سلسلہ وار ناول

کسی اجنبی سے دیار میں : قسط نمبر 6

’’ایک تو اڈہ بدلنے کی وجہ سے سیل ہی کم ہو رہی ہے اوپر سے تم لوگوں کو خرچہ کروائے بنا چین ہی نہیں آ تا۔‘‘ یاسر جھنجھلا یا بیٹھا تھا۔
’’یاسر! تم پرانے والے اڈے پر جا کر تو دیکھتے، کیا پتہ کمیٹی والے سب جان چھوڑ چکے ہوں۔‘‘سیما نے فکر مندی سے یاسر کو مشورہ دیا۔
’’کوئی نیا افسر آ یا ہوا ہے جب تک اس کا افسری کا کیڑا نہیں مرتا کمیٹی والے ٹھنڈے نہیں پڑیں گے مجھ سے روز نہیں ڈنڈے کھائے جاتے۔‘‘ یاسر بیزاری سے بولا ۔
’’ یاسر! آ خر کب تک اشرف آئے گا جب پیسے ہی پورے دینے ہیں تو کوئی اور ٹیکسی کروا لیتا ، اشرف کہیں دور سواری چھوڑنے گیا ہوا ہے تمہیں لارا لگا دیا ہوگا۔‘‘ زبیدہ نے ان دونوں کی گفتگو کے درمیان پھر سے اپنے ذہن میں اٹکے خدشے کا اظہار کیا۔
’’اماں! پورے پیسوں کی بھی خوب کہی اشرف بھائی سگی چھوٹی بہن کی طرح عزت دیتا ہے اس لئے یاسر کو بہنوئی سمجھ کر صرف تیل کے پیسے لے گا لاہور جانے میں جتنا تیل خرچ ہوگا بس اتنے ہی ، اب تم کو یقین نہیں آ تا تو کیا کریں ۔‘‘ سیما نے زبیدہ کو بھرپور جواب دیا ۔
’’تو اپنا دماغ کھپانے کو رہنے دے جب انہوں نے کرنی اپنی ہے تو سر کھپانے کا فائدہ ، خرچہ کرکے ہی چین آ ئے گا۔‘‘
’’ جب ہم کہتے تھے بدر سے کہو یاسر کو جلدی بلا لے تب باجی فخر اور ان کو نواں نواں ویاہ یاد آ جاتا تھا نئے جوائی سے شرم آ تی تھی۔ مری کے لئے پیسے منگواتے شرم نہ آئی۔ آ ج یاسر بھی ادھر ہوتا تو یوں منہ لٹکا کر نہ بیٹھے ہوتے بھائی تھا بھاگ کر بہن کے گھر جا کر پتا کر لیا کرتا۔پر نہ جی اب بھگتو ۔‘‘ سیما نے بھگو بھگو زبیدہ کو ماریں۔ مہرو نے ماں کو چپ رہنے کا اشارہ کیا لیکن زبیدہ کتنا برداشت کرتی ، قوت برداشت تو اسکی بھی واجبی ہی تھی۔
’’مری کے پیسوں کے طعنے دیتے دیتے تیری زبان سوکھ جاتی ہے کتنی بار بتایا ہے وقاص نے خود بھیجے تھے ، لڑکیوں کو پتاہی تب چلا جب اس نے میسج کیا تھا۔‘‘
سیما نے ناک سے مکھی اڑانے کے انداز میں بات بھی اڑا دی۔ تب ہی اشرف کی مس کال آ گئی۔ یہ اشارہ تھا کہ گلی کی نکڑ پر آ جاؤ گاڑی اندر نہیں آ سکتی تھی۔ یاسر نے ماں کا ہاتھ پکڑ کر اٹھایا۔ آ ہستہ آ ہستہ قدم اٹھاتے ماں بیٹا گاڑی تک جانے لگے۔
اشرف سیما کا تایا زاد تھا اور کسی کا ڈرائیور بھی ، مالکوں سے پوچھ کر کبھی کبھار وہ خاندان کے لوگوں کو ہسپتال یا ادھر ادھر لے جاتا تھا جیسے آ ج انہیں لاہور لے کر جا رہا تھا۔
’’یاسر! فخر بھی ساتھ ہوتی تو اچھا ہوتا۔‘‘
’’اماں! اسکے سسرال نے نہیں آ نے دیا تو اب کیا کر سکتے ہیں؟‘‘
’’ہاں یہ تو ہے، ان کی ماننی تو پڑتی ہے ، ہوتی تیری بیوی جیسی تو سب سے متھا لگا کر میکے کا کام ضرور کرکے آ تی۔‘‘ زبیدہ سیما کے انداز کی نشاندھی کئے بنا رہ ہی نہیں سکتی تھی۔
’’چل اماں! بس کر تجھے سیما میں کیڑے ہی نظر آتے ہیں۔‘‘
اشرف انہیں نرگس کے گیٹ کے سامنے اتار کر گاڑی پارک کرنے ذرا دور لے گیا۔ وہ واپس آ یا تب بھی زبیدہ اور یاسر دروازہ کی بجا رہے تھے۔ بمشکل تمام گیٹ کھولا گیا۔ زبیدہ ہانپتی کانپتی ڈرائنگ روم تک پہنچی اور پھر صوفے پر گر گئی۔ اشرف بھی مرعوب سا بیٹھ گیا۔ حالانکہ اسکے مالک کا بھی بہترین و جدید بنگلہ تھا لیکن دور پار کی ہی سہی لیکن رشتے داری تو تھی اس لئے اندر کا احساس کمتری تھا جو مرعوب کئے دے رہا تھا۔ کافی وقت کے بعد نرگس ان کے سامنے آئی تھی۔
’’تم لوگ میرے گھر کیا لینے آ ئے ہو؟ اگر تو معافی مانگنے آ ئے ہو تو میں ہرگز معاف نہیں کروں گی۔ نکل جاؤمیرے گھر سے ۔‘‘اپنی بات میں رعب و وزن پیدا کرنے کے لئے اس نے انہیں گھر سے نکلنے کا ایک بار اردو اور دوسری انگلش میں کہا۔
’’ارے بٹیا رانی! کیا بول رہی ہو؟ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا ، کس بات کی معافی کا کہہ رہی ہو ؟ میری تو جان سولی پر لٹکی ہے بچوں سے کوئی رابطہ نہیں کوئی خیر خبر نہیں ، مانو صدیاں گزر گئیں بدر کی آواز سنے۔‘‘ زبیدہ جذبات کے ہاتھوں رو ہی پڑی۔
’’جھوٹ نہ بولو میرے ساتھ یہ ڈرامے کرنے کی ضرورت نہیں۔ تم سب ملے ہوئے ہو۔ جو بھی اس بدکردار لڑکی نے کیا تم لوگوں کے کہنے پر کیا۔ سوچا تھا غریب ہے کیا پتا تھا بے غیرت اور بدکردار بھی ہے۔‘‘
’’منہ سنبھال کر بات کریں باجی !ہم یہاں اپنی پریشانی میں آئے ہیں آپ ہمیں گالی دے رہی ہیں۔‘‘
’’تم تو گالیوں کے لائق ہو، تمہاری بہن گولیوں کے لائق ہے ۔‘‘
اب کہ زبیدہ دہل گئیں۔ اشرف بھی معاملے میں کود پڑا۔
’’میڈم! ہماری بات سنیں پھر اگلی بات کریں۔‘‘
یاسر اور زبیدہ نے الف تا یے نرگس کو قصہ سنایا جو اس نے خاموش رہ کر سنا اور پھر تالیاں بجا کر ان کی توہین کی۔
’’خوب کہانی گھڑی ہے بڑی بی تم لوگوں نے ، سچ تو یہ ہے کہ بدر تم لوگوں کے مشورے سے شیخ کے ساتھ دفع ہوئی ہے۔ میرے بھائی کے پیسوں سے گزارا نہیں ہوتا تھا اسی لئے تم لوگوں نے کہا اپنے حسن کے جال میں کوئی امیر مرغا پھنسا لو۔ مبارک ہو اس نے ایسا ہی کیا ہے دبئی پہنچتے ہی کسی عربی شیخ کے ساتھ سیٹنگ کرلی اس عربی نے بدر کے کہنے پر وقاص سے زبردستی اس کی طلاق کروا لی ہے تاکہ خود اس کے ساتھ عیاشی کر سکے۔‘‘
’’بکواس بند کر بی بی ، میری باکردار بہن پر الزام نہ لگا۔‘‘
’’الزام …؟ تم تو چپ ہی کرو میں کیا جانتی نہیں تم دبئی جانے کے لئے درہم کمانے کے لئے کتنا مرتے جا رہے ہو یقینا تم نے ہی اسے یہ سب کرنے کو کہا ہوگا۔‘‘
’’اپنا منہ بند کر لو ورنہ…‘‘
’’ورنہ کیا…؟‘‘ وہ اس سے دوگنی آواز میں چلائی ۔ اس نے بلند آواز سے ان پر نفسیاتی دباؤ ڈالا اور وہ قسمت کے مارے لوگ دباؤ میں آ بھی گئے۔
’’ ٹھہرو! میں ثبوت دکھاتی ہوں۔‘‘ وہ ٹھک ٹھک کرتی ایک کمرے میں گھسی ، وہ تینوں گنگ سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہ گئے۔ واپس آئی تو ہاتھ میں خاکی لفافہ تھا اس نے یاسر کی طرف بڑھا دیا۔ اشرف نے گردن لمبی کرکے یاسر کے ساتھ خاکی لفافے سے برآمد ہونے والی طلاق پڑھی۔
’’یہ طلاق نامہ ہے آ نٹی جو زبردستی اس نے میرے بھائی سے لیا۔‘‘ نرگس کی آ نکھوں میں آ نسو تھے۔
’’کیا بگاڑا تھا ہم نے…؟ آپ لوگوں نے ہماری عزت دو کوڑی کی کردی میرے بھائی کو جذباتی روگ لگا دیا۔‘‘
وہ تینوں یوں تھے جیسے ان پر طلسم پھونک دیا گیا۔ ان کے سان و گمان میں ایسی صورتحال نہیں تھی تو انہیں نمٹنے کاسلیقہ کہاں سے آ تا۔ نرگس بولتی جا رہی تھی وہ یوں تھے کہ جیسے ذہنی طور پر غائب ہوں۔ آ خرکار نرگس نے اپنا فون کھولا اور زبیدہ کے پاس بیٹھ گئی۔ زبیدہ دونوں مردوں کی نسبت آ سان ٹارگٹ تھا پھر وہ ان سب کی نفسیات جانچ چکی تھی اسے معلوم تھا آخری اتھارٹی زبیدہ ہے وہ زبیدہ کی فطرت اور خواہشیں سب جانتی تھی چنانچہ وہ اسی کو پھر سے ٹریپ کر چکی تھی۔ مگرمچھ کے آ نسو بہاتے اس نے واٹس ایپ سے وقاص کا وائس میسج پلے کر دیا۔
رندھی آواز میں وقاص آنسو ضبط کرتے بول رہا تھا۔
’’آ پی! میں برباد ہو گیا میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا بدر کو تھوڑے وقت میں زیادہ کی چاہ لے ڈوبی۔ میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا اس بڈھے شیخ اور بدر دونوں کا خون کر دوں گا میں بتا رہا ہوں۔ میں اندر سے مر گیا ہوں شرمندہ ہوں کہ میں اس قابل نہیں تھا جو ایک عورت کوقابو کر سکتا۔ میں اس بے عزتی کا بدلہ لے کر رہوں گا بدر کی لاش جب تابوت میں بند ہو کر پاکستان آ ئے گی تو میری عزت خود ہی بحال ہو جائے گی۔ آپی! آپ اس کے گھر والوں کو کچھ نہ بتانا وہ سب شریف لوگ ہیں بدر یہاں آ کر حدود سے باہر نکلی ہے اس میں ان کا کوئی دوش نہیں۔ میرا قصور ہے چھوٹے گھر کی لڑکی کو عیش بہت کروا دی تھی۔ ان سے لڑنے جھگڑنے کی بجائے تعلق ختم کر دیں بس ، یوں جیسے ہم ان سے واقف ہی نہیں۔‘‘
بیچ بیچ میں نرگس کے سسکیوں اور تسلیوں بھرے وائس میسج بھی تھے۔
’’سن لیا میرا بھائی کس قدر پریشان ہے؟ وہ بڑا بھولا ہے اسے معلوم ہی نہیں تم لوگ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہو۔ اگر شریک نہ ہوتے تو کب کے پتاکر لیتے ۔ لیکن نہیں ، کسی نے پلٹ کر نہیں پوچھا کہ دن میں چار چار بار فون کرنے والوں کا فون کیوں بند ہے۔ اس کا سیدھا سا یہی مطلب ہے تمہاری بیٹی تم سے رابطے میں ہے ہم شریف لوگ بیچ میں مارے گئے ہیں۔‘‘
زبیدہ تو بات کرنا ہی بھول گئی ورنہ اپنے احساسات ضرور ہی بتا دیتی…کہ انہوں نے اس بات کو ایک تو امیروں کی ادا جانا تھا دوسرا انہیں لگتا تھا نرگس ان کا روز روز آ نا برا نہ مان جائے کیونکہ شادی سے پہلے اس نے صاف کہا تھا رشتے دار راضی نہیں ہیں تو کوئی رشتے دار گھر بھی ہو سکتا تھا۔ تیسری بات ان کے اپنے گھریلو مسائل تھے جس کی وجہ سے مزید دیر ہوتی گئی۔ اس طرح کا قصہ تو کسی کے سان و گمان میں بھی نہ تھا۔
’’اب آپ میرے گھر سے تشریف لے جائیں اور اس ایڈریس کو بھول جائیں۔ خود جائیں گے یا میں گارڈز کو بلاؤں؟‘‘
اشرف اور یاسر بمشکل زبیدہ کو گاڑی میں بٹھا سکے شیخوپورہ پہنچتے پہنچتے وہ بے ہوش ہو چکی تھی۔ ہوش گنوانے سے پہلے اشرف کے سامنے ہی وہ یاسر سے یہ کہنا نہ بھولی …
’’یاسر ہم برباد ہو گئے ہمارا کچھ بھی نہ بچا ، ابھی کسی رشتے دار تک بات نہ پہنچے۔‘‘
لیکن وہ بھول گئی کہ اشرف ساتھ ہے اور سیما کو یاسر بتا دے گا۔ اشرف اور سیما کے ہوتے ہوئے بات جمبو جیٹ بننے سے کوئی نہ روک سکا۔
٭…٭…٭
وہ دونوں روڈ پر کیب کے انتظار میں کھڑی تھیں۔ مارتھا نے جینی کا بچہ گود میں پکڑا ہوا جبکہ نڈھال سی جینی زبردستی خود کو کھڑا رکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ جینی کی مزید بگڑتی حالت دیکھ مارتھا نے گزرتی گاڑی کو اشارہ کر دیا۔ گاڑی رک بھی گئی۔ مارتھا جینی کو کھڑا چھوڑ کر گاڑی کی ونڈو میں جھکی تو پیچھے جینی سڑک پر ٹانگیں بچھا کر بیٹھ چکی تھی۔ اب کہ عمانی مرد اور عورت گاڑی سے نکل آئے۔
’’کیا مشکل ہے؟‘‘
’’یہ زچہ ہے یہ اسکا بیٹا ہے۔ بیمار ہے اس لئے ہسپتال لے کر جا رہی ہوں۔‘‘
’’اس کا زوج کہاں ہے؟‘‘
’’ملک بھاگ گیا یہ بچہ میری گود میں چھوڑ کر۔‘‘
اب کہ انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر اثبات میں سر ہلا دیا۔ بچہ پچھلی سیٹ پر لٹا کر مارتھا نے اسے گاڑی میں بٹھایا۔
’’کس ہسپتال جانا ہے؟‘‘
’’ لیا میڈیکل کمپلیکس ۔‘‘
’’ان کی گائنی ڈاکٹر اچھی نہیں ہے۔‘‘ سیاہ برقعے میں ملبوس عمانی خاتون نے ہمدردی سے انہیں دیکھا۔
’’شیخا! ہمارے پاس فلوس (پیسے) نہیں ہیں لیا والا فلپائنی سٹاف فری چیک اپ کرا دے گا۔‘‘
’’ہم چیک اپ کروا دیتے ہیں۔‘‘
مارتھا اور جینی نے اسے خدائی مدد سمجھ کر قبول کر لیا اور پھر لیکسز لینڈ کروزر کے عمان کے مہنگے ترین پرائیویٹ مستشفاء ’’ بدر السماء‘‘ کے سامنے رکنے پر ذرا حیران نہ ہوئیں۔ انہیں عمانیوں کی سخاوت کا بارہا تجربہ ہو چکا تھا۔ اب واحد پریشانی بطاقہ نہ ہونے کی تھی۔
’’یا شیخ! پریشانی میں ہم اس کا بطاقہ گھر بھول آئی ہیں ۔‘‘ مارتھا نے ریسیپشن پر جاتے شیخ کو ڈرتے ہوئے مطلع کیا۔
’’ما فی مشکل!‘‘ (کوئی مشکل نہیں!)
اب وہ ٹوکن پکڑے اپنی باری کے انتظار میں تھیں جب عمانی خاتون ان کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ اس نے کمبل اٹھا کر بچے کا چہرہ دیکھا تو وہ مسکرا رہا تھا، وہ بھی مسکرا دی۔ پھر اس نے اپنا ہینڈ بیگ کھولا اس میں سے پچاس پچاس عمانی ریال کے چند نوٹ نکالے اور بچے کے کمبل میں رکھ دیے۔
’’بچے کے کپڑے لے لینا اور خود بھی اچھی خوراک کھانا یہ تمہارے لئے ضروری ہے ۔ میرا فون نمبر لے لو جب تک ٹھیک نہیں ہو جاتی ہو راشن کے پیسے مجھ سے لیتی رہنا۔‘‘
تب ہی عمانی شیخ بھی ان کے پاس آ کر رک گیا ، اس نے اپنے سفید بے داغ داشے (عمانی مخصوص لباس) میں سے سیاہ والٹ نکالا اس میں سے چند نوٹ نکالے اور بنا گنے جینی کی طرف بڑھا دیے۔ وہ نوٹ بھی پچاس عمانی ریال کے ہی تھے۔
’’یا شیخ! ماما میری مدد کر چکی ہے۔‘‘ جینی نے مٹھی کھول کر شیخا کی امداد دکھائی ۔وہ فطرتاً کھری لڑکی تھی دھوکا دہی اسے پسند ہی نہیں تھی۔
’’وہ شیخا نے کی ہے مجھے اس سے کیا غرض یہ میں کر رہا ہوں کیونکہ تم مریض ہو۔ گھر جانے کے لیے ٹیکسی کر لینا۔‘‘ پھر وہ میاں بیوی وہاں سے روانہ ہو گئے۔ مارتھا عمانیوں کو سالہا سال سے جانتی تھی وہاں مرد عورتیں اپنے اپنے حصے کی سخاوت خود کرتے تھے۔ عمان کا سب سے بڑا کرنسی نوٹ ہی پچاس کا ہے اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کتنی بڑی رقم اس شیر خوار بچے اور زچہ کی حالت دیکھ کر لاپروائی سے بنا مذہب کی تفریق کے بطور امداد دے گئے تھے۔
جینی اتنے سارے پیسے ایک ساتھ دیکھ کر خوشی سے آ نسو ہی بہائے جا رہی تھی۔
’’کافی بڑی رقم ہے اس کے ختم ہونے تک تم فٹ ہو جاؤ گی تب فوراً ہی قرض اتارنے کے لئے جاب شروع کر لینا۔‘‘
’’ایسا ہی کروں گی، بلکہ اوور ٹائم کروں گی،تو ہی اس قرض سے جان چھوٹے گی ورنہ تو بہت وقت لگ جائے گا۔‘‘
٭…٭…٭
دادا کی وفات کو تین دن ہو چکے تھے تعزیت کے لیے آ نے والوں کا رش چھٹ چکا تھا۔ بیت حداد میں زندگی کی تمام تر سرگرمیاں پوری آب و تاب سے انگڑائی لے رہی تھیں۔ شادی بیاہ اور موت کو لے کر عربوں کا مزاج برصغیریوں سے بالکل الگ ہے۔ وہ مرنے والوں کو لے کر پورے اعتماد سے کہتے ہیں الحمدللہ وعدے کی تکمیل ہوئی۔ افسوس مت کرو یہ کہو جنت میں اعلیٰ مقام ملے۔ سالہا سال برسیاں مناتے ہیں نہ مہینوں غمزدہ پھرتے ہیں، مرے ہوئے پر ان کا صبر دیکھ کر برصغیری غیر مسلم اپنی نجی محفلوں میں برملا انہیں ایب نارمل قرار دیتے ہیں۔ برصغیری مسلمان حیران ہوتے ہیں کہ کہاں سے اتنا صبر لاتے ہیں۔ اب سارے حدادی دفتر میں دیکھ کر انڈین نان مسلم سٹاف دبی دبی سرگوشیاں کر رہا تھا۔
’’دھرنی! چائنہ کی کنسائنمنٹ کا کیا بنا؟ ‘‘سلام دعا کے بعد عثمان حداد نے پچھلے ہفتے سے درد سر بنے معاملے کا دریافت کیا۔
’’شیخ نجم طبوق نے کہا تھا آپ ان کوکال کر لیں۔‘‘ دھرنی نے مؤدبانہ جواب دیا۔
سالم نے حیرت سے دھرنی اور باپ کو دیکھا ۔
’’معاملہ کیا ہے؟‘‘
اس کے باپ نے چپ کا اشارہ کرکے فون کان سے لگا لیا۔ سالم چپ بیٹھا گفتگو سنتا رہا۔ فون بند کرنے پر اس نے باپ کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’جب تک تم قومی ٹیم میں ہو تم حدادیوں کے ساتھ کوٹیشن کی پریزینٹیشن دینے نہیں جاؤ گے ، ٹھیک ہے؟‘‘
’’کیا ٹھیک ہے…؟ شیخ طبوق مجنون ہو گیا کیا ؟ یہ میرے باپ دادا کا کاروبار ہے میں اس میں دخل اندازی کروں یا نہ کروں یہ شیخ نجم طبوق کا مسئلہ تو نہیں ہے بابا۔‘‘
’’یہ اس کا ہی نہیں باقی مقاولات کی کمپنیوں کا بھی مسئلہ ہے شیخ سالم! اس لیے اس کی بات ماننی چاہیے، ورنہ وہ امپورٹ والے بزنس میں مسائل کرتا رہے گا۔‘‘
’’یہ تو زیادتی ہے بابا!‘‘
’’تمہیں یاد ہے جب تم ظفار میں تھے میں تمہیں عوقد والی سائٹ پر لے کر گیا تھا؟‘‘
’’جی یاد ہے۔‘‘
’’یاد کرو وہاں کیا ہوا تھا ؟ اس عمارت کی مالک ماما نے معاہدے کے خلاف ورزی کرتے ہوئے ہمیں پیسے دینے کی بجائے معاہدے کے علاوہ کام کرنے کو کہا تھا۔‘‘
’’جی اور آپ نے مزدور لگانے سے انکار کر دیا تھا ۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پھر ماما نے آ پکو دھمکی دی تھی کہ اس کے دو بیٹے شہر کے سینئر شرطے ہیں۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’ماما کا شرطہ(پولیس آ فیسر) بیٹا اپنی ماما سے ناراض ہونے لگا تھا کہ ہم پر بیٹے کے عہدے کا رعب کیوں ڈالا؟ شرطے انسان نہیں کھاتے اور عہدے کا فائدہ اٹھانا بھی حد سے نکلنا ہے۔ اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
’’احسن، احسن ،تمام …‘‘ شیخ نے مسکرا کر بیٹے کو دیکھا۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے