کسی اجنبی سے دیار میں : قسط نمبر 5
’’تو چپ کر مہرو! تیرے سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں، اس کے اندر کا حسد بول رہا ہے میری بدر سے جلنے والے جلتے ہی رہیں گے اللہ کے حکم سے۔‘‘
’’جلتی ہے میری جوتی ، اماں اتنا غرور نہ کر ایسا نہ ہو امیر داماد کا دل بھر جائے اور واپس اسی کٹیا میں پھینک دے تیری حور پری کو۔‘‘
’’تیرے منہ میں سات چولہوں کی راکھ حاسد عورت! دل بھرے تیرے بہنوئی کا تیری بہن سے۔ میرے داماد کا کیوں بھرے ، تیری اور سارے شریکے کی حسرت ہی رہے گی ان شاء اللہ… جہاں وقاص ہوگا وہیں بارلے ملک میری بدر ہوگی۔‘‘
’’میں نہیں متاثر ہونے والی تیری بدر اور دبئی سے ، گڈو کی ٹیوشن والی باجی کی بہن بھی بیاہ کر دبئی گئی تھی۔ ایسے ہی اونچی اونچی چھالیں وہ مارا کرتی تھیں۔ دو سال بعد ویزہ ختم ہوا تو شوہر نے اٹھا کر پاکستان مارا ہوا ہے۔ ادھر ہی کھے چھانتی پھرتی ہے ۔ سارے دبئی کے ٹشن اتر گئے۔ تم لوگ بھی دیکھ بھال کر شوخیاں مارا کرو۔‘‘ سیما نے کپڑے دھونے والی تھالی زور سے یاسر کے ٹھیلے پر بچھائے جانے والے موٹے کپڑے پر ماری تھی۔
مہر النساء نے بمشکل اس لاحاصل اور روزانہ ہونے والی جنگ کااختتام کرایا۔ رات کو جب ساری بیٹیاں لحاف اوڑھ کر لیتی یوٹیوب پر کوئی فلم دیکھ رہی تھیں تو زبیدہ نے پھر سے نام لیے بغیر سب کو مخاطب کیا۔
’’کوئی پیغام آ یا بدر کا؟‘‘
’’نہیں اماں! ابھی تک ہمارا بھی نہیں پہنچا۔‘‘
’’اچھا !‘‘
’’میں کچھ سوچ رہی تھی …‘‘زبیدہ کی بے کلی تمام نہیں ہوئی تھی اس لیے بھی سوچ سوچ کر بول رہی تھی۔
’’کیا سوچ رہی تھیں اماں‘‘؟ بچیاں موبائل چھوڑ کر ماں سے استفسار کرنے لگیں۔
’’بدر کو سمجھاتے ہیں چاہے کچھ بھی ہو جائے وقاص کتنا بھی کہے پاکستان کسی صورت رہنے کی حامی نہ بھرے۔ بڑی بیستی ہو جانی ہے یہ سیما جیسیاں اور تمہاری مامیاں ، پھوپھیاں سب مل کر ٹھٹھہ لگائیں گی۔‘‘
’’اور کیا…! سیما بھابھی نے صاف کہنا ہے جتھے دی کھوتی اوتھے آن کھلوتی۔‘‘ تاج نے ایسے لمحات کا سوچ کر جھرجھری لی۔
’’اے مہرو! یہ دبئی سعودی والے ویزے ختم کیوں ہو جاتے ہیں؟ ساری زندگی کا ویزہ لوگ کیوں نہیں لے لیتے … بدر کو سمجھانا پڑے گا ساری زندگی کا ویزہ لے لے، ڈر ہی ختم ہو جائے۔‘‘
’’اماں! ساری زندگی کا ویزہ نہیں ہوتا نیشنلٹی ہوتی ہے جو عربی نہیں دیتے… سنا ہے بڑے مغرور ہیں کہتے ہیں کوئی اور عربی کہلائے گا تو ان کی بیستی ہو گی اس لیے کسی کو نیشنلٹی نہیں دیتے اب ۔‘‘
’’اچھا !پھر تو بڑے بُرے لوگ ہیں یہ عربی ، دیکھ لو،کہنے کو عربی مسلمان اور کام…‘‘
’’اماں چھوڑیں اس بات کو آپ بھابھی کے ساتھ ہر وقت پھڈا نہ بنایا کریں اسے بولتے رہنے دیا کریں۔‘‘
’’شاواش! وہ میرے سامنے میری بیٹیوں کو بد دعائیں دے میں چپ رہوں۔ اسے جس بات غم ہے سب جانتی ہوں، میں نے تم سب کا بڑا کچھ سوچ رکھا ہے یہ جلن ماری جلتی رہے گی۔ بدر سے کہہ کر تیرا رشتہ بھی کہیں دبئی ہی کروانا ہے۔ ساری بیٹیاں بارلے ملک ویاہوں گی اب ان شاء اللہ ۔ بس ذرا بدر کا فون آ جائے مجھے تسلی ہو جائے اسے سمجھا بھی دوں میاں کو ایسا مٹھی میں رکھے کہ وہ اس کے بنا رہ ہی نہ سکے۔ پھر یہ پاکستان واپسی والا خدشہ جو سیما نے میرے دل میں ڈال دیا ہے دور جائے گا۔‘‘
٭…٭…٭
’’تھک گئی ہو تو یہیں بیٹھ جاؤ، میں اکیلی عثمان غنی سٹریٹ چلی جاتی ہوں۔‘‘ مارتھا نے ہمدردی سے جینی کو دیکھا جس کا ماتھا اور گردن پسینے سے بھری ہوئی تھی۔
’’نہیں !میں ساتھ ہی ٹھیک ہوں کیا پتا میری حالت دیکھ کر کوئی باسٹرڈ سچ بتا دے۔‘‘
چند دنوں بعد اس کی ڈیلیوری متوقع تھی ہاسپٹل والی جاب چھوٹ چکی تھی ابھی تک نارمل ڈیلیوری کے لیے پیسے جمع نہیں ہو سکے تھے اگر آ خری وقت میں سیزیرین پر بات آ گئی تو کیا کرونں گی؟ یہ سوال جینی کے دماغ میں میخ کی طرح گڑا رہتا تھا۔ پرانے سوہار کے قدیم علاقے میں وہ داخل ہو چکی تھیں۔
’’یہ پاکستانی نفر (آدمی)کیدھر رہتا ہے؟‘‘ مارتھا نے کراس کرتے ملیالی سے پوچھا۔
’’باجو والے پرانے گھار میں سارا پاکستانی رہتا ہے۔‘‘
جینی اور مارتھا اس کے بتائے پرانے گھر کے سامنے جا کھڑی ہوئیں۔ پاکستان ،بنگلہ دیش سے مزدوری کرنے گئے لوگ زیادہ تر متروک اور قدیم گھر کرائے پر لیتے ہیں تاکہ کرایہ کم ہو۔ اس کے بعد بھی ان خستہ حال گھروں کے ایک ایک کمرے میں چھ سات افراد مقیم ہوتے ہیں تاکہ کرایہ تقسیم ہوکو سنگل فگر یعنی دس ریال سے کم حصے میں آئے۔
مارتھا نے زور دار طریقے سے بیرونی قدرے ٹوٹا پھوٹا دروازہ بجایا تو دو پاکستانی مرد باہر نکلے۔
’’میں ایک پاکستانی نفر کا ایڈریس مانگتی ہے۔‘‘ جینی نے بات کا آغاز کرکے نوید کا حلیہ گوش گزار کیا۔
’’کیا کام ہے ہم ہر طرح کا کام کر لیتے ہیں رنگ ساز ، کھرباء (بجلی)، بند ٹوائلٹ کھولنے کا سارا کام آ تا ہے۔‘‘
’’کام کا سبب نہیں چاہیے،وہ میرے کو ڈاج کرکے بھاگا ہے چوری کیا ہے یہ بطن والا بے بی اسی حرامی کا ہے۔‘‘ جینی نے نفرت سے کہا۔
’’ٹھہرو، ہم کرسی لے کر آ تا ہے۔‘‘
چند لمحوں بعد جینی اور مارتھا پلاسٹک کی کرسیوں پر بیٹھی تھیں اور چار پانچ پاکستانی مرد زمین پر اکڑو بیٹھے چسکے لے لے کر ان کی بات سن رہے تھے۔
’’کوئی پکچر ہے تو ہم سب دیکھنا مانگتا ہے۔‘‘ ایک پاکستانی نے بڑی چمکیلی آ نکھوں سے جینی کو دیکھا۔
’’کوئی نہیں ہے اس کا فون بھی اسی لیے لے کر چلا گیا۔‘‘
’’تم شرطے خانے چلی جاؤ۔‘‘ ایک باریش پاکستانی نے تاسف سے سر ہلایا ۔
’’نہیں جاسکتا، ویزہ نہیں ہے۔ شرطہ پہلے میرے کو اندر ڈالے گا جرمانہ کرے گا میں کہاں سے دے گی۔ پچاس پیسہ پاس نہیں ہے۔‘‘
’’مجھے لگتا ہے میں نے ایک ایسے بندے کو دیکھا ہے لیکن وہ سیالکوٹ کا نہیں تھا سیالکوٹ سے تو میں ہوں۔ غالباً وہ فیصل آبادی تھا۔‘‘
’’وہ پنجابی تھا۔‘‘ جینی نے آ س باندھتے ہوئے بیتابی سے اضافہ کیا۔
’’فیصل آباد بھی پنجابی ہے وہاں کا لہجہ سیالکوٹ سے مختلف ہے اس لیے کہا ہے۔‘‘
’’اوکے اوکے ، یاد کرو کہاں رہتا ہے کہاں دیکھا ہے ۔‘‘
’’پرانی بات ہے اب تو کافی وقت سے نہیں دیکھا۔ رہائش کا مجھے نہیں پتا میں نے تو ملیالیوں کے پاس کھانا کھاتے دیکھا ہوگا شاید… ‘‘ اس کے لہجے میں بھی مایوسی در آئی۔
’’میرا فون نمبر لے لو ایسا نفر کہیں دیکھو تو میرے کو فون مارنے کا۔ جینی نے بٹنوں والا فون نکال کر اس پر اس پاکستانی کا نمبر لکھا اور مس بیل دے دی۔‘‘
’’ابھی نمبر سیو کر لو۔‘‘
’’شکراً…‘‘
مارتھا نے جینی کا ہاتھ پکڑ کر اٹھایا اور واپس مین روڈ کی طرف چل دیں ۔ پیچھے بیٹھے پاکستانی آپس میں گفتگو کرنے لگے۔
’’یہ بونیاں ہر ایک کے ساتھ پھنس جاتی ہے اچھا ہوا ہے اب بچہ پیدا کرنا پڑ رہا ہے اکیلی پالے گی پتہ لگے گا زنا کی قیمت تو چکائے گی۔‘‘ تعلیم سے دور مزدور نے چٹخارہ بھرا۔
یہ سارے مزدور پیشہ فلپائنی خواتین کو ان کے چھوٹے قد کی وجہ سے بونیاں یا چھوٹی دنیا کہتے تھے ۔
’’ہر ایک کے ساتھ سیٹ نہیں ہوتیں اگر ہوتیں تو آج تیرے ساتھ بھی کوئی پھنسی ہوتی۔‘‘
اب وہ سارے ایک دوسرے کی ناکام اور کامیاب کوششیں ایک دوسرے کو سنا رہے تھے ۔
’’تھوڑی دیر پارک میں بیٹھ لو پھر واپس جاتے ہیں۔‘‘ مارتھا نے ہمدردی سے جینی کو کہا ۔
’’ڈاکٹر کہہ رہی تھی واک اچھا ہے نارمل ڈیلیوری کا چانس بڑھ جائے گا۔‘‘
’’ڈاکٹر نے یہ بھی نہیں کہا تھا اپنا بی پی ہائی کر لو یا خود کو تھکا لو۔‘‘
سٹریٹ پارک کے واٹر کولر سے پانی پی کر جینی بینچ پر بیٹھی تو ہٹ میں بیٹھے جوڑے پر نظر پڑی۔ مخصوص انداز میں سلائی کی ہوئی شلوار قمیض بتا رہی تھی مرد پاکستانی ہے اور عورت کا لباس بتا رہا تھا وہ انڈین ہے۔ جینی کو نئے سرے سے تکلیف ہوئی کہ ایک اور لڑکی زخم کھانے والی ہے۔
’’مارتھا! وہ دیکھو۔‘‘
’’دیکھا ہے، دونوں مسلم ہیں۔ وہ عائشہ ہے انڈین ہے حیدر آبادی اور بہت چالو لڑکی ہے اس کا غم نہ کرو میں جانتی ہوں اسے ، پکی بات ہے یہ الو بن نہیں رہی بنا رہی ہے۔‘‘
جینی بغور دیکھتی رہی جس محبت سے وہ لڑکی مرد کے منہ میں نوالے بنا بنا کر ڈال رہی تھی لگتا نہیں تھا کہ بیوقوف بنا رہی ہے۔ پھر اسے نوید کا خیال آ گیا کہاں لگتا تھا کہ وہ بھی ڈرامہ کر رہا ہے۔
٭…٭…٭
مسقط والی ہاؤس میں ٹرافی حکومہ کو دے کر وہ تقریب درمیان میں چھوڑ کر صلالہ آ گیا تھا ۔ تب سے ہی وہ قابوس ہسپتال میں تھا۔ باقی بہن بھائی بچوں والے تھے سو رات کو وہی ہسپتال رکتا تھا۔ دادا سے اسکا تعلق الگ ہی تھا جب ہی تو اب دنیا بھولی ہوئی تھی۔ اس نے بچپن سے اب تک اپنے دادا کو بڑے رعب داب میں دیکھا تھا یہ والی بے بسی اسے اندر سے کھا رہی تھی۔ فیصلے پر پہنچ کر اس نے ڈاکٹر کو کال ملائی تھی اور پھر گھنٹوں میں انتظام ہوا تھا۔
سالم کے ساتھ اسکا چچا مکرم حداد بھی امریکہ جا رہا تھا۔ دادا جی کا علاج امریکہ میں ممکن تھا۔ سلطنت طبی لحاظ سے امریکہ سے بہت پیچھے تھا۔ بڑے بڑے شیخ لندن ، امریکہ علاج کروانے جاتے تھے اور درمیانے طبقے کے لوگ انڈیا کا رخ کیا کرتے۔ ویسے تو جگر کا شافی علاج انڈیا میں ہو بھی رہا تھا اور فلائٹ ڈیوریشن بھی امریکہ کی نسبت بے حد کم تھا یعنی سفر تھوڑا تھا امریکہ دور تھا۔
دادا جی کے سٹریچر کے ساتھ سارے خاندان کے علاوہ معتصم اور حسین بھی آ ئے ہوئے تھے ۔
’’دعا کرنا یارو …!‘‘
’’ان شاء اللہ ، دادا جی کی تکلیف کم ہو جائے گی۔‘‘
’’ہمیشہ کے لیے ختم بھی ہو سکتی ہے۔‘‘ پچانوے سالہ عرب بزرگ تکلیف میں بھی مسکرایا۔
معتصم اور حسین شرمندہ سے ہو کر دادا جی کے ہاتھ کی پشت چوم کر ایک طرف ہو گئے۔
مکرم حداد سارا وقت تسبیحات اور آ یات شفاء پڑھ کر پھونکتے رہے جبکہ سالم ان کی توجہ بٹانے کو کوئی نہ کوئی ہلکی پھلکی گفتگو شروع کر لیتا۔
ہزاروں میل بلندی پر ڈاکٹر نے جب اس کے دادا کے منہ میں تھرما میٹر دینا چاہا تو انہوں نے منہ پھیر لیا۔
’’یا شیخ! آپ تعاون کیوں نہیں کر رہے ‘‘؟ سالم نے محبت سے سفید باریش داڑھی کو چھوا۔
’’سالم! تمہارے فیصلے کورہ کے میدان میں صحیح ہوتے ہوں گے، میرے بارے میں اچھا فیصلہ نہیں کیا۔‘‘
’’آپ مایوس کیوں ہیں آپ تو کہتے تھے قبر اور مایوس دل ایک جیسے ہوتے ہیں۔‘‘
’’تو میں بھی اب قبر ہی ہوں۔‘‘
’’آپ ایسے نہ کہیں مجھے تکلیف ہوتی ہے۔‘‘
’’تکلیف کیسی ، زندگی میں اپنی پوری کوشش کی ہے رب یکتا کے احکامات اور سنہ (سنت) کی پیروی کروں۔ بھرپور خوشحال زندگی گزاری، چوتھی نسل کے سر پر ہاتھ رکھ چکا ہوں صرف ایک خواہش بچی تمہاری اولاد دیکھنے کی ، چلو ساری خواہشیں پوری تو نہیں ہوتیں۔‘‘
’’آپ نے تو کبھی مجھ سے اس خواہش کا اظہار نہیں کیا۔‘‘ سالم بے قرار ہوا۔
’’کیونکہ میں جانتا تھا تب تمہارا دل سوز محبت سے نا آشنا تھا۔‘‘
’’میں سمجھا نہیں…‘‘ سالم حقیقتاً حیران ہوا ۔
’’کس قبیلے سے ہے؟‘‘
سالم نے تھوڑا بے چین ہو کر چچا کو دیکھا لیکن وہ بدستور تسبیح پر مصروف تھے۔ اس نے منہ مزید اپنے بزرگ کے قریب کر لیا۔
’’اگر میں کہوں وہ کسی عمانی قبیلے سے نہیں ہے تو؟‘‘
’’قطری ہے تو رعونت ہو گی،سعودی ہے تو اکھڑ ہو گی یہی دونوں باتیں تم میں بھی ہیں۔‘‘پیلے فق رنگ کے ساتھ مسکراتے دادا اسے خود سے بہت دور جاتے لگے۔
’’شیخ سالم حداد سنو!‘‘
’’جی شیخ حداد…‘‘
’’مال پر غرور نہیں کرتے، مال کے لیے محنت اور دعا کرتے ہیں ، عورت اور اولاد پر جبر نہیں کرتے محبت کی مار مارتے ہیں۔‘‘
ان کی بات کے درمیان میں دونوں ڈاکٹر پھر سے شیخ حداد کے دائیں بائیں کھڑے ہو کر اپنا کام کرنے لگے تو وہ پیچھے ہٹ کر اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔
٭…٭…٭