سلسلہ وار ناول

کسی اجنبی سے دیار میں : قسط نمبر 5

اب کہ معتصم اور حسین نے رنگ برنگی پول لائٹس اور پورے چاند کی روشنی میں ایک دوسرے کو دیکھ کر اسے دیکھا اور سیدھے ہو بیٹھے۔ سالم نے انہیں سیدھے ہو کر بیٹھتے دیکھا تو خود بھی اپنی نشست کی بیک چھوڑ دی اور ان کے مقابل سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ ان کی اب تک کی ہر مجلس گواہ تھی شیخ سالم حداد جب جب کسی کو قائل کرنے کے لیے سیدھا ہو کر بیٹھا تھا اپنے حق میں معاملہ الف سیدھا کرکے اٹھا تھا۔
’’سالم! اگر وہ لڑکی شادی شدہ ہوئی جس کا غالب امکان ہے تو؟‘‘ حسین نے بات بڑھانے کی بجائے اختتامی جملے سے شروعات کی۔
شیخ سالم حداد کے چہرے پر واضح دل گرفتگی ظاہر ہوئی۔
’’اللہ میرے نفس کو قرار دے۔‘‘
’’تو پھر چلو اٹھو ایئر پورٹ کے لیے تیاری کرتے ہیں۔ ‘‘معتصم نے اطمینان کی سانس لی تھی۔
’’نہیں… میں نہیں جا رہا۔‘‘
’’مطلب تم ابھی بھی اس کو تلاش کرنا چاہتے ہو وہ شادی شدہ ہے تبھی تو یہاں آئی ہوگی، یہ بات تم اچھی طرح سمجھ رہے ہو، پھر بھی اس کا پیچھا کرنے جیسا گناہ کرو گے؟‘‘
’’گناہ نہیں، میں اپنا اطمینان کروں گا۔‘‘
’’کیسے ڈھونڈو گے؟‘‘ حسین کی بجائے معتصم نے پوچھا۔
’’پتا نہیں، ابھی میں نے کچھ سوچا نہیں ہے۔‘‘
سالم کی اس سادگی پر حسین سینٹر ٹیبل کو ٹھوکر مارکر اٹھ گیا۔ معتصم بھی اس کے پیچھے ہی چل پڑا کہ ابھی پیکنگ باقی تھی۔
٭…٭…٭
وقاص ہاتھ میں کھانے کا شاپر پکڑے کمرے میں داخل ہوا تو ویسے ہی بیٹھی تھی جیسے چھوڑ کر گیا تھا۔
’’اٹھو! بریانی کھا لو، تمہاری پسندیدہ حیدرآبادی بریانی لایا ہوں۔‘‘
وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔
وقاص نے پاس آ کر اس کے گھونسلا بنے بالوں پر ہاتھ پھیر کر سیٹ کرنا چاہے تو بدر نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا ۔
’’ڈونٹ ٹچ می…!‘‘
’’میں نے ٹچ کرنا ہوتا تو کب کا کر لیتا۔ بدر میری اور اپنی صورت حال سمجھو شیخ کو ٹچ کرنے دو اسی میں ہماری بقا ہے۔ شیخ بہت بپھرا ہوا ہے ۔ ابھی صرف مجھے تھپڑ مارے ہیں لیکن نتیجہ حسب توقع نہ ہوا تو اسی ڈرائنگ روم کے فرش تلے مجھے گاڑ دے گا کسی کو خبر بھی نہیں ہو گی۔‘‘
’’شیخ گھر آ گیا ہے؟‘‘ بدر کو پھرپھری سی آ گئی کہ ابھی بھی وہ ایک ہی گھر میں ہیں۔
’’ہاں! پٹی کروا کر آ گیا ہے لیکن تھوڑی دیر تک اس کی واپسی ہے ۔ اس نے مجھے تھوڑی سی مہلت دی ہے کہ تمہیں قائل کر لوں اگر میں یہ نہ کر سکا تو پھر وہ میرے لیے کوئی فیصلہ کرے گا لیکن تمہیں وہ کسی دوسرے شیخ کو ہدیہ(تحفہ)کر دے گا یا بیچ دے گا یہ بات تو طے ہے، آ خر اس نے بھی اپنے پیسے پورے کرنے ہیں یوں نہیں دوسری طرح سہی!‘‘ وقاص نے بدر کا کچھ دیر پہلے مارا جانے والا سچا تکا قبول کرکے ساتھ بدر کو بھی ڈرانا چاہا۔
’’وقاص! مجھے اس گناہ پر مجبور نہ کرو تمہیں بھی برابر کا عذاب ملے گا بلکہ استانی ستارہ کہتی تھیں ستر گنا زیادہ ملے گا اپنی دنیا و آخرت خراب کرنے کی بجائے ہم مل کر کام کرتے ہیں۔ میں ’’اس‘‘ کام کے علاوہ ہر کام کر لوں گی۔ دونوں کام کریں گے تو بہت جلد شیخ کی رقم اس کو لوٹا سکتے ہیں۔ ہمارا اب کوئی رشتہ نہیں ہے پھر بھی اپنی عزت بچانے کے لیے اور تمہارا قرض چکانے کے لیے میں تمہارا برابر کا ساتھ دوں گی۔ ‘‘
’’بی بی! کس دنیا میں رہتی ہو؟ ٹوٹل بیس ہزار عمانی ریال ہیں، عمان کی کرنسی کو جانتی ہو؟‘‘
بدر نے نفی میں سر ہلایا۔
’’دنیا کی دوسری بڑی کرنسی ہے۔ پاکستانی لاکھوں کی بات ہے ہزاروں کی نہیں جو مزدوری کرکے چکانے کے خواب دیکھ رہی ہو۔ یہاں اتنی رقم یا تو اچھی نوکری سے آ تی ہے یا پھر اچھی چھوکری سے۔ میرے پاس اچھی چھوکری ہے میں اسی آ پشن کو چنوں گا۔ اب اٹھو! کھانا کھاؤ اور سامان باندھو، تجھے اصلی اڈے پر لے کر جاؤں تاکہ دماغ ٹھکانے آئے۔‘‘
اڈے کا نام سن کر بدر کا جسم پھر سے ٹھنڈا پڑنے لگا۔ فلموں ناولوں سے وہ اس اصطلاح سے واقف تھی۔
’’یہیں… مم میرامطلب ہے میں اسی جگہ ٹھیک ہوں۔‘‘
’’شیخ کو تونے کھصم نہیں بنایا جو وہ تجھے اپنے بنگلے میں رکھتا پھرے ، بنا لیتی تو ابھی ادھر ہوتی۔‘‘ وقاص نے سوئمنگ پول کے پار بنگلے کی اندرونی عمارت کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا۔
’’ان عورتوں میں رہو گی تو ہی سمجھ آ ئے گا،ہر روز نئے گاہگ کی بجائے ایک مستقل کسٹمر کے ساتھ معاہدہ کرکے رہنا کتنا آ سان ہے۔‘‘
بدر نے سر گھٹنوں میں دے لیا۔
’’یا اللہ! میری توبہ… مجھے معاف کر دے، مجھے بچا لے ۔‘‘
٭…٭…٭
معتصم اور حسین نے گھر والوں کے لیے خوب شاپنگ کر رکھی تھی سو وہ بھرے ہوئے بیگز کے ساتھ ایئر پورٹ روانہ ہوئے جبکہ سالم اپنے معمول والے سوٹ کیس کے ساتھ دبئی میں موجود اپنے گھر کی طرف ہو لیا۔ پوش ایریا میں موجود یہ گھر ملینزڈالرز کی پراپرٹی تھی جو اس کے باپ کے نام پر تھی۔ ایسے ہی کئی اور بنگلے گلف کی ہر سٹیٹ میں حدادیوں نے خرید رکھے تھے۔ عربوں کو یہ بہت سہولت ہے کہ وہ ہر عرب ملک میں اپنے نام پر جائیداد خرید سکتے ہیں اس لیے عمان میں سینکڑوں گھر دبئی ، کویت ، سعودی اور قطری شیخوں کے تھے۔ اسی طرح حدادیوں کی بھی ہر جگہ پراپرٹی تھی۔ شیخ سالم دوسرے فلور پر اپنے لیے مختص کمرے میں اپنا سامان رکھ کر شیشے کی دیو ہیکل ونڈو کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ پردے پہلے ہی ہٹے ہوئے تھے اس نے شیشہ کھول کر آدھا دھڑ بھی باہر نکال لیا۔ رات اپنے آ خری پہر میں داخل ہو رہی تھی، چاند جوبن پر تھا اور دور نظر آتے سمندر میں تیرتی روشنی بتا رہی تھی کوئی آخرشب کا مسافر جہاز بس کنارے لگنے کو ہے۔
سالم کو کئی دنوں سے اپنے حصار میں لیے رکھنے والی بے کلی کچھ اور بڑھ گئی۔ اس نے بے چین ہو کر سینے پر ہاتھ پھیرا۔
’’اے حسین ساحرہ ! کیا واقعی ہماری عالم ارواح کی شناسائی ہے جو تم مجھے اجنبی نہیں لگتی ہو یا تمہاری آ نکھوں میں کوئی سحر قید ہے جو ہر دیکھنے والے کے دل کو طلسم زدہ کر دیتا ہے۔ تمہیں معلوم بھی نہیں ہوگا تم نے سالم کے فاخر قلب کو عاجز کر ڈالا۔ تمہیں معلوم ہوتا تو یقینا تم فخر کرتیں ۔ایسا مضبوط قلب فتح کرنے کے بعد فخر لازم ہے۔
وہ صاف، سیدھی اور خالی سڑک پر جھانکتا اس کے تصور سے دل ہی دل میں ہم کلام تھا جب سفید نسان کار عین اس کے سامنے آ رکی۔ عام سی غریب غربا والی کار میں کچھ خاص نہیں تھا کہ شیخ سالم حداد اس پر نظر جماتا لیکن غائب دماغی اور غیر ارادی فعل کے تحت وہ دیکھتا رہا۔
ایک عام سے حلیے کا مرد دوپٹے میں لپٹی عورت کو کار سے باہر کھینچ رہا تھا۔ وہ ونڈو میں ہتھیلیاں جمائے اس جوڑے کو دیکھتا رہا اور پھر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ اجڑے پجڑے حلیے والی عورت پر اسے ایئر پورٹ والی اپسرا کا گمان ہونے لگا۔ وہ اپنی ذہنی حالت پر ہنس دیا۔
’’آہ حداد …! تم پر یہ وقت بھی آ نا تھا۔‘‘
شیخ سالم حداد نے ایلومینیئم کے فریم پر ہتھیلیاں مزید مضبوطی سے گاڑ کر خود کو اس خود فراموشی سے نکالنا چاہا لیکن اب دوپٹے میں لپٹی لڑکی کا دوپٹہ نسان کار کے پاس پڑا تھا آ دمی ایک ہاتھ اس کے منہ پر جمائے اسے گھسیٹ کر سامنے والے گھر لے جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ بلاشبہ ایئر پورٹ والی لڑکی تھی۔ وہ اب سڑک پر لیٹ چکی تھی ، جن زلفوں کی مہک شیخ سالم کو ابھی تک حس شامہ میں محسوس ہوتی تھی وہی زلفیں دبئی کی سڑک پر جھاڑو دیتیں سامنے والے گیٹ کے پار چلی گئیں۔ وہ گنگ سا کھڑا رہ گیا۔بیڈ پر پڑے اس کے فون کی گھنٹی نے گویا اسے تنویمی نیند سے بیدار کیا تھا۔
’’ہاں حسین خیریت …؟‘‘ وہ شدید رفتار سے دوڑتے دل پر قابو پانے کی کوشش کرتے حسین سے مخاطب ہوا۔
’’صدیق! تیرا دشمن بھی ادھر ایئر پورٹ پر موجود ہے۔ لگتا ہے کوئی ایکسیڈنٹ ہوا ہے، ماتھے پر پٹی بندھی ہوئی ہے۔‘‘
’’کون؟‘‘ سالم ابھی تک نیچے والے منظر کی جکڑ سے خود کو آزاد نہیں کر پایا تھا۔
’’شیشہ پی کر بیٹھے ہو کیا؟میں شیخ نجم طبوق کی بات کر رہا ہوں۔‘‘ حسین بدمزہ ہوا تھا۔
حسین کے فون بند کرتے ہی اسے شیخ حداد کی کال آ گئی۔
’’آئیوا بابا!‘‘
’’فوراً ایئرپورٹ پہنچو!‘‘
’’لیکن بابا…‘‘
’’تمہارے دادا مستشفاء میں ہیں۔ عرب لیگ تم نے جیتی ہے۔ ان بڑی بڑی باتوں کے درمیان چھوٹا سا بخار لے کر دبئی رکنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
’’بابا…!‘‘
’’ابھی کے ابھی پہنچو…سیٹ مختص ہے۔‘‘
سالم کے حالات فرائنگ پین سے نکل کر سیدھا آگ میں گرنے والے ہو گئے۔
اس نے گھڑی دیکھی۔ وقت بالکل نہیں تھا کہ وہ اس اجنبی لڑکی کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتا۔
’’دادا کو دیکھ لوں اور ٹرافی حکومہ کے حوالے کر لوں، جلد سے جلد ملتے ہیں۔‘‘ اس نے سامنے والے گیٹ کو دیکھ کر خود کلامی کی اور اپنے گھر عمان آنے کے لیے ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہو گیا۔
٭…٭…٭
’’مہرو! تجھے بدر کا کوئی میسج آ یا؟‘‘
’’نہیں اماں ! میرا میسج بھی نہیں گیا۔ لگتا ہے کہیں دور سیر کرنے گئے ہوئے ہیں، وہاں سگنل نہیں ہوں گے۔‘‘ مہرو نے لاپروائی سے جواب دیا اور پھر سے ناخن فائل کرنے لگی۔
’’میری جان کا روگ باقی تیری لگتی کدھر ہیں؟‘‘ زبیدہ کو عجب سی بے چینی تھی جو دل سمجھ نہ پا رہا تھا اسی لیے جھنجھلائی بیٹھی تھی۔
’’اماں! ان کے سالانہ امتحانات سر پر ہیں، اوپر دھوپ میں بیٹھی پڑھ رہی ہیں۔‘‘
’’چلو ان کے پکے پرچے ہیں تیرے کوئی پرچے نہیں ہیں نہ کچے نہ پکے؟‘‘
’’اماں ہمارا شیڈول اب سکول والوں کے ساتھ مل گیا؟‘‘ مہرو گویا برا ہی مان گئی۔
’’دادی! میں کیسا لگ رہا ہوں؟‘‘ گڈو آ کر ان کے درمیان گھسا۔
اتوار کا فائدہ اٹھا کر سیما نے اسے بھی نہلا دھلا دیا تھا۔
’’ارے میرے گڈے نے تو نئے کپڑے اور نئی جرسی پہنی ہے ۔‘‘ مہر نے چٹا چٹ بھتیجے کو چوما۔
’’بڑھاؤ بڑھاؤ حوصلے اس کے، تاکہ روز ذلیل کرے ۔ ابھی بھی میرے سر پر ناچ کر نیا سوٹ اور جرسی پہن کر آ یا ہے۔ سوچا تھا اماں کی طرف جاؤں گی تب پہناؤں گی۔‘‘
’’بی بی !تیری ماں لندن نہیں رہتی جس کے گھر پہنا ہوا سوٹ پہن کر جانا گناہ ہو۔ ادھر کچے باڑے کے کھولی محلے میں رہتی ہے۔‘‘ زبیدہ نے ناک سے مکھی اڑائی۔
جب سے بدر دبئی گئی تھی اور بڑے لوگوں سے رشتے داری ہوئی تھی زبیدہ کے طور اطوار میں بڑی رونکھی سی تبدیلی آئی تھی۔ اسے خود نہیں معلوم تھا اب اس کے لہجے میں پہلے کی طرح صرف گھریلو طعنے تشنے بلکہ آ س پاس اور رشتے داروں کے لیے بھی رعونت پہلے سے بڑھ چکی تھی۔ استانی ستارہ کے نقش قدم پر چل کر جب اس نے بیٹیوں کو پڑھانا شروع کیا تھا اور نتائج بچیوں نے اس کی توقع سے بڑھ کر دیے تھے۔ ویسے تو وہ تب سے ہی اپنے گھرانے کو پڑھا لکھا باشعور اور اونچا سمجھنے لگی تھی، باقی سارے رشتے دار اسے انتہائی جاہل اور نچلے درجے کے ریڑھی بان لگنے لگے تھے ۔ حالانکہ لگاتا تو صادق بھی ٹھیلا ہی تھا، پر صادق کا اڈہ پکا تھا اسی اڈے نے یاسر کو سنبھالا دیا ہوا تھا۔
’’کچھ حیا کر لے ساسو جی! اسی کچے باڑے سے اٹھ کر یہاں آئی ہو جسے اب جاہلوں کا ڈیرہ کہتی ہو۔ یہ غرور تمہیں لے ڈوبے گا اسی غرور کی خاطر بدر سے یاسر کا ویزہ نہیں منگوا رہی ہو۔ میں سب سمجھتی ہوں تم لوگوں کو یہی ڈر ہے یاسر بھی دبئی چلا گیا تو میں بدر کے برابر آ جاؤں گی۔‘‘
’’ارے اپنی بوتھی دیکھ لو، بدر کی برابری والی ہے بھی یا نہیں۔ بدر تیرے جیسی مفاد پرست نہیں ہے، اسے بھائی جان سے پیارا ہے۔ کسی دن سو کر اٹھو گی تو ویزہ بھیجا ہو گا اس نے… تم کیا جانتی نہیں ہو اس کو…‘‘
’’اس کو بھی جانتی ہوں تم کو بھی جانتی ہوں جیسی دنیا کی سیریں وہ کر رہی ہے اس کا کبھی بھی دل نہیں کرے گا یاسر بھی وہ دنیا دیکھے۔‘‘
’’بھابھی …! ہم کبھی اماں اور آپ کے درمیان نہیں بولے ہمیشہ اماں کو ہی چپ کراتے رہتے ہیں بدر آپی بھی ہمیشہ آپ کی سائیڈ لیتی ہے پھر بھی آپ کیسے ان کو برا کہے جا رہی ہیں۔ ایسا نہ کریں وہ کون سا یہاں ہے ہم سن رہے ہیں ہمیں ہی تکلیف ہو رہی ہے۔‘‘

1 2 3 4اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page