھیں۔ کپڑے، برتن اور چھوٹے چھوٹے ہفتے بھر کے کام وہ اسی دن کیا کرتی تھیں۔ پر آج کسی نے کسی شے کو ہاتھ نہ لگایا تھا۔
مغرب کے بعد بارش شروع ہوئی۔ یاسر بھی ریڑھی واپس لیے گھر آ گیا۔ ابلے انڈوں کے ساتھ سوپ انہیں خود پینا پڑا۔ اس لیے رات کا کھانا بھی نہ بنایا گیا۔
عشاء پڑھ کر وہ تاج کے ساتھ والے بستر میں لیٹی۔ گڈو بھی اس کے ساتھ آ کر لیٹ گیا۔ بچے نے پھوپھو سے بات چیت کی کوشش کی مگر جواب نہ پا کر چپ ہو گیا۔ بہنوں نے اس کے متورم چہرے کو دیکھ کر اسے ڈسٹرب کرنا مناسب نہ سمجھا تھا۔
’’سوری میں نے آپ کو اتنے عرصے بعد ڈسٹرب کیا جب شاید آپ اپنی زندگی میں سیٹ ہو چکے ہیں۔ اب تک آپ کا کوئی بے بی بھی ہو چکا ہو گا۔ ننھا شیخ یا پھر شیخانی۔‘‘
’’آپ نے سچ مچ تعلق ہمیشہ کے لیے توڑ دیا شیخ۔ اگلے کسی مہینے میں مجھے طلاق بھی وصول ہو جائے گی۔‘‘ بدر کے پیٹ میں اینٹھن ہونے لگی۔ دل کا درد رگیں کاٹنے لگا۔
’’کاش میں نے اس کی خواہش کے احترام میں اس کا حق تسلیم کر لیا ہوتا تو آج شاید حالات مختلف ہوتے۔ میرے پاس بھی کوئی چھوٹا حداد ہو سکتا تھا۔‘‘
’’فضول سوچیں جھٹک دو بدر۔‘‘ اس نے دماغ کی بات پر کان نہیں دھرے۔
’’یہ فضول سوچیں نہیں ہیں۔ ان سوچوں پر تب عمل کیا ہوتا تو آج یوں بھری دنیا میں بے آسرا ہونے کا دکھ نہ جھیلنا پڑتا۔ جیسی اس گھر سے گئی تھی، ویسی ہی واپس آ کے کون سا تمغہ مل گیا ہے۔ الٹا کسی کو بھی یقین نہیں ہے۔‘‘
وہ خود سے مصروف جنگ تھی۔ باہر زور و شور سے بارش ہو رہی تھی۔ بجلی کڑک رہی تھی، بادل گرج رہے تھے۔ ایک بار بدر کو لگا انہی کی چھت پر بجلی گری ہے۔ اس نے گھبرا کر رضائی سے منہ باہر نکال کر دیکھا۔ لائٹ جا چکی تھی۔ زیرو پاور کا بلب بند تھا اور کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔
اسے بے تحاشا خوف آیا۔ حالات سے، بارش سے اور اپنی ذہنی حالت سے۔ اس نے تکیہ ٹٹول کر تسبیح اٹھا لی کہ واحد راستہ اس کے پاس اللہ کا ہی بچتا تھا۔ جو سارے ڈر نگل کر جینے کا حوصلہ دیتا تھا۔ جوں جوں وہ تسبیح کے دانے گراتی جا رہی تھی، ذہن بٹتا جا رہا تھا۔ جانے کتنی بار تسبیح پڑھ چکی تھی لیکن نیند آنکھوں سے دور تھی۔ بارش تھم چکی تھی۔ گلی اور گھروں سے بارش کے پانی کی نکاسی کا انتظام کرتے لوگوں کی آوازیں صاف آ رہی تھیں۔ بارش، خاص کر سردیوں کی طویل راتوں کی بارش تنگ گلی کے مکینوں کو خاصا پریشان کر دیتی تھی۔ ایسے میں وہ سب ایک دوسرے کی مدد کو باہر نکل آتے تھے۔ ان کا لوہے کا دروازہ خاصے زور سے بجایا گیا۔
بدر نے موبائل اٹھا کر دیکھا، سوا بارہ کا عمل تھا۔
’’یاسر اس وقت کبھی نہیں اٹھے گا۔‘‘
دروازہ پھر سے بجایا گیا تھا۔
’’میں بتا دیتی ہوں کہ یاسر سو رہا ہے۔ کسی وغیرہ چاہیئے ہوئی تو دے دوں گی۔‘‘ اس نے احتیاط سے گڈو پر رضائی برابر کی۔ جوتے کی تلاش میں پیر فرش پر گھمائے تبھی لائٹ آ گئی۔
’’شکر ہے۔‘‘
شال لپیٹ کر اس نے باہر سے آتی جانی پہچانی آوازوں کے پیش نظر دروازہ کھولا اور پھر پتھر کی بن گئی۔
گئے زمانوں میں لوگ پیچھے دیکھنے سے پتھر کے ہو جاتے تھے۔ وہ نئے زمانے کی تھی، سامنے دیکھ کر پتھر ہوئی تھی۔
جاری ہے وقت کی گنتی تیرے آنے تک
دل، دھڑکن اور زمانہ پھر رک جائے گا
(انعم سجیل)
وہ جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔ لمبے بال تراش کر اسٹائلش انداز میں کنگھی کیے گئے تھے۔
دروازے کے عین اوپر لگی لائٹ سیدھی اس پر پڑ رہی تھی۔ بدر کو اس کے بدن اور پرفیومز کی حواس پر چھانے والی خوشبو مجبور کر رہی تھی کہ وہ یقین کر لے یہ خواب نہیں ہے۔ پر جتنا وہ آج اسے رو چکی تھی، آنکھیں یقین نہیں کر پا رہی تھیں۔
اس نے جیکٹ سے ہاتھ نکال کر ہولے سے اس کے یخ گال کو چھو کر پتھر میں جان ڈال دی۔
’’سلام علیکم حیاتِ سالم۔‘‘ وہ جان لیوا لہجے میں بہترین تلفظ کے ساتھ اسے مخاطب کر رہا تھا۔
اس کے آنسو گالوں سے بہہ کر شال میں جذب ہونے لگے۔
سجنا باجوں ساہ نئیں آؤندا
عشق علاوہ راہ نئیں آؤندا
ہجراں ساڈے مگروں لہہ جا
تینوں کدھرے پھا نئیں آؤندا
اس نے آہستہ لیکن رواں لہجے میں پنجابی بولی۔ بدر روتے روتے ہنس پڑی تھی۔
’’اب پنجابی؟‘‘
’’تمہاری زبان ہے نا اس لیے۔‘‘
’’بدر کیا ہوا؟‘‘ مہرو اندر سے بلند آواز میں پوچھ رہی تھی۔
گلی کے لوگ متوجہ ہو رہے تھے۔
’’اندر آئیں نا۔‘‘
’’میرے جوتے گندے ہیں۔‘‘
’’ہمارا گھر آپ کے گھر جیسا نہیں ہے۔ اندر آ جائیں بس۔‘‘
وہ حیرت سے دیکھتے چچا ناصر کا لحاظ کر گئی ورنہ ہاتھ پکڑ کر اسے اندر لانا چاہ رہی تھی۔
برآمدے کی لائٹ میں مہرو اسے دیکھتے ہی بلند آواز میں بول اٹھی۔
’’سالم بھائی۔‘‘
سالم نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔
لمحوں میں وہ ساری جاگ چکی تھیں۔ اس ہلچل پر یاسر اور سیما بھی دروازہ کھول کر باہر نکل آئے۔ چھوٹے سے گھر میں عجیب سماں بندھ گیا۔ فضا میں سردی سے زیادہ تعلقات کی سردی محسوس ہونے لگی۔
For a novels functional point of view it’s a good story.somehow based on reality.After a long time it’s a good experience to read this novel.
Keep it up 🌟