سلسلہ وار ناول

کسی اجنبی سے دیار میں : قسط نمبر 7

’’یہ بطاقہ تو بالکل اصلی لگ رہا ہے کوئی پہچان ہی نہ پائے ۔‘‘ جوش سے جینی قدرے اونچی آواز میں بولی تو مارتھا اور لی نے فوراً شی شی شی کی آواز نکال کر اسے محتاط کیا ۔
’’کسی نے سن لیا تو ہم سب شرطہ خانے میں ہوں گے ۔ یاد ہے ناایسی جگہ پراستعمال نہیں کرنا جہاں ذرا بھی خدشہ ہو کہ شرطے چیک کر لیں گے ۔ ‘‘
’’مجھے یاد ہے تم لوگ ٹینشن نہ لو ۔‘‘
’’ ظفار جانے کے لئے تیار ہو؟ ‘‘
’’تیار تو ہوں لیکن میرا دل کرتا ہے ایک بار پاکستان ایمبیسی جا کر وہاں رونا پیٹنا ڈال کر آؤں ۔ انہیں کہوں اپنے لوگوں کو لگام ڈالیں شادی کے نام پر دوسروں کا استحصال نہ کریں۔ ان سے کہوں مجھے نوید ڈھونڈ کر دیں تاکہ میں اپنے بچے کے باپ کا بتا سکوں ۔ ان سے پوچھ کر تو آؤں میرے بے بی کو کونسا کنٹری اون کرے گا۔ کون بطاقہ دے گا ۔ ‘‘ جینی پھر سے ڈپریس ہو چکی تھی۔
’’تم جانتی ہو قصور تمہارا نکلے گا ان باتوں کا فائدہ نہیں ہے خاص کر جعلی بطاقہ بنانے کے بعد تمہیں اور زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔ ‘‘
’’سب سمجھتی ہوں بس مسقط میں پاکستان ایمبیسی کے اتنے قریب آ کر واپس جانا میرے دل کو چبھ رہا ہے ۔ ‘‘
’’ہم بطاقہ بنانے کے لئے سوہار سے مسقط آ ئے تھے نا تو وہ کام تو ہو گیا اس سے بڑھ کر کون ساکام ہوگا ۔ اگر بطاقہ بنانے کا یہ راستہ ہمیں شکیب نہ بتاتا تو سوچو تمہارا کیا بنتا ؟ نہ کہیں کام کر سکتی تھیں نہ کوئی اور چارہ تھا۔ ‘‘
وہ تینوں اپنی مادری زبان میں گفتگو کر رہے تھے ۔ لی کو شکیب نامی بنگلہ سٹاف ممبر نے مسقط میں جعلی کاغذات بنانے والے شخص کا ایڈریس دیا تھا۔ فون پر بات خطرناک تھی اس لئے اس نے کہا تھا جس کے کاغذات بنانے ہیں اسے ساتھ ہی لے جانا تاکہ بار بارنہ جانا پڑے ۔ اسی مقصد کے لئے وہ لوگ ڈھائی گھنٹے کا سفر کرکے مسقط پہنچے تھے ۔ قسمت ساتھ دیتی گئی اور منہ مانگے پیسوں کے عوض کوئی جگاڑ لگا کر جینی کا بطاقہ یعنی عمانی کارڈ بنا دیا گیا۔ جب جینی کے ہاتھ جعلی ہی سہی بطاقہ آ گیا تو دور سے نظر آ تے پاکستانی جھنڈے کی بدولت اسے اندازہ ہوا کہ وہ پاکستان ایمبیسی کے کتنے نزدیک ہے تب سے ہی وہاں اندر جا کر شور شرابا ڈالنے کا دل کر رہا تھا۔ لیکن لی اور مارتھا نے اسے روک دیا۔
’’چلو پھر تمہیں بس میں بٹھا آ تے ہیں، ہمارے بعد ٹیکسی سے جاناپڑے گا۔‘‘ لی نے اسکے بیگ اٹھا کر ڈگی میں رکھے، مارتھا نے بچہ اٹھالیا یوں وہ دونوں پیچھے ہی بیٹھ گئیں۔
’’صلالہ جانا ضروری ہے کیا ؟ مجھے بچے کے ساتھ بارہ گھنٹے کا بس کا سفر سوچ کر وحشت ہو رہی ہے ۔ ‘‘
’’صلالہ جانا اس لئے ضروری ہے کیونکہ تمہیں سوہار میں تمہاری فیلڈ کی جاب نہیں مل رہی ہے ۔شکر کرو عشوہ سیلون والی مان گئی ہے ورنہ ہم کیا کر لیتے ۔‘‘
’’عشوہ والی پوری بچ ہے سارا ایگریمنٹ اسکے حق میں ہے یوں جیسے مجھے خرید رہی ہو۔ ‘‘
’’دو سال کا معاہدہ ہے تب تک سارا قرضہ اتر جائے گا جونہی آؤٹ پاس کھلیں تم فلپائن چلی جانا آ ؤٹ پاس کی وجہ سے جرمانے اور سزا سے بچ کر ملک پہنچ جاؤ گی ۔ اسکے بعد دیکھیں گے تمہارے پاسپورٹ کا باقی جی سی سی کنٹریز کیا ریسپونس دیتے ہیں ۔ بے بی کے بارے میں بھی کوئی واضح سٹانس لینے کے قابل ہو جاؤ گی۔ ‘‘
’’ایک تو وہ سیلری کم دے رہی ہے اس پر سیلون کی ٹائمنگ اور محنت دیکھو کتنی ہو گی اوپر سے ساری تنخواہ وہ قرض کی مد میں کاٹ لے گی۔ ‘‘
’’جینی! اتنا سب تم نے اس گھٹیا پاکستانی پر اعتبار کرنے سے پہلے سوچا ہوتا تو آج حالات یہ نہ ہوتے ۔ ‘‘ لی سمیت اب ساری فلپینو کمیونٹی جینی سے پیچھا چھڑانے لگی تھی کیونکہ نوید سے زخم کھانے کے بعد وہ بال کی کھال اتارنے لگی تھی۔ قصور اسکا بھی نہیں تھا دھوکا کھانے کے بعد اسکی نفسیات ہی بدل گئی تھی۔
’’تم یہ سوچو کہ ایسے مشکل حالات میں جعلی بطاقے پر عشوہ تمہاری سروسز خرید رہی ہے تو ایک قسم کا احسان ہی کر رہی ہے ۔ ہم مانتے ہیں تمہیں خود کو اسکے پاس گروی رکھنا پڑ رہا ہے پر ہمارے پاس تمہارا قرض چکانے کے لئے ریال نہیں ہے ۔ رقم اتنی بڑی ہے کہ چندہ کرنے سے بھی پوری نہیں ہوسکتی۔‘‘ مارتھا نے سہیلی کو نرم و گرم لفظوں میں اونچ نیچ سمجھا کر ریلیکس کرنا چاہا۔
’’جیسس اسے تباہ و برباد کر دے جیسے اس نے مجھے برباد کیا۔ اب تک میرے پاس دو ہزار عمانی ریال ہو چکے ہوتے ،میں اتنی رقم سے ملک جا کر اپنا سیلون شروع کر سکتی تھی۔ اس کم ذات انڈین کے پاس نہ جانا پڑتا۔ ‘‘
’’میں نے یوٹیوب پر ایک ڈاکومنٹری دیکھی تھی انڈین لوگوں کی طویل تاریخ ہے کسی کو قرض دے کر اسے دبا لینا۔‘‘ لی نے اپنی معلومات شئیر کیں۔
’’کتنی فضول ہسٹری ہے۔‘‘ مارتھا نے منہ بنایا تو اسکی گود میں لیٹے بچے نے بھی منہ بنایا ۔
خلیج ٹائم کے ٹرمینل پر لی نے گاڑی روک دی ۔خوش قسمتی سے آ خری ٹکٹ بچی تو جینی کے بطاقے پر خرید لی گئی ۔
’’بچے کی ضروری چیزیں ہینڈ کیری میں رکھ لو ،ویسے تو راستے میں تین سٹاپ آ ئیں گے ، بس سروس والے بتا رہے ہیں۔ ‘‘
’’میرا دل اداس ہے اتنا طویل سفر اور اجنبی شہر…‘‘ جینی بسوری ۔
’’پاگل ہو ہمیں دیکھو ہر سال خریف میں صلالہ جانے کا سوچتے ہیں اور ہر سال بجٹ دیکھ کر چپ کر جاتے ہیں۔ ایک تم ہو جو عین خریف میں صلالہ جا رہی ہو وہ بھی مستقل رہائشی بن کر۔‘‘ لی اور مارتھا نے اسے تسلی دی ۔
’’عشوہ کا ڈرائیور خلیج ٹرمینل سے تمہیں ریسیو کرے گا میں نے تمہاری تصویر شئیر کر دی ہے۔‘‘
’’خریف کی وجہ سے کام کا لوڈ بھی بہت زیادہ ہے اس لئے بھی عشوہ سیلون دل و جاں سے تمہارے انتظار میں ہے۔‘‘
جب تک جدید طرز کی خلیج ٹائم بس مسقط سے روانہ نہ ہوئی، لی اور مارتھا کھڑے رہے۔ بالآخر بس نے رفتار پکڑ لی ۔ جینی نے اب بس کے مسافروں پر غور کیا تو بچے والی وہ اکیلی خاتون تھی۔ اسکے ساتھ ادھیڑ عمر پاکستانی کی سیٹ تھی ۔
’’باجی! آپ جہاز پر صلالہ چلی جاتی تو اچھا تھا چھوٹے بچے کے ساتھ اتنا طویل سفر بہت مشکل ہو جائے گا۔ ‘‘
’’تم کا کنٹری مین میرے کو لوٹ کر پاکستان جا کر چھوپ (چھپ)گیا۔ وہ فراڈ نہ کرتا تو میں جہاز میں جاتی۔ یہ بے بی بھی اسکا ہے۔‘‘ جینی نے رنجیدہ لہجے میں ساری بھڑاس پاکستانی ہمسفر پر نکالنی شروع کر دی ۔ ساتھ والے کو ہم وطن ہونے کے ناتے سب سننا ہی تھا۔ جینی اندر کی گھٹن نکال رہی تھی جب بچے نے فیڈر کے لئے رونا شروع کر دیا۔ پاکستانی ادھیڑ عمر نے بنا کہے بچہ اپنی گود میں لے لیا تاکہ جینی آسانی سے فیڈر بنا سکے ۔ وہ بچے کا باپ نہیں ڈھونڈ سکتا تھا پر موجودہ لمحے میں بچے سے ہمدردی تو کر ہی سکتا تھا۔
’’خدا جانے کیسے لوگ ہیں جو اپنی اولاد کو یوں چھوڑ دیتے ہیں ایک میرے جیسے ہیں جو اس نعمت کو ترستے ہی گزر جائیں گے۔‘‘ ادھیڑ عمر شخص کی گود میں لیٹا بچہ روتے روتے بلاوجہ مسکرایا تھا ۔سارے جھمیلوں سے بے خبر ، اسکے پاس ابھی وقت تھا وہ سب لوگوں پر بھی مسکرا سکتا تھا ۔
٭…٭…٭
انڈین سٹائل کی سفید ریشمی فراک کے ساتھ بدر کو سفید ہی پمپی دی گئی، اس نے خاموشی سے پہن لی ۔ اسکے لمبے گھنے ریشمی بالوں کو ڈھیلے سے ربن سے باندھا گیا تھا۔
’’وہاں جا کر بال کھول لینا ، لپ اسٹک جو شیڈ بتایا ہے وہی لگانا ، سمجھ آئی ؟ ‘‘
بدر نے سر ہلا دیا ۔
وقاص نے اسکا سر سے پیر تک جائزہ لیا اور پھر پسندیدگی سے سر ہلا دیا ۔
’’جوس پیا ہے ؟ ‘‘
اس نے پھر سے سر ہلانے پر اکتفا کیا ،حالانکہ نظر بچا کر وہ جوس واش بیسن میں گرا چکی تھی۔
’’آؤ ملکہ عالیہ …!‘‘ وقاص نے لکیروں سے بھری ہتھیلی اسکے سامنے پھیلائی ۔ بدر نے نفرت سے جھٹک دی تو وہ بے شرموں کی طرح ہنسنے لگا ۔ اس پر بے حسی طاری ہو چکی تھی وقاص سے بھی پہلے وہ خود بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گئی تو پیچھے سے اس نے آواز دی ۔
’’بدر بیگم! خیر تو ہے ؟ ‘‘وہ اسکی خباثت پر توجہ دیے بنا ایک طرف ہو کر اسے راستہ دے گئی۔ وقاص نے اسکے لئے گاڑی کا فرنٹ ڈور کھولا ۔
’’تمہاری حیثیت میرے ڈرائیور کی سی ہے ۔ ‘‘
وقاص نے برا منائے بغیر قہقہہ لگایا۔
’’بہت خوب بدر! اسی طرح چل کرو ، گناہ ثواب سوچنے کی ضرورت نہیں ، جسکے پاس پیسہ ہے اسکے لئے دنیا ہی جنت ہے اگلی جنت کس نے دیکھی ہے ۔ اسی دنیا کو جنت بنانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ شیخ تمہاری سوچ سے بڑھ کر تمہیں نوازے گا ۔شیخ کو خوش کرکے یاسر کا ویزہ بھی مانگ سکتی ہو ،بڑی بڑی کمپنیاں ہیں شیخ کی ۔‘‘
’’کتنے دن چلے گا یہ جعلی شادی کا کھیل ؟ ‘‘
’’یہ تو تم پر ڈی پینڈکرتا ہے جتنی قاتل ہو بھلے سارا خریف شیخ کو دیوانہ بنائے رکھو ہم دونوں کا فائدہ ہے ۔ ویسے تو مجھے لگتا ہے شیخ خود ہی ایگریمنٹ آ گے کر لے گا تم ہو ہی بڑی مست چیز ، میں ہی جانتا ہوں جس طرح نیند کی گولیاں کھا کھا کر شیخ کی امانت کی حفاظت کی ہے ۔ ‘‘
’’تمہیں کسی کی آئی آ ئے ابلیس۔‘‘
وہ شیطانی ہنسی ہنستا رہا ۔
بدر نے منہ پھیر کر شیشے سے باہر دیکھنا شروع کر دیا ۔
رم جھم برستی بارش میں بھیگتی دو رویہ سڑکوں پر گاڑیوں کا اژدہام تھا ۔ وہ حیرت سے ساتھ رینگتی گاڑیوں کی نمبر پلیٹس پڑھتی گئی۔ کوئی دبئی سے تھی تو کوئی کویت سے ، کسی پر کنگڈم آف سعودی عریبیہ لکھا تو کسی پر بحرین تو کسی پر عمان ۔ جس تین منزلہ گھر سے وہ آ رہی تھی وہاں لڑکیاں وزیٹرز کی بات تو کرتی رہتی تھیں لیکن اسے اپنے غموں میں انکی باتیں سننے یا غور کرنے کی فرصت ہی نہ ملتی تھی۔ بدر کو اندازہ ہوا لوگ جان بوجھ کر رفتار دھیمی رکھے ہوئے ہیں یہ بھی انکی انجوائے منٹ تھی ۔اس نے بے تابی سے اپنے دائیں بائیں گاڑیوں کی نمبر پلیٹس اور توجہ سے پڑھنی شروع کر دیں کہ شاید کسی گاڑی پر پاکستانی نمبر پلیٹ بھی ہو۔ وہ پڑھی لکھی تھی ناول کتابوں کی وجہ سے جنرل نالج بھی اچھی تھی اسے خبر تھی پاکستان سے کوئی سڑک ان ممالک تک نہیں آتی تو گاڑی کیسے یہاں ہو سکتی تھی لیکن خواہشوں پر دماغ کی تھوڑی چلتی ہے ۔ جگہ جگہ صاف شفاف سڑکوں پر بہتے جھرنوں اور سر سبز پہاڑوں کی ہورڈنگز پر ویلکم ، مرحبا اور صلالہ آر او پی لکھا نظر آ رہا تھا۔ رنگ برنگی بتیوں سے سجی سجائی سڑک سے وقاص نے جولائی سٹریٹ والے بورڈ کی طرف ٹرن لے لیا۔ اب سڑک کے دونوں طرف کیلے اور ناریل کے درخت تھے کہیں کہیں کھجور کا درخت بھی نظر آ رہا تھا۔ اس طرف رم جھم ہلکی بارش میں بدل چکی تھی ذرا سی دیر بعد بدر کو لہروں کا شور بھی سننے لگا ۔ اسے اندازہ ہوا وہ سمندر کی طرف جا رہے ہیں۔ وہ سیدھ میں دیکھتی رہی بالآخر ایک شاندار یورپی طرز کی ڈھلوان چھت والی عمارت پر بیچ ریزورٹ صلالہ کا نیون سائن جلتا بجھتا نظر آ نے لگا۔ وقاص نے مین انٹرینس کراس کرکے ایک نسبتاً چھوٹے دروازے پر گاڑی روک دی۔ بدر کو اب سامنے اڑتے سمندری بگلے اور بھاپ اڑاتی سمندر کی لہریں نظر آ رہی تھیں۔ وقاص کے پیچھے وہ بھی باہر نکل آئی۔ ہلکی بارش اور سمندری باس سے بھری ٹھنڈا ہوا نے اسکے سفید ریشمی لباس کو یکا یک نم کر ڈالا۔
’’چھتری لینی ہے یا ایسے ہی انجوائے کرتے ہوئے جانا ہے ؟ ‘‘
بدر نے اسکی بات سنی ان سنی کردی تو وہ گیٹ سے اندر داخل ہو گیا۔ اسکے پیچھے پیچھے چلتی وہ مختلف راہداریوں سے گزرتی سیڑھیاں چڑھ کر سویٹ نمبر تین کے آ گے کھڑی تھی۔
وقاص نے بدر کا چھوٹا سا بیگ نیچے رکھ کر اسکی طرف سنہری رنگ کی چابی بڑھا دی۔
’’میں چلتا ہوں کوپن اور چابی ہینڈ بیگ میں ڈال لو ،عشاء کے بعد شیخ آ جائے گا ۔ پلیز اب عقل سے کام لینا کوئی بیوقوفی مت کرنا۔ ‘‘
وہ بے حس بنی کھڑی رہی ۔
’’اندر جا کر دیکھو تمہاری آ نکھیں پھٹ جائیں گی ایسی جگہیں ہم جیسے خوابوں میں دیکھ سکتے ہیں جو شیخ نے تمہاری لئے منتخب کی ہے ۔ ‘‘
’’بہتر ہے اپنی بکواس بند کرکے یہاں سے دفع ہو جاؤ۔‘‘ یکا یک وہ چلا پڑی۔
وقاص نے چپ کا اشارہ کیا اور قدم میرون چمکیلا پتھر لگی سیڑھیوں کی طرف بڑھا دیے ۔ بدر چند قدم بڑھا کر بالکونی کے دریچے میں آ گئی ۔ اس نے وقاص کو دیکھنے کے لئے نظریں نیچے کیں تو نیچے کا سماں ہی بدلا ہوا تھا۔ رنگ و بو کا کوئی سیلاب تھا جو ردھم سے برستی بارش میں کھلے آ سمان کے نیچے آ یا ہوا تھا۔ درمیان میں سیڑھیوں والے میرون چمکدار پتھر کا سٹیج تھا جس پر بیلے ڈانسرز کا گروپ عربی موسیقی پر پیٹ کا ناچ دکھا رہا تھا۔ ارد گرد رنگ برنگی چھتریوں تلے لوگ مختلف مشروبات اور کھانے پینے کی اشیاء کے ساتھ انصاف کر رہے تھے ۔ دفعتاً اس نے اپنے پیچھے دروازہ کھلنے کی آواز سنی تو اس نے پلٹ کر دیکھا ، وہ ناٹے قد کی فلپینو گرل تھی جس نے چندہ ماہ کا بچہ سینے سے لگا رکھا تھا۔ بدر اخلاقاً مسکرائی تو وہ بھی مسکرا کر دریچے کی طرف آ گئی۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page