کسی اجنبی سے دیار میں : قسط نمبر 7
دماغ میں آ نے والا ہر خیال اسکے انتشار کو بڑھائے جا رہا تھا جیسے ہی خیال بدلتا پانی میں اسکی جارحیت بڑھ جاتی۔ یہاں تک کہ بازو تیر تیر کر شل ہو گئے ، جسم اکڑ گیا تو اس نے سارا بدن ڈھیلا چھوڑ دیا۔ سوئمنگ پول کا پانی اس پر حاوی ہونے لگا تو جسم نے خودکار ردعمل کے تحت خود ہی تیرنے کی کوشش کر ڈالی۔
حسین نے اسے کھینچ کر پول سے باہر پھینکا ۔
’’مجنون (پاگل ) ہو گئے ؟ ‘‘
وہ آرام کرسی پر گر کر لمبی سانسیں کھینچتا رہا۔ اشرف اور معتصم سرخ آ نکھوں کے ساتھ بھاگتے ہوئے وہاں پہنچے ۔
’’تم جاؤ اشرفل !‘‘
’’سالم! مجھے اس کہانی کا انجام سمجھ نہیں آ رہا ۔ مان لیا وہ لڑکی ہم نے ڈھونڈ لی اب ؟ ‘‘
’’پہلے ڈھونڈ دو ؟‘‘ آ نکھیں بدستور بند رکھیں ۔
’’ناشتہ کرکے دو تین مکان اور بھی چیک کرتے ہیں انکا ایڈریس پرانے جاننے والے سے ملا ہے ۔ ‘‘
اب وہ تینوں مغربی لباس میں عام سے حلیے بنائے ہیٹس سر پر رکھے کرائے کی سستی کار میں آ بیٹھے ۔
’’ہاں بھئی اشرفل! ہم کیسے لگ رہے ہیں ؟‘‘ معتصم نے دریافت کیا۔
’’اچھے لگ رہے ہیں شیخ!‘‘ اشرفل نے اپنی ازلی سادگی سے جواب دیا ۔
’’اسکو چھوڑو تم لوکیشن پر نظر رکھو بس ۔‘‘حسین نے معتصم کو وارننگ دی ۔ سالم پیچھے بیٹھا تھا ۔
’’یہ ساری بلڈنگ خارجیوں کی ہے میرا خیال ہے ریسیپشن سے پوچھ لیتے ہیں۔ ‘‘
’’اور وہ تمہیں بتا بھی دیں گے کمال ہے ۔‘‘معتصم نے حسین کا مزاق اڑایا ۔
’’یار! ہم عربی شیخ ہیں، خارجی بیٹھا ہو گا کوئی ، فوراً بتا دے گا۔ ‘‘
’’عربی شیخ ، حضور دو نمبر شیخ لگ رہے ہو کنواں کھودنے والے اس لئے کوئی نہیں بتائے گا۔ ‘‘
’’چانس لے لو۔‘‘ سالم نے مداخلت کی ۔
’’نہیں،کوئی ایسا جوڑا نہیں رہتا…‘‘ وہاں سے بس یہی جواب ملا۔
’’ اب تو سکیچ بنانے کی کسر رہ گئی ہے۔‘‘ حسین نے واپس آ کر مایوسی سے کہا۔
وہ ہر اس عمارت میں گئے جہاں ایک بھی پاکستانی آ باد تھا لیکن اس پاکستانی جوڑے کا کوئی سراغ نہ ملا۔
’’یار ایک اور لوکیشن آئی ہے۔‘‘
متین نے بھیجی تھی، ساتھ ہی اسکا وائس نوٹ تھا ۔ ’’یا حسین! اس فلیٹ میں دیکھ لو پتا چلا ہے اس میں تمہارے مطلوبہ حلیہ کی کوئی باکستانی لڑکی موجود تو ہے ۔ ‘‘
متین حسین کے بہنوئی کا بھائی تھا، حسین کی بہن کی شادی دبئی کے شیخ سے ہوئی تھی۔
’’تم نے متین کو کیا بتایا ؟ ‘‘
’’کہانی سنائی ہے کوئی ، تمہارا نام لینے سے تو رہا۔ ‘‘
’’مجھے فکر ہے بات تمہاری حرمہ تک نہ پہنچ جائے تمہاری نئی نئی شادی ہے اس نے کچھ غلط سوچ لیا تو مشکل ہو جائے گی۔ ‘‘
’’الحمدللہ تمہیں ہماری مشکلوں کا احساس تو ہوا ، کون سا شیخ خریف میں صلالہ اور نئی بیوی کو چھوڑ کر دبئی کی گرمی پھانکنے آ تا ہے ؟ ہم آ ئے ہیں ہمارا حسان یاد رکھنا ۔ ‘‘
نیند کے جھونکوں سے ہلتا معتصم مکمل طور پر اس وقت جاگا جب حسین اور سالم گاڑی سے باہر نکل آ ئے ۔ سورج جوبن پر تھا، ہوا میں صحرا کی ریت کی باریک سی کثافت تھی ۔ انہوں نے جیب سے رومال نکال کر ناک پر رکھے ہیٹ تھوڑی اور ٹیڑھی کی اور سیڑھیاں چڑھتے گئے ۔ فلیٹ نمبر چھ کے دروازے پر کسی بھگوان کی مورتی چپکی تھی۔ سالم نے نظر انداز کرکے گھنٹی پر انگلی رکھ دی۔ خاصی دیر کے بعد کوئی دروازے پر آ یا تھا ۔ حسین اور سالم کو سمجھ نہ آئی بات کیسے کریں۔ اس نے خود ہی مشکل آ سان کی ۔
’’ابھی ہمارا آرام کا وقت ہے بعد مغرب کم…‘‘مرد نے انکے حلیوں سے کنفیوڈ ہو کر پہلے عربی میں بات مکمل کی اور بعد میں انگریزی میں ۔
’’ہمیں ایسا کوئی کام نہیں صرف معلومات لینی ہے ایک باکستانی لڑکی کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ ہمیں پتاچلا ہے وہ ادھر تم لوگوں کے پاس ہے اس سے ملوا دو۔‘‘
منحنی سے تلک لگے اس مرد نے دروازہ بند کرنا چاہا تو سالم نے اپنا پیر دروازے میں رکھ دیا۔
’’یہ گمبھیر مسئلہ ہے بہتر ہے تعاون کرو ورنہ شرطہ تو تعاون کرا ہی دے گا ۔ ‘‘
وہ پیچھے ہٹ گیا تو وہ دونوں اندر داخل ہو گئے ۔
چھوٹے سے لاؤنج میں سامنے ہی میلے سے صوفے ترتیب سے لگے تھے دونوں کا ان پر بیٹھنے کو جی نہ چاہا تو کھڑے رہے ۔
’’بلاؤ اس لڑکی کو …‘‘
’’ک…کسٹمر ساتھ ہے ۔‘‘ وہ ہکلاتے ہوئے بولا تو حسین نے فوری طور پر سالم کو دیکھا ۔ اس نے اسکے جسم کو جھنجھنی لیتے صاف دیکھا اور پھر وہ ذرا سا لڑکھڑا کر وہ میلے سنگل صوفے پر ٹک گیا۔
’’جلدی دروازہ کھلواؤ،ورنہ ہم توڑ دیں گے ۔‘‘
حسین کے انداز سے گھبرا کر منحنی شخص نے بار بار آواز دی تو دروازہ ذرا سا کھلا اس میں سے جس لڑکی نے جھانکا وہ بدر ہو ہی نہیں سکتی تھی کہ وہ تو اگلی منزل کی طرف روانہ کر دی گئی تھی۔
سالم جس طرح وہاں سے سر پر پاؤں رکھ کے بھاگا تھا منحنی شخص حیران و پریشان کھڑا دیکھتا رہ گیا۔ حسین کے بیٹھنے کی دیر تھی سالم نے ریس بڑھا دی سپیڈ کی سوئی یکا یک بلندی پر پہنچ گئی۔
’’ہوش کرو سالم! یہ تمہاری گاڑی نہیں ہے اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو۔‘‘
پر سن کون رہا تھا ؟
گھر آتے آ تے وہ بخار میں پھنک رہا تھا۔ بیڈ پر گرتے ہی وہ نیم بے ہوشی کی کیفیت میں چلا گیا۔
یہ اگلی صبح کی بات تھی وہ دونوں سالم کے کمرے میں ہی ناشتہ کر رہے تھے تاکہ اسے کمپنی رہے ۔ اسکے بخار کا گراف نیچے آ چکا تھا ۔
’’تم لوگ صلالہ واپس چلے جاؤ ۔‘‘
’’تمہیں بیمار چھوڑ کر ؟ ‘‘
’’میں ٹھیک ہوں، حرارہ (بخار) ٹھیک ہوتے ہی میں بھی آ جاؤں گا ۔ ‘‘
’’ہم بھی تب ہی چلیں گے ۔ ‘‘
’’ پچھلے کچھ وقت سے میں بہت خود غرض بنا ہوا ہوں دوستی کی اتنی قیمت کون چکاتا ہے جتنی تم لوگ چکا رہے ہو ۔‘‘
’’بکواس نہ کرو مجھے تو یہ خوشی ہے تمہیں ہوش آ گیا ہے دماغ ٹھکانے پر آ گیا ہے ۔ سمجھا سمجھا کے تھکتا جا رہا تھا عشق بھی کرنا ہے تو کسی معتبر عورت سے کرو یہ کیا …‘‘
’’تمام! اس سے آ گے کچھ نہ بولنا حسین ، تمہیں کیا لگتا ہے میں رات کے واقعہ کی وجہ سے اس سے گھن کھا گیا ہوں ؟ وللہ گھن نہیں آئی یہاں لگی آگ مزید بھڑکی ہے۔‘‘ اس نے سینے کی طرف اشارہ کیا۔ ’’میں زندگی میں ایک بار تو اس سے ضرور ہی ملنا چاہتا ہوں یہ طلب بیماری بنتی جا رہی ہے میں بیمار اس حرارت سے نہیں اس روگ سے ہوا ہوں۔ ‘‘
’’سارے میں تو ڈھونڈ لیا ہے اب گلی گلی گھومنے سے تو رہے ؟ ‘‘
’’میں کہہ تو رہا ہوں تم لوگ جاؤ ۔‘‘
’’کیا کرنے کا ارادہ ہے ؟ ‘‘
’’کچھ بھی دماغ میں نہیں ہے ویسے بھی جو کروں گا تم سے مشورہ کرکے ہی کروں گا ۔ ‘‘
’’وعدہ…؟‘‘
’’آ ئیوا!‘‘
’’چلو پھر آرام کرو ہم تیاری کر لیتے ہیں کوئی نہ کوئی فلائٹ تو مل ہی جائے گی ۔ ‘‘
٭…٭…٭
’’ڈی ہائیڈریشن کی وجہ سے سکن رف ہو رہی ہے ۔ پانی اور جوسز اسے زیادہ پلاؤ، ڈائٹ کا بھی بہت خیال رکھو۔‘‘ وہ انڈین بیوٹیشن غالباً وقاص اینڈ کمپنی کی ٹیم ممبر ہی تھی جب ہی تو ویرانے میں بنے اس گھر میں بدر سمیت سب لڑکیوں کا بیوٹی ٹریٹمنٹ کر رہی تھی۔
’’نیتی! باقیوں کو چھوڑو اس (گالی) کو دیکھو بوتھی پر بارہ بج رہے ہیں ایک فیصد بھی پہلے جیسی نہیں لگ رہی ، اسکو شیخ کے ہینڈ اوور کرنا ہے۔‘‘ وقاص نے بدر کو کینہ توز نظروں سے دیکھتے نیتی سے فریاد کی ۔
’’نو وریز ڈئیر ابھی ہمارے پاس کافی گھنٹے ہیں اسکو اچھا سا بنا کر ہی شیخ کو دیں گے۔‘‘ نیتی نے اسکے چہرے اور بازوؤں پر کوئی لیپ لگا کر اسے لٹا دیا اور دوسری لڑکیوں کی طرف متوجہ ہو گئی ۔ بدر کے دماغ میں گھر کے خیالات چلنے لگے ۔ وقاص نے زبردستی اسکی بات اماں سے کرائی تھی ۔ وہ مجبور تھی اتنا کہ جیسے جیسے وقاص حکم دیتا گیا اسی کے مطابق وہ ماں سے جھوٹ بولتی گئی ۔ اسکے دماغ میں ماں کے کوسنے اور بد دعائیں گونجنے لگیں۔
’’بدر! تجھے کب سے پیسے کا اتنا ہوکا ہوگیا جو شوہر چھوڑ کر کسی کے ساتھ بھاگ گئی۔ میں تجھے ساری اولاد سے سیانی سمجھتی تھی۔ ‘‘
’’اماں! میں سیانی ہوں اسی لئے تو یہ فیصلہ کیا ۔‘‘گزرے لمحے اور اپنے الفاظ سوچتے ہوئے اسکی آ نکھوں سے پھر سے ندیاں بہنے لگیں ۔
’’اماں! شیخ بہت امیر ہے میں مجبور ہو گئی تھی۔ ‘‘
’’وقاص سے طلاق لینے پر مجبور ہو گئی تھی کیا؟ ‘‘
’’نہیں! شیخ سے نکاح کرنے پر۔ ‘‘
’’میری توبہ یاالٰہی میری توبہ ، ایسی سیاہ کار اولاد میں نے جنی، بے غیرتے عدت میں کونسا نکاح ہوتا ہے؟‘‘
اور پھر یاسر کی چنگھاڑتی آواز …
’’بدر! تو ہمارے لئے مر گئی،اگر کبھی پاکستان کا منہ کیا تو تیرے ٹوٹے اپنے ہاتھوں سے کروں گا۔ ‘‘
وقاص نے سپیکر پر کرکے اسکی بات کرائی تھی یاسر کی آواز سنتے ہی اس نے فون بند کر دیا تھا۔
’’ریڑھی والا(یاسر)سلطان راہی بنا ہوا ہے بدر جہاں بیگم…!‘‘ وہ اسکا اور اسکے رشتوں کا مذاق بناتا رہا تھا۔ بدر کے پاس سوائے روتے رہنے کی کوئی راستہ ہی نہ تھا۔ وہ اس دن بھی روتی رہی تھی آ ج بھی بند آ نکھوں سے اشک گراتی دور سمندر پار بیٹھی ماں سے باتیں کرتی رہی ۔
’’اماں! ہوکا مجھے نہیں آ پکو ہو گیا تھا اسی لئے تو لالچ میں آ کر ان مجرم لوگوں کے ہر جھوٹ کو سچ مانتی گئیں ۔ اماں! شریکے میں ناک اونچی تو آ پکو کرنی تھی ، دبئی کا ویزہ تو یاسر کو چاہیے تھا۔ مجھے تو صرف سر کی چھت اور کرائے پر ملنے والے ناول ہی کافی تھے ۔ میں نے کب اونچے خواب دیکھے تھے میں تو صرف آپ لوگوں کے بہکاوے میں آئی تھی اسکی قیمت چکانے جا رہی ہوں۔ میرا ایک بار پھر ہار سنگھار کیا جا رہا ہے پہلے بھی مجرم کے لئے تھا اب بھی مجرم کے لئے اور حرامکاری کے لئے ہے ۔ گناہوں کی دلدل میں دھنسنے جا رہی ہوں صرف تم لوگوں کے لئے ، اپنی بہنوں کی عزت کی خاطر …‘‘ اب کہ اس خود ساختہ گفتگو پر اس سے ضبط نہیں ہوا تو بلند آواز سے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ نیتی اور باقی لڑکیاں بھاگ کر اسکے پاس آئی تھیں۔
منہ دھلا کر ہاتھ میں جمبو سائز فریش اورنج جوس پکڑا اسے ونڈو میں کھڑا کر دیا گیا۔
’’سلی گرل ! آؤٹ سائیڈ دیکھو… لمبے سانس لو ، نیچرل بیوٹی تمہیں ریلیکس کرے گی ۔ ‘‘
بدر کا ایک بار تو دل کیا ونڈو سے چھلانگ لگا دے لیکن وہ جانتی تھی وہ ایسا نہیں کرسکتی ۔ دوسری طرف وقاص کا یہاں والا ساتھی بھی کافی جارح مزاج تھا اسکے سامنے اس نے حکم عدولی پر ایک لڑکی کو ننگا کروا کے ٹھنڈے پانی میں ڈالنے کا حکم دے دیا تھا۔ بدر بچپن سے جاسوسی ناول پڑھتی آ رہی تھی اسے معلوم تھا یہ سارے ٹرک اسے نفسیاتی طور پر خوفزدہ کرنے کے لئے تھے لیکن یہ الگ بات تھی کہ وہ خوفزدہ ہی ہوئی تھی ۔ بدترین حالات و واقعات پڑھنے اور سامنا کرنے میں زمین آسمان کا فرق تھا ۔
گہری بے بس سانس لے کر اس نے ونڈو سے باہر جھانکا، ہلکی پھوار برس رہی تھی ۔دور نظر آتے پہاڑوں پر بادل ایک دوسرے کے پیچھے دوڑ رہے تھے ۔ یہ گھر دوسرے گھروں سے تھوڑا سا ہٹ کر تھا ۔ سارے نظر آتے گھر دو سے تین منزلہ تھا ۔ یہ علاقہ دبئی سے بالکل مختلف تھا ۔موسم اور رہن سہن دونوں اعتبار سے …
اس نے پہاڑوں کے درمیان گھومتے بادلوں پر نظریں ٹکا دیں ۔
’’شاید میرا پاکستان اس طرف ہی ہے ۔‘‘
ڈپریشن کم کرنے کے لئے اس نے لمبے سانس لینے شروع کر دیے، پر دل پھر بھی پاکستان شیخوپورہ کے دور دراز محلے کی طرف کھنچتا چلا جا رہا تھا۔ اسکے شفاف گالوں سے آ نسو ڈھلک کر سلک کی قمیص میں جذب ہو گیا۔
٭…٭…٭