کسی اجنبی سے دیار میں : قسط نمبر 5
اس بڑے سے بنگلے میں چار مرد اور سات آ ٹھ عورتیں مقیم تھیں بلکہ اسے ابھی تک عورتوں کی صحیح تعداد معلوم ہی نہ ہو سکی تھی۔ پاکستانی ، ہندوستانی ، بنگلہ دیشی ، سری لنکن ، افریقن اور فلپینو لڑکیاں اس سے مل چکی تھیں۔ جس کمرے میں کارپٹ پر سونے کی اسے جگہ ملی تھی وہاں ایک بنگالی اور دوسری انڈین لڑکی مکین تھی۔ وہ اس بنگلے کے مکینوں سے چھپنے کی ہر ممکن کوشش کرتی رہتی تھی پر پیٹ ایسی بلا تھا جو دن میں تین نہیں تو دو وقت کھانا ضرور مانگتا تھا۔ اب بھی بھوک سے چکراتے سر اور آ نکھوں کے سامنے چھاتے اندھیرے کے پیش نظر اس انتہائی کونے سے اپنے آپ کو نکالا، خود کو گھسیٹتی وہ خود کو کچن تک لے آئی۔ وہاں دو لڑکیاں موجود تھیں۔ اوون سے گوشت کی کسی ڈش کی اشتہا انگیز خوشبو اٹھ رہی تھی۔ پتیلی میں کچھ اور پک رہا تھا۔ وہ بھکاری کی طرح نظریں جھکا کر کھڑی ہو گئی۔
’’بھوک لگی ہے؟‘‘ افریقن نے بیڑی کا کڑوا دھواں گھنے بادل کی صورت میں اس کے منہ پر پھینکا تو بدر نے ذرا سا پیچھے ہٹ کر خود کو بچانے کی لاشعوری کوشش کی۔
’’عربی نہیں آتی؟‘‘ اب کہ انگلش میں بھاری بدن والی افریقن نے پوچھا ۔
’’نہیں !‘‘
’’خود کا کام کیوں نہیں کرتی ہو، مانگتے ہوئے شرم نہیں آتی؟ کب تک ہماری محنت کی کمائی کھاتی رہو گی؟‘‘
بدر نے آ نکھوں میں در آنے والے آ نسو بمشکل پیے۔
’’ میں یہ کام نہیں کر سکتی میں واپس اپنے گھر پاکستان جانا چاہتی ہوں۔‘‘ نجیف آواز میں اس نے اپنے دل کی فریاد ایک بار پھر سے دہرائی۔
وہ دونوں بے شرم سا قہقہہ لگا کر اس پر ہنسی تھیں۔
’’پہلے ساری صفائی کرو ہم دونوں کے کپڑے بھی دھونے ہیں اسکے بعد کھانا مل سکتا ہے۔‘‘ بدر نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’سنو! ٹوائلٹ بہت اچھے سے صاف ہونا چاہیے۔‘‘
’’ پہلے کچھ کھانے کو مل جائے تو میں زیادہ بہتر کام کر سکتی ہوں۔‘‘
ایشین لڑکی نے دو کیلے اسکی طرف پھینک دیے، جو اس نے بیتابی سے کھا کر ان سے کمرہ پوچھا۔
’’دائیں جانب تیسرہ کمرہ ہے۔‘‘
’’تم کیا واقعی اسے کھانا دو گی؟‘‘ بدر کے جانے کے بعد ایشین نے افریقن لڑکی سے پوچھا۔
’’کیوں؟ ہم کیوں دیں… اس کے پاس کس چیز کی کمی ہے خود کمائے جتنے درہم اس پر لٹانے ہیں اتنے ہم بچا سکتے ہیں۔‘‘
’’بات تو ٹھیک ہے باقی سب اپنے اپنے کام سے واپسی پر اپنا کھانا لے آ تی ہیں۔ ہم اگر گھر بنا رہی ہیں تو چیرٹی کے لیے تو ہرگز نہیں بنا رہیں بلکہ چند درہم بچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘‘
’’اور کیا… بچا ہوا کھانا رات کے کام آ جائے گا۔ بس اس دن کی طرح کچن میں بھول مت جانا ،کسی دوسرے کی موج ہو جائے گی۔‘‘
ان دونوں نے کچن ٹیبل پر بیٹھ کر تسلی سے کھانا کھایا گرم پانی میں کافی ڈالی اور کپ لے کر بڑے ہال میں چلی آ ئیں۔ دن تیسرے پہر میں ڈھل رہا تھا اس لیے سب کا اٹھنے کا وقت تھا۔ سب مکین لا محالہ اسی ہال میں جمع ہوتے تھے۔ ابھی وہ کافی کے آ خری گھونٹ لے رہی تھیں جب ان کے کمرے سے بدر اور بیرونی دروازے سے وقاص اور ایک اجنبی اندر آ یا۔
بدر وقاص کا کسی طور سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی پچھلے تین دن سے وہ یہاں نہیں تھا ڈر ڈر کر اس نے رات دن گزارے تھے لیکن دل مطمئن رہا تھا کہ وقاص اس گھر میں نہیں ہے۔
وہ واپس انہی کے کمرے میں گھسنے لگی تھی جب افریقن نے اسے جانور کی طرح پچکار کر واپس بلایا۔
’’کھانا تو ہم تمہیں نہیں دے رہے… صفائی کا شکریہ !‘‘
بدر سر جھکا کر کھڑی رہی ۔ سارے دروازے دھڑ دھڑ کھلنے لگے اندر سے جو بھی برآمد ہو رہی تھی فیس پیک ضرور لگائے ہوئے تھی۔ اب باقی تینوں مرد بھی باہر سے آ کر اس وسیع عریض ہال کے مختلف صوفوں پر بیٹھ گئے۔ مجموعی طور پر اس وقت سات عورت نما لڑکیاں اور پانچ مرد تھے۔ بدر جوں کی توں کھڑی رہی۔
’’تم لوگوں سے کہا بھی تھا اس (گالی) کو کھانا پینا وقت پر دینا ، اتنا خیال رکھنا ہے کہ حسن پر کوئی اثر نہ پڑے لیکن تم نے میری بات نہیں سمجھی راکب !‘‘
’’یہی بیوی ہے ناں تمہاری؟‘‘ پاکستانی لڑکی نے وقاص کی طرف رخ کرکے پوچھا۔
’’اس منحوس سے پوچھو کیا بکواس کرتی ہے میں تب تک اس کے لیے کچھ کھانے کو لے کر آ تا ہوں۔‘‘
’’پہلے اس کی بیوی تھی پھر اس نے طلاق دے دی۔‘‘
’’طلاق کیوں دی وکی؟‘‘ اجنبی نے اسے ہوس زدہ نظروں سے جانچا۔
’’ایسی قیامت طلاق دینے کے لیے تھوڑی ہوتی ہے۔‘‘
’’یہ لو ٹھونس لو، رات کو پیزاکھلا دوں گا تم دونوں کو پر ابھی ارجنٹ اس منحوس کو کھلانا ہے۔‘‘ وقاص نے شیزا کا بنایا کھانا بدر کو دے کر ساتھ ہی شیزا کو تسلی دی۔ بدر پلیٹ تھام کر اندر کمرے کی طرف بڑھی تو اب اسے کسی نے نہیں روکا۔
’’ہاں اب بولو…‘‘
’’میں کہہ رہا تھا ایسا نادر پیس ہے طلاق نہ دیتے۔‘‘
’’یار! اسے نفسیاتی تحفظ سے نکالنے کے لیے طلاق دے دی… سالی نے رولا ڈالا ہوا تھا کہ میں بیوی سے دھندہ کرانے والا ہوں ۔میں نے بھی کہہ دیا ، لو طلاق لے لو اب میں تیرا کھصم نہیں ہوں شیخ کو کھصم بنا لو پر اس نے شیخ کو زخمی کرکے بھگا دیا۔‘‘
’’غلطی تیری ہے تونے سودا کرتے ڈنڈی ماری تھی۔‘‘ بنگلہ دیشی فیصل نے اسے یاد دلایا۔
’’یار! میں نے سوچا تھا انجان ملک ہے کچھ ڈر کر اور کچھ عیاشی چھن جانے کے خوف سے فوراً مان جائے گی۔ پر ضدی نکلی ہے میں نے تو اس کی بہنوں کی گندی فلمیں بھی راجن سے کہہ کر بنوا لی ہیں، دھمکیاں بھی دی ہیں بس اتنا فائدہ ہوا ہے کوئی سوسائیڈ وغیرہ کے چکر میں نہیں پڑی، پر اس کام کے لیے ابھی تک نہیں مانی، اکڑ قائم ہے۔‘‘
’’مجھے دے دو ایک دو دن …پیمنٹ بھی ڈالرز میں کروں گا لڑکی بھی رواں ہو جائے گا سمجھو سارے کشٹ دور…‘‘
’’او نہیں یار! شیخ بڑا حرامی ہے، کھرا مال ہی ڈیلیور کرنا ہے ورنہ گلف میں رہنا مشکل ہو جائے گا۔ ابھی تو سچ بتا کر مہلت لی ہوئی ہے منت ترلہ کیا تھا کہ جلد از جلد لڑکی کو راضی بہ رضا جہاں شیخ کہے گا ڈیلیور کر دوں گا تو ذرا غصہ ٹھنڈا ہوا ہے۔ ایسا ٹھرکی آ دمی ہے پھر ہر روز فون کر لیتا ہے ۔کیا رپورٹ ہے ؟ ‘‘ وقاص نے عربی میں بول کر شیخ کی نکال اتاری۔
’’پیس تو واقعی کمال ہے وکی شیخ کا روزانہ رپورٹ لینا سمجھ آ تا ہے۔‘‘
’’یار! تم نے اسے پہلے دیکھنا تھا کیا ہی قیامت خیز حسن تھا نظر نہیں ٹھہرتی تھی۔ کھا کھا کر نیند کی گولیاں شیخ کی امانت کی حفاظت کرتا تھا۔‘‘ اس کی بات پر ہندی سمجھنے والیوں نے بھی قہقہہ لگایا۔
’’اب تو پچاس فیصد بھی وہ بات نہیں لگ رہی ، راکب نے اسے کھانا دیا نہ تم لوگوں نے خیال رکھا۔‘‘ وقاص نے سامنے فیس پیک اور ناخنوں سے الجھی لڑکیوں سے شکوہ کیا۔
’’تم کون سا روکڑا دے کر گئے تھے، یہی کہا تھا ہاتھ نہیں لگانا باقی ہر طرح کی سزا دے کر رواں دواں کرنا ہے تو بھوکا رکھنا سب سے اچھی آ پشن تھی۔‘‘ راکب نے سگریٹ کا دھواں فضا میں چھوڑا۔
’’روکڑے کے زخم تازہ نہ کرو ، جتنا تھا سارے کا سارا اس کمینی عورت پر لگا بیٹھا ہوں۔ شادی پر ان کو رام کرنا تھا امارت کا رعب ڈالنے کے لیے پانی کی طرح پیسہ بہانا پڑا ،باقی کی کسر پاکستان والے پارٹنرز نے نکال دی۔ جو بچا اس کو فائیو سٹار دکھانے پر لگا دیا۔ دل میں یہی بات تھی شیخ کو خوش کرکے اس سے بھی مزید رقم بھی پکڑوں گا کسی دوسری جگہ بھی ایگریمنٹ کر لوں گا چند مہینوں میں پیسہ پورا ہوجانا ہے بس یہ عورت ذرا عقل کو ہاتھ مار لے۔‘‘
’’لگتا نہیں ہے کہ لڑکی آسانی سے مانے گی …‘‘ اجنبی کے اظہار خیال پر تمام شریک محفل نے ہاں میں ہاں ملائی۔
’’نوشی! تم اسے اپنے کمرے میں رکھو ایک تو پاکستانی ہونے کی وجہ سے تم اسے ٹھیک ٹھاک طریقے سے ہمارا سیٹ اپ سمجھا دو گی دوسرا اپنے بیوٹیشن ہونے کی کاریگری اس پر بھی آزماؤ ۔ وللہ ابھی تو وہ شیخ والی بدر جہاں کا سایہ لگ رہی ہے۔‘‘
’’میرا کتنا کمیشن ہوگا…؟‘‘ نوشی فوراً بارگیننگ پر اتری تھی۔
’’ابھی کام تو ہولینے دو ابھی سے مرنے لگی ہو ۔‘‘
نوشی ڈھٹائی سے ہنس دی۔
’’یار! اگر ہم شیخ سے کسی نئے خالص مال کا وعدہ کرکے یہی مال راجن کو بیچ دیں … کیا خیال ہے؟‘‘ راکب نے ممبئی کے لہجے میں چمکتی آ نکھوں سے نئی تجویز دی۔
’’شیخ نہیں مانے گا ایک بار تو پھر سے شیخ کو دینا ہی پڑے گا۔‘‘
’’برے پھنسے ہو۔‘‘
’’کسی نہ کسی طرح نکل ہی آؤں گا اس سچویشن سے۔‘‘
’’ٹینا ابھی تک ٹن ہے؟‘‘ راکب کو جیسے اچانک یاد آ یا۔
’’ہاں ہم نے جگایا بھی نہیں اس الو کے پٹھے نے حالت بھی تو بہت خراب کر دی تھی۔‘‘
’’کیا ہوا ٹینا کو؟‘‘ وقاص نے پوچھا۔
’’کل کوئی ذہنی مریض کسٹمر مل گیا تھا۔‘‘
’’اوہ … نوشی تیرا کام اب سے شروع ہوا ہے۔ راجن سے لے کر ٹینا تک اسے صاف بتانے سمجھانے کی کوشش کرو۔‘‘
’’سمجھانا نہیں ہے دہشت زدہ کر دو پھر امید ہے چانس بن جائے گا۔‘‘
’’میں اب اسے سیدھی راہ پر لا کر ہی چھوڑوں گی۔‘‘ نوشی وکٹری کا نشان بنا کر اٹھ گئی، باقیوں کا بھی شام کو دھندے کا وقت شروع ہو جاتا تھا۔
٭…٭…٭
شدید سردی تو گزر چکی تھی دھوپ اب چمکدار ہونے لگی تھی۔ پھول پودے اور چھوٹے چھوٹے گھر سردیوں کی بارش میں خوب دھلتے رہے تھے اسی لیے اب نکلنے والی دھوپ میں خوب ہی چمکتے تھے۔ آج کا اتوار بھی ایسا ہی چمکیلا تھا سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ سیما میکے گئی ہوئی تھی یاسر کام پر تھا۔ ایسے میں فخر کے آ نے سے زبیدہ اور لڑکیوں کی پارٹی ہو جاتی تھی۔ زبیدہ نے اپنے پرانے بٹوے سے مڑا تڑا ہزار کا نوٹ نکال کر تاج کو دیا تاکہ چوک سے پیزا لایا جا سکے۔
’’اماں !چکن اور مٹر پلاؤ بھی بنالیں پھر مٹر ختم ہو جائیں گے۔‘‘
’’اب نہیں ختم ہوتے …‘‘ فخر نے اپنی بیٹی کی پونی بناتے مصروف سا جواب دیا۔
’’فخر باجی! ختم بھلے نہیں ہوتے لیکن مہنگے تو ہوتے ہی ہیں۔ اماں مہنگے ہونے کی وجہ سے کبھی بھی لے کر نہیں دیتی۔‘‘ تاج کی اپنی شکائتیں ہوتی تھیں۔
’’چلو بنا لو رام لیلا شروع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ زبیدہ نے چھوٹی کو ٹوکا۔
’’اماں رائتے کے لیے دہی بھی لانا ہے اور بوتل کے پیسے بھی دے دیں۔‘‘
’’تیرا باپ مجھے قبر سے نکل پیسے نہیں دے کر جاتا ، ایک بھائی ہے تیرا سو جانیں اس کی جان کو جونکیں بن کر چمٹی ہوئی ہیں۔‘‘
’’گھر ہو تو بس بدر آپی جیسا ، پیسے کی کوئی ٹینشن ہی نہ ہو جو چاہو کھا لو جو چاہو خرید لو،جہاں چاہو سیر کو چلے جاؤ۔‘‘
’’نظر نہ لگا دینا بہن کے نصیبوں کو، جاؤ فٹا فٹ عمیر کے ساتھ جا کر سامان لے آؤ، پھر فخر اپنے ہاتھ سے پلاؤ بنائے گی۔‘‘ زبیدہ نے جلدی سے لاابالی سی تاج کو ہمسائیوں کے بچے کو ساتھ لے جانے کا کہہ کر ٹوک کر چوک سے سودا لانے بھیجا۔
’’بات تو تاج کی بالکل ٹھیک ہے۔ انسان کے پاس اتنا پیسہ تو ہو اچھا کھانے کو نہ ترسے۔ ہم مہینوں پیزا کھانے کا انتظار کرتے ہیں کب سیما بھابھی میکے جائے اور ہم واردات ڈالیں۔ بدر کی موج لگ گئی ہے۔‘‘
’’ان شاء اللہ تم لوگوں کے لیے بھی ایسے ہی گھرانے ڈھونڈوں گی لیکن یہ چٹور پن ختم کر دو۔ میں نے خود نرگس کو دیکھا کوئی شے نہیں کھا رہی تھی کہتی چربی چڑھ جاتی ہے۔‘‘
’’اماں! یہ بھی امیروں کے چونچلے ہی ہوتے ہیں۔‘‘ مہرو سے چھوٹی زیب النساء عرف زیبی نے اظہار خیال کیا۔
’’چونچلوں کی لگتی ماں نظر نہیں آتی تجھے ، ادھر دیکھ کیسے ہلنے جلنے سے آوازار ہوں۔ نرگس کے گھر مجھے اتنی شرم آئی، نوکر چاکر کیا کہتے ہوں گے، یہ روسی ٹرک ان کی بیگم کی رشتے دار ہے۔‘‘
’’اماں! چھوڑیں ان باتوں کو آپ یہ بتائیں نرگس کی کوئی کال شال آئی؟‘‘ فخر نے بالوں کا جوڑا بنایا اور لہسن والی ٹوکری سامنے کرلی۔
’’کوئی نہیں آ یا نہ وقاص اور بدر کا کوئی فون آیا ہے، کبھی کبھی تو پریشانی لگ جاتی ہے مجھے۔‘‘
’’اماں! ہنی مون منانے کسی اور ریاست میں گئے ہوئے ہیں، کیونکہ جب وکی بھائی کو میں نے ٹرپ کے لیے پیسے بھیجنے پر شکریہ کہا تھا تو انہوں نے مجھے کہا تھا وہ بھی بدر آپی کو کوئی سرپرائز دینے والے ہیں۔‘‘