سلسلہ وار ناول

کسی اجنبی سے دیار میں : قسط نمبر 6

’’میں کسی صورت ایک غیر قانونی لڑکی کی ڈیلیوری ہوسپٹل میں کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔‘‘ سینئر میڈیکل آ فیسر نے ان ساری فلپائنی نرسز کو صاف الفاظ میں منع کر دیا۔
مارتھا نے ہم وطن سٹاف کی طرف دیکھا کہ شاید وہ لوگ قائل کر سکیں۔
’’اب آپ لوگ اپنی ڈیوٹی جوائن کریں اس موضوع پر مزید کوئی ڈسکشن نہیں ہو گی۔‘‘
جینی پیٹ پر ہاتھ رکھے روتی رہی اور باقی اس کے ہم وطن مادری زبان میں دھواں دھار اسے ، اس کے کیس ، مسائل اور ممکنات کو ڈسکس کرتے رہے۔
’’جب سینئر گائناکالوجسٹ نے کہا ہے ڈیلیوری نارمل نہیں ہو سکتی تو فلیٹ میں رکھ کر چانس لینا فضول ہے۔‘‘ سینئر نرس نے ہاتھ اٹھا کر بحث سمیٹنی چاہی۔
’’بنا بطاقے (عمانی شناختی کارڈ) کے کسی ہوسپٹل میں داخلہ نہیں مل سکتا بلکہ سیدھا آر او پی (رائل عمان پولیس) ہی جانا پڑے گا۔‘‘ مارتھا نے انتہائی مایوسی سے کہا۔
’’میں ڈاکٹر شیلا سے بات کرتا ہوں جتنی ہو سکی منت سماجت کروں گا ہو سکتا سات آ ٹھ سال خدمت کا لحاظ کر لے۔‘‘ لی نے ان سب کو دیکھا تو جینی سمیت وہ سب بھی اسے ہی امید بھری نظروں سے دیکھنے لگے۔ لی میڈیکل سٹاف میں تھا، اس نے انڈین گائنی ڈاکٹر شیلا کے ہو سپٹل طویل عرصہ جاب کی تھی۔ اسے جیب سے فون نکالتے دیکھ کر مارتھا نے ٹوک دیا۔
’’ہم ڈیوٹی کے بعد خود ڈاکٹر شیلا کے پاس چلتے ہیں وہ مجھے بھی کسی حد تک جانتی ہیں۔‘‘
’’میں بھی ساتھ چلوں گی ان سے چیک اپ کے بہانے مل سکوں گی۔ میری کیس ہسٹری اور موجودہ پیچیدہ طبی صورت حال اس کے دل میں رحم ڈال سکتی ہے۔‘‘
چھ گھنٹے کی ڈیوٹی کے بعد مارتھا اور لی فلیٹ آ گئے تھے۔
’’جینی! تیار ہو؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’لی! تم جینی کو پکڑ لینا جیسے میاں بیوی بی ہیو کرتے ہیں میں ساتھ سہیلی کے رول میں ہی رہوں گی۔‘‘
’’ٹھیک کہہ رہی ہو اپنے بطاقے پر ڈاکٹر سے ملاقات ہو جائے گی۔ ریسپشن پروقتی طور بطاقہ گھر رہنے کا بہانہ لگایا جا سکتا ہے جینی کی حالت دیکھ کر وہ فوری اصرار بھی نہیں کریں گے۔‘‘
’’بالکل ، اگر رسیپشن پر کہا بھی گیا تو ہم کہہ دیں ایمرجنسی ہے پیشنٹ کو تکلیف ہے ہم ڈاکٹر سے ملنے کے بعد بطاقہ گھر سے لے آئیں گے۔‘‘
سارا معاملہ آ پس میں طے کرکے وہ لوگ لی کی گاڑی میں بیٹھے اور’’ انڈو پاک کے لوگ کرپشن کر لیتے ہیں‘‘ پر گفتگو کرتے ہوسپٹل پہنچ گئے۔ انہیں اپنا خیال بھی نہیں تھا کہ وہ کس قدر جانفشانی سے اپنی کمیونٹی کے لیے ہر لاء اینڈ ریگولیشن کو بھول جاتے ہیں۔
وہ جو پکی منصوبہ بندی کرکے گئے تھے اسکی ضرورت ہی نہ پڑی کہ ریسیپشن پر اب بھی وہی لوگ تھے جو لی کی جاب کے دوران ہوتے تھے ۔ یوں بڑی آ سانی سے وہ تینوں ڈاکٹر شیلا کے سامنے بیٹھے تھے۔
’’بڑے عرصے بعد میرے ہسپتال کی یاد آ ئی؟‘‘ ڈاکٹر شیلا مسکرا کر خالص انگریزی میں لی سے مخاطب تھی۔
’’بس ڈاکٹر اچھے ڈاکٹرز بیماری میں یاد آ تے ہیں۔‘‘
’’ہمم… تو بیوی کی بیماری میرے کلینک لے آئی ، چائے یا کافی؟‘‘ ڈاکٹر شیلا ساؤتھ انڈین تھی ہر ساؤتھ انڈین کی طرح کافی چائے وغیرہ پانی کی طرح پینے کی عادی تھی۔
’’کافی منگوا لیں ڈاکٹر…‘‘ لی نے ہونٹوں پر زبان پھیر کر اعتماد بحال کرنے کی کوشش کی۔ دائیں بائیں بیٹھی دونوں خواتین اس سے بھی زیادہ نروس تھیں۔
ڈاکٹر نے جینی کو پردے کے پیچھے بلا لیا الٹرا ساؤنڈ اور کچھ سوالات کے بعد وہ ٹیبل پر آ ئیں تو کافی آ چکی تھی۔
’’سیزیرین کیس ہے ۔ ‘‘
’’ڈاکٹر، ہم آ پکے پاس بہت سی امید لے کر آئے ہیں ۔‘‘
’’کس بات کی؟‘‘ ڈاکٹر نے ان ناٹے قد بت کے لوگوں کو حیرت سے دیکھا۔
’’فیور کی…‘‘
’’کیسی فیور؟‘‘
’’جینی میری بیوی نہیں ہے اس نے ایک پاکستانی سے شادی کی تھی وہ اسے لوٹ کر پاکستان چلا گیا ہے۔‘‘
’’اوہ سو سیڈ ، تو تم چاہتے ہو میں یہ آ پریشن کم ریالوں میں کر دوں؟‘‘
’’جی اور یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ جینی کا ویزہ ختم ہوئے کافی وقت گزر گیا ہے۔‘‘
’’جب ویزہ تھا تو تب ہی اسے پاکستان ایمبیسی سے رابطہ کرنا چاہیے تھا پاکستان وزٹ ویزہ پر جا کر اسے گریبان سے پکڑ کر پیسے وصول کرتی یا پھر ڈیلیوری ہی ادھر کرواتی بچہ اس کے منہ پر مار کر فلپائن واپس جا کر پھر سے نئے ویزے پر عمان آ سکتی تھی۔‘‘
’’ڈاکٹر یہ سب ہو سکتا تھا لیکن ایک تو رجسٹرڈ شادی نہیں تھی اس لیے جینی کواسکا اتا پتا کچھ معلوم نہیں۔ دوسرا جینی کا ویزہ ایکسپائر تھا تو وہ کسی ایمبیسی میں نہیں جا سکی۔‘‘
’’چلیں پھر میرے ہاسپٹل سے بھی چلے جائیں۔‘‘ ڈاکٹر نے رکھائی سے دروازے کی طرف اشارہ کر دیا۔ اس کے بعد ان کی منت سماجت کا طویل سلسلہ تھا کچھ لی کے ہاتھ بھی ہاسپٹل کی کچھ کمزوریاں تھیں۔ انڈین کمیونٹی انڈین ہسپتال آ نا پسند کرتی تھی ایسے میں کئی بار میڈیکل رپورٹ میں گڑ بڑ ہسپتال کے ایما پر وہ خود بھی کر دیا کرتا تھا۔ غیر قانونی ابارشن بھی وہ ملاحظہ کر چکا تھا۔ سارے منت واسطوں اور کچھ ان پرانی یادداشتوں کے بل پر ڈاکٹر اس بنا ہسٹری مریض کا کیس لینے پر تیار ہو گئی لیکن عمانی ریال اس نے منہ مانگے لینے کی شرط رکھ دی۔ لی نے مارتھا اور جینی کی طرف دیکھا تو کوئی چارہ نہ پا کر انہوں بات طے کر دی۔
’’ٹھیک ہے ڈاکٹر! ہم تین دن بعد رات دس بجے آ تے ہیں۔‘‘
٭…٭…٭
زبیدہ اور فخر بے حد پریشان بیٹھی تھیں۔ کل سے انہوں نے منٹوں گھنٹوں کے وقفے سے نرگس ،بدر اور وقاص کے فون ملا ملا کر دیکھے تھے لیکن نتیجہ وہی پاور آف والا ہی مل رہا تھا۔ مہرو نے ماں بہن کی پریشانی دیکھ کر چھٹی کر لی تھی جبکہ دوسری سکول جا چکی تھیں۔سیما حسب سابق یاسر کو بھیج کر اپنے کمرے میں گھس چکی تھی۔
’’اماں! مجھے تو اب ہول اٹھ رہے ہیں یاسر کو کہتے ہیں ہمیں لاہور نرگس کے گھر لے جائے۔‘‘
’’اے مہرو! فون کرو بھائی کو …‘‘زبیدہ کے دل کو بیٹی کے راہ دکھانے پر گویا پتنگے لگ گئے۔
’’نہیں اماں! گیارہ بجے کے بعد کریں گے ابھی تو اس کی سیل کا وقت ہے ۔ اس کے پکے گاہک ناشتہ کرنے اور لینے آ ئے ہوں گے، یہی روزی کاوقت ہے۔‘‘
’’اے تو ایک دن پوری کمائی نہیں کرے گا تو کون سی چھت گر جائے گی ،عاطف کو دیہاڑی پر کھڑا کر جائے۔‘‘ زبیدہ اب رونے والی ہو چکی تھی۔
’’کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ہے اماں جو یاسر بنی بنائی ریڑھی عاطف کو دے کر جائے ، یاسر کے پاس دبئی کی کمائی نہیں ہے جو وہ ناغے کرتا پھرے۔ تم لوگوں کے تو ایک فون پر ہزاروں روپے کوہ مری جانے کے لیے آ جاتے ہیں۔ ہماری قسمت ایسی کہاں؟‘‘
’’اے سیما! آ ج میرے منہ مت لگیں نہیں تو چوٹی سے پکڑ کر نکال دوں گی اپنے گھر سے ۔‘‘ زبیدہ کی اخیر ہو چکی تھی۔
’’سیما! تم چپ ہو جاؤ میری خاطر پلیز …‘‘ فخر نے لجاجت سے سیما کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ سیما نے جھٹک دیا۔
’’دیکھو! اماں بدر کی وجہ سے بہت پریشان ہیں ہفتے ہو گئے اس کا کوئی رابطہ نہیں۔‘‘ اس سے پہلے کہ فخر جہاں مزید بولتی لوہے کا دروازہ تھاڑ سے کھول کر یاسر گھر آ گیا۔ اس کے صاف ستھرے کپڑوں پر جگہ جگہ گھی اور سالن لگا ہوا تھا چہرے کے عضلات بھی غصے کے سبب تنے ہوئے تھے۔ زبیدہ تو اتنی آ سانی سے اٹھنے کے قابل نہیں تھی پر وہ تینوں فوراً یاسر کے دائیں بائیں ہوئی تھیں۔
’’کیا ہوا یاسر؟‘‘ سیما اور فخر کے منہ سے بیک وقت یہی نکلا۔
’’کمیٹی والے آئے ہوئے تھے ڈنڈے مارے سب کی ریڑھیاں الٹا دیں کہہ رہے تھے تجاوزات ہٹاؤ ، ریڑھیاں ، ٹھیلے چوک سے ہٹاؤ۔‘‘
’’پھر…؟‘‘
’’میں نے کہا ہم تو سالہا سال ادھر ہی لگا رہے ہیں پہلے میرا باپ لگاتا تھا اب میں تو بس غصہ کر گئے پتیلے اٹھا کر پھینکنے لگے۔‘‘ یاسر کی آ نکھوں میں نمی اتر آئی۔’’ مجھے ادھر ڈنڈا لگا۔‘‘ اس نے کندھے کی طرف اشارہ کیا۔ سیما کو پتا چلنے کی دیر تھی اس نے ایکدم ہی واویلا شروع کر دیا۔
’’او تُو تو چپ کر ۔‘‘ یاسر جھنجھلا گیا۔
’’ان کا ککھ نہ رہے آ ج کا اتنا نقصان کر دیا اب ہم کیا کریں گے؟‘‘
’’تو ڈرامے نہ کر کون سا پہلی بار کمیٹی والے آئے تھے دو چار دن دور کھڑی کر لے گا ریڑھی،معاملہ ٹھنڈا ہونے پر پھر سے اپنی جگہ پر لے آ نا یاسر!‘‘ زبیدہ نے سابقہ تجربات کی روشنی میں اظہار خیال کیا۔
’’اماں! گاہک ٹوٹ جاتے ہیں نیا ٹھیلا ڈھونڈ لیتے ہیں پکے گاہک ٹوٹنے سے بڑا نقصان ہوتا ہے۔‘‘
’’اے لو مجھے یوں بتا رہے ہو جیسے مجھے خبر ہی نہیں ساری زندگی تیرے ابا کے ساتھ یہی کام کیا ہے۔ تجھے یاد نہیں کتنی دفعہ تو تیرے ابا کے ساتھ ایسا ہو جاتا تھا پھر بات ٹھنڈی ہی پڑ جاتی تھی۔ میں بڑی پریشان ہوں یاسر! میرا کلیجہ سڑ رہا ہے۔‘‘
’’اماں میرے پاس ایک روپیہ نہیں تجھے ڈاکٹر پاس لے جانے کو ، پہلے ہی اتنا نقصان اٹھا کر آ رہا ہوں۔‘‘
’’ارے بیٹا نہیں ، تیری بہن بدر سے کوئی رابطہ نہیں ہو رہا خدا معلوم کیا بات ہے۔‘‘
’’سیر سپاٹے کرنے دفع ہوئی ہوگی مجھے سیما ساری سرگرمیاں بتاتی رہتی ہے۔‘‘
’’یاسر! بہت دن ہو گئے کسی کا فون نہیں لگ رہا، نرگس کا بھی نہیں۔‘‘ فخر نے پریشان کن آواز میں بھائی کو بتایا۔
’’تو اس میں کیا ہے وہ بھی کسی دوسرے ملک دفع ہوئی ہو گی اب ہمیں بتا کر جایا کرے کیا؟‘‘
’’نہیں یاسر! ایسا تھوڑی ہوتا ہے۔‘‘
’’میرا دماغ پہلے ہی کمیٹی والوں نے خراب کر دیا ہے اب تم لوگ نہ کرو ، کہیں نہیں مرتی بدر۔‘‘
’’مریں اس کے دشمن ، ارے دشمنوں کے سینے پر سانپ لوٹے ہوئے ہیں انہیں تو یہی چاہیے…ہائے میرے اللہ! میری بدر کہیں واقعی مر مرا تو نہیں گئی۔ ہائے مر گئی میں کیا کروں میں کہاں جاؤں؟‘‘
’’اماں! کیسی بات کر رہی ہیں توبہ کریں…‘‘ مہرو کی آواز رند گئی۔
’’ارے میں نے سنا ہے باہر کے ملکوں میں ایکسیڈنٹ بڑے بُرے ہوتے ہیں پچاس پچاس گڈیاں آ پس میں ٹکرا جاتی ہیں۔ کہیں میری بدر اور وقاص کا ایکسیڈنٹ تو نہیں ہو گیا ۔‘‘
’’اماں! رولا نہ ڈال ، میرا سر پہلے ہی پھٹ رہا ہے سیما صحیح کہتی ہے تو میری ماں لگتی ہی نہیں ہے اب بھی اتنا نقصان کروا کے ادھر بیٹھا ہوں کل کی بھی کوئی امید نہیں تجھے پھر بھی بدر کاہی خیال آ ئے جا رہا ہے ۔ تو صرف ان کی ماں ہے میری کبھی بن نہیں سکتی ہو ۔ ان کی پریشانیوں میں مر جانا میرے لیے تیرے پاس کچھ نہیں بچا۔‘‘ یاسر کا میٹر شارٹ ہوتا دیکھ کر فخر نے ماں کے گھٹنے پر ہاتھ رکھ اسے مزید کچھ کہنے سے باز رکھا۔ زبیدہ کو بیٹی کی بات مان کر چپ ہونا پڑا لیکن اب دل کو کسی طور چین نہیں تھا یہ چین صرف نرگس سے ملنے کے بعد ہی آ سکتا تھا۔
٭…٭…٭

1 2 3 4اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے