کسی اجنبی سے دیار میں : قسط نمبر 6
’’تو کیا سمجھ آئی شیخ حداد؟‘‘
شیخ سالم سمجھ کر مسکرا دیا ۔
’’ٹھیک ہے بابا میں چلتا ہوں۔‘‘ باپ کے ہاتھ بڑھانے پر اس نے ہاتھ کی پشت پر بوسہ دیا اور دفتر سے نکل آ یا۔ دماغ میں اپنا پروگرام ترتیب دے کر اس نے حسین اور معتصم کو کال ملا لی۔
’’تمہارے دماغ سے ابھی تک وہ عورت نہیں نکل رہی؟‘‘حسین نے کھردرے لہجے میں سالم سے پوچھا ۔
’’نہیں نکلتی جب ہی تو کہہ رہا ہوں میرے ساتھ دبئی چلو میں اس سے ملنا چاہتا ہوں۔ ہمارے گھر کے سامنے ہی تو مقیم ہے آ خر پتاتو چلے اس رات وہ آ دمی اسے گھسیٹ کر اندر کیوں لے جا رہا تھا…‘‘
’’میاں بیوی کی کوئی لڑائی ہوگی یہ ہندی لوگ حرمہ پر تشدد کرنے میں مشہور ہیں ۔‘‘حسین نے بیزاری سے کہا۔
’’تمہیں کیسے کنفرم وہ میاں بیوی ہی تھے؟‘‘ اب کہ معتصم نے سوال اٹھایا۔
’’اندازہ ہی لگا رہا ہوں۔‘‘ حسین نے برا منایا۔
’’بتاؤ! ساتھ چل رہے ہو یا نہیں؟‘‘سالم نے دو ٹوک پوچھا۔
’’چل رہے ہیں بابا…‘‘ناخوش ہی سہی پر جانے کو تیار ہو گئے۔
’’چار بجے کی فلائٹ ہے، ایئر پورٹ پر ملتے ہیں۔‘‘
٭…٭…٭
تاحد نگاہ کہیں ریتلا تو کہیں چٹیل میدان تھا۔ دور کہیں سڑے ہوئے پہاڑ جھلک دکھلا رہے تھے۔ کسی ذی نفس کا نشان تک نہ تھا۔ بدر ہتھیار ڈال چکی تھی نہ بھی ڈالے ہوتے تو بھی یہاں بھاگنے چھپنے کا سوچنے کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ اسکے بار بار کیبن کھڑکانے پر وقاص نے کوئی دس منٹ پہلے ہیوی ٹرالر روکا تھا۔ بدر نے باہر نکلتے ہی پہلے شدید قے کی تھی۔ پھر وہ نڈھال سی چٹیل زمین پر چت لیٹ گئی۔ ساتھ والی تینوں لڑکیاں واک کرکے بدن میں خون کا بہاؤ ٹھیک کر رہی تھیں۔ وقاص اسے اپنے ڈرائیونگ کیبن سے سیون اپ پکڑا کر فون سے چھیڑ چھاڑ کرتا ان سے دور ہٹ گیا۔ بدر نے اندازہ لگایا کسی شہر کے نزدیک ہیں اسی لئے وقاص کے فون کا نیٹ ورک کام کرنے لگا تھا۔
وہ دور ہٹ گیا۔
’’ہاں بھئی نرگس دیدار! دوبارہ ریڑھی والوں نے رابطہ تو نہیں کیا؟‘‘
’’کیسے کرتے…؟ میں نے پتے ہی بڑی چالاکی سے پھینکے تھے۔ رابطہ کس بل بوتے پر کرتے؟‘‘
’’پتے پھینٹ کر تو میں نے ہی دیے تھے نا؟‘‘ وقاص نے دانت نکالے۔
’’یہ لوگ تو پہلی فیملیز سے کہیں بڑھ کر بیوقوف نکلے، میں نے سوچا تھا خاصا ذلیل ہوں گے،یا کریں گے لیکن نہیں دوبارہ نہیں آ ئے۔‘‘
’’پھربھی تم یہ شہر جتنی جلدی ہو سکے چھوڑ دو ۔ہر ثبوت احتیاط سے مٹا نا۔‘‘
’’سارا انتظام ہوچکا، صبح کراچی کے لئے نکل جانا ہے یہاں اتنا ہی دانہ پانی تھا۔ تم بتاؤ خیریت سے بارڈر پار ہو گیا؟‘‘
’’بس ایک رہتا ہے دعا کرنا وہ بھی اسی طرح نکل جائے۔ اب تو ٹھکانے پر پہنچ کر ہی رابطہ ہو سکے گا۔‘‘
’’میں ان کے ساتھ اندر نہیں رہ سکتی مجھے ان سے سڑاند آ تی ہے۔‘‘ بدر نے روہانسے انداز میں اسے بتایا۔
’’تو بی بی! شیخ کی آ نکھ نہ پھوڑتی تو اسکے ساتھ جہاز میں سفر کر رہی ہوتی ، اب بھگتو۔‘‘ وقاص نے بے مروتی سے اسے دھکا دے کر ہیوی ٹرالر کے اس خفیہ کیبن میں پھینک دیا۔ وہ ایک بار پھر سے ان تینوں کے اوپر گری۔
’’کسی طرح اے سی تیز کر دو اندر انجن کی بہت ہیٹ ہو جاتی ہے ۔‘‘
لیکن وہ دھاڑ سے تختہ گرا کر دروازہ بند کر چکا تھا۔
اس کے بعد کچھ دیر تک تو انہیں سامان کھینچنے کی آواز آ تی رہیں ، وقاص وہ چوکور رخنہ سامان سے چھپا رہا تھا۔ بالآخر مطمئن ہو کر اس نے ٹرالر پھر سے سٹارٹ کر لیا۔
بنگلہ دیشی لڑکی کے ساتھ چپک کر لیٹنے سے بدر کا دل پھر سے خراب ہونے لگا، متلی کی کیفیت بڑھنے لگی۔
’’فکر ما فی ، سفر کمتی رہ گیا ہے۔‘‘( پریشان نہ ہو تھوڑا ہی سفر بچا ہے)
صرف بنگلہ لڑکی کو اردو ، ہندی اور عربی مکس آ تی تھی، مشکل سے ہی سہی بدر اسکی اور وہ بدر کی بات سمجھ رہی تھی۔ نیپالی اور سری لنکن لڑکیاں اپنی مادری زبان کے علاوہ صرف عربی بول سکتی تھیں۔ وہ آ پس میں گفتگو کر رہی تھیں۔
’’ہم جا کہاں رہے ہیں؟ ‘‘
’’میرے کو مضبوط مالوم نئیں یمن کا جمین (علاقہ) مالوم پڑے ہے۔‘‘ وہ بلا وجہ مسکرائی تو اسکے دونوں گالوں میں گڑھے پڑے جو بلاشبہ اسکی مسکراہٹ کو خوبصورت بناتے تھے پر بدر کو وہ ڈریکولا لگی۔ اسے اس سفر پر ہر اس لڑکی سے بدبو آ رہی تھی جو بنا کسی مجبوری کے اپنی مرضی سے صرف عیاشی کی خاطر اس دھندے میں شامل ہوئی تھی۔ بنگلہ دیش کی رفیقہ بھی ایسی ہی تھی وہ چار سال سے اسی کام میں تھی۔ بدر نے اپنی توجہ ہٹانے کے لئے اسے پھر سے یہ غلیظ اور صریح گناہ کا کام چھوڑنے کے لئے قائل کرنا چاہا۔
’’تمہارا پکا ویزہ ہے جب بھی چاہو واپس جا سکتی ہو اپنا ملک کیسا بھی ہو اس ذلت سے بہتر ہے ۔ ‘‘
’’تیرا ملک بہتر ہوئے گا میرا ملک نفر بوہت جیادہ ،اتنا جیادہ دھرتی مشکلا ، نوم کا مشکل ہے۔ پانی میں نوم میرے کواچھا نہیں لگتا۔ کام نہیں ہے۔ بچہ لوگ شکول نہیں، موفلسی جیادہ ۔ یہ ملک بوہت زین ۔ زین نوم ، زین سفر، زین مکان ، کل شی زین ۔‘‘ وہ پھر سے ڈمپلز کے ساتھ مسکرائی۔
بدر اسکی زبانوں کی چٹنی سے اتنا سمجھ سکی کہ وہ اپنے ملک نہیں جانا چاہتی کیونکہ بقول اسکے وہاں آ بادی بہت زیادہ ہے لوگوں کے پاس سونے کو جگہ نہیں، بچوں کے پاس سکول نہیں اور لوگوں کے پاس سونے کو جگہ نہیں بچی وہ پانی میں کھڑی کشتی پر سو جاتے ہیں پانی میں سونا اسے پسند نہیں ہے غریبی زیادہ ہے ۔ اسے عرب ملک ہی اچھے لگتے ہیں جہاں نیند اچھی ہے سواری اچھی ہے گھر اچھے ہیں ہر شے اچھی ہے وغیرہ وغیرہ۔
بدر کو معلوم نہیں تھا وہ غلط کہہ رہی ہے یا درست لیکن اسے اس خوبصورت بنگلہ حسن کا یوں جان بوجھ کر خود کو تباہ کرتے جانا پسند نہیں آ رہا تھا۔
’’تم بھی تو یہی کچھ کرنے جا رہی ہو پھر اس سے اتنی نفرت کیوں؟‘‘ دماغ نے آ ئینہ دکھایا ۔
’’میرے پاس کوئی راستہ نہیں ہے حتی کہ موت کا بھی نہیں ، یہ بھی ایک طرح کی موت ہی ہے چلو مہر ، تاج سب اس امتحان سے بچ جائیں گی ۔ ‘‘
’’پیسے بھی تو آ ئیں گے ۔‘‘دل نے اسے بشاش کرنے کی کوشش کی۔
’’میں لعنت بھیجتی ہوں پیسوں پر …‘‘انتڑیوں میں مروڑ اٹھنے لگے، بدن کے ہر ہر عضو سے دعا نکلنے لگی۔ ٹرالر کی سپیڈ کم ہوئی پھر رک گیا۔ بنگلہ لڑکی نے منہ پر انگلی رکھ کر ساکت ہونے کا کہا ایک بار تو بدر کا دل کیا کیبن کھڑکا ڈالے لیکن پھر میڈیا میں چلتی خبریں ، مہر، زیبی ، تاج اور فخر کی زندگی اور انٹرپول کا ڈر اسے ساکت کر گیا۔ چند لمحوں بعد ٹرالر پوری سپیڈ سے بھاگ رہا تھا بدر کو وقاص کی خوشی کا اندازہ ہو گیا۔ وہ بنا پوچھے بتائے سمجھ گئی کہ آ خری رکاوٹ بھی پار ہو گئی ہے اور اب وقاص اپنی منزل پر پہنچ گیا ہے۔