کسی اجنبی سے دیار میں: قسط نمبر 9
بدر کہہ کر پچھتائی ، اس کا زندگی و مردانگی سے بھرپور قہقہہ اسے مزید ان سیکیور کر گیا۔
’’کچھ اپنے بارے میں بھی تو بولو۔‘‘ وہ سنجیدہ ہو کر اسے منتظر نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
’’میری کافی ساری بہنیں اور ایک بھائی ہے، ابا فوت ہو گئے ہیں۔‘‘
بدر مزید کچھ بھی بولنا نہیں چاہتی تھی اسے یوں لگ رہا تھا بولنے سے وہ مزید نقصان اٹھائے گی۔
’’وقاص کے ساتھ شادی؟‘‘
’’کئی بار بتا تو چکی ہوں کہ غربت کی وجہ سے میری ماں نے وقاص کے ساتھ شادی کی تھی۔ میری فیملی میں سے کبھی کوئی پاکستان سے باہر نہیں گیا اس لیے اندازہ نہیں تھا کہ ایسا بھی ہو جاتا ہے۔‘‘ وہ اس کی بات کاٹ کر تندی سے بولی۔
’’چلو گھر والوں کو اندازہ نہیں ہوا کیونکہ وہ وقاص کے ساتھ نہیں تھے لیکن بقول تمہارے کافی عرصہ تم اس کے ساتھ رہی ہو تو کیا تمہیں بھی اندازہ نہیں ہوا کہ کچھ غلط ہو رہا ہے جو نہیں ہونا چاہیئے۔ تمہیں اس سے بات کرنا چاہیئے تھی اپنی فیملی کو بتانا چاہیئے تھا۔‘‘ اس نے اب تپائی سے سیب اٹھا کر ٹراؤزرز کے ساتھ رگڑ کر کھانا شروع کر دیا۔
’’مجھے کیسے اندازہ ہوتا اور میں اپنی فیملی کو کیا بتاتی، تب تو شیخ طبوق والا مسئلہ ہی نہیں تھا۔‘‘
بدر کو لگا سالم خود بے وقوف ہے ابھی کچھ دیر پہلے اسے کہہ رہا تھا لیکن اپنے سوال سے وہ بدر کو خود احمق لگا۔ بدر کے تاثرات اور لہجے نے صاف اسے جتلایا کہ وہ اسے کیا سمجھ رہی ہے۔ اب وہ بھی لاپروا انداز چھوڑ کر پیر پھیلا کر صوفے کے کونے سے ٹیک ہٹا کے اس کے چہرے کو فوکس کر کے بیٹھا۔ سالم کو جاننے والے جانتے تھے اس کے اس انداز کا مطلب کیا تھا۔
’’جب اس نے تمہیں حق مہر دے کر بھی رشتہ آگے نہیں بڑھایا تو تمہیں اس سے پوچھنا چاہیئے تھا یا نہیں؟ اس کے بعد اپنی فیملی کو اس کا ردعمل بتانا چاہیئے تھا۔‘‘
’’ہماری ہاں خواتین بہت شرم و حیا والی ہوتی ہیں، اپنے شوہر کی کوئی بات کسی سے نہیں کرتیں خاص کر ایسی بے ہودہ باتیں نہ سوچتی ہیں نہ اپنے گھر والوں سے کرتی ہیں۔ تمہاری خواتین ایسی ہوتی ہوں گی، ہم ایسی نہیں ہیں۔‘‘
بدر کا بس نہیں چل رہا تھا اس کا منہ نوچ لے یا پھر اس جگہ سے کہیں دور دفع ہو جائے۔ اس نے جان بوجھ کر تم اور تمہاری خواتین کہا تاکہ اس کی مزید تفتیش کو بریک لگا سکے۔ لمحہ بھر کو شیخ سالم حداد کی پیشانی پر بل پڑے آنکھیں بھی سکڑیں اور پھر بدر کا اس کو بریک لگنے کا اندازہ خاک میں مل گیا۔
’’محترمہ بدر جہاں، ہم اور ہماری خواتین فطرت سے بھاگتی نہیں ہیں تم انڈو پاک کے لوگ فطرت سے بھاگ رہے ہو اسی لیے نقصان اٹھاتے ہو۔ یہ فطرت سے بھاگنا ہی تھا جو بھاگ بھاگ کر مجرموں سے چھپ کر کسی تیسرے ملک کی دور دراز وادی میں بیٹھی ہو۔ عمان کا شخصی بطاقہ رکھنے والا تمہیں عمان کی بجائے بیوی بنا کر وزٹ ویزے پر دبئی لایا اور پھر تحفے دینے کے بعد، حق مہر ادا کرنے کے بعد بھی اگر اپنا حق نہیں لے رہا تھا تو تمہیں سوچنا چاہیئے تھا، پوچھنا چاہیئے تھا کہ اسے میڈیکل ایشوز ہیں یا بات کچھ اور ہے وہ خلاف فطرت کیوں ری ایکٹ کر رہا تھا وہ بھی تمہیں اعتماد میں لیے بغیر۔ وہ تمہیں اعتماد میں لیتا تو بات سمجھ میں آتی اگر وہ بات نہیں کر رہا تھا تو اس کا مطلب تھا کہیں کچھ خرابی ہے۔ فطرت پر بات کرنا کوئی برائی نہیں ہے اگر فطرت اتنی ہی بری اور قابل نفرین ہوتی تو اللہ تبارک و تعالٰی کائنات میں ہر شے کا جوڑا نہ بناتا۔ ہر جوڑے میں ایک دوسرے کے لیے کشش اور مخصوص تعلق رکھنے کی صلاحیت نہ ڈالتا۔‘‘
بدر میں اتنی بے باکی تھی نہ اعتماد اور نہ ہی دلائل کہ وہ اسے جواب دینے کی کوشش کرتی۔ چنانچہ جو وہ کرتی آئی تھی، جو اس سے خود بخود سر زد ہو جاتا تھا اس نے وہی کیا یعنی آنسو بہانا شروع۔ وہ بے اختیار اپنی جگہ سے اٹھ کر صوفے پر اس کے ساتھ جا کر بیٹھا، وہ ہچکیوں سے روتی رہی تو سالم نے بازو بڑھا کر اسے اپنے حصار میں لیا۔
’’میرا مقصد تمہیں ہرٹ کرنا نہیں تھا حبیبی، میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ اگر تم نے بروقت اس ابلیس سے بات کر کے اپنی فیملی کو اس کا رویہ بتایا ہوتا تو وہ آج تمہارے بارے میں مشکوک نہ ہوتے۔ اس مشکل وقت میں تمہارے ساتھ فیملی کی دعا ہوتی، اعتماد ہوتا ناراضی نہ ہوتی۔‘‘
’’میں جب گھر جا کر سارے حالات بتاؤں گی تو ان کے سارے شک اور ناراضی ختم ہو جائے گی۔‘‘
بدر نے اسے زور لگا کر پیچھے ہٹانا چاہا۔ وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔
’’کہیں وقاص کے ساتھ بھی یہی رویہ تو نہیں رکھتی رہی ہو جو اس نے انتقاماً تمہیں شیخ طبوق کو دینے کی کوشش کر ڈالی۔‘‘ اس نے اپنی ٹھوڑی بدر کے سر پر ٹکا کر شریر لہجے میں اسے بھڑکایا، اب کہ بدر بڑھ کر رہائی پانے میں کامیاب ہو گئی۔
’’خدا کا واسطہ مجھے پریشان نہ کرو میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں۔ مجھے کسی بھی طرح پاکستان بھیج دو آپ کا بہت احسان ہو گا۔ مجھے کسی عرب سے کچھ لینا دینا نہیں ہے اب۔‘‘ وہ اس سے دور ہٹ کر کھڑی روتی سرخ آنکھوں کے ساتھ سرخ ناک لیے ہاتھ باندھے درخواست کر رہی تھی۔
’’بدر، مجھے تکلیف نہ دو میں نے آج تک اپنی کسی پیاری خاتون کو روتے نہیں دیکھا۔ پتہ نہیں ہماری عرب خواتین ہی زیادہ مضبوط ہیں یا تم ہی زیادہ کمزور ہو۔‘‘
’’بھاڑ میں جاؤ تم، تمہاری عرب خواتین اور تمہارا عرب کلچر، مجھے بس میرے گھر پہنچا دو۔‘‘
وہ تحمل سے اسکا غیض برداشت کرتا رہا، یہاں تک کہ وہ بیڈ روم میں چلی گئی۔ عشاء کے بعد بھی وہ جب باہر نہ نکلی تو وہ سیاہ لیدر کا پاؤچ پکڑے اسی بیڈ روم میں آ گیا۔ بدر نماز کے بعد قرآن پڑھ رہی تھی وہ اس کے سامنے ہی بیڈ پر بیٹھ گیا۔ وہ پڑھتی رہی وہ بیڈ شیٹ کے ڈیزائن پر انگلیاں پھیرتا رہا بالآخر بدر نے قرآن بند کر کے چوما اور اس کی جگہ پر رکھنے کے لیے اٹھنے لگی۔ سالم نے اس کے ہاتھ سے پکڑ کر انتہائی کونے والے تپائی پر دوسری کتابوں کے اوپر رکھا اور واپس اس کے سامنے آ بیٹھا۔ اس نے پاؤچ کھول کر پچاس پچاس عمانی ریال کی دو گڈیاں اس کے سامنے رکھ دیں۔
’’یہ تمہارا مہر ہے میجر طلال البلوشی نے پاکستانی بیس لاکھ مہر کا کہا تھا یہ رقم بیس لاکھ سے زیادہ ہی ہے۔‘‘
بدر پھٹی پھٹی آنکھوں سے کبھی سامنے پڑی رقم اور کبھی اسے دیکھ رہی تھی۔
شیخ سالم حداد نے اس کے دیکھتے دیکھتے اپنے بازو سے گھڑی اتاری اور پھر اس کا سمٹا پیر کھینچ کر پائل کی طرح اس میں ڈال دی۔
اس کے بازو میں وہ کھلی تھی وہ مزاجاً عقل کی پیروی کر کے عمل کرنے والا انسان تھا سو اس کی عقل نے کہا پیر میں فٹ آئے گی تو وہیں ڈال دی۔
’’میں اتنا بد ذوق نہیں ہوں کہ اپنی حرمہ کے لیے لیڈیز گھڑی نہ خرید سکوں لیکن حالات ایسے تھے کہ کسی ایسے لطیف قدم اٹھنے کا وقت ہی نہیں تھا۔ بہرحال یہ میری پسندیدہ ترین گھڑی ہے اسے میری طرف سے پہلا ہدیہ (تحفہ) سمجھ کر قبول کر لو ہمیشہ سنبھال کر رکھنا، مردانہ تحفہ اس رشتے کی انفرادیت کی یاد دلاتا رہے گا۔‘‘ سالم کے پاس سے عربی عود کی خوشبوئیں اڑ رہی تھیں۔
’’جان سالم، پہلا لیڈیز تحفہ یقیناً گھڑی ہی دوں گا کہ مجھے وقت کے اشارے سمجھنا اور سمجھانا بہت پسند ہے۔‘‘
بدر ادراک سے کانپ اٹھی۔ اب وہ پہلے والی بے وقوف بدر نہیں تھی۔ اسے وقاص نے نہ صرف محتاط کر دیا تھا بلکہ مردوں پر اعتبار کرنے سے بھی ڈرا دیا تھا۔ اب وہ قیمتی تحفے دیکھ کر خوش نہیں ہوتی تھی کانپ اٹھتی تھی کہ ان کی قیمت اس کی استطاعت سے کہیں زیادہ تھی۔ اس نے دبئی میں گھڑیوں کی اس برینڈ کا وزٹ کیا تھا۔ وقاص نے یہی گھڑی لینے کی خواہش کی تھی تو بدر نے کہا تھا، خرید لو۔
اس نے کہا تھا،’’ پاگل، پاکستانی کروڑ روپیہ سے زیادہ قیمت ہے۔ اتنی آسانی سے تھوڑی خریدی جاتی ہے۔‘‘
وہ ہکا بکا ہوئی تھی جب اسے پتا چلا کہ ہیرے جڑی، گھڑی ہے۔ آج وہی ہیرے جڑی گھڑی اس کے بازو کی بجائے پیر میں تھی۔ بدر نے جھٹکے سے گھڑی کھینچ کر اس کی طرف کر دی، عمانی ریال فٹا فٹ اس کی طرف واپس دھکیلے۔
’’مجھے کچھ نہیں چاہیئے۔‘‘
’’لیکن یہ تو تمہارا حق ہے اور میں بے منصف نہیں ہوں تمہیں تمہارا حق دیئے بناء میں اپنے حق کی بات کیسے کر سکتا ہوں۔ تم میری حرمت ہو میں دل و جاں سے اپنی حرمت کی قدر کرتا ہوں۔‘‘ اس کے لہجے کی حلاوت و نرمی بدر کے کانوں میں ہتھوڑے کی طرح بج رہی تھی۔
’’یہ، یہ سب اٹھا لو پلیز، مجھے معافی دے دو، نہیں چاہیئے یہ سب، آپ لے جاؤ ل۔ کچھ بھی نہیں چاہیئے۔‘‘
سالم اس کی خطرناک حد تک سفید پڑتی رنگت دیکھ کر مزید قریب ہوا۔
’’بدر تم ٹھیک ہو؟‘‘
’’تم مجھے طبوق کی طرح خریدنے کی کوشش کرو اور میں پھر بھی ٹھیک رہوں، تم مجھے وقاص کی طرح تحفے دو اور میں پھر بھی ٹھیک رہوں۔‘‘
’’پلیز مجھے ان لوگوں کے ساتھ ملا کر میری اہانت مت کرو تم مجھے نہیں جانتی ہو یہ قابل برداشت ہے۔ تم مجھے جاننے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہی ہو یہ ناقابل برداشت ہے۔‘‘
’’یہ سب قیمت لگا کر تم مجھے کہہ رہے ہو میں تمہاری عشقیہ داستان کو سمجھنے کی کوشش کروں بلکہ سچ مان لوں؟‘‘
’’مت مانو لیکن میں تمہارا شوہر ہوں اور تم میری حرمت ہو یہ مان لو۔‘‘ وہ براہ راست اس کی مڑی پلکوں والی ان سبز آنکھوں میں دیکھ رہا تھا جو اس کا چین و قرار چھین چکی تھیں۔
’’یہ نکاح واقعی اصلی تھا؟ کیا میں سچ میں تمہاری بیوی ہوں؟‘‘
وہ سارے ادب و آداب بھلائے ترشی سے بولتی رہی تھی۔ اب قدرے تفتیشی لہجے میں اس سے اپنے تئیں سچ اگلوانے لگی تھی۔
اس دفعہ ساکت ہونے کی باری سالم کی تھی۔
’’شٹ اپ۔‘‘
آنکھوں میں دکھتی حلاوت کی جگہ بدر نے شرارے پھوٹتے دیکھے اور پھر وہ اُس بیڈ روم سے نکل گیا۔
٭…٭…٭
بدر نے بھاگ کر دروازے کا بولٹ چڑھایا پھر لاک بھی کر لیا۔
’’اماں کے بغیر کیسے شادی ہو گئی میری؟ شادی تو وہ ہوتی ہے جب بہن بھائی اور ماں باپ خود کسی کے ہاتھ میں ہاتھ پکڑا کر رخصت کریں۔ مجھے تمہارے ساتھ کسی نے رخصت نہیں کیا۔ میجر طلال پر اعتبار کو دل کرتا ہے پر تم وقاص یا نجم طبوق نہیں ہو کیونکر مان لوں؟‘‘
وہ بازو گھٹنوں پر لپیٹے روتی رہی۔ وقاص سے لے کر سالم حداد تک اپنی تماشا بنی زندگی کو فلم کی طرح چلتے سوچتی رہی۔ سامنے پڑے حق مہر کے پیسے اور گھڑی پر تکیہ رکھ کر انہیں آنکھوں سے اوجھل کر دیا۔ جیسے جیسے رات بھیگ رہی تھی ڈراؤنی ہوتی جا رہی تھی۔ ابھی جس جن کا اسے ڈر تھا وہ سالم حداد تھا کہ آئے گا اور دروازہ دھڑدھڑانا شروع کر دے گا۔ وقاص اور نجم طبوق کی طرح اس کے بال کھینچے جائیں گے، تھپڑ اور ٹھڈے مار کر فرش پر رگیدا جائے گا اور پھر وہ بے بس ہو جائے گی۔ وقت گزرتا رہا ایسا کچھ نہ ہوا یہاں تک کہ جن بھوتوں کا وقت ہو گیا۔ بارش باہر کھڑکی پر لگے شاپر پر گر کر شور کرنے لگی۔ پہاڑوں اور غاروں سے نکل کر جن بھوت اس شور میں ناچنے لگے۔
بدر کی جان پر بن آئی، شادی ہر کسی کو پھولوں کا گلدستہ نہیں دیتی بلکہ کانٹوں کے بستر پر بٹھا کر اردگرد آگ بھی جلا دیتی ہے کہ اب اس بستر پر لہولہان ہوتے رہو نیچے اترنے کی کوشش کرو گے تو جلتی آگ میں زندہ بھن جاؤ گے، بدر کی حالت بالکل یہی تھی۔ اس اجنبی سر زمین پر صرف رب ہی تھا جو اپنا تھا۔ انسان کی فطرت ہے جب وہ اپنی کوشش سے ناکام ہو جاتا ہے تو قدرت کی طرف بھاگتا ہے کہ آخری پناہ گاہ وہی ہے سو بدر نے بھی قرآن اٹھا لیا۔ اس سارے پرخار سفر میں بے شمار دعائیں وہ وقت کی قید کی بنا مانگتی آ رہی تھی شاید یہ دعائیں ہی تھیں جو اسے ایک سے بڑھ کر ایک پرخار رستے پر تھوڑی سی جگہ خود کو بچائے رکھنے کی مہیا کر ہی دیتی تھیں۔ آج اس نے قرآن اٹھا لیا…
بھوت ناچتے رہے، چیتے، بھیڑیے، لومڑیاں، گیدڑ گھات لگا کر اپنی شکاری آنکھیں اس کے وجود پر گاڑے انتظار کرتے رہے، وہ قرآنی دعائیں سپارے ڈھونڈ ڈھونڈ کر نہ جانے کب تک پڑھتی رہی، صبح آنکھ کھلی تو قرآن سینے سے لگائے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے وہ نیم دراز تھی۔
وقت دیکھ کر اس نے فجر ادا کر کے اللہ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھا دیئے، کوئی دعا یا حرف دعا ذہن میں نہ آیا بس ہاتھ اٹھے رہے دل عاجزی و دکھ سے پھوڑا بنا جھکا رہا۔ یہاں تک کہ روح ہلکی اور دل ’’قلبِ مطمئن‘‘ بن گیا۔ جائے نماز سمیٹ کر بدر نے دروازہ کھول لیا۔
وہ سامنے ہی مجلس میں پش اپس لگا رہا تھا۔
بدر جھجکی نہ وہ رکا، چائے کی طلب کے ساتھ پیٹ بھی کھانا مانگ رہا تھا۔ بدر نے چائے کا پانی رکھ کر سلائس سینکنا شروع کیے۔ آڑو کے جیم کے ساتھ سلائس کھا کر اس نے پانی پیا اور کڑک چائے اپنے مگ میں ڈال لی۔ دل میں آئی اس کے لیے انڈے ابلنے رکھ کر چائے بھی بنا دے اور پھر بدر نے دل کی مان کر ایسا ہی کیا۔ پر جب وہ اس کا ناشتہ لے کر مجلس میں گئی وہ اسے نظر انداز کر کے کچن میں چلا گیا۔
بدر نے اسے الیکٹرک کیٹل میں چائے بنا کر ٹھنڈے سلائس کھاتے دیکھا پر اسے مخاطب کرنے کی جرأت خود میں نہیں پا سکی۔
’’چلو۔‘‘ اسے کھردرے لہجے میں حکم دے کر وہ فٹ میٹ پر اپنے بھاری بھرکم جوتوں کے لیسز باندھ رہا تھا۔
’’میں بھی یہ والے جوتے پہنوں؟‘‘ بدر نے فٹ میٹ پر پڑے کل والے جوگرز کی طرف اشارہ کیا لیکن وہ نظر انداز کر کے باہر نکل گیا۔ بدر کبھی جوتوں کو کبھی اسے گاڑی میں بیٹھتے دیکھ رہی تھی۔ ریس کی آواز سے گھبرا کر وہ باہر نکلی تو اس نے فرنٹ ڈور کھول دیا جو اشارہ تھا کہ جلدی بیٹھو۔
بدر کبھی گاڑی کے کھلے دروازے کو دیکھ رہی تھی اور کبھی گھر کے کھلے دروازے کو، پھر اس نے گھر کے بیرونی دروازے کی کنڈی لگا دی تالا تو نیچے ٹوٹا پڑا تھا۔ اب پھر سے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے سالم کی طرف دیکھا کہ کوئی حل نکالے، پر وہ لاتعلق ہی رہا۔ بالآخر وہ اس کے برابر بیٹھ گئی۔ سالم نے ریس بڑھا دی۔
’’اندر پیسے اور آپ کی گھڑی پڑی ہوئی ہے، تالا نہیں لگا۔‘‘
’’یہاں کوئی چوری نہیں کرتا، جس نے کرنی ہو بند دروازے اور تالے اس کے لیے رکاوٹ نہیں ہوتے۔‘‘ سالم نے صاف اسے سنایا۔
بدر نے مزید تفتیش کا ارادہ ملتوی کر کے نظریں باہر کے مناظر پر جما دیں۔ ہلکی پھلکی پھوار میں دن کے وقت وہ ایسا خطرناک راستہ دیکھ کر دل ہی دل میں آیت کریمہ کا ورد کرنے لگی۔ اب کھائی اس کی طرف تھی اور سمندر سالم کی طرف، ذرا سا دیکھنے پر دل دہل رہا تھا۔ اسے سالم کے اعصاب پر رشک آیا جو اس راستے پر اطمینان سے ڈرائیو کر رہا تھا۔ پھر بلندی نے اپنا کام دکھانا شروع کیا بدر کے کان بند ہو گئے سر میں ہتھوڑے بجنے لگے اور متلی کی کیفیت بھی بڑھنے لگی لیکن اب کہ کسی نے اسے چیونگم کی آفر نہ کی۔ کسی نے نرم لہجے میں اس کی سہولت کا خیال نہ رکھا۔ بالآخر سالم نے ایک جگہ گاڑی روک لی۔ بدر کو یہاں اپنے کان بھی کھلتے محسوس ہوئے، چکراتا سر بھی جیسے تھم سا گیا۔ دور ایک گاڑی گھر بھی نظر آ رہا تھا۔ خیمے کے نیچے لوگ کرسیوں پر براجمان بھی تھے۔ سالم نے موبائل آن کر کے ادھر ادھر کیا پھر گھنٹیوں پر گھنٹیاں بجنے لگیں۔ لاتعداد مسڈ کالز کے میسجز تھے، جو کہہ رہے تھے۔
‘‘Unfortunately, you missed a call.’’
سالم نے سب میسجز نظر انداز کر کے حسین کو کال ملا کر اسپیکر پر کر لیا۔
’’سالم مجنون ہو گئے ہو، نیچے آنے کی احمقانہ حرکت کی کیا ضرورت تھی؟‘‘
’’بدر کے سارے کاغذات تیار ہو گئے؟‘‘
’’کاغذات کہیں بھاگ رہے تھے؟ ایک بار بکواس کی تھی کہ یہاں کے معاملات ہم پر چھوڑ دو تو اب کیا مصیبت پڑ گئی؟ تم خوشی خوشی اپنا وقت گزارو، مطر کا لطف اٹھاؤ، یہاں کی الجھنیں چھوڑو۔‘‘
’’ڈاکومنٹس کے امیج تو سینڈ کرو۔‘‘
’’کیے ہوئے ہیں، واٹس ایپ کھول کر دیکھو۔‘‘
’’اوکے۔‘‘
’’سالم عقل سے کام لو اور وادی دفع ہو جاؤ ابھی کے ابھی، اس سے پہلے کہ کوئی دیکھے۔ یہاں اچھی خاصی ہلچل ہے تمہارے بارے میں باتیں شروع ہو چکی ہیں، بہتر ہے جب تک ہم لینے نہ آئیں وہیں رہو۔‘‘
سالم نے ٹھیک ہے کہہ کر کال کاٹ کر فوراً واٹس ایپ کھول لیا۔ اس نے بے شمار پیغامات چھوڑ کر حسین کے نام کو ٹچ کیا۔ ایک نظر دیکھ کر فون بدر کی طرف بڑھا دیا۔
سامنے ہی عمانی کارڈ پڑا تھا بدر نے اپنا نام اور کوائف دیکھ کر بمشکل تھوک نگلا۔ اپنے پاسپورٹ سمیت وہ ایک ایک کر کے سارے کاغذات کے کوائف دیکھتی گئی۔ بدر جہاں وائف شیخ سالم حداد قبیلہ الحداد۔ آ خری کارڈ منسٹری آف ہیلتھ عمان کا تھا جس میں وہ سالم حداد کی بیوی اور قبیلہ حداد کی فرد تھی۔