کسی اجنبی سے دیار میں : قسط نمبر 5
’’چھوٹی خالہ! مجھے برف والی ویڈیو دکھاؤ، آپ نے کہا تھا جب آ پ کے پاس آ ؤں گی تو بہت سی ویڈیو دکھاؤ ں گی۔‘‘ فخر کی بیٹی کی فرمائش پر بات پھر کسی اور طرف نکل گئی، وہ سب سر جوڑے مری میں کھینچی گئیں تصویریں اور ویڈیو دیکھنے لگیں۔
’’فخر باجی! جب ہم نے اپنے نام لکھوائے تو کسی کو یقین ہی نہیں تھا ہم جیسے غریب غرباء بھی کالج ٹرپ کے ساتھ مری جائیں گے۔ قسمیں بڑا مزہ آیا مری اور لوگوں کو حیران و پریشان دیکھ کر۔‘‘
’’تو اور کیا… ہمارے خاندان والوں کو تو مری کا راستہ نہیں معلوم سیر کرنے کوئی کیا جائے گا۔‘‘
’’نکی پھوپھو کی بے بی پتا کیا کہہ رہی تھی؟‘‘
’’زیبی! سسپنس نہ پھیلایا کرو۔‘‘ فخر بیزار ہوئی۔
’’سیدھا بول کے بتا کتنے سانپ لوٹے ان کے سینوں پر…‘‘ زبیدہ نے دلچسپی لی۔
’’کہہ رہی تھی آ صف کہہ رہا ہے ہم ہنی مون منانے مری جائیں گے۔‘‘
زبیدہ سمیت ان سب سے قہقہہ لگایا ۔
’’ریساں پیٹا خاندان ہے سارے کا سارا۔ پہلے جیسے ہنی مون ہی مناتے تھے تم لوگوں کے تصویریں دیکھ کر تمہاری پھوپھیوں کو آگ لگی ہوئی ہے اس لیے اس بار پیسے بھی دے دیں گی کہ جاؤ مری دیکھ آؤ۔‘‘
زبیدہ کی دو نندیں اپنے لڑکے لڑکی کی شادی ایک دوسرے کے ہاں کر رہی تھیں۔ بے بی اپنی خالہ کی بہو بننے والی تھی۔
’’مزہ تو تب ہے جب ہماری بدر آپی کی طرح دبئی جا کر بھی دکھائیں۔‘‘ مہرو نے چٹخارہ ہی بھر لیا۔
’’میں نے کہا تھا کہ ہمارے ٹرپ کو وکی بھائی سپانسر کر رہے ہیں۔‘‘ زیبی بھی اپنے کارنامے پر مسکرائی۔
’’بڑی ممانی جل کر کوئلہ ہوئی بیٹھی ہے کہہ رہی تھی کسی دن اچانک ہی تم لوگ کہو گی وکی بھائی نے دبئی بلوایا ہے وہاں جا رہی ہیں۔‘‘
’’وقاص جیسا جوائی ڈھونڈنے میں سارا خاندان ہلکان ہوا پڑا ہے۔ بدر کو سکھا کر بھیجا ہے کہ مہرو کے لیے بھی ادھر ہی کوئی لڑکا ڈھونڈ لے۔‘‘
’’پہلے یاسر کا ویزہ لینا ہے اماں ، ہمارا میکہ جتنا مضبوط ہوگا سسرال پر اتنا ہی اچھا اثر پڑتا ہے۔‘‘
’’ہاں! ویزے کا تو کہا ہوا ہے۔ بدر کہہ رہی تھی موقع ملتے ہی یاسر کے ویزے کا یاد دلائے گی۔ پاسپورٹ کی فوٹو تو اسے کب سے بھیج رکھی ہے۔‘‘
’’اماں! صرف نیٹ پر ہی کال کر رہی ہو یا فون بھی کرکے دیکھا ہے؟‘‘
’’نہیں باجی! فون تو نہیں کیا، بیلنس ہی بہت لگ جاتا ہے اس لیے نیٹ پیکج ہی کرواتے ہیں ہم تو…‘‘
’’میرے فون میں بیلنس ہے، میں بات کرتی ہوں۔‘‘
’’اے لو اور کیا چاہیے… ذرا بات تو کر مجھے خیریت ملے تو بے چینی تو ٹھیک ہو۔‘‘
’’اماں! یہ تو پاور آف ہے۔ میں وقفے سے پھر ملاتی ہوں ۔‘‘
’’ٹھیک ہے ملاتی رہنا۔‘‘ زبیدہ نے مایوس سی ہو کر ہدایت کی۔
٭…٭…٭
بدر سر پر میلا دوپٹہ لپیٹے اپنے لیے مختص کونے میں غالبا ًتسبیح یا پھر کوئی وظیفہ کر رہی تھی جب نوشی نے اسے بلایا۔ وہ ٹس سے مس نہ ہوئی تو نوشی اسی کونے میں اس کے پاس چوکڑی مار کر بیٹھ گئی۔
’’تمہاری زبان کو ابھی تک کائی نہیں لگی؟‘‘
بدر اسے دیکھ کر رہ گئی۔
’’اری چندا! کچھ تو بولو ۔‘‘
وہ پھر بھی نہ بولی تو نوشی نے اپنے ٹراؤزر کی جیب سے سگریٹ اور لائٹر نکال لیا۔
’’سگریٹ نہ پینا… پلیز میرا دل گھبراتا ہے الٹی آ نے لگتی ہے ۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے جی نہیں پیتی سگریٹ ، شکر ہے اسی بہانے تم بولی تو ہو۔ میرا نام نوشی ہے تمہیں پتا چل ہی گیا ہوگا سیالکوٹ کے ایک گاؤں سے تعلق ہے۔ یہ بتاؤ پہلے میری کہانی سنو گی یا اپنی سناؤ گی؟‘‘
’’میرے بارے میں اس بے غیرت نے تم سب کو بتا دیا ہے پھر مجھ سے کیا سننا چاہتی ہو؟‘‘
’’تمہیں کیا لگتا ہے میں الو کی پٹھی ہوں یا گاؤں کی کوئی ستی ساوتری عورت ہوں جو صرف ایک پارٹی کی سن کر یقین کر لوں گی؟ جانم پرانی بزنس وومن ہوں روزانہ چار کو چونا لگاتی ہیں میرے جیسی عورتیں ، بیچ بیچ میں کسی وقاص جیسے کا جان بوجھ دھوکا کھانا بھی پڑتا ہے کہ یہی کاروبار دنیا ہے ۔ ایک دوسرے کے بغیر ہم دھندہ نہیں کر سکتے تو بس پھر ہنس کر جان بوجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔‘‘
’’تو اب وقاص نے مجھے رام کرنے کے لیے تمہیں بھیجا ہے ، اسے بتا دو میں اس کالے بن مانس شیخ کی تنہائی میں کبھی نہیں جاؤں گی، اگر اس نے بھیجا تو شیخ کو پہلے کی طرح ہی زخمی کروں گی۔‘‘
’’آہا! کیا جگرا ہے جانم مجھے تمہارا اسٹائل پسند آ یا۔‘‘ نوشی نے اس کی طرف فضائی بوسہ اچھالا۔ بدر ناگواری سے اسے دیکھتی رہی۔
’’دیکھو بدر جہاں! تمہاری بات بالکل نہیں جھٹلاؤں گی مجھے واقعی ہی وقاص نے تمہیں ساری صورت حال بتانے کے لیے بھیجا ہے کیونکہ اسے ڈر ہے تم بات نہیں سمجھو گی وہ پھر سے تشدد کرے گا۔ تشدد کسی بھی حسین چہرے اور حسین بدن کی توہین کا پہلا درجہ ہے۔ بدر جہاں! عورت کی توہین کے بھی درجات ہوتے ہیں لیکن یہ ٹیکنیکل باتیں ابھی تمہاری سمجھ میں نہیں آ ئیں گی اس لیے ہم اس موضوع کو فی الحال چھوڑ دیتے ہیں۔ وقاص کے علاوہ اس کے باقی پارٹنر بھی تمہیں تسلی بخش طریقے سے سمجھا سکتے ہیں لیکن میں نے خود سوچا میں پاکستانی بھی ہوں پنجابی بھی اور تم جیسے بیک گراؤنڈ سے تعلق بھی ہے تو مجھے یہ کوشش کرنی چاہیے۔‘‘
’’بڑے نیک کام کے لیے کوشش کرنے کا سوچا ہے ۔‘‘ بدر نے طنز کیا جس پر نوشی جس دل کشی مسکرائی بدر کو یوں لگا جیسے کوئی تعریف کر بیٹھی ہو۔
’’آؤ میرے کمرے میں چلتے ہیں پہلے تمہیں سب وے کا کومبو کھلاتی ہوں پھر ہم دونوں فرینڈز تسلی سے بیٹھ کر باتیں کریں گے۔ میں آ ج کوئی کسٹمر اٹینڈ نہیں کر رہی ۔‘‘
’’میں یہیں ٹھیک ہوں۔‘‘
’’پیٹ بھر کھانا بھی ملا ہے یا ابھی بھوکی ہو؟‘‘
’’کھانا کھا چکی ہوں۔‘‘
’’چلو پھر اٹھو میرے روم میں چلیں اس سے پہلے کہ وقاص اینڈ کمپنی کے حکم پر تمہیں یہاں سے زبردستی پھینک دیا جائے۔‘‘
بدر ان لوگوں کے رحم و کرم پر تھی سو اٹھنا ہی پڑا۔ جب وہ دونوں لاؤنج میں نکلیں تو ہر طرف خوشبو سے مہکتے بدن اور میک اپ سے چمکتے چہرے تھے۔
’’گڈ لک لیڈیز!‘‘ نوشی نے خوش دلی سے اپنی ساتھیوں کو وش کیا۔
’’ اپنے اپنے کسٹمرز کے آ نے کا انتظار کر رہی ہیں، جیسے ہی وہ گیٹ پر آ یا انہیں میسج کر دے گا اور یہ اپنی لوکیشن آ ن کرکے چلی جائیں گی۔ مینجر وقفے وقفے سے چیک کرتا رہے گا۔‘‘
’’مینجر کون ہے؟‘‘ بدر نے بے ساختہ پوچھا۔
’’یہ جتنے مرد یہاں دیکھ رہی ہو مینجر ہی ہیں ۔‘‘نوشی اسکے بھولپن پر مسکرائی۔
اپنے کمرے میں اسے صوفے پر بٹھا کر نوشی نے الماری کھول کر مختلف اسنیکس نکال کر اسکے سامنے رکھنے شروع کیے۔ ڈرائی فروٹ ، چاولوں کے بنے مُرکرے ، چپس ، کپ کیکس اور چاکلیٹ سے گول تپائی بھر گئی۔ اب وہ تسلی سے اسکے سامنے بیٹھ کر اسے چاکلیٹ کھول کر دے رہی تھی۔ بدر نے ہچکچا کر تھام لی۔
’’بدر! تمہیں لگتا ہے کہ اس ناکافی خوراک اور ہٹ دھرمی سے معاملہ یہیں تک رکا رہے گا تو تمہاری بھول ہے۔ تم سمجھ نہیں رہی ہو تمہارے گھر کی ریپوٹیشن داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ یہ لوگ اس بزنس میں بہت دیر سے ہیں ان کو اچھے برے حالات سے نمٹنا آ تا ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ اپنی قربانی دے کر گھر اور باقی رشتوں کو پاکستان میں بہترین لائف سٹائل دیا جائے ، انہیں اس اَن دیکھی آفت سے بچا کر رکھنے میں ہی عقلمندی ہے ورنہ گندی تصویریں اور ویڈیو تمہارے محلے اور رشتے داروں کے گھر پہنچانا ان کے لیے بالکل مشکل نہیں ہے۔ یہ لوگ بڑے پکے طریقے سے دیکھ بھال اور پوری تحقیق کے بعد کوئی پیس یہاں لاتے ہیں۔‘‘
’’تم یہ لوگ تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے زبردستی تمہیں بھی اس گینگ میں شامل کیا گیا ہو۔‘‘
’’بالکل نہیں ، میں اپنی خوشی سے کال گرل بنی ہوں ان کے توسط سے اچھے کسٹمر ملتے ہیں میرا بس اتنا واسطہ ہے۔ باقی ان کے کسی جرم کی حصے دار نہیں ہوں۔‘‘
’’تم حصے دار بننے کی پوری پوری کوشش کر رہی ہو۔‘‘ بدر نے تلخی سے کہا۔
’’میں تمہارے بھلے کی کوشش کر رہی ہوں یہ بات سمجھ لو ، تمہیں لگتا ہے تمہاری resistance سے شیخ سے بچ جاؤ گی اور وقاص رگڑا جائے گا تو تم بالکل غلط جا رہی ہو۔ وقاص چند دنوں میں ہی شیخ کے پریشر سے نکل جائے گا۔ یہ دبئی ہے جانم یہاں ہر مسئلے کا حل ممکن ہے ساری دنیا کے قانون شکن یہاں قانونی طور پر مکین ہیں۔ تو تمہیں کیا لگتا ہے سب توبہ کر چکے ہیں؟ نہیں بدر جہاں! سب دھندے جاری ہیں بس ذرا قانونی طریقے سے ، قانون توڑے جا رہے ہیں، نہایت قانونی طریقے سے ۔ تو اگر نہیں مانو گی تو پہلے تو تمہیں راجن کے حوالے کیا جائے گا ، راجن سے ملنے والی منہ مانگی رقم سے شیخ کا قرض چکا دیا جائے گا۔ تمہاری بہنیں بھی بھگتیں گی۔ ہو سکتا ہے وہ پھر بدنامی کی وجہ سے ان کی بات مان کر واقعی ہی ادھر آ کر یہ دھندہ کرنے لگیں۔ راجن وہ بلا ہے جس میں پتھروں کو زبان دینے کی صلاحیت ہے۔‘‘
بدر تھی تو عام سے گھر کی گھریلو لڑکی ایکدم ہی پیلی پڑ گئی خاص کر جب بھی بہنوں کی بات آ تی تھی وہ خود کو شدید کمزور پاتی تھی۔
’’اب یہ راجن کون ہے؟‘‘ اسکے حلق سے سرسراتی سی آواز نکلی۔
’’راجن مجرمانہ کیمرے کا ٹیکنیکل کھلاڑی ہے۔‘‘
’’میں سمجھی نہیں۔‘‘
’’راجن انڈین ہے۔ ممبئی میں فلمی دنیا میں پیر جمانے کی بہت عرصہ کوشش کی جب کامیاب نہیں ہوا تو بلیو فلمز شوٹ کرنا شروع کر دیں۔ بلیو فلمز سمجھتی ہو؟‘‘ نوشی نے توقف کرکے اس کا چہرہ دیکھا ، اپنے منہ میں مرکرہ ڈال کر سر جھٹکا۔
’’تم اس دنیا کی ہو ہی نہیں بہت کچھ تمہیں بتانے سے زیادہ سمجھانے والا ہے بلکہ دکھانے والا مرحلہ تو ابھی سر کر لیتے ہیں۔ آؤ ٹینا کے روم میں چلیں بیمار کی عیادت سے ثواب ملتا ہے نا تو پہلے ثواب کما کر آ تے ہیں۔ ٹینا سے ملنے کے بعد امید ہے تمہیں فیصلہ کرنے میں بڑی آ سانی ہوگی۔‘‘
نوشی کی پنجابی بے حد رواں تھی سیالکوٹی لہجے میں یوں بنا رکے بول رہی تھی جیسے صدیوں بعد کوئی ہم زباں میسر آ یا ہو۔ سارے ہال میں خاموشی کا راج تھا یوں جیسے یہاں کوئی رہتا ہی نہ ہو۔ نوشی اسے ساتھ لیے بھاری دروازہ کھول کر ٹینا کے کمرے میں لے آئی۔ نوشی اور ٹینا عربی میں گفتگو کرنے لگیں۔ بدر نے اپنی ساری حسیات لگا کر سمجھنے کی کوشش کی کہ آ خر بات کیا کر رہی ہیں۔ ان کی گفتگو میں بعض الفاظ اردو کے تھے لیکن سمجھ اسے کچھ نہیں آ یا۔ کچھ ٹینا نامی لڑکی کا لہجہ بھی لڑکھڑا رہا تھا جس سے بدر کو اندازہ ہوا کہ وہ نشے میں تھی۔ بدر ملگجے بلکہ قدرے میلے کپڑوں میں بیڈ کے پاس کھڑی رہی۔ اس کے دیکھتے دیکھتے نوشی نے دراز کھول کر کوئی ٹیوب نکالی اور پھر اس نے ٹینا کا لباس الٹ دیا۔ بدر نے گھبرا کر نظر پھیر لی۔
’’بدر جہاں! تم ثواب کمانے آئی ہو تو کماؤ بھی ، اس غریب کے زخموں پر دوا لگانے میں مدد تو کرو۔ پکڑو ٹیوب اس کے بازوؤں پر زخم ڈھونڈ کر دوا لگا دو بس اتنا ہی کام ہے۔‘‘
بدر سن کھڑی رہی یہاں تک کہ نوشی نے تشدد کے نشانات اور سگریٹ سے جلے نشانات پر دوا لگا دی۔ رخ پھیرے کھڑی بدر کو جیسس کی بنائی گئی تصویر اور چمکیلی صلیب نظر آ گئی۔
ٹینا کے کمرے سے نکلتے ہی بدر نے پہلی بات نوشی سے صلیب اور تصویر کی ہی کی۔
’’ٹینا عیسائی ہے اس لیے…‘‘
’’عیسائی؟ لیکن وہ تو عربی بولتی ہے۔‘‘ بدر کو دھچکا لگا ۔
’’پاگل! عربی زبان ہے اسے کوئی بھی بول سکتا ہے ۔‘‘ نوشی نے سریلا قہقہہ لگایا اور اپنے فون کی طرف متوجہ ہو گئی۔
’’تم کیا کھاؤ گی؟ مٹن کڑاہی یا چکن کڑاہی ؟‘‘ وہ فون کان سے دور ہٹا کر پوچھ رہی تھی۔ بدر کے کسی جواب سے پہلے ہی نوشی نے اپنی پسند بتا کر فون بند کر دیا۔
’’یہ کھانا کون لائے گا؟‘‘
’’مینجر لائیں گے پیمنٹ وہ کرتا ہے جس کا کھانا ہو۔‘‘
بدر ہر بات سن کر حق دق رہ جاتی تھی کتنے تھوڑے وقت میں دنیا کے ان ان رنگوں سے آ شنا ہو رہی تھی جو اس کے خواب و خیال میں بھی نہ تھے۔
’’پتا نہیں اماں لوگوں کو اندازہ بھی ہوگا کہ نہیں ، کیا پتا انہیں ابھی تک معلوم ہی نہ ہو کہ ہم جرائم پیشہ لوگوں کے چنگل میں پھنس گئے ہیں۔ پتا نہیں نرگس نے کیا کہہ کر اماں کو میرے اور وقاص کے رابطہ نہ کرنے کی توجیہہ دی ہو گی۔‘‘ دماغ میں در آ تی سوچوں کے ساتھ وہ پھر سے نوشی کے کمرے میں داخل ہو گئی۔
’’راجن کے بارے میں تفصیل اور اپنی کہانی میں کھانے کے بعد سناؤں گی تم پلیز شاور لے کر کپڑے تبدیل کرو کوئی خوشبو لگاؤ۔ تمہیں دیکھ کر ہونے والی وحشت تو دور ہو۔ کھانا آنے تک فریش ہو جاؤ شاباش !‘‘