کسی اجنبی سے دیار میں : قسط نمبر 8
لمحوں میں گاڑی پھر سے سپیڈ پکڑ چکی تھی جب سپیکر میں فون کی آواز گونجنے لگی ۔
’’میجر طلال کے اعتماد کے لوگ وقاص کی بلیک میلنگ والی کٹ برآمد کرنے گئے ہوئے ہیں ۔ ‘‘
’’بدر کے پاسپورٹ کا کیا بتاتا ہے اسی حرامی کے پاس ہے یا طبوق کے ؟ ‘‘
’’سب کچھ اسی کے پاس ہے صبح تک بدر کے قانونی کاغذات تیار ہوں گے ان شاء اللہ…!‘‘
’’پاکستان والے نیٹ ورک کا کیا کر رہا ہے طلال البلوشی؟ ‘‘
’’وقاص سے ملنے والی معلومات اور وہاں کے فون نمبرز وہ اپنے سورس کو ٹرانسفر کر چکا ہے تاکہ لوکیشنز ٹریس کرکے انکو قانون کے حوالے کیا جا سکے ۔ ‘‘
’’وہاں والی جعلی ویڈیوز وہ لوگ شئیر کر سکتے ہیں ۔ ‘‘
’’نہیں کریں گے میجر نے وقاص کی کال کروا دی ہے انکو کہ سب ٹھیک ہے میٹریل محفوظ رکھیں۔ انکے فرشتوں کو بھی خبر نہیں کہ انکا اکبر حرامی باس پکڑا گیا ہے ۔ ‘‘
’’ٹھیک جا رہے ہو ، ریزورٹ کے قتل کا معاملہ کہاں تک پہنچا ؟‘‘
’’آر او پی پتھروں کو بولنے پر مجبور کر دے ریزورٹ مقتولین کے قتل کے تو کئی عینی شاہدین ہیں۔ لعنتی بتا رہا ہے شیخ طبوق جب ریزورٹ پہنچا تو وہاں سسٹر بدر موجود نہیں تھیں ۔ اس نے وقاص کو کال کر کے استفسار کیا ، اسکے بعد اسکو ڈھونڈنے کا ٹاسک دے کر شیخ ناراض ہو کر لابی میں چلا گیا ۔ وقاص جب ریزورٹ پہنچا تو وہاں سسٹر واقعی موجود نہیں تھیں۔ اس نے یہ سوچ کر ساتھ والا سوئٹ ناک کیا کہ ہو سکتا ہے وہاں چلی گئی ہو ۔تو آ گے سے وہ فلپینو لڑکی نکلی جو اسکی ایکس بھی تھی۔ ‘‘
’’نعم !‘‘
’’وقاص کہتا ہے فلپینو گرل نے تکرار کے دوران اس پر پھل کاٹنے والی چھری سے حملہ کیا تھا ، بے بی سٹرولر بطور ڈھال استعمال کرتے وہ کوریڈور میں نکل آ یا تو خود مقتولہ نے سٹرولر کو اسے مارنے کے لئے ایکدم دھکا دیا۔ وہ پیچھے ہٹا گیا ۔ سٹرولر لاک نہیں تھا بچہ اسی میں لیٹا ہوا تھا یوں حادثاتی طور پر سیڑھیوں سے نیچے گرنے پر بچے کی موت ہوئی جبکہ مقتولہ کو خود وقاص نے عینی شاہدین کے سامنے گلے پر چھُری مار کر قتل کیا ہے ۔ ‘‘
اتنے چھوٹے بچے کی اتنی حسرت ناک موت پر بدر کی روح کانپ گئی ۔
’’آہ پور جینی ، ایسی موت تو وہ بھی ڈیزرو نہیں کرتی تھی ۔ ‘‘
’’شیخ طبق کی کوئی خیر خبر؟ ‘‘
’’اپنے سورس استعمال کر رہا ہے اچھی بات یہی ہے کہ ابھی کسی کو بھی اس معاملے میں تمہارے انوالو ہونے کی خبر نہیں ہے ۔ ‘‘
’’کہاں تک پہنچے ہو ؟ ‘‘
’’چڑھائی آ نے والی ہے اندازہ ہی لگا رہا ہوں جبل کی حدود شروع ہوتے ہی موسم پہلے سے زیادہ شدید ہو گیا ہے ۔ ‘‘
’’آر او پی کا کوئی سائن نظر آ یا؟‘‘ اب کٹ کٹ کر آ تی آواز معتصم کی تھی۔
’’فی الحال کوئی نہیں ، نیٹ ورک بند ہونے والا ہے ۔‘‘
’’فی امان اللہ!‘‘
سالم کا خدا حافظ ان تک یقینی طور پر نہیں پہنچا تھا۔ اس نے ڈرائیونگ کرتے ڈیش بورڈ کے مختلف کیبنٹ کھول کر کچھ تلاش کیا بالآخر گوہر مقصود ہاتھ آ ہی گیا۔
’’یہ چبانا شروع کر دو ورنہ کان بند ہو جائیں گے سر میں درد شروع ہو جائے گا ۔ ‘‘ منٹ فلیور چیونگم بار وہ اسے دے رہا تھا۔ بدر کو اس پر غصہ ہی بہت تھا سو پکڑی ہی نہیں۔
’’ہم کونسا جہاز میں بیٹھے ہوئے ہیں۔‘‘ اس نے نقاب کی اوٹ سے کھردرے لہجے میں جواب دیا۔ سالم نے ڈرائیونگ سے ذرا کی ذرا توجہ ہٹا کر اسے دیکھا تو پتہ چلا اسکا سیاہ ریشمی عبایا مکمل طور پر بھیگا ہوا تھا۔ شرطے خانے کے احاطے میں بھیگ تو وہ سارے ہی گئے تھے انکے لئے تو یہ لطف اٹھانے کا موسم تھا لیکن بدر بھیگے عبایا کے ساتھ دھیمی رفتار میں چلتے گاڑی کے اے سی کے سامنے بیٹھی سردی محسوس کر رہی تھی۔
’’تمہیں سردی لگ رہی تھی تو اے سی بند کیوں نہیں کیا ؟‘‘ وہ متعجب سا پوچھ رہا تھا لیکن وہ کچھ نہ بولی ۔ اسکے نزدیک وہ مارٹ میں جتنی اخلاق باختہ حرکت کر چکا تھا مکمل طور پر مشکوک ہو چکا تھا ،چنانچہ اسکا موقف تھا مشکوک اور ’’بولڈ‘‘ لوگوں سے بات چیت بالکل نہیں کرنی چاہیے ۔
’’یہ گیلا عبایا اتار دو ، میں اے سی بند کر دیتا ہوں پھر بہتر محسوس کرو گی ۔ ‘‘
وہ بدستور باہر ونڈو سکرین پر چلتے وائپرز دیکھتی رہی ۔
’’ہیٹر آن کر دوں ؟ ‘‘
دوسری طرف وہی جامد خاموشی رہی ۔
سالم نے اے سی بند کرکے گاڑی میں لگے رنگ برنگے بٹنوں سے چھیڑ چھاڑ کی تو جانے کس فریکوئنسی کا ریڈیو چل پڑا۔ کٹ کٹ کر آواز آ رہی تھی۔
’’تمام شہریوں اور سیاحوں سے موسم کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے درخواست کی جاتی ہے پہاڑوں اور وادیوں کا سفر مت کریں ۔ کسی ایمرجنسی کی صورت میں ان نمبرز پر رابطہ کریں۔ رائل عمان پولیس !‘‘
اعلان عربی اور انگریزی میں کیا گیا۔
بدر کے اب کان بند ہو چکے تھے۔ سر شدید بھاری ہو رہا تھا۔ متلی کی کیفیت شدید تر ہوتی جا رہی تھی ۔
’’کہا تھا نا چیونگم چباتی رہو ، اب پیچھے دیکھو کسی شاپر میں سپرائٹ وغیرہ ہو گی ۔ ‘‘
’’میں نے شیشہ کھولنا ہے باہر کی ہوا لینی ہے ۔ ‘‘
بدر نے رینج روور کے دروازے پر لگے بٹن اندھا دھند دبائے ، اسے مارٹ والی شرمندگی بھولی نہیں تھی وہ گاڑی میں قے کرکے مزید شرمندہ نہیں ہونا چاہتی تھی۔
’’میں کھولتا ہوں لیکن پھر باہر نہ دیکھنا ۔ ‘‘
’’کیوں ؟ ‘‘
وہ اسے دیکھ کر رہ گیا۔ بدر نے شیشے کھلتے ہی منہ باہر نکالا بارش کی بوچھاڑ اور ٹھنڈی ہوا نے کپکپی تو لگا دی لیکن متلی کی کیفیت فوراً کم ہوئی تھی۔ طبیعت سنبھلتے ہی اس نے آ نکھیں سکیڑ کر باہر دیکھا۔ کچھ نظر نہ آ یا اس نے نقاب ہٹا کر چہرے پر دونوں ہاتھ پھیرے اور پھر سے دیکھا …
نیچے …
بہت نیچے …
بہت ہی زیادہ نیچے …
سمندر تھا ۔
بارش کے شور کے باوجود غور کرنے پر اسے بپھری لہروں کا شور سنائی دینے لگا ۔ بارش کا موسم ،اتنی بلندی اور بہت نیچے گہرا سمندر ، ذرا سا سٹیرنگ تھرکتا تو … بدر کا دل سکڑ کر پھیلا تھا۔
’’ادھر تو سمندر ہے ۔‘‘
’’میری طرف کھائی ہے۔‘‘ وہ مسکرا کر بہت احتیاط سے موڑ کاٹتے بولا ۔
’’مجھے شرطے خانے کے آس پاس ہی رہنا تھا ۔ ‘‘
’’اچھا اااا …‘‘
بدر کو اسکا طنزیہ اچھا کہنا بہت برا لگا۔ اسے میجر طلال پر جو بھروسہ تھا وہ کم ہوتا محسوس ہوا۔
’’آ پکے دوست بتا تو رہے تھے نجم طبوق سے ابھی کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ ‘‘ بدر نے اپنی طرف سے اپنی بات کی لوجک دینی چاہی۔
’’زوجہ محترمہ فی الحال طبوق سے زیادہ ہمیں تمہارےin lawsسے خطرہ ہے ۔ ‘‘
’’آپ گھر والوں سے پوچھے بنا میری مدد کر رہے ہیں ؟ ‘‘
سالم نے اسے نظر بھر کر دیکھا ، آ یا وہ ہے ہی اتنی سادہ یا بن رہی ہے ۔ بدر نے اسکی نظروں کا ارتکاز محسوس کرکے سیاہ سکارف کے پلو سے نامحسوس انداز میں آدھا چہرہ پھر سے ڈھک لیا۔
گاڑی اب چڑھائی اتر رہی تھی اسکا انداز بدر کو کھلتے کانوں سے ہوا۔ سالم نے موبائل اٹھا کر اپنے سامنے سٹیرنگ پر رکھ لیا۔ اب وہ ڈرائیو کرتے موبائل پر انگوٹھا بھی چلا رہا تھا پھر یکایک گاڑی میں نصرت فتح علی خان گانے لگا۔
وفاؤں کی ہم سے توقع نہیں ہے
مگر ایک بار آزما کر تو دیکھو
زمانے کو اپنا بنا کر تو دیکھا
ہمیں بھی تم اپنا بنا کر تو دیکھو
خدا کے لئے چھوڑ دو اب یہ پردہ
ہم نہ سمجھے تیری نظروں کا تقاضا کیا ہے
کبھی پردہ ، کبھی جلوہ یہ تماشا کیا ہے
خدا کے لئے چھوڑ دو اب یہ پردہ
جان جاں ہم سے یہ الجھن نہیں دیکھی جاتی
خدا کے لئے چھوڑ دو اب یہ پردہ
کہ ہیں آج ہم تم نہیں غیر کوئی
شب وصل بھی ہے حجاب اس قدر کیوں
ذرا رخ سے آ نچل اٹھا کر تو دیکھو
ہمیشہ ہوئے دیکھ کر مجھکو برہم
کسی دن ذرا مسکرا کر تو دیکھو
جو الفت میں ہر اک ستم ہے گوارہ
یہ سب کچھ ہے پاس وفا تم سے ورنہ
ستاتے ہو دن رات جس طرح مجھکو
کسی غیر کو یوں ستا کر تو دیکھو
اگرچہ کسی بات پر وہ خفا ہیں
تو اچھا یہی ہے تم اپنی سی کر لو
وہ مانیں نہ مانیں یہ مرضی ہے انکی
مگر انکو پُرنم منا کر تو دیکھو
تمہیں دل لگی بھول جانے پڑے گی
محبت کی راہوں میں آ کر تو دیکھو
معنی خیز شاعری سے گاڑی میں چکراتی خاموشی اور بھی بامعنی لگنے لگی ۔ بدر کو کوئی انجانا خوف پھر سے حصار میں لے رہا تھا۔ اس نے سر ہاتھوں میں گرا کر اپنا اگلا لائحہ عمل طے کرنا شروع کر دیا۔ طویل سفر کا اختتام تالا لگے دروازے پر ہوا تھا۔ اسکے دیکھتے دیکھتے شیخ سالم حداد نے وزنی پتھر سے تالا توڑ کر موبائل ٹارچ اسکی طرف بڑھا دی۔
’’تم جا کے لائٹس آن کرو میں سامان نکال کر لاتا ہوں۔ ‘‘
٭…٭…٭
وہ موبائل ہاتھ میں پکڑے بارش سے بچنے کے لئے دہلیز سے اندر ضرور داخل ہوئی لیکن بند اور اندھیرے گھر میں حشرات الارض کی بہتات کا سوچ کر اسکی ہمت نہیں ہوئی وہ مزید اندر جا کر سوئچ بورڈ ڈھونڈے ۔ سالم نے اسے وہیں کھڑے دیکھ کر خود سوئچ بورڈ ڈھونڈ کر لائٹ آ ن کی تو وہ مجلس میں کھڑے تھے مزید تین دروازے اس مجلس میں کھل رہے تھے ۔ ساری مجلس میں وال ٹو وال صوفے سیٹ کئے گئے تھے بدر نزدیکی صوفے پر بیٹھ گئی۔ وہ گاڑی میں سے سارے شاپر لا کر صوفے پر ڈالتا گیا اور پھر ایلومینیئم کا دروازہ بند کر دیا۔ اسکے بعد وہ دایاں دروازہ کھول کر اندر چلا گیا دروازہ اپنے آپ بند ہوا تو بدر نے کھل کرسانس لی۔ کچھ سوچ کر وہ اٹھ کر دبے پاؤں چلتی بائیں دروازے کے سامنے پہنچ گئی اور پھر دل بڑا کرکے دروازہ کھول کر دیکھا تو وہ بھی بیڈ روم تھا۔ اس نے لائٹ آن کی ، عقابی نظروں سے چھپکلی ، کاکروچ وغیرہ کی غیر موجودگی کی تصدیق کی اور پھر دروازہ لاک کرکے بیڈ پر بیٹھ گئی۔ دیوار گیر فینسی کلاک رات کا ایک بجا رہا تھا۔ بدر نے پچھلے چند گھنٹوں میں تیزی سے رونما ہونے والے واقعات کو نئے سرے سوچنا شروع کیا ۔