سلسلہ وار ناول

کسی اجنبی سے دیار میں : قسط نمبر 6

نوشی نے کھانے کے بعد ڈسپوزیبل برتن اٹھا کر ڈسٹ بن میں ڈالے اور منہ میں سونف ڈال کر بدر کو دیکھنے لگی۔ نہا کر کپڑے بدل کر اب وہ بڑی حد تک پہلی بدر جہاں لگ رہی تھی۔
’’سونف کھاؤ گی؟ ‘‘
’’نہیں۔‘‘ بدر نے انکار کیا۔
’’منہ میں ڈال لو، گوشت کی سمیل ختم ہو جائے گی۔‘‘
بدر نے پھر بھی نفی میں سر ہلایا۔
’’اس پروفیشن میں صفائی اور خوبصورت لگنے کی بڑی اہمیت ہے پہلی میری یہ ٹپ یاد رکھ لو۔‘‘
بدر کے ماتھے پر شکنیں در آ ئیں۔ نوشی فورا سمجھ گئی کہ بدر اپنی ہٹ پر قائم ہے۔
’’چلو اب میں تمہیں راجن کا بتاتی ہوں ، راجن فلمی دنیا کا ناکام شخص ہے یہ تو بتا دیا تھا نا؟‘‘
’’جی…‘‘
’’بولی ووڈ میں چانس نہ ملنے پر اس نے انڈیا میں ہی نیوڈ فلمیں بنانے کا آ غاز کر دیا تھا۔ یہ کام اسے بے حد راس آ یا اس میں ایکٹرز کو تو نہ ہونے کے برابر پیسے دینے پڑتے ہیں سارا پیسہ ٹیم کو ہی ملتا ہے۔ کافی بڑے بڑے نام اس بزنس میں انوالو ہیں۔ وہاں خطرہ پاکر راجن آرام سے ادھر آ بیٹھا ہے اب یہیں سے اس کا کام جاری ہے۔ راکب جیسے لوگوں سے رابطے میں رہنا دونوں پارٹیوں کے لئے مفید ہے۔ ان کے پاس جب لڑکیوں کی کمی ہوتی ہے تو راجن سے رابطہ کر لیتے ہیں وہ کسی نہ کسی اپنی پرانی ایکٹر کو بھیج دیتا ہے اُسے جب کسی نئے چہرے کی تلاش ہوتی ہے تو راکب، وقاص وغیرہ کام آ جاتے ہیں۔ اس چین میں پیسہ پہلی سیڑھی ہے۔‘‘
بدر ٹکر ٹکر نوشی کا منہ دیکھ رہی تھی اسے اندر ہی اندر ان سارے لوگوں کو دیکھ کر ابکائی آ تی تھی پر ضبط کرکے بیٹھی رہی۔
’’یہ جو تمہاری جعلی تصویریں ہیں تمہاری بہنوں کی ویڈیو وغیرہ ہیں تو وہ راجن اور اسکی ٹیم کا ہی کام ہے وہ سب کیمرے کے کھلاڑی ہیں اپنے کام کے ماہر لوگ۔‘‘
’’اللہ ان سب کو غارت کر دے۔‘‘ بدر کی آ نکھیں ڈبڈبا گئیں۔
’’اب تم فیصلہ کر لو راجن کے پاس فروخت ہو کر جانا ہے یا شیخ طبوق کے پاس، شیخ طبوق کو میں جانتی ہوں کھلے اور نرم دل کا بندہ ہے ۔ راجن سراسر گھاٹے کا سودا ہے بدر ! راجن کے لئے جب تم بیکار ہو جاؤ گی تو پھر سے انہی بھیڑیوں کے پاس آ نا پڑے گا ۔ مجھے ذاتی طور پر طویل کنٹریکٹ پسند ہیں سنگل کسٹمر الو کے پٹھے بھی نکل آ تے ہیں متشدد اور بیمار ۔ ٹینا کا حال دیکھ چکی ہو نا؟‘‘
’’نوشی! تم ان لوگوں سے کہو مجھے جانے دیں ہم بہت سیدھے سادھے مزدور پیشہ لوگ ہیں ہمارے پاس عزت کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ پلیز کسی طرح میری ان سے جان چھڑوا دو۔‘‘ وہ دھواں دھار روتے ہوئے نوشی کے سامنے ہاتھ جوڑ رہی تھی۔
’’میرے گھر تو کیا خاندان میں بھی کوئی خواب میں نہیں سوچ سکتا کہ کوئی شوہر اپنی بیوی کو بیچ دے گا یا اس سے اس طرح کا کام کرائے گا ۔ میری اماں اور بہنیں بہت پریشان ہوں گی۔‘‘
’’جب تم انہیں پیسے بھیجنے لگو گی تو ان کی سب پریشانیاں دور ہو جائیں گی۔ وہاں پیسے والوں کو سات خون معاف ہوتے ہیں۔ تمہاری قربانی سے تمہارا سارا خاندان خوشحال ہو سکتا ہے۔ اچھا گھر گاڑی اور اچھے گھروں میں بہنوں کی شادیاں دوسری صورت میں سب برباد ہو جائیں گے۔ تمہاری رضا مندی ان کا مستقبل بنا دے گی تو تمہاری ہٹ مزید پستیوں میں دھکیل دے گی۔ غربت سے نجات کا ذریعہ مل رہا ہو تو غربت کو اپنے گھر سے نکال دو بدر ہم جیسوں کو بھی جینے کا حق حاصل ہے۔ کیا ساری سہولتیں ساری نعمتیں امیروں کے لئے ہیں… کیا تمہاری بہنوں اور بھائی کا ان میں کوئی حصہ نہیں ہے؟ اوپر والے نے سب کو برابر رکھا ہے بس یہ خاص طبقہ ہمارا حق دبا کر بیٹھا ہے ابھی تمہارے پاس حسن ہے جوانی ہے وقت ہے تم اپنا حصہ وصول کر سکتی ہو تھوڑا سا بھی وقت گزر گیا تو چانس نہیں بنے گا۔‘‘
بدر اس کی تقریر کے دوران روتی ہی رہی۔
’’تم اپنی بہنوں اور ان کی خواہشوں کا سوچ کر تو دیکھو اپنے انکار کی صورت میں بھی ان کی زندگی سوچو مزید کیسی ہو جائے گی۔ ہو سکتا ہے پاکستان میں ہی یہ کام کرنا پڑ جائے کیونکہ ان لوگوں کے ہاتھ لمبے ہیں ان کو بھی اٹھا سکتے ہیں۔ پاکستان میں درھم ،ریال نہیں ہوں گے۔ مشقت زیادہ کمائی کم ، بدنامی زیادہ اور کھانا کم ہوگا۔‘‘ نوشی نے اسے کندھوں سے تھام کر جھنجھوڑ ہی ڈالا۔
’’میں بھی تمہاری طرح کم عمر اور حسین صورت تھی اور تو اور تمہاری طرح غریب بھی کیونکہ گاؤں کے باقی گھروں کی طرح ہمارے گھر سے کوئی باہر نہیں تھا ۔ گھر کی سب سے بڑی لڑکی اور باپ مزدور، بھائی چھوٹا اور باہر کاویزہ لینے کے پیسے بھی ہمارے پاس نہیں تھے۔ تمہیں پتا ہے سیالکوٹ سارے کا سارا باہر بستا ہے گاؤں کے ہر گھر سے ایک یا دو افراد سعودیہ ، دبئی، شارجہ، کویت اور عمان میں کام کرتے ہیں۔ میرے ماں باپ نے بھی یہی سوچا تھا داماد باہر ہے تو سالے کو مروت میں ادھار ویزہ خرید دے گا بس پھر دلدر دور ہو جائیں گے۔ میرے والدین اور ہم اپنے داؤ پر تھے دوسری طرف میری ساس نندیں اپنے کماؤ بیٹے کو حسین بیوی انعام میں دینا چاہتی تھیں ۔ وہ سب پہلے اپنے ہاتھوں سے بیاہ کر لے آ ئے پھر خود ہی ڈرنے لگے کہ ان کا بیٹا اتنی حسین بیوی کے لئے انہیں کم تر نہ سمجھنے لگے۔ شوہر تو مہینہ رہ کر میرے پیٹ میں بچہ بھر کر ادھر واپس آ گیا پیچھے میری شامت آ گئی میں نے ساس، نندوں، دیور سب کی ماریں کھائی پھر بھی چاکری کی۔ غربت کے، کم جہیز کے طعنے سنے ، ٹاٹ کا ٹانکا مخمل میں لگ گیا سنا لیکن واپس میکے نہیں جا سکتی تھی وجہ وہی سالی غربت۔‘‘ نوشی تلخ ہنسی ہنس دی یوں کہ اس کی ایک آ نکھ سے آ نسو بیڈ شیٹ پر گرا۔
’’ سارے مجھے صبر کا کہتے گئے میں صبر کرتی گئی۔ حتی کہ اولاد ہو گئی، وہ ایسے شقی القلب لوگ تھے اپنی نسل کو بھی مارنا چاہتے تھے کیونکہ انہیں لگتا تھا اپنے بچے میں گم ہو کر ان کا کماؤ لڑکا انہیں کھلانے سے ہاتھ کھینچ لے گا۔ باہر اور باہر والے کی کمائی پر صرف انہیں کا حق بنتا ہے۔ وہ کمینہ دو سال بعد آ یا تو بھی گھر میں جنگ چھڑی ،سب چاہتے تھے وہ مجھے طلاق دے دے۔ اس کی ماں نے کہا یا مجھے رکھ لو یا اسے رکھ لو۔‘‘
بدر اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ پہلی بار بدر کو لگا نوشی کافی حسین عورت ہے عمر بھی کچھ زیادہ نہیں ہے ۔
اسکے ذرا سے توقف پر بدر نے بے صبری سے پوچھا:’’ پھر کیا ہوا؟‘‘
’’گاؤں میں رہتے اسکے اپنے رشتے داروں نے بتا دیا اسکے گھر والے مجھ پر کتنا ظلم کرتے ہیں۔ تب جذباتی ہو کر میرے ہاتھ میں چند ہزار پکڑا کر مجھے اور بچے کو دبئی بلانے کا وعدہ کرکے میکے چھوڑ گیا۔ اور پھر بالآخر مجھے یہاں بلا بھی لیا ، یہاں آ کر چند دن مجھ سے محبت کا دم بھرا بچے کو پیار بھی کیا اور پھر ماں کے لاڈلے کو ماں کی یاد ستانے لگی۔‘‘
اس موڑ پر آ کر نوشی جیسی طرح دار اور مضبوط عورت کے آ نسو لڑی کی صورت میں بہنے لگے۔ بڑی مشکل سے اس نے خود پر قابو پایا، سائیڈ ٹیبل پر پڑی ٹن پیک وہیل انرجی ڈرنک کے چند گھونٹ بھرے اور بدر سے بولی۔
’’بدر! میں تمہاری طرح پڑھی لکھی نہیں ہوں لیکن میں نے انسانوں کو بہت پڑھ لیا ہے۔ طرح طرح کے اور ٹکے ٹکے کے لوگوں سے واسطہ پڑ چکا ہے یقین کرو میں نے انسانی دماغ اور سوچ … انگلش میں کیا کہتے ہیں سیکالوجی (سائیکالوجی) سے زیادہ مشکل کسی چیز کو نہیں پایا۔ وہ سالا بھی مریض تھا۔ اسے ماں اور ماں جائے رشتوں سے اندھی محبت کامرض لاحق تھا۔ یہ مرض سیالکوٹ بلکہ سارے پنجاب کے مردوں کو باہر آ کر اور خاص کر شادی کروا کر ایکدم ہی لاحق ہوتا ہے اور اتنا شدید ہوتا ہے کہ اس مرض کی دوا ہی کوئی نہیں ہے۔ تب میں نادان تھی سمجھ اور تجربہ دونوں نہیں تھے جب سے دھندے میں آئی ہوں ایسے سینکڑوں مریض اسی دبئی میں بھگتا چکی ہوں جنہوں نے ماں کی خاطر بیوی کو طلاق دی ہوئی ہے۔ طلاق دینے کے بعد پتا چلتا ہے ماں تو فقط بیوی سے جیلس تھی اب نئی شادی کے لیے راضی نہیں ہے تو تب میرے جیسیوں کے پاس درھم لے کر آ جاتے ہیں کتے کی طرح دم ہلاتے۔‘‘ نوشی نے انرجی ڈرنک کا ایک بڑا گھونٹ بھر کر بلند لیکن سریلا قہقہہ لگایا۔
بدر کچھ نہ بولنے کے لیے خاموش ہو چکی تھی۔ آ نکھوں میں اسکی کہانی جان لینے کی چاہ صاف نظر آ رہی تھی۔
’’تو بس بدر جہاں! میرے محافظ میرے مجازی خدا کو اسکے خونی رشتے پاکستان میں ذلیل ہوتے نظر آ نے لگے ،میں چوبیس گھنٹے اے سی میں قیام پزیر نظر آنے لگی۔ میں اسکے برابر گاڑی میں بیٹھتی تو اسے ماں کاموٹر سائیکل پر بیٹھ کر دوا لینے جانا یاد آ جاتا۔ میری لگژری لائف جو وہی مجھے دے رہا تھا اسکے مرض میں اضافہ کرتی گئی اس پر ظلم یہ ہوا کہ ماں کو جب بھی فون کرتا وہ رو کر فون بند کر دیتی کہ اسی کنجری کو ماں کہو تیری ماں مر گئی۔ بدر! وہ تب وحشی ہو جاتا تھا خدا کی قسم ایسی مار مجھے ساس نندوں دیور کسی نے نہ ماری ہو گی جیسی وہ مارنے لگا۔ یہاں کسی کے گھر کوئی آ تا جاتا ہی نہیں تو مجھے بھی کوئی چھڑانے نہ آ تا، میرا پونے دو سال کا بچہ پاگلوں کی طرح مجھے مار پڑتے دیکھ کر چیختا تو وہ ظالم اسے بھی پٹخ پٹخ کر مارتا تھا تب بڑی تکلیف ہوتی تھی۔ ایسی ہی ایک رات اس نے مجھے اور میرے بچے کو فلیٹ سے نکال دیا۔‘‘ نوشی یوں مسکرائی جیسے جانے کتنی خوش کن بات ہوئی ہو البتہ بدر سانس روکے سن رہی تھی۔
’’تب ساتھ والے فلیٹ کی ایک سری لنکن لڑکی مجھے پکڑ کر اپنے فلیٹ میں لے گئی۔ وہ وہی تھی جو اب میں ہوں اس نے مجھ پر احسان کیا۔ میرے حالات سن کر اس نے کہا اس کی تشریف پر لات مارو کسٹمر تمہیں میں دیتی ہوں۔‘‘ اب وہ مسلسل مسکرا رہی تھی۔’’بدر جہاں! وہ دن ہے اور آ ج کا دن میں نے پلٹ کر پیچھے نہیں دیکھا ، پاکستان جاتی تو وہ حرامی اور اسکے حرامی رشتے جیت جاتے اور میرے والدین کی غربت مزید دو چند ہو جاتی۔ میں نے آ سائشوں کو چنا اپنے بیٹے اور گھر والوں کے اچھے مستقبل کو چنا۔ میں نے دلیر ہو کر اسکے سامنے دھندہ کیا اسے کہا جائے پاکستان اور سارے گاؤں کو بتا دے کہ میں کیا کرتی ہوں۔ چند مہینے بات چلتی رہی پھر میرا بھائی میں نے اٹلی کے کسٹمر کی مدد سے اٹلی بھیج دیا۔ اپنا بچہ پاکستان کے بہترین بورڈنگ سکول میں چھوڑا اور لاہور میں خاصی پراپرٹی خرید چکی ہوں۔
جوہر ٹاؤن میں میرا چھوٹا بہنوئی گھر داماد ہے سب میرے بارے میں، میرے سابقہ سسرال کی باتوں کو بھول چکے ہیں سب فقط اتنا جانتے ہیں کہ میں دبئی میں کوئی نوکری کرتی ہوں۔ میرا بھائی عنقریب یوکے شفٹ ہونے والا ہے اور اس حرامی کا بھائی اس کے پیسوں پر عیش کر کر کے نشے سے اب مرنے والا ہے۔ اب بھی اکثر سامنا ہو جاتا ہے میں اس کی آ نکھوں میں دیکھتی ہوں وہ میری ہائی ہیل کو دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ سالا بزدل! میرے قماش کی عورتوں سے ڈرتا ہے۔‘‘
اب کہ اس نے بدر سے پوچھے بنا سگریٹ سلگا لیا۔ وہ دھواں دھار کش لے رہی تھی بیڈ روم میں دھویں کے مرغولے اٹھنے لگے۔ بدر نے ناک پر کپڑا رکھ کر بچنے کی کوشش کی۔
’’اب تم دیکھ لو، اکیلے قربان ہونا ہے یا ساری بہنوں کی قربانی دو گی؟ میری مانو بدر! پیسہ کما کر تو دیکھو ۔اپنوں کی خوشی احساسِ ذلت ختم نہ کر دے تو کہنا۔ وہاں کسی کو کیا معلوم وقاص کے گھر ہی بستی ہو یا کوئی الگ بستی بسا لی ہے۔ وقاص نے مجھے کہا ہے کہ جو شادی پر اور بعد میں بھی تحفے تحائف کی مد میں رقم خرچ ہوئی ہے اسکے علاوہ بھی وہ اپنے پلے سے تمہیں کچھ مزید رقم نقد دے گا شیخ طبوق کا ایگریمنٹ ختم ہونے کے بعد سارا وقت تمہارا ہوگا اپنی شرطوں پر کام کرنا میں تمہارا ساتھ دوں گی۔ شیخ طبوق والا معاہدہ پورا ہونے پر تمہاری بہنیں ان کی جعلی ویڈیوز سارا قضیہ خلاص (ختم) ہو جائے گا۔ دوسری صورت میں جبر ہے اور پیسہ بھی نہیں ہے بہنیں بھی رسک پر ہیں۔‘‘
بدر اسے پرسوچ نظروں سے دیکھتی رہی۔ اسکے پاس دوسرا کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔
٭…٭…٭

پچھلا صفحہ 1 2 3 4اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے