سلسلہ وار ناول

کسی اجنبی سے دیار میں : قسط نمبر 8

’’تو بیٹا میری مانو شیخ سالم حداد سے نکاح کر لو ۔ ‘‘
بدر پر ایک بار پھر بجلی گری تھی۔
’’یہ سب کے سب ہوس پرست مجرم ہیں۔ ‘‘پہلا خیال اسے یہی آ نا چاہیے تھا اور بالکل یہی آ یا۔
’’خوش قسمتی کہو یا بدقسمتی آپ عرب کے ارب پتیوں میں پھنس گئی ہیں۔ شیروں کی لڑائی میں ہرنی خوامخواہ ماری جاتی ہے میں یہی نتیجہ نکال سکا ہوں بھیڑ کو بچنے کے لئے گھر کے بھیڑیئے کے ساتھ ڈاک خانہ جوڑ لینا چاہیے پھر وہ بھیڑیا جانے اور کتے جانے ،بھیڑ بری الزماں ۔ نہ میری اتنی استطاعت ہے کہ قبیلہ طبوق سے ٹکرا سکوں نہ آ پ کی اتنی حیثیت ہے کہ شیخ نجم طبوق سے لڑ سکو ۔ وہ آ پ کو دنیا کے کسی کونے میں ٹکنے نہیں دے گا۔ ‘‘
’’آپ مجھے اپنی حفاظت میں ادھر ہی نہیں رکھ سکتے ؟ جب حالات ٹھیک ہوں تو کسی شپ کے ذریعے میں واپس جا سکتی ہوں۔‘‘
’’بیٹا! یہ کوئی فلم تو ہے نہیں، نہ ہی فکشن کی کوئی کتاب ہے یہ حقیقی زندگی ہے جو بہت تلخ ہے ۔ میرے پاس بھلے اچھا عہدہ ہے لیکن میں ابھی بھی آؤٹ سائیڈر ہوں، بلوشی ان عمانیوں کا قبیلہ نہیں ہے ۔ انکے تو سینکڑوں سال سے قبیلے ایک دوسرے کے ساتھ رہتے آ رہے ہیں اپنی لڑائی یہ جب یہ چاہیں ایک دوسرے کا گال چوم کر ختم کر دیں۔ میرے جیسے قبیلے کے لوگ ابھی انکے رشتے دار نہیں ہیں جو یہ میری بیک پر کھڑے ہو جائیں ۔ ابھی میرے خاندان کی مزید ایک نسل ان میں کھپے گی تو شائد ہمیں بھی یہ اپنے اندر کی مخلوق سمجھ لیں۔ میں اپنے پیشے سے صرف اتنی بد دیانتی کر سکتا ہوں کہ بنا پاسپورٹ ، بطاقے اور پاکستانی آئی ڈی کے آ پکا نکاح شیخ سالم سے کرا دوں۔ میرا ضمیر کہتا ہے یہ بد دیانتی نہیں ہو گی کسی کی عزت بچ جائے گی حیثیت بڑھ جائے گی۔ ‘‘
’’آ پکو یقین ہے شیخ سالم حداد سے نکاح کے بعد میری انٹر پول سمیت شیخ نجم طبوق سے بھی جان چھوٹ جائے گی؟‘‘ بدر نے اب میجر کی آ نکھوں میں دیکھ کر صاف سوال کیا۔
’’سو فیصد یقین ہے …یہ شیخ جیسے بھی ہیں ایک دوسرے کی حرمت کا خیال رکھتے ہیں۔ شیخ نجم طبوق ، شیخ سالم حداد کی بیوی پر ہاتھ ڈالنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، وہ بیوی بھلے غریب الوطن بدر بدر جہاں کیوں نہ ہو ۔ نکاح کے بعد وہ بدر حداد ہو گی اور حدادی کسی طور طبوق سے کم نہیں ہیں بلکہ سالم حداد کرہ ستارے کی حیثیت سے طبوق پر بھاری پڑتا ہے ۔ ‘‘
بدر کو صورت حال مکمل سمجھ آ رہی تھی لیکن نکاح پر پھر بھی طبیعت مائل نہیں ہو رہی تھی۔ اسے اب کسی مرد بھی بھروسہ نہیں تھا۔ سب نکاح کے نام پر ہوس پرست نظر آنے لگے تھے ۔
’’جو آپ سوچ رہی ہیں وہ اپنی جگہ درست ہے لیکن شیخ حداد کو میں بچپن سے جانتا ہوں، اگر کبھی تاریخ پڑھی ہے تو اس میں جو ہیرو کی کوالٹیز ہوتی ہیں بالکل ویسے ہی ہیروئک قسم کے کردار ،زبان ، قوت ارادی کا مالک ہے ۔ اگر اتنے مشکوک حالات سے گزر کر آ نے کے بعد بھی آ پکو اپنا نام مرتبہ دینے کی آفر کر رہا ہے تو مجھے کامل یقین ہے تعلق بھی اپنے سابقہ ریکارڈ کی طرح نبھائے گا۔ فرض کر لو چند ہفتوں، مہینوں کے بعد چھوڑ بھی دیتا ہے تو شیخ نجم طبوق پلٹ کر آ پکی طرف نہیں آ ئے گا ۔ اپنے رائیول کی ٹھکرائی چیز اٹھانا طبوقوں کی توہین ہے ۔ میں عمانی ہونے کی حیثیت سے طبوق اور عمانی مزاج کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ اب جلدی فیصلہ کرلیں اس سے پہلے کہ طبوق اپنی ڈوریاں ہلانا شروع کر دے ، آ پکی اور شیخ حداد کی شادی کو کچھ وقت گزر چکا ہونا چاہیے۔‘‘پیپر ویٹ گھماتے میجر نے بدر کو بڑے ٹھوس الفاظ میں بنا جھجکے حقیقت بتائی، بدر کو نظریں اٹھانا محال ہو گیا چنانچہ اس نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے گلا کھنکار کے صاف کیا۔
’’ٹھیک ہے میں اس نکاح کے لیے تیار ہوں۔ ‘‘
’’ان شاء اللہ یہ فیصلہ تمہارے حق میں بہترین ثابت ہوگا۔‘‘
’’کہاں ہو گا نکاح؟‘‘
’’شرطے خانے کی مسجد میں۔‘‘
’’آپ چلیں گی مسجد؟‘‘
’’جی۔‘‘
’’میں خود نکاح پڑھاؤں گا۔ نکاح کے پیپرز بھی میرے پاس رہیں گے، تاکہ وقاص سے جونہی تمہارا پاسپورٹ ملے، ادھورے کاغذات میں پاسپورٹ کے کوائف لکھ کر حکومہ کو جمع کروایا جا سکے۔ ‘‘
سالم اور اس کے صدیق ان سے آ گے تھے۔ بدر اور میجر برابر چل رہے تھے۔ جب سالم نے پیچھے پلٹ کر ان دونوں سے اردو میں ہی پوچھا ۔
’’طلال بلوشی ! اپنی ہم وطن سے پوچھیں حق مہر کتنا لیں گی؟‘‘
’’شیخ حداد! میری ہم وطن سیدھی سادھی ہیں ،انہیں آپ کی حیثیت کیا معلوم ، کئیر ٹیکر کے حیثیت سے مطالبہ میں کروں گا۔‘‘ میجر طلال نے مسکرا کر جواب دیا۔
بدر بے جان ہوتی ٹانگوں کے ساتھ خود کو گھسیٹتے ہوئے میجر کے پیچھے پیچھے چلنے کی کوشش میں نڈھال ہوئی جا رہی تھی۔ قے کرنے کے بعد تو جسم اور بھی بے جان ہو چکا تھا۔
’’اس کو سچ مچ ساری اردو آ تی ہے؟‘‘
’’Linguistic Geniusہے، کوئی پندرہ بیس زبانیں تو آ تی ہوں گی اسے۔‘‘
’’یہ کن لوگوں میں پھنسا دیا یا رب !‘‘ وہ روہانسی ہو کر میجر کی تمام ہدایات پر عمل کرتی گئی۔
نکاح کے کاغذوں پر آ خری انگوٹھا لگانے کے بعد وہ گھٹنوں میں سر دے کر بیٹھ گئی۔ کاغذات ادھورے تھے۔ وقاص کی گرفتاری کے بعد برآمد کرکے مکمل کیے جانے تھے۔ پھر اسے شیخ حداد کی وجہ سے قانونی طور پر بطاقہ ملنا تھا۔ وہ جانے کون کون سی تدبیریں لڑا رہے تھے جبکہ وہ اپنے چھوٹے سے گھر میں ہونے والے پہلے نکاح کو یاد کر رہی تھی، جب جذبات اور امنگیں ہی الگ تھیں۔ ماں ،بہنوں کے رونے پر بھی اسے رونا نہ آ یا تھا اور اب خانہ خدا میں بیٹھ کر قبول ہے کہہ لینے پر آنسو ہی نہ تھم رہے تھے۔ بدر کو لگا وہ بے حد ڈھیٹ اور بے حمیت لڑکی ہے اس کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو اب تک ٹینشن سے دل بند ہونے پر مر کر جان چھڑا چکی ہوتی۔
’’مجھ میں ہی خامیاں ہیں تبھی میں زندہ ہوں۔‘‘ گھٹنوںمیں چھپے چہرے کو اس کا دل چاہا خود نوچ لے۔ اس کی نہ چاہتے ہوئے بھی ہچکیاں بندھنے لگیں۔
’’اٹھیے زوجہ سالم حداد ! اب اللہ کے گھر کے بعد اپنا گھر بھی آ باد کریں۔‘‘ میجر نے اسے مزید رونے سے باز رکھنا چاہا لیکن اللہ کے گھر میں بیٹھے ہونے کا خیال اسے مزید رلا رہا تھا ۔ باہر بارش تیز ہوئی تھی۔ مسجد کی کھڑکیوں پر بوچھاڑیں گرنے کی آواز بلند سے بلند تر ہوتی جا رہی تھی۔
’’اٹھو شاباش! ایسے تو تمہاری طبیعت مزید خراب ہو جائے گی۔‘‘شیخ سالم نے سیاہ حجاب میں لپٹے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تو اس نے فوراً سر اٹھا لیا۔ وہ اپنی چوڑی ہتھیلی اس کے سامنے کیے مدد کی پیشکش کر رہا تھا۔ بدر نے ٹھکرا کر دیوار کر سہارا لے کر کھڑے ہونا مناسب سمجھا۔
فق رنگت، نقاہت زدہ ہولے ہولے کانپتا سراپا اور مسلسل گریا سے سرخ آ نکھیں اور ورم زدہ سا چہرہ …
سالم کو اس پر گزرتی قیامتوں کو سوچ کر بے حد ترس آیا۔ اس کا دل کیا ہاتھ بڑھا کر ساتھ لگا لے ۔ اپنی معیت میں اپنے سہارے اسے باہر لے جائے لیکن وہ اس کی کیفیت سمجھ رہا تھا۔
’’چاہو تو میں ویل چیئر لے آ تا ہوں، مسجد میں موجود ہیں۔‘‘
’’نہیں !میں چل کر جا سکتی ہوں ۔‘‘
سالم نے اصرار نہیں کیا۔
اس کے نڈھال قدموں کے برابر چلتا ہوا وہ اسے لے کر میجر طلال کے دفتر میں داخل ہوا تھا۔
٭…٭…٭
حسین نے میجر کے سامنے پڑی ٹرے اٹھا کر سالم اور بدر کے سامنے کر دی۔ چائے کی طلب شدید تھی سو بدر نے فورا ہی مگ اٹھا لیا۔
’’پلیز یہ کنافہ بھی لیں۔‘‘
لیکن بدر کو کچھ نمکین کھانے کی طلب تھی تو اس نے کنافہ کی بجائے شامی کباب اٹھایا ۔ جیسے جیسے وہ چائے کے گھونٹ بھرتی جا رہی تھی معدے کی اینٹھن تھمتی جا رہی تھی ۔ وہ چاروں وقاص کے لئے کئے جانے والے ریڈ کی بات کر رہے تھے جب شرطہ خانے کا سرکاری و عوامی فون بجنے لگا۔ بدر کے دیکھتے دیکھتے میجر طلال البلوشی اپنی سیٹ سے کھڑا ہو چکا تھا۔ بدر نے بغور اسکی بات سننی شروع کر دی تاکہ عربی سمجھ سکے ۔ جونہی اس نے فون رکھا بدر نے خوشی میں ڈوبی آواز سے پوچھ ڈالا ۔
’’شیخ طبوق نے وقاص کا قتل کر دیا؟ ‘‘
’’نہیں ، بیچ ریزورٹ میں دو قتل ہو گئے ہیں ، غالب امکان یہی ہے قتل ہونے والی فلپائنی عورت اور اسکا بچہ وہی ہیں جنکا ذکر آپ نے کچھ دیر پہلے کیا تھا ۔ ‘‘
بدر کے سنبھلتے اعصاب پھر سے چٹخ گئے ۔
’’اسکو کس نے مار ڈالا ؟ ‘‘تصور میں قلقاریاں مارتا بچہ آ گیا جسکے کئی نقوش وقاص سے ملتے تھے ۔
’’شائد وقاص یا نوید نے ، جو بھی شخص ہے موقع پر ہی گرفتار ہو گیا ہے بس یہیں پہنچنے والا ہے ۔ ‘‘
ابھی بات پوری بھی نہ ہوئی تھی برستی بارش میں شرطے خانے کے کھلے گیٹ سے آ گے پیچھے آر او پی کی کئی گاڑیاں داخل ہونے لگیں ۔
’’سالم! کام ہماری توقع سے زیادہ خراب ہوتا جا رہا ہے بہتر ہے تم نکلو ، کسی کی نظر میں آ نے سے پہلے تم دونوں کا شہر سے دور جانا ضروری ہے ۔‘‘
میجر اپنی مصیبت میں پڑ چکا تھا وہ تینوں الگ راز و نیاز میں مصروف تھے بدر ہونقوں کی طرح خالی مگ ہاتھ میں لئے کھڑی تھی جب ہتھکڑی میں جکڑا وقاص اندر لایا گیا۔
اسکی آ نکھیں باہر کو ابلی پڑی تھیں ، چہرے پر دہشت و وحشت برس رہی تھی ۔ بدر کو دیکھ کر وہ مزید مشتعل ہو کر بلند آواز سے ہذیان بکنے لگا۔ اس پر قتل کی وحشت سوار تھی ۔
’’(گالی) تونے مجھے برباد کر ڈالا تیری نحوست سب کھا گئی،میں تجھے بھی مار ڈالوں گا۔ ‘‘
غلیظ گالیاں بکتے اس نے بھاگ کر بدر کو سر کی ٹکر مارنا چاہی تھی لیکن درمیان میں شیخ سالم حداد آ گیا ۔ اسکا نفرت کی طاقت سے بھرا گھونسا وقاص کی ناک پر پڑا تھا۔
خون کا فوارہ ناک سے نکل کر فرش پر پھیلنے لگا ۔
’’میرے سامنے میری حرمہ کو گالی دینے کی تمہاری ہمت کیسے ہوئی ؟ تُو سالم حداد کی حرمہ کو جان سے مارے گا … تُو …‘‘ اسکا دوسرا شدید غیض سے بھرا گھونسا شرطے نے اپنے بازو پر روکا ۔
’’شیخ حداد روح بیت!‘‘ ( شیخ !گھر جاؤ)
بدر چاندی کا مجسمہ بنی کھڑی تھی سیاہ غلاف میں لپٹا سفید چاندی کا مجسمہ …
’’گھٹیا عورت… اسکی منہ بولی بیوی بن گئی ہو طبوق کی بنتے موت کیوں آ رہی تھی۔ اسکی جوانی دیکھ کر ریجھ گئی،اسکا بڑھاپا برا لگ رہا تھا۔ ‘‘
’’مجھے بس چند سیکنڈ دے دو میں اسکی زبان بند کروا لوں بس چند سیکنڈ …‘‘
’’سالم! مجنون ہو گئے ہو کیا ؟ اسکو ہم پر چھوڑو جلدی نکلو یہاں سے ، اس سے پہلے کہ تمہارے گھر اور طبوق کو اس معاملے سے تیرا کوئی لنک پتہ چلے جلدی کرو۔‘‘ حسین اسے گھسیٹتا ہوا باہر لے آ یا ، بدر دہشت سے وہیں کی وہیں کھڑی رہ گئی ۔
اگلے ہی لمحے حسین اسے سسٹر سسٹر پکارتا پیچھے آ نے کے اشارے کر رہا تھا۔
سالم نے جھٹکے سے حسین سے بازو چھڑا کر پیچھے پلٹ کر اسکو دیکھا۔
’’بدر! جلدی آؤ، ہمارے پاس وقت بالکل نہیں ہے ۔ ‘‘
اسکے گاڑی کے پاس پہنچنے تک معتصم کئی قسم کے شاپنگ بیگز گاڑی کی پچھلی سیٹ پر ڈال چکا تھا۔
’’سسٹر ،سالم کی intentions کو کبھی غلط مت سمجھنا ، آپ وہ نہیں جانتیں جو ہم جانتے ہیں ۔ میری اتنی درخواست ہے اتنا مشکل فیصلہ لینے پر اسکی قدر کرنا پلیز ، کاش حالات اتنے مشکل نہ ہوتے تو میں یا معتصم آ پکو ساری تفصیل بتاتے ۔‘‘
حسین نے بات کے دوران ہی اسکے لئے فرنٹ ڈور کھول دیا ، سالم دوسری طرف سے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ رہا تھا۔ بدر نے پائیدان پر پیر رکھنے سے پہلے ایک بار پھر پچھلی سیٹ دیکھی تاکہ وہاں اپنی جگہ بنا سکے لیکن برستی بارش اور حسین کا گیٹ پکڑنا اسے آ گے بیٹھنے پر مجبور کر گیا۔
دوسری طرف کے کھلے شیشے سے معتصم نے حسین کو سیاہ رنگ کی چمکتی ہوئی جدید قسم کی گن پکڑائی ، جو اس نے سامنے ڈیش بورڈ پر ڈال دی۔
’’سالم! میں نے اپنی طرف سے ساری شاپنگ کی ہے بس تم دونوں کے لباس خریدنے کا وقت نہیں ہے ۔ دوسرا گاڑی میں فیول کا کین نہیں ہے البتہ ٹینکی فل ہے ۔ ‘‘
’’مارٹ میں آن ڈیوٹی کون ہے عمانی یا خارجی ؟ ‘‘
’’خارجی ہیں لیکن تم وقت ضائع نہ کرو جلدی نکلو بس ۔ ‘‘
’’چند منٹ میں ، میں باہر ہوں گا تم تب تک فیول کا کین رکھ دو اندر ۔ ‘‘
’’سالم! سیلف مارو ، ابھی مارٹ جانے کا خیال دل سے نکالو پہلے ہی سارے راستے بند ہیں ۔ اوپر سے مطر طوفان میں بدلتی جا رہی ہے ۔ آ ر او پی ہر میڈیم پر وادیوں کا سفر نہ کرنے کے اعلانات نشر کر چکی ہے ۔ شرطے کو چکمہ دینے کے لئے راستہ بھی دشوار پکڑنا ہے ۔ ‘‘
’’میں تو کہتا ہوں زیک والا راستہ لے لو ایسی بارش میں ناکا ہٹ چکا ہوگا میرا دل نہیں مان رہا ، وادی والی سڑک کے لئے ۔‘‘ معتصم انتہائی فکر مندی سے منہ پر ہاتھ پھیر کر بارش کا پانی ہٹاتے ہوئے بولا ۔
’’اللہ خیر کرے گا۔‘‘ سالم نے گاڑی آ گے بڑھا دی ۔ وائپر دھڑادھڑ چل رہے تھے ایک ہاتھ سے سٹیرنگ پکڑے اس نے فون کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر کے موبائل واپس اسکی جگہ پر رکھ دیا۔
’’راستے میں کہیں مت رکنا ، ہم فون پر یہاں کی صورت حال بتاتے ہیں ۔ جونہی کال بند ہوئی ہمیں پتہ چل جائے گا نو سروس ایریا میں انٹر ہو چکے ہو۔‘‘ حسین کا وائس نوٹ گاڑی کے سپیکر میں گونجنے لگا ۔
’’سب سے پہلے اس بد نسل کتے سے بلیک میلنگ کا فیک میٹریل نکلواؤ ، اس سے پہلے کہ پاکستان والا انکا نیٹ ورک اس مواد کو استعمال کرے ۔ اسکے بعد پاسپورٹ سے نکاح نامے پر کوائف درج کر کے بدر کا بطاقہ بنواؤ۔‘‘ اچھی خاصی سپیڈ سے موڑ کاٹتے اس نے جوابی نوٹ سینڈ کیا۔
’’یہاں کے معاملات ہم پر چھوڑ دو تم بس ایزی ہو جاؤ ، ان شاء اللہ سب سیٹ کی جلدی رپورٹ دیں گے ۔ پورا معاملہ معلوم کرکے کال پر بریف کرتے ہیں تب تک تم احتیاط سے ڈرائیو کرو ۔ سٹاپر استعمال کرتے رہنا ڈھلوان پر بے حد پھسلن ہو گی ، یہی بات ہمیں ٹینس کر رہی ہے ۔ ‘‘
بدر نے انکی گفتگو سے توجہ ہٹا کر باہر دیکھنا چاہا تو پول لائٹس میں برستی بارش کے شفاف قطرے روشنی کے ذروں کی مانند لشک رہے تھے ۔ سڑک پر گاڑیوں کا کم رش دیکھ کر بدر نے اندازہ لگایا وہ کسی غیر معروف سڑک سے گزر رہے تھے جب ہی رش کم تھا۔ گاڑی کی سپیڈ کم ہوئی تو بدر نے سر موڑ کر اسے دیکھا وہ فلنگ سٹیشن پر رک رہا تھا۔
’’بڑا کین فل کرکے پیچھے رکھ دو۔‘‘
معتصم کی سیاہ رینج روور کا ریموٹ بنگالی ورکر کے ہاتھ پر رکھ کر وہ اسکا گیٹ کھول کر اسے نیچے آ نے کا اشارہ کر رہا تھا۔ بدر ہچکچاتے ہوئے گاڑی سے نکلی تو وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر تیز قدموں سے 24/7 کے جگمگاتے بورڈ والے مارٹ میں گھس گیا۔
’’اپنے سائز کے کپڑے اٹھاؤ جلدی ۔ ‘‘
اسکی ہدایت کے باوجود وہ کلاتھ سیکشن میں کھڑی ہونقوں کی طرح دیکھ رہی تھی جب وہ اپنے بازو پر چند مردانہ لباس لٹکائے اسکے پاس آ یا۔
’’تم نے ابھی تک کوئی لباس نہیں اٹھایا ۔ ‘‘ اسکی آواز میں واضح جھنجھلاہٹ تھی۔ بدر اس سارے سلسلے کو سمجھ ہی نہیں پارہی تھی کہ وہ ایسے طوفانی موسم میں اتنی افراتفری کے ساتھ کہاں جا رہے ہیں تو وہ ہدایات پر عمل کیسے کر لیتی۔ اسکے دیکھتے دیکھتے اس نے تین چار زنانہ لباس کے ہینگر کھینچ کر بازو پر رکھے اور اسے وومن انڈر گارمنٹس کے سیکشن میں لا کر چھوڑ دیا۔ بدر نے احساس شرمندگی و توہین سے بمشکل تھوک نگلا اور وہیں اپنے جوتوں پر نظر ٹکا کر جم کر کھڑی ہو گئی۔ وہ ایک نظر اسے دیکھ کر خود آ گے بڑھ گیا۔
’’اب میرا اندازہ غلط نکلا تو مجھے مت کہنا ۔ ‘‘
’’غلیظ بے شرم لوگ …‘‘وہ شرمندگی سے زیر لب یہی کہہ سکتی تھی۔
وہ اسکے سامنے چند ہینگر گھسیٹ کر کاؤنٹر کی طرف بڑھ گیا ۔ بدر نے حجاب والا سکارف کھول کر نقاب بنا ڈالا ، اب وہ ہرگز بھی اسے دیکھنا ، دکھانا نہیں چاہتی تھی۔
٭…٭…٭

پچھلا صفحہ 1 2 3 4اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page