کسی اجنبی سے دیار میں: قسط نمبر 9
وہ جب اٹھی تو دماغ فوراً ہی شعور پکڑ گیا، اس نے سر گھما کر اس کے بیڈ کی طرف دیکھا، بیڈ خالی تھا۔ وقت دیکھنا چاہا کمرے میں کوئی کلاک نہیں تھا۔ روشنی نائٹ موڈ پر ہی تھی۔ بدر کو لگا آغاز صبح ہے یہی دیکھنے کے لیے اس نے ونڈو پر پڑا پردہ اٹھایا اور باہر دیکھنا چاہا۔ ونڈو کی باہر والی سائیڈ پر بھی مومی شاپر چڑھا ہوا تھا۔ بہت غور سے دیکھنے پر رم جھم برستی بارش میں پہاڑ نظر آئے۔
’’واش روم وغیرہ تو دوسرے بیڈ روم کا ہی استعمال کرنا چاہیئے۔ یہی احسان بہت ہے کہ اس کے کمرے میں سو رہی ہوں۔‘‘
جب وہ اپنے تئیں اپنے بیڈ روم میں آئی تو کلاک پر نظر پڑی صبح کے دس بج رہے تھے۔
’’میں اتناااا سوئی ہوں، اف…!‘‘
’’اس کی جگہ میں ہوتی تو کبھی بھی اس کا اتنا سونا برداشت نہ کرتی کچھ نہ کچھ گرا کر اٹھا دیتی۔‘‘
بقول مہرو کے یہ اس کا نفسیاتی مسئلہ ہے کسی کو سوتے دیکھ کر برداشت نہیں کر سکتی۔
فخر کہتی تھی بے صبری ہے مجھے اس لیے جلدی اٹھا لیتی ہے تاکہ باتیں کر سکے۔
وہ سچ میں ایسی ہی تھی جب خود اٹھ جاتی تو ساری بہنوں کو اٹھا کر ہی دم لیتی تھی۔ واش روم سے فریش ہو کر نکلی تو وہ کچن سے ناشتے کی ٹرے اٹھائے باہر نکل رہا تھا۔
جلے ہوئے سلائس، ابلے انڈے اور بھاپ اڑاتی چائے۔
’’میں تو ایکسرسائز کے فوراً بعد ناشتے کا عادی ہوں لیکن آج تمہاری وجہ سے ابھی تک نہیں کیا۔‘‘ وہ کچن سے اسٹول لا کر عین اس کے سامنے بیٹھ گیا، بدر صوفے پر بیٹھی اور درمیانی تپائی پر ناشتے کے نام پر جلے ہوئے سلائس سامنے پڑے تھے۔ سالم نے انڈہ چھیل کر اس کی طرف بڑھایا۔
’’آپ کھائیں ،میں خود چھیل لوں گی۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے میں اگر آفر کروں، آؤ تمہیں نہلا دوں تمہارے کپڑے بدلوا دوں تو تب ہی یہ دونوں کام خود کرو گی۔‘‘
چائے کا گھونٹ بھرتی بدر کا حلق جل گیا۔
’’مجھے آپ کی یہ بولڈینس بالکل نہیں پسند، احتیاط سے بولیں تو اچھا ہے۔‘‘ بدر کا فشار خون بلند ہوا تیوری بھی چڑھ گئی۔
’’سیانے کہتے ہیں Fate favours the bolds. اب مجھے نہیں معلوم تم بولڈ کن معنوں میں بول رہی ہو لیکن میری ماں کی ایک بات تو سچ ثابت ہو گئی۔ ماما کہتی ہیں ہندی لوگ صفائی پسند نہیں ہیں ہند کے مسلمانوں کو صفائی نصف ایمان ہے کی سینس ہی نہیں ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ انڈہ کھانے کے بعد بدر نے چائے کا مگ ہاتھ میں پکڑ لیا اور غور سے اسے سننا شروع کیا۔ وہ پرفیکٹ پوسچر کے ساتھ اسٹول پر مگ تھامے بیٹھا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
’’مطلب یہ کہ تمہاری جگہ کوئی عرب خاتون ہوتی تو وہ سب سے پہلے شاور لے کر بارش کے پانی میں بھیگا لباس بدلتی۔ جبکہ تمہارے ڈریس میں تو کل کی ہوئی قے کی اسمیل بھی تھی لیکن تم نے پھر بھی چینج نہیں کیا۔ حتٰی کہ اب بھی۔‘‘ وہ شرمندہ کرنے والی باتیں بھی اتنے ٹھوس لہجے میں بول رہا تھا کہ بدر اپنے فعل سے زیادہ اس کے اعتماد پر حیران ہوئی جا رہی تھی۔
’’سارا کھیل ہی پیسے کا ہے، میجر طلال نے کہا تھا یہ بھی عرب کے ارب پتی خاندان کا فرزند ہے۔ اتنا پیسہ ہمارے پاس ہو تو ہم بھی ایسے ہی سب کو جوتے کی نوک پر رکھ کر اعتماد سے باتیں سنائیں۔‘‘ بدر عادتاً دل ہی دل میں خود سے گفتگو فرمانے لگی۔
’’ہمارے اجداد بلکہ موجودہ جنریشن بھی انہی چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے غیرعرب خاص کر ہندی مسلمانوں کو اسلام سے دور سمجھتی ہے۔‘‘
اب بدر سچ میں شرمندہ ہوئی تو زبان اپنے آپ چل پڑی۔
’’میں آپ کے لائے کپڑے پہننا نہیں چاہتی تھی اس لیے کل رات کچھ چیزیں خلاف طبیعت بھی برداشت کر لیں۔‘‘
’’میں نے تو کہا تھا کہ خود پسند کر لو مجھے اس وقت جلدی میں جو سمجھ آیا خرید لیا۔ اویسسسس۔‘‘ اس نے اٹھ کر اس کے قریبی صوفے پر پڑے شاپنگ بیگ اسی صوفے پر الٹ ڈالے۔
’’مجھے اندازہ ہو گیا تھا تمہیں یہ سب خریدنا اچھا نہیں لگا لیکن اس میں برائی کون سی ہے یا غصہ کرنے والی بات کون سی ہے میں یہ نہیں سمجھ سکا۔‘‘ وہ سنجیدگی اور سادگی سے پوچھ رہا تھا۔
بدر نے سرخ چہرے کے ساتھ خالی مگ تپائی پر پٹخا۔
’’آپ میری انسلٹ کر رہے ہیں وہ بھی اس لیے کہ میں غلط لوگوں کے پاس پھنس گئی تھی پر اللہ کی قسم میں غلط لڑکی نہیں ہوں۔ نہ میرا ان لوگوں کے پیشے سے کوئی تعلق ہے۔‘‘ بدر کے لیے یہ بہت بے عزتی کی بات تھی کوئی مرد اسے ایسی ویسی لڑکی سمجھ کر جیسی چاہے اس کے لیے چیزیں خریدے۔ احساس توہین اور بے بسی سے آنسو اپنے آپ ہی بہنے لگے۔
’’ہے آئم سوری…‘‘وہ اس سے زیادہ حیران ہو کر عادتاً ویسے ہی ہاتھ اوپر کر کے اس کے رونے پر سوری کر رہا تھا جیسے پچ میں فٹ بال کھیلتے فاؤل ہونے پر وہ کیا کرتا تھا۔
’’میں سمجھ گیا یہ سب کلچر ڈفرنس کا نتیجہ ہے میں نے تو تمہاری سہولت کے لیے شاپنگ کی تھی لیکن شاید تمہارے کلچر میں اسے حرمہ (بیوی) کی انسلٹ سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تو یہ سب لباس ہی ہے۔ نہ مرد خریدتے جھجکتے ہیں نہ حرمہ انسلٹ سمجھتی ہے۔‘‘ وہ اب اردو کی بجائے صاف شفاف انگریزی میں جواب دے رہا تھا۔
’’میرا خیال ہے ہمیں ایک دوسرے کے کلچر پر کمپرومائز کرنا پڑے گا۔ میرا یقین کرو میں نے زوج کی حیثیت سے فرض سمجھ کر کیا تھا۔ تمہاری حفاظت ، ضرورت اور سہولت کا خیال رکھنا میری ذمہ داری ہے ہم عرب بے حد خوش اسلوبی سے اپنی حرمہ کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔‘‘
وہ اس کی ساری وضاحتوں پر سوں سوں کرتی کپڑے، ٹوتھ برش وغیرہ اٹھا کر بیڈ روم کی طرف بڑھ گئی۔
’’دادا آپ غلط کہتے تھے کہ سعودی اور مصری عورتیں مشکل ہیں ہندی اسپیشلی پاکستانی خواتین کی نفسیات سب سے زیادہ مشکل ہے۔‘‘ اس نے اپنے گھنے اور سخت بالوں میں انگلیاں پھنسائیں۔
’’خاص کر ان کا کلچر تو میاں بیوی کے لئے بھی بکواس ہی ہے۔‘‘ اسے کورس کے لیے انڈیا میں گزارے آٹھ مہینے یاد آ گئے۔
’’لیکن پاکستان تو اسلامی ملک ہے۔‘‘
اسے حسین کے سامنے لیا جانا والا اپنا اسٹانس یاد آ گیا۔ وہ بھی تو انڈیا پاکستان کو ہند ہی کہتا تھا۔ بدر کو بھی ہندی لڑکی ہی کہتا تھا سالم کے قائل کرنے پر پاکستانی تسلیم کیا تھا۔
’’ان کی جو بھی نارمز اینڈ ٹریڈیشنز ہوں مجھے اپنا عرب کلچر اسے بتا دینا چاہیئے تاکہ آئندہ اس کے رونے کی نوبت نہ آئے نہ کوئی غلط فہمی ہو۔‘‘
’’بات کر رہا تھا کلچر ڈفرنس کی… جیسے پاکستان مریخ پر ہو۔ مجھے تو یہی نہیں معلوم یہ شادی اصلی ہے یا نہیں تو خواہ مخواہ تمہاری بکواس شاپنگ سے اپنی انسلٹ کرواؤں۔ یا اللہ بس جلدی سے معجزہ کر دے۔ وقاص کو جینی کے قتل میں آج ہی پھانسی لگ جائے اور شیخ طبوق کا ذہنی توازن بگڑ جائے، اسے اپنا نام تک بھول جائے اور میں شام کو ہی پاکستان کے لیے روانہ ہو جاؤں۔ بس اتنی سی دعا ہے قبول کر لو پیارے اللہ میاں جی۔‘‘ بدر جھٹک جھٹک کر بالوں کو خشک کرتی دعائیں کر رہی تھی۔
اس نے سالم کا خریدا ہوا گلابی رنگ کا انڈین سوٹ پہنا ہوا تھا۔ دوپٹہ اٹھایا تو حسب سابق وہ بھی گلابی نیٹ کا تھا۔ بدر کو وہ بھی برا ہی لگا۔
’’توبہ ہے انڈین سوٹ اور اسٹف کتنے گھٹیا ہیں سٹار پلس پر تو ہم یونہی مائل ہوئے رہتے تھے۔ ہمارے پاکستان کپڑے کا جواب ہی نہیں۔ مہرو کو بتاؤں گی کتنی ہلکی کوالٹی ہے انڈین کپڑوں کی۔‘‘ اس نے دوسرے سوٹ کا شیفون کا کرن لگا دوپٹہ اٹھا کر سر پر اوڑھ کر شیشہ دیکھا تو وہ بہتر لگا۔
’’بدر تم نے کل بھی کھانا نہیں کھایا تھا اب ناشتہ بھی نہیں کیا، ایسے تو بیمار پڑ جاؤ گی۔ لنچ میں کیا کھاؤ گی میں وہ بنانے کی کوشش کرتا ہوں حالانکہ میری کوکنگ اچھی نہیں ہے۔‘‘
’’میں خود بنا لوں گی۔‘‘ ساتھ ہی بدر نے دانتوں تلے زبان دے لی۔
خود کے ذکر پر وہ کسی بھی وقت کچھ بھی بول دیتا تھا اس کا اندازہ بدر کو بہت اچھی طرح ہو گیا تھا۔
’’اوکے تم بنانا، میں تمہیں اپنے اور اپنے کلچر کے بارے میں سب بتاؤں گا۔ سب کچھ میں نے کچن میں رکھ دیا ہے۔‘‘
بدر پہلی بار کچن میں داخل ہوئی وہ جدید طرز پر بنا خوبصورت ٹائل سے مزین صاف ستھرا کچن تھا۔ سنک کے بازو میں آٹو میٹک واشنگ مشین فکس تھی، واشنگ مشین کے عین سامنے فریزر رکھا ہوا تھا۔ وہ جھک کر فریزر میں جھانکنے لگی جب آہٹ پر پلٹی تو سالم اپنے اور اس کے اتارے ہوئے کپڑے واشنگ مشین میں ڈال رہا تھا۔ بدر تب چونکی جب وہ ٹائمر سیٹ کر رہا تھا۔
’’کیا کر رہے ہیں آپ؟‘‘
’’لانڈری۔‘‘
’’وڈے آ ئے صفائی پسند، ککھ پتہ نئیں اور لانڈری کرنے لگے ہیں۔‘‘ بدر آنکھیں گما کر اپنی مادری زبان پنجابی میں بڑبڑائی۔
’’جینٹس اور لیڈیز ڈریسز کو اکٹھے واش نہیں کرتے، اوکے۔‘‘
’’اوکے۔‘‘ اس نے سینے پر ہاتھ رکھ کر سر تسلیم خم کیا۔
معتصم کے خریدے ہوئے سامان میں فروزن فوڈ کے علاوہ فروزن چکن بھی تھی۔
’’اس کے پیس بنا دیں چکن کڑاہی کے لیے۔‘‘
اس نے چار پیس بنا کر سامنے رکھ دیئے۔
’’اس کی چکن کڑاہی بنے گی؟‘‘
’’دو پیس بنانے تھے؟‘‘
’’کبھی چکن کڑاہی دیکھی ہے؟‘‘
’’تمہیں کیوں لگتا ہے تمہاری یہ چکن کی ڈش ورلڈ فیمس ہے اور ہر انسان کو اس ڈش کا معلوم ہے؟‘‘ وہ اسے دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔
’’آپ کو چکن کڑاہی کا نہیں پتہ؟‘‘ بدر کو صدمہ ہی لگا۔
’’پاکستانی چکن بریانی کا پتا ہے وہ اکثر کھاتے ہیں ہم، خیر تم انسٹرکشنز (ہدایات) دو میں فطین رجال (رجال عربی لغت میں اور مرد اردو میں) ہوں۔ ایک ہی بار میں تمہاری یہ ڈش سیکھ لوں گا۔‘‘
بدر نے چکن کے چھوٹے پیس بنوا کر نان اسٹک کڑاہی میں دل کھول کر کوکنگ آئل ڈالا۔ اب شاک ہونے کی باری سالم کی تھی۔
’’پورے مہینے کا آئل اس ڈش میں ڈالتے ہیں؟‘‘
’’چکن کڑاہی ایسے ہی بنتی ہے۔‘‘
’’یہ تو مریض (بیمار) کر دینے والی ریسیپی ہے میں اس کو نہیں کھا سکتا۔‘‘
اس نے اوٹس نکال کر ساس پین میں ڈالے چکن کے دو تین چھوٹے پیس ڈالے، پانی ڈالا اور کری مصالحہ ذرا سا ڈال کر برنر جلایا اور اپنا لنچ پکنے کے لیے رکھ دیا۔
مجلس میں سالم کے فون میں سے اذان کی آواز آ رہی تھی۔
’’پہلے صلوٰۃ (نماز) کر لیں پھر کوکنگ کو دیکھتے ہیں، ویسے میرا لنچ جلنے والا نہیں ہے تم چاہو تو فلیم بند کر لو۔‘‘
بدر نے سر ہلا دیا۔
چکن کڑاہی کو ہلکی آنچ پر دم لگا کر جب وہ نماز کے لیے آئی تو وہ نماز پڑھ چکا تھا۔
اپنی پسند کی ہنڈیا کے بعد بدر کے لیے مسئلہ روٹی کا تھا اس نے سارے کیبنٹ اور شاپنگ بیگ چھان مارے آٹا نہیں ملا۔ تب اس نے میدہ گوند کر اپنے لیے سفید روٹی بنائی۔ ان کے گھر میں تو چکی سے سرخ گندم کا آٹا خریدا جاتا تھا میدے سے پوریاں یا سموسے بنائے جاتے تھے۔ بدر نے سوچ کر یہی نتیجہ نکالا کہ یہ لوگ روٹی کی بجائے بیکڈ بریڈ وغیرہ کھاتے تھے۔ بدر نے اس کے لنچ کا ڈھکن اٹھا کر دیکھا بنا گھی کا ابلا ہوا دلیہ تیار تھا جس کی رنگت دیکھ کر ہی بدر کا دل عجیب ہونے لگا۔
’’اف اللہ، چکن بھی نہیں بھونی، یقیناََ سمیل آ رہی ہو گی۔‘‘
’’نمک مرچ ہلدی نام کی شے سے بھی شاید یہ لوگ واقف ہی نہیں ہیں۔‘‘
سالم نے اسے ساس پین میں جھانکتے دیکھ لیا۔
’’تم میرے کھانے کا احترام کرو، میں تمہارے کا کر رہا ہوں۔‘‘ وہ یقیناََ اس کے تاثرات نوٹ کر چکا تھا۔ اب انہوں نے اکیلے لنچ کیا، بدر نے کچن میں اور سالم نے مجلس میں۔
’’چلیں؟‘‘ وہ اسے کچن کے دروازے میں کھڑا پوچھ رہا تھا۔
’’کہاں؟‘‘
’’باہر، حبیبی ہم جبل پر خریف بتانے اور ہنی مون منانے آئے ہیں گھر میں تھوڑی بیٹھے رہیں گے۔‘‘
’’نہیں، میں یہیں ٹھیک ہوں آپ اکیلے باہر چلے جائیں۔‘‘
’’بدر بہت کچھ ایسا ہے جو تمہارا جاننا ضروری ہے اس لیے باہر کھلی فضا میں بیٹھ کر مطر سے لطف اندوز ہوتے بھاری بھرکم باتیں کرنا آسان رہے گا۔‘‘
’’میں اس کو ناراض نہیں کر سکتی میجر طلال نے کہا تھا یہ وہ چابی ہے جس سے میرے لیے سارے بند دروازے کھل سکتے ہیں۔ تو ہر اچھی بری بات سننا بھی پڑے گی اور اگنور بھی کرنی ہو گی۔‘‘ بدر نے اندر ہی اندر حساب کتاب کر کے اس کے بے تکلفانہ حبیبی کو اگنور مار کر قدم باہر کی طرف بڑھا دیئے۔
’’رکو پہلے جوتے بدلنا ہوں گے۔‘‘
’’مگر میرے پاس کوئی دوسرا جوتا نہیں ہے۔‘‘
’’سوری مجھے جوتے بھی خریدنا چاہیئے تھے۔‘‘