سلسلہ وار ناول

کسی اجنبی سے دیار میں : قسط نمبر 8


’’نن نہیں میں ایسی لڑکی نہیں ہوں ۔ ‘‘
’’میرے کو معلوم پڑ گیا ہے تم بھی نوید ،وقاص وٹ سو ایور کا ٹیم ممبر ہے ۔ پاکستانی نفر (آدمی) تم جیسا لڑکی کو رنڈی بولتا ہے میں جانتی ہے نوید نے بہت انفارمیشن دے رکھا ہے ۔ اب تو وہ باسٹرڈ صلالہ میں ہے میں اسکو ڈھونڈ نکالے گی تم دیکھنا ، میں اپنی ایمبیسی جائے گی سارا کیس ادر رکھے گی پہلے تو ہمیں خبر ناہیں تھا کدر ہے حرامی ۔ ابھی تو قاضی کے پاس بھی جائے گی جیل کاٹ لے گی اسکو ناہیں چھوڑے گی میں۔ تم اسکو چھوڑ دو بھاگ جاؤ اپنا فلوس خود بناتی ہو تو اس کو مت دینے کا۔ ‘‘
’’میں نے کہا نا میں ایسی لڑکی نہیں ہوں ۔ ‘‘
’’میں چار سال سے گلف میں ہے، میرے کو خبر ہے خریف میں یہ سارے شیخ لوگ کیا کرتے ہیں۔ انکو خریف میں بس عورت چاہیے، اسکے لئے شادی بناتے ہیں صلالہ کی ساری شادیاں خریف میں ہوتی ہیں ۔ ادھر صلالہ میں لوگ بولتا ہے خریف کا رزلٹ نو مہینے بعد آ تا ہے۔ ساری عمانی عورتیں بے بی پیدا کرتی ہیں۔‘‘ جینی نے اپنی باریک آواز میں قہقہہ لگایا ۔
’’مجھے سمجھ نہیں آ رہی تم کیا بول رہی ہو ۔‘‘بدر نے تھوک نگلا ۔ آنکھیں پھر سے نمکین پانی سے بھر چکی تھیں ۔اتنی توہین اتنی غلاظت ایک بار پھر سے اسکے اعصاب چٹخانے لگی۔
’’لگتا ہے اس پروفیشن میں نئی ہو ؟ دل نہیں کرتا تو یہ کام چھوڑ دو سمپل ۔ یہ عرب لوگ مرد و عورت دونوں بیڈ ریلیشن کے لئے کریزی ہیں۔ ابھی تمہارے والے بلڈی کی وائف بیمار ہو گی یا پیٹ میں بچہ ہوگا تو اس نے تمہیں ہائر کر لیا ، خریف عورت کے بغیر نہ گزرے انکا موٹو ہے ۔ ‘‘جینی نے انگریزی کی ننگی گالیاں دی۔ بدر کے آ نسو بے قابو ہو کر گرتے رہے ۔
’’یو آ ر سو بیوٹیفل اپنی ورتھ دیکھ کر ریال چارج کرنا تھے اسکے بعد ملک چلی جاؤ …رونے کا کیا بات ہے ۔ میری کمیونٹی کی بہت سی گرلز خریف میں خود ان شیخوں کو آفر کرتی ہیں لاکن یہ فلپینو گرلز کو پسند نہیں مانتے یا تو یورپی گرل سپیشلی مراکو یا پھر انڈین گرلز کو ہائر کرتے ہیں۔ میری کمیونٹی کو بلڈی پاکستانی لیبرنفر ہی ملتا ہے ۔ دونوں پور کنٹری کے لوگ ہیں نا تو سپورٹ ایچ ادر کو سپورٹ کرتے ہیں۔‘‘ جینی تلخ ہنسی ہنس دی۔
جینی کی باتیں نہیں تھیں مارٹر گولے تھے جو اسے کوئلہ بناتے جا رہے تھے ۔
’’میں چلتی ہے ڈانسرز کو نئے میک اوور کی بار بار ضرورت پڑتی ہے ۔ ون مور تھنگ شیخ کی حرمہ سے بچ کے رہنا یہ عربی عورتیں ’’بچ‘‘ ہیں پوری ، انکو باقی ورلڈ کے رجال (مرد) ٹرانسجینڈر لگتے ہیں ان کے ساتھ فزیکل نہیں ہوتیں لاکن ان کے رجال باقی ورلڈ کی عورت کو بیڈ پر جیسے مرضی لاتے رہیں۔ میں انکے ہائپو کریٹ سٹینڈرڈ اور غرور سے نفرت کرتی ہے یہ عرب خود کو آ سمانی کریچر (مخلوق) سمجھتی ہے ہم سب کو کمتر ۔ نوید نے میرے ریال چوری نہ کئے ہوتے تو میں اب تک ملک جا کر اپنا سیلون بنا چکی ہوتی۔ خیر ابھی تو نوید صلالہ میں ہے، اسے خبر نہیں میں بھی ادھر ہے اب اسے نہیں چھوڑوں گی۔‘‘
وہ اور بہت کچھ بولتی بچہ سینے لپٹائے سوئٹ نمبر تین سے نکل گئی۔ جاتے جاتے بد رکو اپنی خنجر باتوں کی نوک سے زخم زخم کر گئی ۔ اسکی باتوں میں ایسی آگ تھی کہ بدر راکھ راکھ ہو گئی اور راکھ تو ہوا سے اڑ کر کہیں بھی پہنچ سکتی ہے کہیں بھی پہنچ جاتی ہے ۔ اس راکھ نے بھی سمندری ہوا کے شور میں خود کو بکھرنے دیا۔ پراسیٹیوٹ بننے سے پہلے فرار کی ایک بھرپور کوشش راکھ کا حق تھی ۔ وہ جانتی تھی وہ اپنی شیخوپورہ میں بیٹھی بہنوں کی عزت بھی داؤ پر لگا رہی ہے پر اب صرف خود کو سوچ رہی تھی اپنے ضمیر کے سامنا سچا ہونے کے لئے کوشش ضروری تھی ۔ اسکا دماغ بتا رہا تھا ان لوگوں کے چنگل سے کبھی نکل نہیں سکتی پر ضمیر کو زندہ رکھنے کے لئے حجت تمام کرنا ضروری تھا۔ اسکے اندر بجلیاں بھر گئیں ۔ اس نے دلہن کی طرح سجے سوئٹ کو ایک بار پھر سے لاک کیا اور اندھا دھند دوڑ کر سمندر والے دریچے کا جائزہ لیا اور پھر سامنے والے راستے کی بجائے سمندر کی طرف نکلنا طے کرکے وہ لفٹ سے نیچے بیک یارڈ میں سمندری پانی سے بنی چھوٹی نہروں کے پاس آ گئی۔ ان نہروں میں جلتی رنگ برنگی واٹر پروف لائٹوں نے پانی کو رنگ برنگے رنگ دے رکھے تھے یہ بڑا خوش کن نظارہ تھا لیکن بدر کے لئے نہیں تھا اسے اپنے لئے جلد از جلد راستہ تلاش کرنا تھا ۔ وہاں ریزورٹ کا سٹاف ممبر موجود تھا اسکی وردی سے بدر نے پہچان لیا۔
’’میڈم! اگر میری کچھ مدد چاہیے تو ؟ ‘‘صاف انگریزی میں اس نے پوچھا ۔
’’نہیں ، مجھے اکیلا چھوڑ دو۔ ‘‘
’’ایز یو وش میڈم !‘‘
سٹاف کو ہر طرح کے امیر سنکیوں سے واسطہ پڑتا رہتا تھا انہیں یہ حکم تھا کہ کسی الجھنا نہیں ہے ۔ سو وہ بھی ہٹ گیا۔ بدر نے جونہی اسے منظر سے ہٹتے دیکھا تو ہلکے زرد اور میرون پتھر سے بنی باؤنڈری وال کی طرف آ گئی ۔ پتھر کی درزوں میں پیر پھنسا کر ساحل کی ریت پر چھلانگ لگانا بہت آ سان تھا ۔ اس نے پیروں سے پمپی اتار کر پھینکی اور پتھر کی دیوار پھلانگ کر ساحل کی ریت پر کود گئی۔
ساحل پر دنیا ہی الگ تھی برستی بارش میں تنکوں کی چھتریوں کے نیچے بیٹھی فیملیز ، ایلومینیئم کی مختلف شیپ کی چھتریوں کے نیچے بیٹھے باربی کیو کرتے بڑے بڑے خاندان تو کسی چھتری تلے ایک ہی آرام کرسی پر نیم دراز جوڑے ۔
ریزورٹ سے قریب تنکوں کی چھتری کے نیچے ایسا ہی ایک جوڑا ایک دوسرے کے چہرے میں چہرہ گھسائے دنیا سے بے نیاز تھا ۔ بدر نے آ نکھوں پر ہاتھوں کا چھجا بنا کر چھتریوں میں لگے گلوبز کی روشنی میں دوسری چھتری کو دیکھا ،وہاں کوئی جوڑا نہیں تھا اسکے لئے یہی کافی تھا اس نے پوری طاقت سے اس طرف دوڑنا شروع کر دیا۔
٭…٭…٭
’’گھر کا چکر لگا لیتے …‘‘معتصم نے اسے صلالہ ایئر پورٹ سے پک کرتے ہوئے صلاح دی۔
’’ابھی کسی سے ملنے کو دل نہیں کر رہا۔‘‘ سالم نے معتصم کی رینج روور کا شیشہ نیچے کرکے صلالہ کی مطر (بارش)میں ڈوبی فضا کی ٹھنڈک اور رنگینی محسوس کی۔
’’وللہ! دبئی نے تو جلا ڈالا تھا ۔کہاں ہمارا صلالہ کہاں دبئی کا آ گ برساتا سورج ۔‘‘ معتصم نے اسے موسم کی طرف متوجہ ہوتے دیکھ کر اظہار خیال کیا پر وہ چپ ہی رہا تو اسے بغور دیکھا ۔ وہ ہلکے آسمانی رنگ کی آدھے بازوؤں والی آ رگینک کاٹن کی ٹی شرٹ اور بلیو جینز میں لمبے بال پیچھے کو کنگھی کئے دلکش لیکن پہلے سے زیادہ دلگیر بھی نظر آ رہا تھا۔ معتصم کو یوں لگا جیسے انکے بعد دبئی میں سالم کے ساتھ کچھ ہوا ہے ۔
’’مجھے سالم سے پاکستانی لڑکی کا پوچھنا چاہیے؟‘‘
’’ نہیں، ابھی نہیں ابھی تو وہ صلالہ پہنچا ہے ابھی اسکی توجہ بٹانے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘‘ معتصم نے اندر ہی اندر سوچ کر اپنی سمت طے کی۔
’’لگتا ہے دبئی میں بڑی شاپنگز کی ہیں ، اچھے لگ رہے ہو۔‘‘اسکا اشارہ اسکی ڈریسنگ اور جوتوں کی طرف تھا۔
’’ایئر پورٹ سے خریداری کرنی پڑی، اپنا بیگ تو گھر ہی چھوڑ آیا ہوں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ کیوں کے فوراً بعد معتصم کو محسوس ہوا بات اسی رخ پر جا رہی ہے جو اس نے اندر ہی اندر طے کیا تھا کہ ابھی اس موضوع پر بات نہیں کرنی۔ سو اس نے فوراً بات پلٹ دی۔
’’کہاں چلیں، کسی ریستوران ؟ ‘‘
’’نہیں، فی الحال کچھ بھی کھانے کی طلب نہیں ہے۔ جہاں تم بیٹھے تھے وہیں لے چلو ۔ ‘‘
’’میں تو دھاریز (سمندر کنارے) بیٹھا سمندر اور مطر کا لطف اٹھا رہا تھا ۔‘‘
’’وہیں چلو پھر …‘‘
معتصم نے رینج روور بیچ ریزورٹ کی ذیلی سڑک پر موڑ لی۔
’’حافہ میں سمندر نے حفاظتی انتظام توڑ ڈالے ہیں، اب پانی سڑک پر پھر رہا ہے۔‘‘
’’کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا ؟‘‘ سالم نے فورا ًپوچھا تھا۔
’’نہیں، بچت ہو گئی ہے ، اس دفعہ سمندر بہت بپھرا ہوا ہے خریف لمبا چلے گا ۔ دھاریز میں تو مطر بھی اچھی خاصی تیز ہو رہی ہے خاص کر سر شام موسم کا مزاج بدل جاتا ہے ۔ آر او پی نے جبل (پہاڑ) اور وادیوں کی طرف جانے پر پابندی لگا دی ہے ۔ ‘‘
’’پانی کا بہاؤ تیز ہو گیا ہوگا ۔ ‘‘
’’بالکل جس طرح جبل سے پانی گر رہا ہے چشمے ، ندیاں طغیانی پکڑ چکے ہیں کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔ اس لئے پابندی ہی بہتر ہے ۔ ‘‘
’’ہوں …!‘‘ سالم نے تائید کی ۔
دھاریز علاقے سے پیچھے والی رم جھم ساحل پر درمیانی بارش میں بدل چکی تھی۔ وہ بھیگی ریت پر مضبوط پیر دھرتے اپنے لئے کوئی خالی چھتری دیکھنے لگے ۔ ایلومینیئم کے چھتری کی شیپ والے ٹینٹ بڑے خاندانوں کے لئے تھے اس میں سیاح اور مسقط سے خریف کا لطف اٹھانے آنے والی فیملیز بیٹھی تھیں۔ وہ دونوں بیچ ریزورٹ کے قدرے قریب والی پرائیویٹ تنکوں کی چھتری کی طرف بڑھ گئے ۔ سالم نے ڈو ناٹ ڈسٹرب والی تختی کو ٹھوکر مار کر ریت پر لٹا دیا اور خود آرام کرسی کی طرز پر بنے بینچ پر نیم دراز ہو گیا۔ معتصم ساتھ والے بینچ پر بیٹھ گیا۔
’’ظفار گورنریٹ نے خریف کے انتظامات اچھے کئے ہیں ۔ ‘‘سالم نے چھتری کے بیچوں بیچ لگے روشن گلوب کو دیکھا۔
’’تمہاری مہربانی سے خریف صلالہ کے یہ کنٹریکٹ حداد اینڈ سنز کے پاس ہیں۔ طبوق اینڈ کمپنی کی دم میں آگ لگی ہوئی ہے ۔ ‘‘
’’بابا نے بتایا تھا ساتھ ہی آف دا ریکارڈ ہونے والے معاہدے پر عمل کرنے کے لئے بھی حکم جاری کیا ہوا ہے ۔ ‘‘
’’کونسا معاہدہ ؟ ‘‘
’’یہی کہ شیخ طبوق کے کسی معاملے یا بزنس سے مجھے اپنی ٹانگ دور رکھنی ہے ۔ ‘‘
’’ٹھیک کہہ رہے ہیں شیخ حداد تم جب تک گیم میں ہو شیخ طبوق سے دور ہی رہو کینہ پرور شخص ہے تمہاری تاک میں ہے تاکہ بدلہ پورا کر سکے ۔ یاد ہے جب اس نے دیکھا تھا تم جولیا کو لفٹ دے رہے ہو،اس نے جولیا کو پٹانے کی کوشش کر ڈالی تھی۔ ‘‘
’’آ ج کل جولی کے ساتھ ہی بھیگی شامیں گزر رہی ہوں گی۔‘‘سالم نے ٹوٹا تنکا گلوب پر تاک کر مارا ۔
’’کوئی خبر نہیں ۔ ‘‘
’’اسکی نہیں تو حسین کی تو خیر خبر ہو گی؟ ‘‘
’’حرمہ کو پیارا ہوچکا ہے ۔ ‘‘
’’تم بھی ہو جاؤ یا اب ہمت نہیں رہی ؟‘‘
سالم کی اچانک چوٹ پر معتصم ہڑبڑایا ، پچھلے کچھ عرصے سے وہ ایک نئے سالم کے ساتھ وقت گزار رہے تھے یہ اچانک حملہ پرانے سالم والا تھا۔
’’منہ نہ تڑوا لینا ، یہاں اس لئے پڑا ہوں کیونکہ کوکو (معتصم کی بیوی) لفٹ نہیں دے رہی ۔ اسکی کزنز سوڈان سے آئی ہوئی ہیں انکو خریف میں سیریں کروا رہی ہے ابھی بھی کسی پارٹی میں ہے۔ سابقہ ریکارڈ کے مطابق فجر کے وقت ہی آ ئیں گی وہ معزز خواتین ۔ ‘‘
سالم اپنی جلتی آنکھیں بند کئے مسکراتے لبوں سے اسکی تپی ہوئی دکھی سرگزشت سن رہا تھا جب اسکے حساس کانوں میں بھاگتے قدم ان کی طرف بڑھنے کی آواز پڑی اور پھر گلوب کی روشنی میں سایہ سالم کے جوتوں پر پڑا، وہ فوراً سیدھا ہوا تھا اور پھر کھڑا ہو گیا۔ ایک دفعہ تو وقت اور دھڑکن دونوں تھمی۔
بدر دوسری چھتری کے پاس آ کر اب پچھتا رہی تھی۔ لفنگے سے حلیے والے سیاہ فام کو دیکھ کر ڈرا سہما تیزی سے دھڑکتا دل اور بھی دہل گیا۔
بے حد سیاہ رنگت ، قدرے موٹے سیاہ ہونٹ ، مضبوط جسم ، لمبا قد اور بالشت بھر اوپر نیچے دائیں بائیں سرکنڈوں کی طرح اکڑ کر کھڑے بال ، جو عمان کے جھنڈے کے رنگوں سے ڈائی کئے ہوئے تھے ۔
’’مجھے تو انکی زبان بھی نہیں آ تی خود پر گزر رہی قیامت اس کالے جوکر لگنے والے شخص کو کیسے بتاؤں۔‘‘ جوش میں ریزورٹ سے باہر تو نکل آئی تھی زبان کی رکاوٹ والے مسئلے کا تو خیال ہی نہیں رہا تھا۔
بم پھٹے بالوں والے بلیکی کو چھوڑ کر اس نے سیاہ داڑھی سے سجے چہرے والے کو دیکھا جسکی سنہری رنگت گلوب کی روشنی میں دمک رہی تھی ۔ آ نسوؤں سے بھری آ نکھیں اس کی آنکھوں میں گاڑ دیں۔
’’ایک اور تخیل …!پہلے دبئی میں خوار ہو کر آ یا ہوں اب یہاں اس عورت میں وہی چہرہ وہی آ نکھیں نظر آ نا شروع ہو گئی ہیں۔‘‘
پانی سے بھری سبز جھیلیں غائب نہ ہوئیں بلکہ سامنے موجود تصویر کے خشک لب بھی ہلنے لگے تو سالم نے بینچ کے میٹل راڈ پر پوری قوت سے مٹھی بند کی عکس تب بھی غائب نہ ہوا ۔ وہ حقیقت میں اسکے سامنے آسکے اپنے شہر صلالہ میں موجود تھی جسکی خاطر دبئی کی ریت چھان آ یا تھا۔
’’پلیز ہیلپ می !‘‘آنسو اسکے گال سے بہہ کر ٹھوڑی سے ہوتا گیلی ریت پر جا گرا۔ سالم نے پچھلی بات سنی ہی نہ تھی آ خری تین الفاظ کانوں میں پڑے تھے ۔
’’معزز خاتون !آ پ کو کس قسم کی مدد چاہیے اور کیوں چاہیے؟‘‘
بدر شکل سے عربی لگتے شخص کے منہ سے اردو سن کر حیرت زدہ رہ گئی۔ اب وہ دراز قد کا خوبرو شخص بم پھٹے بالوں والے کو کسی اجنبی زبان میں تیز تیز کچھ بتا رہا تھا۔ بدر کو لگا وہ پھر سے غلط لوگوں میں پھنس رہی ہے ۔
دوسری طرف جونہی معتصم کو پتا چلا یہی سالم والی لڑکی ہے وہ ایک دم مؤدب ہوا تھا۔
’’سسٹر! کام ڈاؤن ، مجھے بھائی سمجھو ہماری طرف سے تمہیں کوئی خطرہ نہیں ہے ،میرا دوست تمہاری زبان جانتا ہے۔ ریلیکس ہو کر بتاؤ کیسی مدد چاہیے ۔ ‘‘ معتصم نے سینے پر ہاتھ رکھ کر صاف انگلش میں بات کرکے اپنی نظریں یوں جوتوں پر گاڑ لیں جیسے گوند سے چپکا دی گئی ہوں ۔ بدر نے سالم کو دیکھ کر قدرے ہیجانی انداز میں بتانا شروع کیا ۔

1 2 3 4اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page