سلسلہ وار ناول

کسی اجنبی سے دیار میں: قسط نمبر 9

بدر کو اس کا اس طرح سوری کرنا بھی امپریس کرنا ہی لگا۔ اب وہ بیڈ روم کپ بورڈ کے شاپر پھاڑ کر جوتے ڈھونڈ رہا تھا۔ بالآخر اس نے درمیانے سائز کے اسپورٹس جوگر اس کے سامنے رکھ دیئے۔
’’یہ پہن کر دیکھو۔‘‘
’’تھوڑے سے بڑے ہیں۔‘‘
’’لیسز زیادہ ٹائٹ کرو۔‘‘
بدر کوشش کرنے لگی۔
اس نے پنجوں پر عین سامنے بیٹھ کر اس کے جوتوں کے تسمے خود باندھے۔ بدر نے اتنے ٹیکنیکل طریقے سے کبھی کسی کو تسمے باندھتے نہ دیکھا تھا۔ اس کے انداز میں بناوٹ کی بجائے خیال رکھنے کا عنصر بدر کو بہت شدت سے محسوس ہوا۔ اپنے احساس سے گھبرا کر وہ کھڑی ہو گئی۔ سالم اندرونی الماری سے دو فولڈنگ چئیرز کندھے پر ڈالے اور ہاتھ میں چھتری لیے برآمد ہوا۔ دہلیز سے نکلتے ہی اس نے اس پر چھتری تان دی۔ بدر نے جب دیکھا وہ خود چھتری کے نیچے نہیں ہے تو ہاتھ بڑھا کر خود پکڑ لی۔ اب وہ آگے تھا اور بدر اس کے پیچھے پیچھے۔
حیرت میں گم، قدرتی حسن سے مسمرائز…
بارشیں ماحول کو اس قدر رنگینی بخشتی ہیں، اس کے سان و گمان میں نہ تھا۔ جس طرف وہ نظر اٹھا رہی تھی سبزے سے لدے پہاڑ تھے، زمین کی کوئی ایک انچ ایسی نہ تھی جس پر سبزہ یا رنگ برنگے پھول نہ تھے۔ اپنی اب تک کی زندگی میں ایسا مبہوت کرنے والا قدرتی نظارہ اس نے آج تک نہیں دیکھا تھا۔ سالم چلتے چلتے اس سے کافی آگے جا چکا تھا وہ قدم قدم پر رک کر سنبھل کر چل رہی تھی۔
اب وہ نیچے جاتے قدرے تنگ راستے میں گم ہوا تو بدر نے بھی قدموں کی رفتار تیز کر دی۔ اپنے بائیں سمت بڑے سے بورڈ پر چیتا بنا ہوا دیکھ کر اسے یقین آ گیا کہ اس علاقے میں چیتا ہو سکتا ہے۔ اب لہروں کا شور واضح تھا، وہ اس کے پاس پہنچ گئی۔ وہ دونوں کرسیوں کی فولڈنگ کھول کر ایک پر بیٹھ چکا تھا۔
’’مرحبا بدر جہاں زوجہ سالم حداد۔‘‘
وہ خاموشی سے کرسی اس کے سامنے سے ہٹا کر سائیڈ پر کرنے لگی تو اس نے کرسی پر ہاتھ رکھ دیا۔
’’یہ جگہ لیول ہے ذرا سا بھی بدلو گی تو کرسی فٹ نہیں بیٹھے گی۔‘‘
ناچار بدر کو بیٹھنا پڑا۔ ایک طرف ٹھاٹھے مارتا سمندر تھا جو ان کے قریب تنگ درے میں آ کر جھیل بن رہا تھا دوسری طرف پہاڑ اور ہریالی تھی۔ بدر کو پانی میں بہت کشش محسوس ہوتی تھی۔ دبئی میں پہلی بار وقاص کے ساتھ سمندر دیکھا تو پاگل ہی ہو گئی تھی۔ میدانی علاقوں کی باسی، ایسے غریب گھرانے کے لڑکی جنہیں سیاحت کی ’’س‘‘ بھی معلوم نہیں تھی وہ کراچی جا کر سمندر دیکھنے کا خواب بھی نہیں دیکھتے تھے۔ بدر نے اپنے گھر دبئی کے سمندر کی ہی سب سے زیادہ ویڈیوز بھیجی تھیں۔ گزرے وقت کی تلخی اور موجودہ لمحے کی بے یقین زندگی نے مبہوت کر دینے والے منظر کی ساری دل کشی گہنا دی۔ وہ چھتری پیروں میں رکھ کر خالی الذہنی سے پچیس تیس فٹ نیچے سمندر کو جھیل بنتے دیکھے گئی۔ حالانکہ وہ کچھ نہیں دیکھ رہی تھی۔ سالم نے کھنکار اسے متوجہ کیا۔
’’میرے بارے میں کیا جانتی ہو؟‘‘
بدر نے نفی میں سر ہلا دیا۔
’’میرا نام معلوم ہے؟‘‘
بدر نے اس کی آنکھوں میں طنز کھوجنا چاہا لمحہ بھر کو پاکستانی سبز جھیلیں عرب کے سمندر میں غرق ہوئیں اور پھر بدر نے تاب نہ لا کر نظر پھیر لی۔
یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم بہ ببرد تسکیں
(پلک جھپکتے ہی وہ دو ساحر آ نکھیں میرے دل کا سکون لے اڑیں)
زحالِ مسکیں مکن تغافل دورائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں
(اس مسکین کے حال سے تغافل نہ برت، باتیں بنا کر نظریں نہ پھیر میری جاں کہ جدائی کی اب تاب نہیں ہے مجھے اپنے سینے لگا کیوں نہیں لیتے۔)
’’یہ کون سی زبان ہے کتنی زبانیں آ تی ہیں آپ کو؟‘‘
’’کبھی گنتی نہیں کی۔‘‘
’’یہ شاعری تھی نا؟‘‘
’’آئیوا…‘‘
’’آپ کو شاعری آتی ہے؟‘‘
’’ہم عربوں سے زیادہ کس کو آ تی ہو گی؟‘‘
’’مجھے سمجھ میں نہیں آتی۔‘‘
’’داستان سمجھ آتی ہے؟‘‘
’’ناول اور کہانیاں تو بہت پڑھتی ہوں میرا مطلب ہے تھی۔‘‘
’’چلو تمہیں عرب کے ایک کرہ کھیلنے والے کی داستان سناتا ہوں۔‘‘
’’یہ کرہ کیا ہوتا ہے؟ میجر طلال بھی کرہ کا کہہ رہا تھا شاید۔‘‘
سالم نے اسے شدید صدمے سے دیکھا۔
’’قسم باللہ، سارے عرب کی لڑکیاں مریض ہو جائیں گی جب انہیں پتہ چلے گا سالم حداد ایسی لڑکی کا ہوا ہے جسے نہ کرہ کا معلوم ہے نہ سالم حداد کا۔‘‘
وہ غیر دلچسپی سے چھتری کے ساتھ لگی رہی۔ اس کا تغافل سالم کے رگ جاں میں پھیلا۔
’’کرہ فٹ بال کو کہتے ہیں اور میں عمان نیشنل ٹیم کا کیپٹن ہوں۔‘‘
’’اچھا۔‘‘
بدر نے ایک طرف کر کے چھتری جھاڑی اور بند کر دی۔
اپنی زندگی میں شاید ہی اس نے کسی کا ایسا معمولی سا رد عمل بلکہ تغافل دیکھا ہو، یہ اس کے حساب سے کرہ اور اس کی برابر کی توہین تھی۔ پر وہ ایسی ہستی تھی جس کو وہ سات خون بہت پہلے ہی معاف کر چکا تھا۔
’’تمہیں میں بالکل یاد نہیں حالانکہ میں اس پہلی ملاقات کے طلسم میں ایسا جکڑا ہوں کہ آج تک نکل نہیں سکا۔ دبئی ایئر پورٹ پر میرے ساتھ ٹکڑا کر تم گر گئی تھیں۔‘‘
بدر کو اپنے ٹخنے کی تکلیف یاد آئی جو اس شخص کے جوتے نے اسے دی تھی۔ وہ حیرت میں ڈوبی اس عرب کے ستارے کی دیوانگی کی داستان، حسین اردو میں ح، ہ، ق، ک، کی اصل آوازوں میں سن رہی تھی۔ وہ اپنے کھلاڑیوں والے پوسچر میں اپنے مضبوط کندھوں پر بارش سے گیلے لمبے بال گرائے بالکل سیدھا بیٹھا کسی قدیم تہذیب کا کوئی گمشدہ کردار لگ رہا تھا۔
٭…٭…٭
’’میرا خاندان سلطنت کا نامی گرامی خاندان ہے۔ میری دو مائیں ہیں طوبٰی ماما سے بابا نے شادی ہاجرہ ماما کی بیماری کے دوران کی۔ یوں مجھے میری سگی ماں کی بجائے طوبٰی ماما کی توجہ اور پیار زیادہ ملا۔ ہاجرہ ماما کی طبیعت سنبھلنے پر بھی طوبٰی حداد نے مجھے واپس ہاجرہ حداد کے پورشن میں بھیجنے سے انکار کر دیا۔ میں بھی واپس جانے پر راضی نہیں تھا میری ماں نے میری اور طوبٰی ماما کی خواہش کا احترام کیا۔‘‘
’’ہمیشہ یہی پڑھا عرب رنگین مزاج ہیں ان کے حرم ہیں، کبھی نہ سوچا تھا اس کا تجربہ خود کروں گی۔ شیخ طبوق تصویر دیکھ کر ریجھا تھا۔ اس نے ایک نظر دیکھ کر مجھے ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ اس میں اور شیخ طبوق میں کیا فرق ہے؟ کوئی نہیں۔‘‘
وہ اپنی داستان سنا رہا تھا بدر اس سے اپنے نتائج اخذ کر رہی تھی، جو اس کے ڈر کو مزید بڑھاوا دیے جا رہے تھے۔ جب یہ سب اسے معلوم نہیں تھا وہ نکاح کا فیصلہ صرف میجر طلال کا ہی سمجھتی تھی تو اندر ہی اندر مشکوک ہونے کے باوجود مثبت سوچ برابر آ رہی تھی پر اس وقت صرف شک اور ڈر اس کے پاس باقی بچا تھا۔ میجر طلال سے بھی اس کا یقین اٹھ گیا۔
’’اس کا مطلب ہے یہ نکاح صرف اور صرف آپ کی خواہش پر ہوا؟‘‘ (کاش میجر کی خواہش پر ہوا ہوتا سیکیورٹی تو ہوتی۔) اندر کا درد چھپا کر اس نے عام سے لہجے میں پوچھا۔
’’قسم باللہ… نہیں، یہ آئیڈیا میجر طلال کا ہی تھا ساری کہانی جاننے کے بعد اس نے ہی نکاح کا مجھے کہا تھا۔ میں تو تمہارے مل جانے کے احساس میں ہی گم تھا اگلا مرحلہ سوچنے کی نوبت ہی کہاں آئی تھی۔‘‘
’’تو آپ کے والدین کو اس کہانی کا ذرا بھی نہیں معلوم؟‘‘
’’نہیں، ان کو کچھ معلوم نہیں ہے اگر انہیں بتانے لگتا تو دیر ہو سکتی تھی رسک لینے سے بہتر عمل کرنا لگا تھا۔ امید ہے ہمارے اس ہنی مون پیریڈ کے بعد وہ قبول کر لیں گے ورنہ پھر کچھ اور سوچنا پڑے گا۔‘‘ وہ قصداً مسکرایا۔
’’اب تو پکا یہ بھی جعلی شادی ہے ان شیخوں کی رنگین مزاجی ایویں تو زبان زد عام نہیں یے۔ یہ سنجیدہ ہوتا تو بھلا ایسے گھر والوں کے بغیر نکاح کرتا؟ اسی شہر میں رہتے والدین اس کے بلانے پر فوری آ سکتے تھے نہ مانتے تو بھی اپنی مرضی کر سکتا تھا کچھ اور سوچنے کا مطلب یہی ہے سانپ بھی مر جائے لاٹھی بھی نہ ٹوٹے، خود بھی راضی والدین کو راضی کرنے کے لئے یہ جعلی ڈرامے بازی والی شادی بھی فوراً ختم۔‘‘
بدر نے اندر خانے تجزیہ جاری رکھا۔
’’قبیلہ طبوق کے ساتھ ہماری شروع سے نہیں بنتی، دراصل شیخ طبوق اور میرے بابا ایک جیسے بزنس کرتے ہیں تو پروفیشنل جیلسی وغیرہ چلتی آ رہی ہے۔ کافی ساری باتیں تھیں جن کی وجہ سے میں نے فوراً نکاح کا فیصلہ کیا تھا۔‘‘ وہ ٹھہر ٹھہر کر یوں بول رہا تھا جیسے سوچ کر یا کچھ پردہ رکھ کر باتیں کر رہا ہو۔
بدر کے چہرے پر سوچ اور بے اعتباری کے تاثرات شاید زیادہ ہی واضح تھے اس لیے اگلے ہی لمحے وہ اپنے مخصوص کچھ بھی آسانی سے کہنے والے رواں لہجے میں بولا۔
’’ہم گیارہ بھائی بہن ہیں اللہ نے چاہا تو سب سے مل لو گی۔ تم جس طرح کے حالات سے گزر کر یہاں تک آئی ہو اس کے بعد تمہارا ہر کسی سے بھروسہ اٹھ جانا مجھے سمجھ آتا ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں تمہارے لیے یہ رشتہ پنجرے پر لگے بھاری بھرکم تالے کی محض چابی ہے۔ تمہاری آزادی کا پروانہ اور ملک واپسی کا ٹول ہے پر میرے لیے یہ تعلق میری تکمیل ہے۔ میں تمہارے ساتھ اپنی یہ زندگی اور آنے والی زندگی بھی گزارنا چاہتا ہوں۔ باوجود اس کے کہ تم کافی dumb ہو مجھے شدید فطین خواتین اچھی لگتی ہیں لیکن میں سمجھ چکا ہوں معاملات قلب میں دماغ کی بالکل نہیں چلتی سو جتنی بھی بے وقوف ہو میری ہو میرے لئے یہی کافی ہے۔‘‘
بدر کو ہنی مون، بے وقوف وغیرہ وغیرہ جیسے الفاظ پر سخت غصہ آیا۔
’’کس قدر گھٹیا لوگ ہیں یہ، زبان کا استعمال بلا جھجک کرتے ہیں آگا پیچھا دیکھنا گناہ ہو جیسے۔‘‘
سمندر کی سطح سے بھاپ کی طرح اڑتے بادل اور ان بادلوں کی بیچ آنکھ مچولی کھیلتے پرندے اب بالکل ان کے سر پر اڑنے لگے تھے۔ بارش رفتار پکڑنے لگی تو سالم نے اس کے پیروں میں پڑی چھتری کھول کر اس پر تان دی۔ پہلے تو ننھی منی بوندیں برس رہی تھیں جو چلتی ہوا کی وجہ سے انہیں مکمل بھیگنے نہیں دے رہی تھیں۔ مگر اب موسم تیور بدل رہا تھا۔ بدر کو ہوا ٹھنڈی لگنے لگی۔
’’آؤ گھر چلیں تم اپنی کہانی مجھے گھر میں سنانا۔ ‘‘
اس نے خون سے بھر پور سرخ ہتھیلی اس کی طرف پھیلائی، بدر نے نظر انداز کر دی کہ وہ انگلی پکڑانے پر کلائی تک آ جائے سے ڈرتی تھی۔ سالم نے بنا کچھ کہے ہاتھ پیچھے ہٹا لیا۔ پہلے کی طرح وہ کرسیوں کی فولڈنگ کے بیگز کندھے پر لٹکائے چل رہا تھا، بدر چھتری تانے سنبھل سنبھل کر ہموار سطح پر پیر رکھ کر چلنے کی کوشش کر رہی تھی۔
’’اب اگر گر جاتی ہو تو میں بالکل نہیں پکڑوں گا۔‘‘
اس نے فٹبال کے انداز میں سامنے پڑے پتھر کو ٹھوکر لگائی۔
بدر اور محتاط ہو کر چلنے لگی۔ مجلس کے دروازے میں پڑے فٹ میٹ پر سالم نے جوتے کھولے تو بدر نے بھی کھول دیئے۔ وہ موبائل اٹھا کر یقیناً وقت دیکھ رہا تھا۔
’’تم بھی صلوٰۃ کر لو میں بھی، پھر تم اپنے بارے میں بتانا۔‘‘
وہ نماز پڑھ کر مجلس میں آیا تو لباس بھی تبدیل تھا۔ اب سرمئی آدھے آستین کی ٹی شرٹ اور سیاہ ٹراؤزرز پہنے ہوئے تھا۔ لمبے، گھنے اور کھردرے بال کنگھی کیے ہوئے تھے۔
یہ الگ بات کہ خود بدر بھی اس کی طرح کنگھی کر کے چٹیا کے دو چار بل ڈال کر آئی تھی تاکہ ڈھیلے رہ کر سوکھ جائیں۔ ویسے بھی بنا ربن کے اس کے سلکی بالوں کی چٹیا کہاں بندھی رہتی تھی۔ اس نے حتٰی الامکان شیفون کے دوپٹے کو حجاب کی طرز پر اوڑھ کر بال وال چھپا رکھے تھے پر دیکھنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں جو دیکھنا چاہیں دیکھ ہی لیا کرتے ہیں۔
’’تمہارے بال بہت خوبصورت ہیں۔ میری ایک اختی کے کم ہیں تو ماں سارا دن جبالی ٹوٹکے ڈھونڈ کر اس کے سر پر لیپ کیے رکھتی ہے۔‘‘ وہ بہن کا سوچ کر مسکرایا۔
’’جبالی سے یاد آیا میں اور حسین بنیادی طور پر پہاڑی قبائل سے ہیں۔ جبل/جبال یعنی پہاڑ۔ ظفار کے یہ پہاڑ حسین کے بزرگوں کی ملکیت ہیں۔ یہ گھر بھی حسین کا ہے۔ خریف کے آغاز کے بعد ہی اس کی دادی صلالہ شفٹ ہوئی ہیں۔ جیسے ہی جبل پر حالات نارمل ہوں گے وہ اپنی شغالہ (کام والی) کی ٹیم کے ساتھ واپس یہیں آ جائیں گی۔ جبالی بزرگ شہر کی زندگی نہیں گزار سکتے۔ یہاں دادی کا گائے اور بکریوں کا فارم ہے اونٹ ہیں جن کے بغیر وہ اداس ہو جاتی ہیں، پھر حسین کے فیملی ممبرز ان کو یہاں وزٹ کرتے رہتے ہیں۔ میں خود کئی دفعہ یہاں آ چکا ہوں۔ اس کے مخالف سمت اتنے ہی فاصلے پر جو وادیاں اور پہاڑ ہیں میرے اجداد کی ملکیت ہیں ہمارا بھی وہاں ایسا ہی گھر اور اونٹوں، بکریوں کے فارم ہیں۔‘‘
’’تو پھر آپ وہاں کیوں نہیں گئے؟‘‘
’’اس کا سیدھا جواب تو یہ ہے کہ بیرونی ڈسٹربنس سے بچنے کے لیے حسین کے اس گھر کا انتخاب کیا گیا۔ اصلی جواب میں ایک اضافہ یہ بھی ہے کہ میں نہیں چاہتا میرے گھر والے جانیں میں کہاں ہوں۔ کوئی بھی یہ نہیں سوچ سکتا ایسے خطرناک موسم میں جب آر او پی نے ساری وادیاں خالی کروا لی ہیں اس طرف آنے پر پابندی لگا دی ہے تو میں کوئی خفیہ راستہ استعمال کر کے شرطے کو ڈاج کروں گا۔ ایک ذمہ دار شہری ہونے کے باوجود میں نے ٹین ایجرز کی طرح قانون توڑا ہے۔ عشق میں انسان ایسے ہی نہ سمجھ میں آنے والے قدم اٹھاتا ہے اور توقع رکھتا ہے دوسرے بھی میری کیفیت کو سمجھیں گے اور ٹین ایجرز والا حساب کتاب ہی رکھیں گے۔‘‘
’’مطلب شرطے آپ کو بھی پکڑ سکتے ہیں؟ حالانکہ آپ کو تو خود میجر طلال نے یہاں بھیجا تھا۔‘‘ بدر کو میجر پر بھی اندر ہی اندر اب تاؤ تھا۔
’’زوجہ محترمہ، ہر کسی سے بدگمان نہیں ہوتے، میجر نے ہمارا نکاح اس لیے کرایا تھا کہ تمہاری حرمت خطرے میں تھی، ڈاکومنٹ ڈھونڈ لینے کا اسے یقین تھا۔ لیکن وادی جبال آنے پر اس نے میری نئی شادی کو یکسر بھول کر جیل میں ڈال دینا تھا۔ اسی لیے تو شارٹ کٹ اور غیر معروف راستے استعمال کیے ہیں۔ ادھر آنے کا آئیڈیا معتصم کا تھا۔‘‘
’’میں سمجھتی تھی اس کے بال ہی پاگل سائنس دانوں جیسے ہیں وہ خود بھی پاگل ہی ہے۔‘‘
‘‘Moatassam The Mad Scientist.‘‘
الفاظ دہراکر وہ بلند و بانگ قہقہے لگا رہا تھا۔
’’اس پر یہ میڈ سائنٹسٹ والا لقب بہت سوٹ کر رہا ہے حبیبی۔‘‘ وہ پھر سے بھرپور مردانہ بلند و بانگ قہقہہ لگا کر ہنسا تھا۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page