سلسلہ وار ناول

کسی اجنبی سے دیار میں: آخری قسط

’’کیا بہتر ہو گیا ہو گا؟‘‘
’’دفع ہو کیسے کاٹ کھانے کو دوڑتی ہو۔ ایسا کرو مجھے سالم کا نمبر دو میں خود بات کر لیتی ہوں۔‘‘
وہ سب یوں شیخ سالم حداد کا نام لیا کرتیں جیسے بچپن سے اسے جانتی ہوں۔
’’بدر تم نے طوبٰی حداد کو کیا کرنا ہے، جب سالم خود تمہارے ساتھ تھا۔ اس لیے بات کر کے دیکھو۔ وہ تجھے ایک بار پاس بلا لے تو تیری طرف سے مجھے بے فکری ہو جائے گی۔ پھر میں مہرو کے لیے یاسر پر زور ڈالوں۔‘‘
’’فخر اس نے نیکی کی تھی، اس نیکی کو اس کے لیے پھانسی کا پھندہ بنا دوں؟ خود غرض بن کر کہوں کہ اپنا اسٹیٹس، حیثیت سب چھوڑ دو بس مجھے رکھ لو۔ ایسے کون کسی کے لیے اعلٰی نسب، دھن دولت چھوڑتا ہے؟‘‘ وہ تلخی سے مسکرائی تو اس کے کان میں خوشبو بھری سانسوں والی مستحکم آواز گونجنے لگی۔
’’حیاتِ سالم میں بہر طور تمہارے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔‘‘
اس کے ہونٹوں کے دہکتے لمس سے اس کے بائیں کان کا موتی جلنے لگا۔ تپش اتنی تھی کہ بدر کو لگا آنچ دل تک پہنچ رہی ہے اور بس کچھ ہی لمحوں میں دل پگھل کر بہہ جائے گا۔ اس نے پیزا پلیٹ میں واپس رکھ دیا۔
’’کون چھوڑتا ہے؟ چھوڑنے والے عشق میں تخت چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘
’’وہ پرانی باتیں ہیں۔‘‘
’’ویسے بدر تم کہا کرتی تھیں محبت سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں۔‘‘
’’وہ نادانی کی باتیں تھیں جو ناول پڑھ کر کی جاتی ہیں۔‘‘
’’محبت نفرت سارے جذبے زندہ ہیں۔ سارے انسان ان جذبات کو برت رہے ہیں۔ یہ جذبے زندگی سے ہی ناولوں کتابوں تک پہنچے ہیں۔‘‘
’’میری زندگی کا ایک ہی مقصد بنتا جا رہا ہے زیبی اور تاج کو اعلٰی تعلیم دلا کر پیروں پر کھڑا کرنا۔‘‘
’’اعلٰی تعلیم میرا بھی شوق ہے لیکن یاسر بھائی یونیورسٹی کا نام لینے پر ہی آگ بگولہ ہو جاتے ہیں۔ ورنہ ماسٹر ڈگری کے بعد میری سرکاری نوکری پکی تھی۔ ہمارے اسکول کے پرنسپل اب بھی کہتے ہیں کہ اس سال داخلہ لے لو، اسکالر شپ دلانے کی کوشش میں کروں گا۔ دل ہی بجھ جاتا ہے میرا۔‘‘
مہرو سے ہمدردی کے لیے ان کے پاس کچھ نہیں تھا سو خاموشی سے دہکتے کوئلوں پر ہاتھ تاپتی رہیں۔
’’اگر تمہارا سر اسکالرشپ دلانے کا کہہ رہا ہے تو میں یاسر سے کہہ کر دیکھتی ہوں۔ تمہاری سیلری اور اسکالرشپ مل کر پڑھائی کا خرچہ اٹھا سکتے ہیں۔‘‘
’’فخر باجی بھول گئی ہو سیلری بھابھی لے لیتی ہے۔ میرے پاس کہاں سے آئی۔‘‘
’’اسی کا کہہ رہی ہوں کہ تم سے نہ لیا کریں۔ تم جمع کر سکتی ہو۔‘‘
کسی قسم کی بات سے پہلے ہی سیما کے تایا زاد اشرف ڈرائیور کی بیوی ساتویں بچے کی ڈیلیوری کے دوران اللہ کو پیاری ہو گئی۔ سیما اور یاسر کے ساتھ فخر بھی آخری رسومات میں شریک ہوئی۔ اشرف کا دو کمروں کا نیا بنا ہوا گھر تھا۔ اسی گھر کو لے کر اشرف اور اس کی مرحومہ بیوی کے گھر والے بین کر رہے تھے۔
’’ہائے میری دھی کے گھر کو نظر کھا گئی، اسے رہنا نصیب نہ ہوا۔‘‘
’’ہائے ہمارے پتر سے جلنے والوں کا حسد کھا گیا۔ ہنستے بستے گھر کو آگ لگ گئی۔‘‘
’’ہائے جادو چلا ہے جادو۔ بالکل ٹھیک تھی آخری وقت تک بھاگ بھاگ کر کام کرتی پھر رہی تھی۔ کسی نے ایسا کالا علم پھینکا ڈھائی گھڑیوں میں اللہ کو پیاری ہو گئی۔‘‘
فخر جہاں طویل عرصے بعد خاندان کی کسی فوتگی میں گئی تھی ورنہ ہمیشہ زبیدہ جایا کرتی تھی۔ فخر کو آج اندازہ ہوا کہ ان کے رشتے داروں میں کس درجے کی جہالت تھی۔ باقاعدہ بین ڈالنے کا مقابلہ چل رہا تھا۔ جس کا زیادہ اچھا ہوتا تھا اس پر سب داد دینے کے لیے اونچا اونچا رونے لگتیں۔ دوسری پارٹی حاضرین کی فیور حاصل کرنے کے لیے نئے بین کا کوئی پوائنٹ ڈھونڈنے کی کوشش کرتی۔
’’تیرا شکریہ اماں جیسے تیسے ہی سہی پر ہمیں تعلیم دلائی۔ہماری شادی بھی سلجھے باشعور لوگوں میں کرنے کا نظریہ بنایا۔ صرف امیر لوگوں کو سلجھا ہوا سمجھنا تیرا بھولا پن تھا اماں۔ شعور کا پیسے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے نہ شعور کسی امیر کے گھر کا نوکر ہے۔ تو نے ہمیشہ ہمارے لیے اچھا سوچا۔ اللہ تجھے کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔‘‘ فخر اپنی ماں اور مسکین بچوں کو دیکھ کر بہتی آنکھوں سے سیما اور یاسر کے ساتھ باہر نکلی۔ آگے اشرف گاڑی اسٹارٹ کر رہا تھا۔
’’یاسر میں مالکوں کی گاڑی کھڑی کرنے جا رہا ہوں، تم لوگوں کو بھی چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ اشرف کی گاڑی میں بیٹھ کر بھی فخر بار بار آنکھیں صاف کرتی رہی۔
سردیوں کے چھوٹے چھوٹے دن پلک جھپکنے میں گزر رہے تھے کہ زبیدہ کی برسی آ گئی۔ بدر نے ڈرتے ڈرتے سیما اور یاسر سے گھر میں قرآن خوانی کی اجازت لی۔ سیما نے جھٹ پٹ بیف پلاؤ کی دیگ بنانے کا پروگرام بنا کر اپنے میکے اور ان کے ددھیالی رشتے داروں کی خواتین کو فون بھی کر ڈالا۔ فخر کو کوفت اس وقت ہوئی جب اس نے اشرف کو سارے خاندان سمیت آتے دیکھا۔ اس کی پھوپھیاں اشرف کی گاڑی کا سن کر شام کو چسکا پوائنٹ کی مچھلی کھانے کا پروگرام بنا رہی تھیں۔
’’ابھی بیف پلاؤ حلق سے نیچے نہیں گیا اور ان کو مچھلی کی بھی سوجھ رہی ہے۔‘‘
زیبی نے آنسو صاف کرتے چاروں بہنوں کی طرف دیکھا۔ وہ پانچوں ہی رو رہی تھیں لیکن تاج کو رو رو کر نزلہ و بخار ہو چکا تھا۔
’’مرنے والوں کے ساتھ مرا تھوڑی جاتا ہے۔ زندگی کے دھندے چلتے رہتے ہیں۔ تم لوگ بھی اپنی اپنی گرہستی میں پڑ کر بھول بھال جاؤ گی۔‘‘ بڑی پھوپھی نے دانت سے گوشت کا ریشہ کھینچتے سیما کی تائی یعنی اشرف ڈرائیور کی ماں سے تصدیق چاہی۔
’’ہاں جی بالکل ایسا ہی ہے بہن جی۔‘‘
’’بس جی جیسی بھی تھی ساس تھی۔ بھلے زندگی اجیرن کیے رکھی پر میرا دل نہیں مانا برسی پر چنا پلاؤ بنا کر ختم دلا دوں۔ قرآن خوانی رکھی، ساتھ یاسر سے بیف پلاؤ کا کہہ دیا۔ یاسر کہہ رہا تھا جیب تنگ ہے، بوندی منگوا کر قرآن خوانی والیوں کو دے دینا۔ میں بھی سیدھی ہو گئی، میں نے کہا ماں بھلے تمہاری تھی احساس پھر بھی مجھے زیادہ ہے۔ بھلے ادھار پکڑ لو، برسی اماں کے فیورٹ پلاؤ سے ہی ہو گی۔‘‘
سیما محلے والیوں سے شاباش وصول کرتی پھر رہی تھی۔
عشاء تک سب اپنے اپنے گھروں کو جا چکے تھے۔ برتن دھو کے خشک کر کے وہ پانچوں انگیٹھی کے گرد بیٹھ کر ماں باپ کی یادیں تازہ کرنے ہی والی تھیں جب یاسر اور سیما بھی ان کے کمرے میں آئے۔
ان سب کا دل بھر آیا کہ شاید بھائی ماں کی یادیں تازہ کرنے انہیں تسلی دینے آیا ہے کیونکہ آج برسی کی وجہ سے اس کا سوپ کے ٹھیلے کا ناغہ تھا۔
’’گڈو سو گیا؟ میرے بچے ابھی تک جاگ رہے ہیں۔‘‘ سب کی خاموشی سے گھبرا کر فخر نے پوچھا۔
’’نہیں کارٹون دیکھ رہا ہے۔ سارا دن مہمانوں کے بچوں کے ساتھ بھاگ بھاگ کر اب ٹانگیں دکھ رہی تھیں تو دبا کر آئی ہوں۔ میں نے کہا اب بستر سے نہ نکلنا ورنہ پھر سے درد ہونے لگے گی۔‘‘
اس کے بعد پھر سے خاموشی تھی۔ بدر نے سیما کی کہنی یاسر کی پسلی میں پیوست ہوتے دیکھی اور یاسر گلا صاف کرنے لگا۔
’’میں نے سوچا ہے اوکھا سوکھا ہو کر چھوٹی سی دکان کرائے پر لے لوں۔ سخت موسم میں ریڑھی والا کام بڑا مشکل ہے۔ ویسے بھی دکان کی ذرا ٹور بن جاتی ہے۔ ہر قسم کا گاہک شے خرید لیتا ہے۔‘‘
’’ماشاء اللہ، اللہ ہمارے بھائی کو ترقی دے۔‘‘
’’آمدنی بڑھے گی تو چھوٹی دونوں کی اچھی طرح شادیاں کر سکوں گا۔ ایسے تو کوئی رشتہ نہیں پوچھ رہا۔ اوپر سے بدر کے قصے نے ہمارا گھر ہی مشکوک کر دیا ہے۔‘‘ یاسر کے ماتھے پر بل آنے لگے۔
ان سب کا ’’چھوٹی دونوں‘‘ کے ذکر پر ماتھا ٹھنکا۔
’’میں سمجھی نہیں یاسر تم کہنا کیا چاہتے ہو؟‘‘ فخر نے گود سے بچہ نکال کر زیبی کے حوالے کیا اور پوری طرح یاسر کی طرف متوجہ ہوئی۔
’’اشرف بھائی نے مہرو کے لیے رشتہ ڈالا ہے۔ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ بچوں کی خاطر فوری شادی کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’شادی کرنی ہے تو ہماری مہرو ہی فوری دستیاب ہے؟‘‘
’’فخر باجی جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں، ٹھنڈے دل سے سوچو۔ اشرف بھائی کا نوابوں والا روزگار ہے، پکا ذاتی گھر ہے۔ مہرو کہیں بھی جائے گی، گاڑی میں جائے گی۔ یہی خواب اللہ بخشے اماں کے تھے۔ اشرف بھائی میں کسی شے کی کمی نہیں ہے۔‘‘
’’زیادتی ہی زیادتی ہے… بچوں کی، جہالت کی، غربت کی اور بے عقلی و ٹھرکی پن کی بھی۔‘‘
’’فخر باجی زیادتی نہ کر۔ سات دھیوں جیسا میرے تایا کا پتر ہے، ٹھرکی کہاں سے ہو گیا؟‘‘
’’اپنے سے آدھی عمر کی بچی کو سات بچوں کی ماں بنانا چاہتا ہے، ابھی ٹھرکی نہیں ہے۔‘‘
’’وہ تو مجبوری ہے۔‘‘
’’کسی بیوہ یا اپنی ہم عمر مطلقہ سے شادی کرے جو اس کے بچے پال سکے۔ اس نے الٹا میری بہن پر آنکھ رکھ لی ہے۔‘‘
’’فخر باجی آپ سمجھ نہیں رہیں۔ یہ سارا چکر دکان کے لیے چل رہا ہے۔ وہ یاسر بھائی کو پیسے دے رہے ہوں گے۔‘‘
فخر کو ایک دم مہرو کی بات سمجھ آئی تھی۔
’’تو زبان بند رکھ، مجھے کاٹنی نہ پڑ جائے۔‘‘ یاسر نے مہرو کو قہر بار نظر سے دیکھا۔
’’اسی زبان کی وجہ سے کسی نے اس کی بات نہیں پوچھنی۔ شرم حیا ہے ہی نہیں۔ اپنی شادی کی بات میں کیسے منہ کھول کر شامل ہو رہی ہے بے حیا۔ پہلے اس بدر نے تھوڑا گند گھولا ہے۔ جو کسر رہ گئی ہے وہ تیری بے حیائی پوری کرے گی۔ ویاہ کرا کے دفع نہ ہونا میرے سینے پر مونگ دلتی رینا سب۔‘‘
’’تمہیں میری بہنوں کی شادیوں کی فکر کی ضرورت نہیں، میں بیٹھی ہوں۔‘‘
’’اتنا ہی بیٹھی ہو تو اس ٹولے کو اپنے گھر لے جاؤ یا پھر ہمارے گھر میں مداخلت نہ کرو۔ ایسا نہ ہو ہمیں گھر کے دروازے بند کرنا پڑیں۔‘‘ یہ سیما تھی، جو فخر سے اب نہیں دبتی تھی۔ زبیدہ کے زمانے لد چکے تھے۔
’’یاسر میں نے تجھے کہنا تھا نئے داخلوں کے وقت مہرو کو یونیورسٹی میں ڈال دے۔ مہرو بڑی قابل ہے اس کا پرنسپل ساری پڑھائی اسکالر شپ پر کروا دے گا۔ باقی خرچے وہ اپنی سیلری جوڑ کر پورے کر لے گی۔ بس تم لوگ اس سے تنخواہ نہ لو۔ مہرو کی زندگی بن جائے گی۔ وہ پروفیسر بن سکتی ہے۔ اس کے نمبر بہت اچھے ہیں۔ تم اسے سات بچوں کی ماں بنانے کی بات کر رہے ہو، ابھی اس کی اپنی عمر کھیلنے کی ہے۔‘‘
’’فخر یہ ممی ڈیڈی لوگوں والی باتیں کر کے میرا میٹر شارٹ نہ کر۔ پڑھائی نے ہمیں کیا دیا ہے۔ صرف خواب ہی اونچے کیے تھے اماں کے۔ اسی پڑھائی اور خوابوں کا نتیجہ بدر کی صورت نکلا ہے۔ اللہ جانے کون سا نکاح ہے یا نہیں ہے۔ کیا چکر ہے میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آتا۔ اس کی زندگی پتہ نہیں کیسے گزرنی ہے۔ باقیوں کی شادیاں تو کرنی ہیں۔ اشرف چالاک ہوشیار بندہ ہے، ایک دن اپنی گڈی بھی لے لے گا۔ دیکھ لینا تم۔‘‘
’’بدر کی زندگی کیوں خراب ہوئی ہے، اس کا شوہر زندہ سلامت ہے۔ جب ہم کہیں گے، لینے آ جائے گا۔‘‘
بدر نے التجا کرتی نظروں سے فخر کو دیکھا کہ جھوٹ نہ بولے۔ پر وہ جلال میں تھی جو جھوٹ منہ میں آ رہا تھا بہنوں کا مقدمہ لڑنے کے لیے بول رہی تھی۔
’’ہمیں آج تک نہ پتہ چلا کون سا شوہر ہے۔ صرف یہی بتایا کہ پاکستانی فوجی کے کہنے پر کسی عربی نے خدا ترسی میں نکاح کر کے اس کے کاغذ بنا دیئے تاکہ پولیس پکڑ کر جیل میں نہ ڈالے۔ اب تم کچھ اور کہہ رہی ہو۔ کہیں چھپ چھپ کر اور چکر تو نہیں چلا کر بیٹھی ہوئی؟ دیکھ لو یاسر تمہاری ماں انہیں آزاد خیال بنا کر گئی ہے نا، یہ اسی کا نتیجہ ہے۔ میں کہہ کہہ کر تھک گئی لڑکی ذات کو اتنی آزادی نہیں دیتے۔ پڑھائی تو ہے ہی نری آزادی۔‘‘
’’کون سی آزادی… اب ماں والی سب عیاشی ختم۔ یہ پڑھنے پڑھانے کا کھیل ختم کرو اور چپ چاپ نکاح کی تیاری کرو۔‘‘
’’میں یہ شادی کبھی نہیں کروں گی۔‘‘ مہرو ڈٹ کر کھڑی ہو گئی۔
’’دیکھوں گا کیسے نہیں کرو گی۔‘‘
’’زہر کھا لوں گی پر اشرف سے شادی کسی صورت نہیں کروں گی۔‘‘

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5اگلا صفحہ

Related Articles

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page