کسی اجنبی سے دیار میں : قسط نمبر 7
’’بیلی ڈانس انجوائے کر رہی ہو ؟ ‘‘وہ عربی ، ہندی ، اردو مکس کھچڑی میں خوش دلی سے بولی ۔
’’نہیں بس ایسے ہی …‘‘ بدر قصداً مسکرائی ۔
’’یہ انڈیا کا فیمس ڈانس گروپ ہے…‘‘ وہ نیچے جھانکتی جھانکتی ایک دم چلانے لگی ۔
’’نوید ، نوید …!
’’وقف…
سٹاپ …
رکو …
نوید …!‘‘
بدر نے اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تووہ وقاص کو دیکھ کر چلا رہی تھی ۔ اسکے دیکھتے دیکھتے وہ بدر کو دھکا دے کر لمبے کوریڈور میں بھاگتی چلی گئی، غالباً لفٹ اس طرف تھی۔ بدر وہیں کھڑی حیرت سے سارا منظر دیکھتی رہی یہاں تک کہ فلپائنی لڑکی ٹھیک اس جگہ پہنچ گئی جہاں اس نے وقاص کو دیکھا تھا۔
’’ہو نہ ہو وقاص اس لڑکی کے کسی معاملے میں بھی ملوث ہے ۔ مجھے اسکا یہیں کھڑے ہو کر انتظار کرنا چاہیے۔ واپس تو اپنے سوئٹ میں ہی آ ئے گی ۔ ‘‘
بدر کے دل سے ڈھیروں دعائیں نکلنے لگیں۔ اس نے جلدی جلدی سوئٹ نمبر تین کھول کر بیگ کو ٹھوکر مار کر اندر پہنچایا درواہ بند کیا اور وہیں جم کر کھڑی ہو گئی۔
٭…٭…٭
سوئمنگ اسکی پسندیدہ ترین مشق تھی۔ وہ بہترین فٹبالر ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر تیراک بھی تھا۔ عمان پروفیشنل ڈائیونگ ٹیم کے ساتھ کئی مرتبہ صلالہ میں ہونے والے کامیاب آپریشنز کا حصہ بھی رہ چکا تھا۔ سوئمنگ اسکے لئے اینٹی ڈپریسنٹ کا کام کرتی تھی اب بھی اپنے باپ کے بنگلے میں سوئمنگ پول کے کنارے کھڑا یہی سوچ رہا تھا کہ بخار اترنے کے بعد پانی سے نبرد آزما ہونا چاہیے یا ابھی انرجی بحال کر لوں۔ دماغ نے انرجی بحال کرنے کا مشورہ دیا تو اس نے مان لیا اور پھر خود ہی خود پر ہنس دیا۔ آ ج کل اس نے اپنی باگ ڈور دل کے ہاتھ میں پکڑائی ہوئی تھی۔
وارم اپ اور انرجی بحال کی کچھ ہلکی پھلکی مشقیں کرنے کے بعد فریش ہو کر وہ اب شیخ سالم حداد بنا باہر جانے کو تیار تھا۔
’’یا شیخ! ابھی آرام کرو شیخ حداد کا فون آ یا ہے اسکو اچھا کھلاؤ اور آرام کرواؤ ۔ آپ اپنا موبائل بھی آن کر لیں ادھر آ پکے گھر میں سب آپ سے بات کرنے کے لئے پریشان ہیں۔‘‘
’’پھر سے گھر سے فون آ ئے تو یہی کہنا آرام کر رہا ہوں ۔ اب مجھے شیرٹن ڈراپ کر دو۔ ‘‘
باپ کی مرسیڈیز میں بیٹھا باہر دوڑتے پھرتے مناظر میں بھی اسے ہی کھوج رہا تھا۔
’’جب بھی اسے دیکھا ہائی پروفائلز کی جگہوں پر دیکھا ہے ساری فائیو اور سیون سٹار جگہیں چیک کرنی چاہیئں۔‘‘
وہ سینکڑوں عمانی ریال ضائع کرتا ایک جگہ سے نکل کر دوسری میں جا رہا تھا ہر نئے کیفے میں گھستے اسکی امید بندھ جاتی اور آ خر میں ٹوٹ جاتی ۔ شیخ سالم حداد ٹیکسی کے انتظار میں گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر جھک گیا ۔ بس اتنی دیر میں دو تین لوگ اسے پہچان کر گھیرا ڈال چکے تھے ۔ فٹ بال عرب کی جان ہے وہ فٹ بال کی شان تھا وہ عرب کا ستارہ تھا اسکے فین اسکی حلیمی پر فخر کرتے تھے اور آ ج اسکی بے مروتی پر متعجب تھے ۔ اس نے غصیلے لہجے میں بنا معذرت کئے پارکنگ میں اس طرف دوڑ لگا دی جس طرف پاکستانی شلوار قمیض میں ملبوس عورت کی پشت پر لمبے گھنے بال لہرا رہے تھے ۔ اسکا ہاتھ اسکے برابر چلتے مرد نے تھام رکھا تھا۔
وہ بے تابانہ بھاگتا ہوا انکے سامنے پہنچا تھا اور پھر تیسرے درجے کے مرد جیسی غیر اخلاقی حرکت کرتے ہوئے اس نے عورت کو گھما کر اسکا رخ اپنی طرف پھیر لیا ۔ کھلے بالوں والی عورت کی گرم ترین کافی سالم کے سینے پر گری ۔ وہ جوڑا اسے متوحش نظروں سے دیکھنے لگا اور پھر دونوں کے چہرے غصے سے سرخ پڑنے لگے ۔
اس نے میکانکی انداز میں دونوں ہاتھ اٹھا دیے جیسے کھیلتے ہوئے میدان میں کسی کھلاڑی کو غیر ارادی طور پر پُش کرنے پر کر دیا کرتا تھا۔
’’سوری …سو سوری …!‘‘
اسکی سینکڑوں ڈالر کی صلالہ کے سمندری رنگ جیسی شرٹ سیاہ کافی سے تباہ ہوگئی پر اسے گندی شرٹ کی پروا تھی نہ سینے پر ہونے والی جلن کی ۔ ایک جنون تھا جو اسے ہر اس لڑکی کا چہرہ دیکھنے پر مجبور کر رہا تھا جس نے پاکستانی لباس پہنا ہوا تھا، جسکے بال لمبے تھے، جس کا قد دراز تھا۔
گلیشئر کیفے سے نکلتے اسے ایک اور لڑکی پر بدر کا گمان ہوا۔ اسے نظروں کے فوکس میں رکھ کر تیز قدموں سے چلتا ہوا وہ ٹریش بن کے پاس کھڑے ایک انڈین سے ٹکرایا تو انڈین کے ہاتھ میں پکڑی بچے کے دودھ کی بوتل سالم اور انڈین پر الٹ گئی ۔ خراب دودھ سالم کی پینٹ سے بہتا ہوا اسکے جوتوں پر جا گرا لیکن اسکے پاس توجہ دینے کاوقت نہیں تھا وہ دراز قد لڑکی گاڑی میں جاتی تو پھر اسے دیکھنے کا چانس ختم ہو سکتا تھا۔ بالآخر وہ دوڑتا ہوا ان سے آ گے نکل گیا۔ وہ بھی سبز آ نکھوں والی اسکی مطلوب اسکی معشوق ہستی نہیں تھی ۔ اب اسے خود سے خراب دودھ کی بدبو کے بھبکے اٹھتے محسوس ہوئے ۔
وہ سبز آ نکھوں اور دودھیا رنگ والی لڑکی ہوتی صرف دیکھنے کی حس باقی رہتی باقی ساری حسیات مردہ ہو جاتیں پر اب ساری حسیں بے تحاشا مایوس تھیں وہ دبئی کی نہایت صاف و سیاہ لیکن بے تحاشا تپتی سڑک پردھوپ میں پسینے اور بدبو سے بھرے جوتوں کے ساتھ کھڑا اپنی بے بسی پر خود سے خفا تھا۔
ٍمیں گرہ میں باندھ کے حادثات، نکل پڑا تیری کھوج میں
کہیں تارکول کی تھی سڑک ،جہاں آگ بانٹتی دھوپ تھی
کوئی نو عمر شیخ اپنی ڈبل کیبن ٹنڈرا کا سائلنسر نکالے اسکے پاس سے کان پھاڑتی آواز اور سیاہ دھواں چھوڑتے گزرا۔
کبھی کچی راہ کی دھول میں ،جہاں سانس لینا محال تھا
شیخ سالم دھویں سے کھانستا قریبی مسجد میں داخل ہو گیا ۔
سر رزم جاں کبھی دل کے درد سے ہار کر
میں تو خانقاہوں پہ مانگتا پھرا منتیں
کبھی رات رات بسر دعاؤں میں ہو گئی
کبھی قافلے مری آس کے کسی دشتِ یاد میں کھو گئے
وہ پہلا شخص تھا جو اپنی بدبودار شرٹ اتار کر ڈسٹ بن میں ڈال کر ننگے بدن اور ننگے پیر مسجد میں داخل ہوا ۔
میرا پیرہن تھا پھٹا ہوا ،کہیں گرد گرد اٹا ہوا
میں ادھورے پن کے سراب میں
تجھے ڈھونڈتا پھرا در بہ در
کسی اجنبی کے دیار میں
مجھے کیا ملا تیرے پیار میں
’’رید مساعدہ ؟‘‘(کوئی مدد چاہیے ؟) باریش شیخ کتاب بند کرکے ننگے اور سرخ ہوئے سینے والے جوان کے پاس آ گیا۔
سالم نے جلتی ہوئی آ نکھیں اٹھا کر دیکھا ۔
’’شیخ! سکون چاہیے، سکون ڈھونڈنے میں مساعدہ کر سکتے ہیں ؟ ‘‘
’’اللہ دے گا۔‘‘ باریش شیخ نے مسکرا کر اسکا کندھا تھپکا اور اپنے سر کا رومال اسکے کندھوں پر ڈال دیا۔ سالم کو لگا یہ بھی خوش نصیبی ہے کہ اس اجڑے حلیے میں اسے کسی نے پہچانا نہیں۔ مسجد سے جوتے اور جینز اور آ نکھیں دھو کر وہ باہر نکل آیا۔ دل بے حد بوجھل تھا۔ وہ سنسان سڑک پر ٹیکسی کے انتظار میں کھڑا ہو گیا۔
کوئی دکھ ملا کسی موڑ پہ ،کوئی غم ملا کسی چوک میں
کسی راہگزر کے سکوت میں ،کوئی درد آ کے ڈرا گیا
کبھی چل پڑا کبھی رک گیا کسی کشمکش کے غبار میں
مجھے کیا ملا تیرے پیار میں
میں گرہ میں باندھ کے حادثات
کہیں گم ہوا تیری کھوج میں
(شفیق احمد)
کیب رکی تو وہ اپنے بنگلے کا ایڈریس بتانا چاہتا تھا پر زبان نے ایئرپورٹ کہہ دیا۔ نہایت دل گرفتہ دل دبئی میں مزید رہنے سے انکاری ہو چکا تھا اس نے بھی دل کی مان لی اور صلالہ کاقصد کر لیا ، آ جکل صرف دل کی ہی تو شیخ سالم حداد پر حکمرانی تھی اب دل صلالہ واپسی پر آ گیا تھا۔ صلالہ جو اسکا گھر تھا جہاں وہ دشمن جاں بھی موجود تھی جسکے لئے وہ دبئی کی ریت اور دھوپ پھانکتا پھر رہا تھا۔ اس نے کندھوں پر احرام کی صورت امام مسجد کا دیا رومال باندھا اور جینز میں اپنے والٹ کی موجودگی محسوس کرکے آ نکھیں بند کر لیں۔
٭…٭…٭
جونہی وہ ناٹے قد والی عورت بالکونی میں داخل ہوئی بدر بے تابی سے اسکے پاس پہنچ گئی۔
’’تم وقاص کو کیسے جانتی ہو خدا کے لئے مجھے بتاؤ ؟ ‘‘
’’کون وقاص ؟ ‘‘
’’وہ ابھی جسکے پیچھے بھاگ رہی تھی اسکا نام نوید نہیں وقاص ہے ۔ ‘‘
’’تم کیسے جانتی ہے اسکا نام نوید ناہیں وقاص ہے ؟‘‘
’’میں یہ نہیں بتا سکتی لیکن میں اپنے رب کی قسم کھاتی ہوں وہ فراڈیا وقاص ہے میں نے اسکے پاسپورٹ پر اسکا نام دیکھ رکھا ہے ۔ ‘‘
’’کیسے دیکھ لیا وہ مین (کمینہ) اپنے کوئی ڈاکومنٹ کسی کو شو نہیں کرتا ۔ میں اتنے شھر(مہینے) ساتھ رہی کچھ ناہیں دیکھا۔ تم انڈین ناہیں ہے ؟ ‘‘
بدر کا انڈین چوڑی پاجامہ اور فراک اسے انڈین ہی بنا رہی تھی ۔
’’ادھر میرے روم میں آ جاؤ ادھر کھڑے ہونا اچھا نہیں ہے ۔‘‘ بدر اس کے بازوؤں سے بے بی پکڑ لائی تو اس عورت کو بھی اندر آ نا پڑا۔ خوشبوؤں میں بسا سویٹ جسکی آرائش میں سرخ و آ تشی رنگ نمایاں تھا۔ بدر بچے کو پکڑے دروازے کے ساتھ ہی نیچے کارپٹ پر بیٹھ گئی۔
’’میں جتنا اسکے بارے میں جانتی ہوں وہ یہ ہے کہ وقاص میری طرح پاکستانی ہے ۔ پاکستان میں غریب اور خوبصورت لڑکی ڈھونڈ کر اس سے شادی کرکے عرب ممالک میں بیچ دیتا ہے یا غلط کام کراتا ہے ۔ اب تم بتاؤ تمہارے ساتھ اس فراڈیے نے کیا کیا ہے ؟‘‘
’’میرا نام جینی ہے میں فلپائن سے ہے میک اپ آ رٹسٹ ہوں ادر گلف میں فلوس (پیسے) بنانے آئی تھی ۔ عرب عورت کے جی (کلو گرام) ویٹ میں میک اپ کرتا تو میرے کو لگتا تھا یہاں فلوس بنانا ایزی ٹاسک ہے ۔ میں صلالہ میں نہیں سوہار میں سیلون میں جاب کرتا تھی نوید میرے کو اُدر ملا ۔ میرا بیڈ لک اور گریڈ (لالچ)تھا اس لئے ٹریپ ہو گئی ۔ وہ مجھے اچھا ڈنر کراتا تھا شاپنگ کراتا تھا میں سوچا تھا اپنی سیلری سیو کرکے اس کے خرچے پر ادر کا لائف گزارے گا۔ ایسا نہیں ہوا وہ مجھ سے زیادہ clever اور wicked تھا تو میرے کو لوٹ کر پاکستان چلا گیا ۔ میرے کو یہ بچہ بھی پیدا کرنا پڑا…ابورٹ کرنے وقت گزر گیا تھا۔ یہ اسکا بے بی ہے ۔ ‘‘
بدر نے بچے کو دیکھا۔ اسکے فلپینو نقوش میں وقاص کی جھلک موجود تھی۔ بچے نے اسے متوجہ دیکھا تو بازو ٹانگیں ہلا ہلا کر قلقاریاں مارنے لگا۔ بدر بے ساختہ اسکا ہاتھ اٹھا کر چوم گئی کہ اس کا کیا قصور تھا وہ فرشتہ تھا ۔ قصور تو لالچ کرنے والوں اور دھوکا دینے والوں کا تھا۔ جینی نے بھی بدر کی فیملی کی طرح لالچ کیا تھا اور مجرم نفسیات سے کھیلنے والے چالاک ترین لوگ تھے۔ دکھتی رگیں دبا کر لوگوں کو پھنساتے تھے ۔
’’بلیو می ، پریگنینسی کے بعد میں اس شادی کو رکھنا چاہتی تھی فار لائف ٹائم ۔ میں نے اسکے اور اپنے بچے کے ساتھ لائف پلان کر لی تھی۔ میں اسکی فیملی کا پارٹ بننے پر بہت insist کرتی تھی اور تم دیکھو میری loyalty and sincerity کا کیسا مسخرہ بنایا نوید نے ۔ اس سے نکاح کے بعد میں اسکو کبھی چیٹ نہیں کیا، اس نے مجھے بے ہوش کرکے میرے کو لوٹا …‘‘ جینی رو رو کر اسے خود پر بیتے واقعات سناتی گئی ۔ وہ دکھے دل کے ساتھ سنتی گئی۔
’’میں ادھر عشوہ بیوٹی سیلون میں جاب کرتی ہے تم ادر آ نا، میں ساری سروسز اپنے ہاتھ سے دے گی۔ ابھی تو یہ انڈین ڈانس گروپ نے ہمارے سیلون کو ہائر کیا ہے ۔ ان کا میک اوور ہم کر رہے ہیں۔ میرے ساتھ دو اور میک اپ آ رٹسٹ بھی ادر ہیں۔ تم نے ان بیلے ڈانسرز کا میک اوور دیکھا کتنا پرفیکٹ کرتے ہم لوگ۔ ‘‘
بدر نے سر ہلا دیا …
’’ ہاں بہت اچھا میک اپ ہے ان کا۔‘‘
’’اوہ یس تم نے بتایا نہیں تم ابھی ادر کس شیخ کا پراسیٹیوٹ ہے ؟ ‘‘
بدر کو دھچکا لگا، یہ لفظ اسے کھاتا تھا اب بھی سر کے بالوں سے پیروں کے ناخنوں تک وہ پسینے سے بھر گئی ۔