کسی اجنبی سے دیار میں : قسط نمبر 8
’’میں اس عمارت سے فرار ہو کر آ رہی ہوں، کچھ غلط لوگ میرے پیچھے لگے ہوئے ہیں وہ کسی بھی وقت پہنچنے والے ہیں۔ پلیز مجھے وقاص سے بچا لیں ۔ ‘‘ اس نے آ نسو بہاتے ہوئے ہاتھ جوڑ دیے۔
سالم کو دلی تکلیف ہوئی۔
وہ حد درجہ اعصاب شکن لمحوں سے گزر رہی تھی پیلی فق رنگت اور مڑی ہوئی پلکوں والی سبز آ نکھوں میں جما خوف اس پر ذہنی دباؤ … وہ بے ربط بول رہی تھی، وقاص کا نام لے رہی تھی جیسے وہ وقاص سے واقف ہوں یا وقاص کوئی مشہور و معروف ہستی ہو۔
کم وقت میں سب سمجھا لینے کی چاہ ، اس پر بدر کو یہ بے اعتباری الگ تھی کہ سامنے والے کو اسکی اردو زبان مکمل سمجھ بھی آ رہی ہے یا نہیں ، اسے لگا وہ گر جائے گی ۔ اس سے بھی عجیب بات یہ ہوئی کہ سالم کو بھی لگا اسکے سامنے کھڑی یہ نازک اندام لڑکی اعصابی دباؤ برداشت نہیں کر پا رہی گر جائے گی ۔
’’آپ ہمارا اعتبار کر سکیں تو ہمارے ساتھ گھر چلیں نزدیک ہی میری بہن کا گھر ہے۔‘‘ سالم نے حسین کی بجائے بہن کہنا زیادہ مناسب سمجھا۔
’’یا پھر آپ کہیں تو پولیس سٹیشن چلتے ہیں۔ ‘‘
’’نہیں نہیں پولیس سٹیشن نہیں ابھی میں صرف اس جگہ سے نکلنا چاہتی ہوں۔ ‘‘
معتصم سب کچھ سالم پر ڈالے نظریں جوتوں پر جمائے کھڑا تھا اسے ایک لفظ کی سمجھ نہیں آئی تھی۔
’’سیارہ (گاڑی) اسٹارٹ کرو ہم نے حسین کے گھر جانا ہے ۔‘‘ معتصم کو صرف اتنی بات بتانے کا ہی وقت تھا۔ سالم نے خود دروازہ کھول کر اسے گاڑی میں بٹھایا اور پانی کی چھوٹی بوتل اسکے ہاتھ میں پکڑا دی۔ جونہی وہ بیٹھا معتصم نے ریس پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیا ۔ خود سالم نے ایک ہی سانس میں پانی کی بوتل خالی کرکے اپنے اندر اٹھتے ہیجان پر قابو پانے کی کوشش کی تھی۔ بظاہر اسکے سامنے وہ پرسکون تھا لیکن اسکا یوں اچانک ملنا اور روتے ہوئے مدد مانگنا اسے اندر سے ہلا گیا تھا۔
چند ہی منٹوں بعد وہ تینوں حسین کی مجلس میں تھے۔ حسین کی نو بیاہتا بیوی تسلی آ میز انداز میں بدر کا ہاتھ پکڑے بیٹھی تھی۔
’’معزز خاتون ! اب بتائیں کیا ماجرا ہے لیکن پہلے اپنا نام بتائیں۔‘‘ باقی دونوں کی نظریں جھکی ہوئی تھیں سالم نے عین اسکی سامنے والی نشست سنبھال کر اپنی ذہین و پر اعتماد آ نکھیں اسکے چہرے پر ٹکا دیں۔ وہ سچ جھوٹ کو پرکھ کر الگ کرنا چاہتا تھا ۔
’’میرا نام بدر ہے …بدر جہاں !‘‘
’’اسم با مسمی …!‘‘ اس کا دل کیا کہے ،پر اخلاق کا تقاضا تھا نہ کہا جائے سو اس نے اپنے تاثرات کنٹرول کرکے سر ہلا دیا۔
’’یہ وقاص کون ہے ؟ ‘‘
بدر نے سوچا جینی کے الفاظ دہرائے ’’دلال…‘‘
سالم اسکے چہرے کے اتار چڑھاؤ پرکھتے ہوئے اسکے بولنے کا انتظار کرتا رہا۔
’’آ پکو ساری اردو آ تی ہے ؟ ‘‘اس نے مڑی پلکیں اٹھا کر سالم کو قدرے مشکوک انداز سے دیکھا جیسے یقین نہ ہو۔
’’جی مجھے ساری اردو آ تی ہے لیکن اگر آ پکو یقین نہیں ہے تو آپ ہمیں عربی یا انگلش میں ساری بات بتا دیں۔ ‘‘
’’عربی میں صرف سمجھ سکتی ہوں اور انگلش میری اچھی نہیں ہے تو صحیح طرح آپ کو سمجھا نہیں سکوں گی۔‘‘ وہ قدرے مایوسی سے بولی ۔
’’تو پھر بے فکر ہو کر میری اردو پر یقین کر لیں۔‘‘ اسکے لب نہیں لیکن لہجہ مسکرایا تھا ۔
بدر نے اسکے سوا چارہ نہ پا کر پھر شیخوپورہ پاکستان سے دبئی اور دبئی سے صلالہ عمان تک کے واقعات ٹشو کے ڈبے کے خاتمے تک اختصار سے بنا رکے اسکے گوش گزار کر دیے۔
بدر نے اپنے دل کا سارا درد لفظوں میں پرو دیا۔ وہ ہر صورت ان لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنا چاہتی تھی اسے معلوم ہی نہ تھا وہ ہمدردی کی بجائے کسی بہت خاص کا دل ، کسی کے ہوش و حواس حاصل کر چکی تھی۔
اب سالم کی باری تھی اس کہانی کو عربی ترجمے کے ساتھ باقی ساتھیوں تک پہچانے کی اور اس نے پہنچا ڈالی ۔ آ خر میں جبالی (جبلی یعنی پہاڑی لوگوں کی زبان ) میں اپنا صدمہ بھی سنا دیا ۔ عربی وہ سمجھ سکتی تھی اس لئے اس نے جبالی کا سہارا لے ڈالا ۔
’’یارو !اسے میں یاد ہی نہیں اس نے ایک بار بھی یہ تک نہیں کہا کہ آپ دیکھے دیکھے لگ رہے ہیں۔ ‘‘
’’بہتر ہے اسے تم یاد نہیں ہو وہ جن حالات سے گزر رہی ہے اپنے سائے کو بھی مشکوک سمجھے گی۔‘‘ بات کرتے کرتے حسین پر جیسے کوئی راز افشاں ہوا تھا۔
’’سالم ! سسٹر نے یہی کہا ہے نا کہ اس نے شیخ طبوق کو دبئی میں زخمی کر دیا تھا ۔ ‘‘
’’ہاں یہی کہا ہے ۔‘‘ سالم نے الجھن سے حسین کو دیکھا لیکن معتصم کو بات سمجھ آ گئی کیونکہ حسین اور معتصم نے تب زخمی شیخ طبوق کے ساتھ ایک ہی فلائٹ میں صلالہ تک کا سفر کیا تھا۔
’’شیخ حداد! بڑی مصیبت ہو گئی ہے بدر سسٹر کو خریدنے والا طبوق قبیلے کا کوئی اور شیخ نہیں بلکہ شیخ نجم طبوق ہی ہے ۔‘‘ معتصم تو کراہ ہی اٹھا ۔
’’نہ کرو یارو …‘‘
’’تصدیق کر لیتے ہیں ۔‘‘ حسین نے اپنے عربی داشے (عربوں کا چوغہ نما لباس) سے فون باہر نکالا اور شیخ نجم طبوق کی تصویر ڈھونڈنا شروع کی ۔ اب اس نے فون بدر کی طرف بڑھا دیا۔
’’سسٹر! غور سے دیکھ کر بتائیں وہ جو دبئی میں آ پکے پاس ، میرا مطلب ہے جس نے آپ سے بدتمیزی کی تھی کیا یہی شیخ ہے ؟‘‘ حسین نے انگلش میں پوچھا ۔
’’یہی، بالکل یہی شیطان ہے وقاص اور یہ شیخ ملے ہوئے ہیں۔ ‘‘
سالم نے زبان کی نوک پر آئی گالی بصد کوشش واپس حلق میں اتاری ۔
’’بڑے حداد نے سالم کو شیخ طبوق اینڈ کمپنی کے ہر معاملے سے خود کو الگ رکھنے کے احکامات جاری کئے ہوئے ہیں۔‘‘ معتصم نے حسین کو انفارم کر ضروری سمجھا۔
’’مارے گئے ، یہ تو بہت بڑا پھڈا بن جائے گا، بہتر ہے شرطہ خانے چلتے ہیں۔ کچھ دیر تک شیخ طبوق شہر ہلا دے گا، خاص کر حدادیوں کا اس قطعی ذاتی معاملے میں عمل دخل اسے آگ کا گولا بنا ڈالے گا ۔ ‘‘
’’حسین ٹھیک کہہ رہا ہے شرطہ چلتے ہیں ۔ ‘‘
’’شرطہ چلنے کا کہہ رہے ہو یہ بھی تو دیکھو سارا طبوق قبیلہ شرطہ خانے میں گھسا ہوا ہے ۔ اسکو فوری اطلاع مل جائے گی۔‘‘ سالم معاملے کی نزاکت کو ان سب سے بھی زیادہ باریکی سے سوچ رہا تھا۔
’’سالم! ایسا کرتے ہیں میجر طلال البلوشی کے پاس چلتے ہیں وہ آر او پی میں ہونے کے باوجود قابل بھروسہ ہیں۔ ‘‘
’’میں آر او پی نہیں جاؤں گی۔‘‘ بدر نے پھر سے رونے کی تیاری پکڑنی چاہی۔ انکی شرطہ جانے والی بات سمجھ کر بدر نے انگلش میں اپنا نقطہ نظر بتانا چاہا تھا تاکہ سب سمجھ سکیں۔
’’سسٹر! ہم کوئی گرے پڑے لوگ نہیں ہیں ہماری بیک پر ہمارے طاقتور ترین قبیلے ہیں۔ ہم پر بھروسہ کریں ہم کبھی آ پکی حرمت پر حرف نہیں آ نے دیں گے ۔ حسین کا قبیلہ عدلیہ میں ہے اور میرا انتظامیہ میں ، سالم کا قبیلہ تجارت میں ہے ۔ ہم آ پکو ہرگز تنہا نہیں چھوڑیں گے۔‘‘ معتصم نے لاشعوری طور پر اپنے سرکنڈوں کی طرح کھڑے بالوں پر ہاتھ پھیر کر انہیں بٹھانا بھی چاہا تھا تاکہ کچھ معقول نظر آ سکے ۔
بدر کو وہ سنجیدہ باتیں کرتے بڑا عجیب سا لگا۔ حسین نے اسکی آ نکھوں میں معتصم کے لئے چھپی بے چینی پڑھی تو فوراً میدان میں اتر آ یا۔
’’سسٹر ! معتصم سوڈانی النسل ہے اس کے بالوں پر مت جائیں وہ اپنی زبان پر قائم رہنے والا معزز شخص ہے ۔ ‘‘
وہ تینوں ایک دوسرے کے لئے حساس تھے ۔ اور اب بدر کے لئے بھی معتصم اور حسین اتنا ہی حساس تھے جتنا وہ سالم کے لئے تھے ۔ انہوں نے سالم کے اس لڑکی کے لئے سارے جذبات دیکھ رکھے تھے ۔
بدر اس اجنبی سر زمیں پر بالکل اکیلی تھی اسے یہاں کے راستے معلوم تھے نہ زبان آ تی تھی۔ بھروسہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ۔ اس گورکھ دھندے سے نکلنے کے لئے سہاروں کی ضرورت تھی ۔ اس نے خدا کا نام لے کر خدا کے ان بندوں کو بطور سہارا چن لیا۔ حسین کی بیوی کا دیا ہوا سیاہ عبایا پہن کر وہ معتصم کی سٹارٹ کردہ گاڑی میں بیٹھ گئی۔ دوسری طرف کا دروازہ کھول کر سالم اسکے برابر آ بیٹھا… تقدیر اسی کا نام ہے ۔
٭…٭…٭
’’اس بغاوت کی پاداش میں کہیں وقاص گروپ نے مہرو ، تاج وغیرہ کی جعلی گندی ویڈیو شئیر کر دی تو ؟ ‘‘
’’ابھی تو انکو پتانہیں چلا ہو گا ۔ ‘‘
’’پولیس سٹیشن جا تو رہی ہوں اگر یہ سب مجھ پر ہی پڑ گیا تو کیا کروں گی؟‘‘
بدر نے کتنی ہی باتیں خود سے کرکے تصور کی آ نکھ سے بہنوں کی بدنامی کے ساتھ ساتھ اپنی تصاویر اخبار اور ٹی وی پر بدترین کیپشنز کے ساتھ دیکھیں تو تھرا اٹھی ۔ جیل، انٹرپول، پاکستان ایمبیسی اور پھر شیخوپورہ کے تھانے کے موٹی توندوں والے تھانیدار ، گلی محلوں کے لوگ جو سچ جھوٹ میں فرق کی بجائے لڑکیوں کے بارے میں ہونے والی ہلکی بات کو نہایت برا سمجھتے ہیں ۔ سچ جھوٹ کا ذکر تو بہت بعد میں آ تا ہے لڑکی کا کسی معاملے میں نام آ جانا ہی عزت پر دھبہ اور غیرت پر تازیانہ ہوتا ہے ۔ سارے حالات سوچ کر بدر کے سینے میں سانس پھنسنے لگی اسکا روم روم خاموش دعائیں کر رہا تھا ایسی دعائیں جن میں ظالموں کی نیست و نابود ہونے خواہش بدرجہ اتم موجود تھی۔
مظلوم کی آہ اور عرش بریں میں کوئی پردہ حائل نہیں ، خدا ان آ ہوں کی بدولت دراز کی ہوئی رسی کھینچ لیتا ہے ۔ وہ پورے جذب سے دعاؤں اور آہوں کی تسبیح کر رہی تھی دعائیں اور آہیں دونوں تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں شاید اسکی بھی تقدیر بدلنے کا وقت تھا یا شاید وقاص اینڈ کمپنی کی رسی کھینچے جانا کا وقت آ گیا تھا ، دکھی دل کی فریاد کی بدولت کچھ تو ہونا ہی تھا ۔
اسے نہیں معلوم وہ لوگ آ پس میں کیا باتیں کرتے پولیس سٹیشن پہنچے تھے ۔ جب انکی گاڑی شرطہ خانے میں داخل ہوئی تو لوگ عشاء کی نماز پڑھ کر مساجد سے نکل رہے تھے ۔
’’یہ میجر طلال البلوشی ہیں ڈوئل نیشنل ہیں پاکستان اور عمان دونوں کی نیشنلٹی ہے ان کے پاس ۔‘‘معتصم نے سرخ و سفید رنگت کے مالک اونچے لمبے اور کھچڑی داڑھی والے میجر کا انگلش میں تعارف کرایا اور میجر طلال کو عربی میں بدر کی بارے میں بنیادی معلومات فراہم کیں۔ اب وہ چاروں عربی میں مسلسل گفتگو کر رہے تھے کچھ باتیں بدر کو سمجھ آ رہی تھی کچھ نہیں۔ بدر نے بے چین ہو کر ڈائریکٹ میجر طلال کو مخاطب کر ڈالا ۔
’’آپ باتیں سنتے رہیں گے اس کو پکڑیں گے نہیں تو وقاص مہلت کا فائدہ اٹھا کر میری اور میری بہنوں کی ’’گندی‘‘ ویڈیوز شئیر کرا دے گا۔ میں تو برباد ہو ہی رہی ہوں میرے گھر اور بہنوں کی عزت بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے ۔ اس سے بہتر تھا میں فرار ہی نہ ہوتی۔‘‘
بڑے عہدے پر ایک پاکستانی کو دیکھ کر بدر نے اندر کی ساری جھنجھلاہٹ نکال دی ۔ اسے لگ رہا تھا یہ سب بیوقوف ہیں معاملے کی سنگینی کو نہیں سمجھ رہے ۔
’’آپ صبرتو کریں بیٹی ، آ پکی خواہش کے مطابق ہم معاملہ خفیہ رکھ کر ڈیل کرنا چاہ رہے ہیں۔ ورنہ تو ایمبیسی اور انٹرپول انوالو ہو جائے گی۔ آپ وقاص کی رہائش کی کوئی نشانیاں بتا سکتی ہیں ؟ ‘‘
بدر گھر کی وہ نشانیاں بتا رہی تھی جو بہت عام تھیں جن سے کم سے کم صلالہ میں وہ گھر نہیں ڈھونڈا جا سکتا تھا۔ انکو مایوس دیکھ کر بدر کو گاڑی کا یاد آ گیا۔
’’گاڑی کا نمبر کوئی مدد کر سکتا ہے مجھے گاڑی کا نمبر یاد ہے جو مجھے ریزورٹ چھوڑنے کے لئے وقاص کے پاس تھی۔ ‘‘
گاڑی کا نمبر جان کر وہ سب خوش ہی ہو گئے تھے ۔
میجر نے اسکے دیکھتے دیکھتے کئی فون گھماڈالے ۔
’’ابھی کچھ دیر کی بات ہے بیٹی تمہارے سر سے ویڈیوز اور وقاص کا خطرہ ٹل جائے گا۔ ‘‘
’’شیخ نجم طبوق ، اسکا کیا ہوگا ؟‘‘ بدر نے دہل کر پوچھا ۔
’’شیخ نجم طبوق ، عمانی شہری اور کبیر( بڑا) شیخ ہے وقاص نہیں ہے جو بنا کسی کمپلینٹ کے اس پر ہاتھ ڈال دیں ۔ آپ ال لیگل ہیں جسم فروشی کا الزام آپ پر ہے وقاص جیسے کرمنلز ڈرگز میں بھی انوالو ہوتے ہیں شیخ آ سانی سے آپ پر اتنے سارے چارج لگا سکتا ہے کہ آپکی سوچ ہے ۔‘‘ میجر نے صاف لفظوں میں حقیقت بیان کی ۔
بدر کا دل کیا دھاڑیں مارنا شروع کر دے یا پھر موت ہی آ جائے ۔ میجر کے کڑوے سچ پر اسکے معدے میں مروڑ اٹھنے لگے اور پھر شدید قے کی کیفیت میں وہ بھاگ کر میجر کے صاف ستھرے کمرے سے نکل ٹوائلٹ کا سائن دیتے کوریڈور میں مڑ گئی۔ قے کر کر کے اسکا معدہ الٹ گیا۔ بدر کو لگ رہا تھا جیسے منہ کے رستے اندر کا سارا سسٹم باہر آ گرے گا۔ نڈھال واپسی پر اسے وہ تینوں ایک دوسرے کے ساتھ سر جوڑے کھڑے نظر آئے۔ میجر طلال نے اس اکیلی کو اندر بلا لیا۔
’’بدر بیٹی! میرے اجداد کا تعلق بلوچستان سے ہے انہوں نے سلطان قابوس کے والد سلطان سعید کے ساتھ مل کر عمان کے لئے جنگ لڑی تھی۔ سلطان نے میرے والد کی بہادری کے عوض انہیں عمان کی شہریت دی تھی۔ اسکے باوجود میرے والد نے پاکستانی شہریت چھوڑی نہ ہمارے خاندان نے ۔ البلوشی کا اردو مطلب نکالو تو البلوچی نکلتا ہے چونکہ عربی میں ’’چ‘‘ نہیں ہے تو بلوچی سے بلوشی ہو گیا۔ ورنہ عرب کا کوئی قبیلہ بلوشی نہیں ہے ہم بلوچوں کو ہی بلوشی قبائل قرار دیا ہے ۔ میری آ رمی کی ٹریننگ بھی عمانی حکومہ کے بی ہاف پر پاکستان مردان سنٹر سے ہوئی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے عمان آرمی سے سے رائل عمان پولیس میں بدلی کروائی ہے ۔ جیسے عمان میرا ملک ہے ویسے ہی میں پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتا ہوں اور ہر پاکستانی اس لحاظ سے میرے دل کے بہت قریب ہے خاص کر بیٹی تم جیسے لاچار و بے بس پاکستانی ۔ ‘‘
میجر کی باتیں غور سے سنتی بدر کی آ نکھیں ایک بار پھر سے بھر آ ئیں۔
’’بدر بیٹا! مجھ پر یقین کرو گی ؟ ‘‘
بدر کچھ دیر میجر کے ڈھلتی عمر کے وقار سے مزین چہرے کو دیکھتی رہی اور پھر بولی …’’ جی !‘‘